ایک چمکیلی صُبح کے وقت مکہ شریف کی خواتین خانۂ خداکے
قریب ایک جگہ جمع ہوکراپنی اپنی خوشیوں میں مصروف
ہیں۔مسکراہٹیں،قہقہے،شوروغل ہیں ایک طرف، تووہیں ایک جانب ایک باوقارشخصیت
کی حامل ،مزاج میں نفاست،طبیعت میں لطافت،سیرت وخصلت کے اعتبارسے بھی وہ
نہایت ہی پاک طینت،نیک سرشت اورشریف الطبع ،شرم وحیاء ،علم وہُنر،ذہانت
ودانائی اورمتانت وسنجیدگی میں دُوردُورتک اُس کاکوئی جواب نہ تھا درمیانی
عُمرکی ایک مقدس خاتون خانۂ کعبہ شریف کے طواف سے ابھی ابھی فارغ ہوئیں
ہیں،وہ اپنی شخصیت ہی سے کسی بڑے خاندان کی چشم وچراغ نظرآتی ہیں۔ایک خاص
طرح کاٹھہراؤ،ذہانت وفطانت اورمالی آسُودگی اُنکے بارونق چہرے سے
ظاہرہے۔ایسے خوبصورت ماحول میں ایک اجنبی شخص وہاں نمودارہوا،آہستہ آہستہ
چلتاقریب آیا،اورخواتین کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے بولا:’’ائے مکہ شریف
کی عورتوں !!‘‘یہ آواز سُن کرماحول پروقتی طورپرخاموشی چھاگئی،وہاں
موجودتمام خواتین اُس اجنبی شخص کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگیں۔اُن سب
کواپنی جانب متوجہ پاکروہ بولاــ''ائے خواتین دیکھو میری بات غورسے
سُنو!''وہ اپنی بات کی اہمیت کے پیش نظرکچھ دیرکے لئے رُکا،وہ چاہتاہے کہ
سب کی پوری توجہ اس کی جانب ہوجائے۔پھروہ پُرجوش لہجے میں بولا'' تمہارے
یہاں ایک مقدس نبی(ﷺ) تشریف لانے والے ہیں،اس کا نام ’’احمد‘‘ہوگا،توتم میں
سے جس کسی کوبھی اس نبی مکرم (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) کی طرف سے شادی
کاپیغام ملے وہ بِغیرسوچے سمجھے ہاں کردے۔یہ سُنناتھاکہ خواتین اُسے غصّے
سے ڈانٹنے لگیں،بھلایہ بھی کوئی با ت ہے،جسے بتانے کے لئے تم نے
ہمارااتناوقت ضائع کیا؟کسی نے اُسے دیوانہ کہا،کسی نے اُسے مجنوکہا اورکسی
نے اُسے سودائی کہااورایک بارپھراپنی گپ شپ میں پورے انہماک کے ساتھ مصروف
ہوگئیں۔وہ باوقارخاتون بھی یہ ساری گفتگوپوری توجہ کے ساتھ سُن رہی تھیں۔وہ
اجنبی شخص جودراصل ایک یہودی عالِم تھا،اپنی مقدس کتابوں کے علم کی
بنیادپرجوانکشاف کرگیاتھا،وہ حقیقت میں اُسی قابل عزت خاتون کے لئے
تھااوریہ طیبہ ،طاہرہ خاتون کوئی اورنہیں مَکے کی بڑی تاجرہ اورامیرترین
خاتون اُم المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاتھیں۔
نام ونسب: حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کانام
’’خدیجہ‘‘کنیت’’اُمِّ ہند‘‘اورلقب’’طاہرہ‘‘ہے۔آپ کانسب نامہ یہ ہے:خدیجہ
بنت خویلدبن اسدبن عبدالعزیزبن قصی بن مرہ بن کعب بن لوی ،قصی پرپہنچ کر
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکانسب مبارک حضور اکرم،نورمجسم ،شاہ
بنی آدم،نبی محتشم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے نسب مبارک سے مل جاتاہے۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی والدۂ ماجدہ کانام فاطمہ بنت
زاہدہ تھاجوخاندان عامربن لوی سے تعلق رکھتی تھیں۔آپ کے والدکانام خویلدبن
اسدتھا جواپنے قبیلے میں دیانتداری اورخوش معاملگی کے باعث معزز اورمحترم
تھے،یہی وجہ تھی کہ قریش کے لوگ آ پ کوبے حد عزیزرکھتے تھے۔مکۃ المکرمہ میں
آپ کی شادی فاطمہ بنت زاہدہ سے ہوئی جن کے بطن سے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی
اﷲ تعالیٰ عنہاپیداہوئیں۔بی بی خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بچپن ہی
سے نہایت نیک اورشریف الطبع خاتون تھیں۔طاہرہ کے لقب سے مشہورہوئیں۔
تجارت:عام الفیل سے تقریباً بیس20؍سال بعدحرب الفجارمیں حضرت خدیجۃ الکبریٰ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے والدمحترم کابھی انتقال ہوگیا،شوہراوروالدمحترم کے
اِس دارے فانی سے دارے بقاکی طرف کوچ کرنے کے بعدآپ کے عم محترم ہی آپ کے
سرپرست اورولی تھے۔حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے اپنے والدِمکرم کاتمام
کاروباربحُسن وخوبی سنبھال لیاجوکہ مُلکِ شام سے مُلکِ یَمن تک
پھیلاہواتھا۔آپ اپنے اعزہ کومعاوضہ دے کرمالِ تجارت بھیجاکرتی تھیں۔آپ ؓ
کواپنے ترقی کرتے ہوئے کاروبارکے لئے ایک ایسے ذہین اوردیانت دار شخص کی
ضرورت تھی جو کاروبارکی مکمل دیکھ بھال کرسکے۔اسی دوران نبی اکرم،نورم مجسم
،شاہ بنی آدم ،نبی محتشم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے حُسنِ
معاملت،بلنداخلاق،پاکیزہ صفات وکردارکاچرچاحضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاتک
پہنچا۔آقائے دوجہاں صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کواہل عرب صادق وامین کے لقب
سے یادکرتے تھے۔چنانچہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے حضورپاک ﷺ کواپنے
سامانِ تجارت مُلک شام لے جانے کی پیش کش کی اورکہلا بھیجاکہ جومعاوضہ مَیں
دوسروں کودیتی ہوں آپﷺ کی امانت ودیانت داری کی بِناپرمَیں آپ ؐ کواُس
کادوگنادوں گی۔ حضورسرورکائنات صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اُسے قبول
فرمالیااورمالِ تجارت لے کرمُلک شام کوروانہ ہوگئے۔اِس سفر میں حضرت خدیجہ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے اپناایک معتمدِخاص غلام’’ میسرہ‘‘ کوبھی آپ صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ کردیاتاکہ وہ آپ ؐکی خدمت کرتارہے۔ آپ ؐ
مُلک شام کے شہر’’بُصریٰ‘‘کے بازارمیں پہنچے اوربہت جلد تجارت کامال فروخت
کرکے مکہ مکرمہ واپس ہوگئے۔واپسی میں جب آپ ؐکاقافلہ شہرمکہ میں داخل ہونے
لگاتوحضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاایک بالاخانے پربیٹھی ہوئی قافلے
کی آمدکامنظردیکھ رہی تھیں۔جب آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی نظرحضورپاک ﷺ پرپڑی
توانہیں ایسا نظرآیاکہ دوفرشتے آپ ﷺ کے سرِمبارک پردھوپ سے سایہ کئے ہوئے
ہیں۔حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے قلبِ اطہرپراس نورانی منظرکاایک خاص
اَثرہوااوروہ فرط عقیدت سے انتہائی والہانہ محبت کے ساتھ یہ حسین جلوہ
دیکھتی رہیں۔پھراپنے معتمدِخاص غلام میسرہ سے انہوں نے کئی دن کے بعداِس
(واقعہ)کاذکرکیاتومیسرہ نے بتایاکہ میں توپورے سفرمیں یہی منظردیکھتارہاہوں
اوراس کے علاوہ میں نے بہت سی عجیب وغریب باتوں کامشاہدہ کیاہے۔یہ سُن
کرحضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکو آپ ﷺ سے بے پناہ قلبی تعلق اوربے
حدعقیدت ومحبت ہوگئی اوریہاں تک ان کادل جھک گیاکہ آپ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہاکوآپ ﷺ سے نکاح کی رغبت ہوگئی ۔(مدارج النبوۃ،ج 2،ص27)
حضورﷺ سے نکاح:حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہامال ودولت کے ساتھ
انتہائی شریف اورعِفَّت مآ ب خاتون تھیں۔اہل مکہ اُن کی پاکدامنی
اورپارسائی کی وجہ سے اُن کو’’طاہرہ‘‘(پاکباز)کہاکرتے تھے۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہاکی عمرِمبارک چالیس (40)سال کی ہوچکی تھی۔پہلے آپ ؓکانکاح ’’ابوہالہ بن
زرارہ تمیمی ‘‘سے ہواپھرابوہالہ کے انتقال کے بعددوسرانکاح’’عتیق بن
عابدمخزومی ‘‘سے ہوا۔چنانچہ دوسرے شوہرکے انتقال کے بعدبڑے بڑے سرداران
قریش آپ ؓ کے ساتھ نکاح کے خواہشمندتھے مگرآپ ؓنے سب پیغاموں
کوٹھکرادیا۔حضوراقدس ﷺ کے پیغمبرانہ اخلاق وعادات کو دیکھ کراورآپ ﷺ کے
حیرت انگیز حالات وقعات کو سُن کریہاں تک اُن کادل آپ ﷺ کی طرف مائل ہوگیا
کہ خودبخوداُن کے قلب ِاطہرمیں آپ ﷺ سے نکاح کی رغبت پیداہوگئی۔اورآپ ﷺ کی
پھوپھی حضرت صفیہؓ کوبلایاجواُن کے بھائی عوّام بن خُویلدکی بیوی تھیں۔اُن
سے حضورپاکﷺ کے کچھ ذاتی حالات کے بارے میں مزیدمعلومات حاصل
کیں۔پھر’’نفیسہ ‘‘بنت اُمیَّہ کے ذریعے خودہی حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے
پاس نکاح کاپیغام بھیجا۔حضورﷺنے اِس رِشتے کواپنے چچاابوطالب اورخاندان کے
دوسرے بڑے بوڑھوں کے سامنے پیش فرمایاسارے خاندان والوں نے نہایت خوشی کے
ساتھ اِس رشتے کومنظورکرلیااورنکاح کی تاریخ مقررہوئی اورحضورپاک ﷺ حضرت
ہمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اورابوطالب وغیرہ اپنے چچاؤں اورخاندان کے دوسرے
افراداورشرفائے بنی ہاشم وسرداران مُضَرکواپنی بارات میں لے کرحضرت بی بی
خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے مکان پرتشریف لے گئے اورنکاحِ مبارک ہوا۔اِس
نکاح کے وقت ابو طالب نے نہایت ہی فصیح وبلیغ خطبہ پڑھاجب ابو طالب
اپناولولہ انگیز خطبہ ختم کرچکے توحضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے
چچازادبھائی ورقہ بن نوفل نے بھی کھڑے ہوکرایک شاندار خطبہ پڑھااورعمربن
اسدکے مشورے سے 500؍طلائی درہم مَہرطے پایا،دیگرروایات کے مطابق بارہ اوقیہ
سونایا29؍اونٹ حق مَہرقرارپایااوریوں حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہااُمُّ المؤمنین بن گئیں وقت ِنکاح سیدہ خدیجہ ؓ کی عمرمبارک 40؍سال
اورحضورﷺ کی عمرِمبارک 25سال تھی۔یہ بعثت نبوی ﷺ سے 15؍سال قبل کاواقعہ
ہے۔غرضیکہ حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے ساتھ حضورعلیہ الصلوٰۃ
والسلام کانکاحِ مبارک ہوگیااورحضورمحبوبِ خداﷺ کاخانۂ معیشت ازدواجی زندگی
کے ساتھ آبادہوگیا۔حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے تقریباً25برس تک
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں رہیں اورآپ ؓکی زندگی میں حضورﷺ نے
کوئی دوسرانکاح نہیں فرمایا۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اپنی ساری دولت حضورپاک ﷺ کے قدموں پرقربان کردی
اوراپنی تمام عُمرحضورﷺ کی غمگساری اورخدمت گذاری میں نثارکردی۔
آپ ؓکاقبولِ اسلام: حضورﷺ کئی کئی روز تک غارِحرام میں عبادت الٰہی میں
مشغول رہتے تھے۔وقت گزرتارہا۔ایک دن اﷲ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے حضرت
جبرئیل علیہ السلام وحی لے کرنازل ہوئے اورآپ ﷺ کوپڑھنے کے لئے کہا۔اﷲ کے
رسول ﷺ نے فرمایا’’میں پڑھنے والانہیں ہوں‘‘۔فرشتے نے آپ کوپکڑااورنہایت ہی
گرم جوشی کے ساتھ آپ سے زوردارمعانقہ کیا۔پھرچھوڑکرکہاکہ’’پڑھیئے‘‘آپ نے
فرمایاکہ ’’میں پڑھنے والا نہیں ہوں‘‘۔فرشتے نے دوسری اورتیسری باریہی
کہاجس کے بعدرسول کریم ﷺ پرسورۂ علق نازل ہوئی۔
اس کے بعدآپ ؐاپنے دولت خانے پرتشریف لائے ،آپؐ جلال الٰہی سے کانپ رہے
تھے۔اس سے آپؐ کے قلب مبارک پرلرزہ طاری تھا۔آپؐ نے گھروالوں سے فرمایامجھے
کملی اڑھاؤ۔مجھے کملی اُڑھاؤ۔حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے آپ ﷺ
کوکملی اُڑھائی۔آپ کی نے طبیعت شریف جب بہترہوئی توآپ نے تمام واقعہ حضرت
بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے بیان کیااورفرمایاکہ ’’مجھے اپنی جان
کاڈرہے‘‘۔یہ سُن کرحضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں نہیں
ہرگزنہیں:آپ کی جان کوکوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔خداکی قسم اﷲ تعالیٰ کبھی بھی
آپ کورُسوانہیں کرے گا۔ کیوں کہ آپ ﷺتورشتہ داروں کے ساتھ بہترین سلوک کرتے
ہیں ۔دوسروں کابارخوداُٹھاتے ہیں ۔خودکماکرمفلسوں اورمحتاجوں کوعطافرماتے
ہیں۔مسافروں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اورحق وانصاف کی خاطرسب کی مصیبتوں
اورمشکلات میں کام آتے ہیں، ہمیشہ سچ بولتے ہیں،
صلہ رحمی کرتے ہیں،بے کسوں اورکمزوروں کی معاونت کرتے ہیں،امانت داراورحق
کی حمایت کرنے والے ہیں۔
اس طرح حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حضورنبی اکرم،نورمجسم،نبی
محتشم ﷺپر
ایمان لے آئیں اورخواتین میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہونے کی سعادت آپؓنے
حاصل کی۔
اولادِکرام:حضواکرم ،نورمجسم سیدعالم ﷺ کے ایک فرزندحضرت ابراہیم رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کے سواباقی آپ ؐکی تمام اولادحضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہا کے بطن اقدس سے پیداہوئیں۔ان سب کے اسمائے مبارکہ درج ذیل ہیں:
(۱)حضرت قاسمؓ،(۲)حضرت زینبؓ،(۳)عبداﷲؓ،(۴)حضرت رقیہؓ،(۵)ام کلثومؓ،(۶)حضرت
فاطمہ رضی اﷲ تعالی عنھم اجمعین۔
آپؓ کے فضائل ومناقب: آپ ؓکے فضائل میں بہت سی حدیثیں واردہیں جن میں سے
چند روایتیں ملاحظہ ہوں۔
(۱)امام احمدوابوداؤدونسائی حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہماسے راوی
ہیں کہ اہل جنت کی عورتوں میں سب سے افضل
حضرت بی بی خدیجہ ،حضرت فاطمہ،حضرت مریم وحضرت آسیہ ہیں ۔(رضی اﷲ تعالیٰ
عنہن) (زرقانی،ج3،ص224-223)
(۲)اسی طرح روایت ہے کہ ایک مرتبہ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہانے حضورعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی زَبان مُبارک سے حضرت بی بی خدیجہ رضی
اﷲ تعالیٰ عنہاکی بہت زیادہ تعریف سُنی تواُنہیں غیرت آگئی اوراُنہوں نے یہ
کہ دیاکہ اب تواﷲ تبارک وتعالیٰ نے آپ کواُن سے بہتربیوی عطافرمادی ہے ۔یہ
سُن کرآپ ﷺ نے ارشادفرمایا کہ نہیں خداکی قسم خدیجہ سے بہترمجھے کوئی بیوی
نہیں ملی ۔جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کُفرکیااُس وقت وہ مجھ پرایمان لائیں
اورجب سب مجھے جھٹلارہے تھے اُس وقت اُنہوں نے میری تصدیق کی اورجس وقت
کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیارنہ تھااُس وقت خدیجہ ؓنے مجھے
اپناسارامال دے دیااوراُنہیں کے شِکم اَطہرسے اﷲ تبارک وتعالیٰ نے مجھے
اولاد عطافرمائی ۔(زرقانی،ج3 ،ص،224 )
(۳)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکابیان ہے کہ اَزواج ِمُطہرات میں
سب سے زیادہ مجھے حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے بارے میں غیرت
آیاکرتی تھی۔حالانکہ میں نے اُ ن کودیکھابھی نہیں تھا۔غیرت کی وجہ یہ تھی
کہ حضورﷺ بہت زیادہ اُن کاذِکرِخیرفرماتے رہتے تھے اوراَکثرایسا
ہواکرتاتھاکہ آپ جب کوئی بکری ذبح فرماتے تھے توکچھ گوشت حضرت بی بی خدیجہ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی سہیلیوں کے گھروں میں ضروربھیج دیاکرتے تھے۔اس سے
مَیں چِڑجایاکرتی تھی اورکبھی کبھی یہ کہ دیاکرتی تھی کہ’’دنیامیں بس ایک
خدیجہ ہی توآپ کی بیوی تھیں‘‘میراجملہ سُن کرآپ ﷺفرمایاکرتے تھے کہ ’’ہاں
ہاں !بے شک وہ تھیں ،وہ تھیں۔انہیں کے شِکم مُبارک سے تواﷲ تعالیٰ نے مجھے
اولادعطافرمائی ۔(بخاری شریف،ج1،ص539،ذِکرخدیجہ)
(۴)امام طبرانی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاسے ایک حدیث نقل کی
ہے کہ حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہاکودُنیامیں جنت کاانگورکھلایا۔اِس حدیث پاک کوامام سہیلی نے بھی نقل
فرمایاہے۔(زرقانی،ج3،ص226)
وفاداری اورغم گساری: حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے نہ صرف آپ ﷺ
کے نبوت کی تصدیق کی بلکہ آغازاسلام میں حضورپاک ﷺ کی بھرپورمالی معاونت
بھی کی اورآپ ﷺکی رضاکے مطابق اپنامال وزَراﷲ تعالیٰ کی راہ میں صرف
کردیا۔حضورﷺکے نکاح کے بعدحضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا تقریباًپچیس
سال حیات میں رہیں اوراِس تمام مدت میں آپ نے حضورﷺ کی رفاقت اورجانثاری
کاحق اداکرنے میں کوئی کسرباقی نہ رکھی،تبلیغ ِدین متین کے خاطرتمام
عمرمسائل کوخندہ پیشانی سے برداشت کیا۔دعوت اسلا م کے سلسلے میں جب
کفاراورمشرکین حضورپاک ﷺ کوطرح طرح کی اذیتیں پہنچاتے ،کبیدہ خاطرکرتے
اورآپ ﷺ کوجھٹلاتے توتمام عمرحضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا آپ ﷺ
کوتسلی وتشفی دیتی تھیں۔
پھرقریش نے اسلام کوتباہ کرنے کامنصوبہ بنایااورحضورپاک ﷺ کوخاندان سمیت
شعب ابی طالب میں محصورہونے پرمجبورکردیا۔اس موقع پرحضرت بی بی خدیجہ رضی
اﷲ تعالیٰ عنہا بھی حضورﷺ کے ساتھ تھیں۔آپ ؓ نے وفاداری ،غم گساری
،ہمدردی،دل سوزی
اورجانثاری کابھرپورمظاہرہ کیااورتمام مصائب وآلام کاصبرواستقلال سے مقابلہ
کیایہاں تک کہ یہ محاصرہ ختم ہوگیا۔
آپ ؓکی وفات: حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا پچیس (25)سال تک
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت گزاری سے سرفرازرہیں۔ہجرت سے تین(3)برس
قبل پینسٹھ(65)سال کی عمرِمبارک پاکر10؍رمضان المبارک مکہ معظمہ میں آپ ؓ
نے وفات پائی ۔حضوراقدس ﷺ نے مکہ مکرمہ کے مشہورقبرستان جَحون (جنت
المعلّٰی)میں خودبہ نَفسِ نَفِیس اُن کی قبرِمبارک میں اُترکراپنے مُقدس
ہاتھوں سے اُن کوسُپُردِخاک فرمایاچونکہ اُس وقت تک نمازِجنازہ کاحکم نازل
نہیں ہواتھااس لئے آپ ﷺنے اُن کی نمازِجنازہ نہیں پڑھائی۔(زرقانی،ج3،ص227
؍اکمال فی اسماء الرجال593)
اُمت کی بیٹیوں کے نام آپؓ کاپیغام:٭دینی زندگی کی جدوجہد،مشکلات اورروزمرہ
کے مسائل کامُسکراتے چہرے ،خوشگوارمزاج کے ساتھ مقابلہ کرنا۔٭مقصدزندگی کے
لئے سب کچھ نچھاورکردینا(حضرت خدیجہ ؓ نے گھر،مال،تجارت،صحت،زندگی اپنے
شوہرنامدارکے مِشن سے کچھ بچاکرنہیں رکھا)۔٭شوہرکے لئے مخلصانہ
فکرمندی،چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کاخیال،خوشگواراستِقبال اورپریشانی ،دُکھ و
تکلیف میں اپنی باتوں اورکاموں سے اُن پربوجھ بڑھانے کے بجائے اِس مضبوطی
کے ساتھ حوصلہ دینااوراُمیددِلانااورشوہرِنامدارکے مشن کواپنامشن اورشوہرکی
جذباتی ونفسیاتی ضرورتوں کوٹھنڈے دل ودماغ سے سمجھنا(حضرت خدیجہ ؓ نے
عُمرکے بڑے فرق کے باوجوداتنی خوبصورتی سے ازدواجی زندگی گزاری کہ ایک تلخی
بھی پیدانہیں ہوئی)۔٭مُشکل اورمسلسل خراب حالات میں بھی اولادکی تربیت
پرکامل نظررکھنا۔٭صبرِمسلسل سے صدمے وتکلیفیں سہنااوراُنہیں خوش دلی سے اﷲ
تبارک وتعالیٰ کی رِضاسمجھنا۔٭بدترین جاہل معاشرے میں ادب،تہذیب،تمدن
،ثقافت،وقار،شائستگی،شرم وحیاء،ذہانت ودانائی،عقل وخردمندی،متانت
وسنجیدگی،نرم مزاجی ،نرم کلامی،نیک سرشت،سیرت وخصلت ،تحمل وبردباری
اورکردارکی مکمل مضبوطی کے ساتھ اِس طرح سے رہنا کہ کوئی بھی شخص ایک بھی
غلط بات تمہاری یاتمہارے شوہرمحترم ودیگراہل وعیال کی طرف منسوب نہ
کرسکے۔٭ذہانت وفطانت ودانائی کے ساتھ نرم زبان اورکشادہ دستی سے دعوت دین
متین کاکام کرنا۔٭معاملات خواہ کسی بھی طرح کے ہوں بہت سلیقے ومعروف طریقے
سے صراط مستقیم کواختیارکرکے کئے جائیں اوراپنے گِردایسے مخلص وباوفادوست
جمع کئے جائیں جوضرورت پڑنے پرجائز اوردرست عملی مددکے لئے ہمیشہ کمربستہ
بھی ہوں(جیساکہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی شادی میں اُن کی سہیلیوں
اوربزرگوں کاکرداراس پرگواہ ہے)۔مولیٰ تعالیٰ اُمت مسلمہ کی تما م خواتین
کومذکورہ تمام باتوں سے درس عبرت حاصل کرنے اورعملی جامہ پہنانے کی توفیق
عطافرمائے آمین بجاہ سیدالمرسلین۔ |