اعتکاف اور اس کا حکم:
اعتکاف کا تعلق رمضان کے آخری عشرے سے ہے ۔ یہ قرب الہی کا اہم ذریعہ ہے ۔
اس سے متعلق متعدد فضائل وارد ہیں مگر سب کے سب ضعیف ہیں تاہم اس کی
مشروعیت وترغیب متعدد آیات و احادیث سے ثابت ہے ۔ ہاں اعتکاف عبادت ہے نیز
مسجد میں اعتکاف کی بدولت مختلف قسم کی نیکیاں کرنے کا موقع ملتا ہے اس لئے
ان سب کی فضیلت و اجر اپنی جگہ مسلم ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ
لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ( البقرة:125)
ترجمہ:اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کو تاکید کی کہ وہ میرے گھر
کو طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے
صاف ستھرا رکھیں۔
نیز اللہ کا فرمان ہے : وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي
الْمَسَاجِدِ (البقرة:187)
ترجمہ:اور اگر تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو پھر اپنی بیویوں سے مباشرت
نہ کرو۔
اور نبی ﷺ کے متعلق عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے :
أن النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم كان يعتكفُ العشرَ الأواخرَ من رمضانَ
حتى توفاهُ اللهُ، ثم اعتكفَ
أزواجُهُ من بعدِهِ .(صحيح البخاري:2026، صحيح مسلم:1172)
ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک رمضان کے آخری عشرہ
کا اعتکاف کرتے رہے اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا ۔
قرآن و حدیث کے علاوہ اجماع امت سے بھی اس کی مشروعیت ثابت ہے جیساکہ شیخ
الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے ۔(وشرح العمدة :2/711) .
دلائل کی رو سے اعتکاف واجب نہیں بلکہ سنت ہے الا یہ کہ کوئی اعتکاف کی نذر
مان لے تو اس کے حق میں واجب ہوگا۔
اعتکاف کی جگہ:
جس طرح مرد کے لئے اعتکاف مسنون ہے اسی طرح عورت کے لئے بھی اعتکاف مشروع
ہے ۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ اعتکاف کی جگہ صرف مسجد ہے ۔ جیساکہ اوپرقرآن
کی آیت سے واضح ہے اور نبی ﷺ نے اس پہ عمل کرکے دکھایا ہے ۔اگر عورت اعتکاف
کرے تو اسے بھی مسجد میں ہی اعتکاف کرنا ہوگا خواہ جامع مسجد ہو یا غیر
جامع ۔ صرف جامع مسجد میں اعتکاف والی روایت (لاَ اعْتِكَافَ إِلاَّ فِى
مَسْجِدٍ
جَامِعٍ) پر کلام ہے ۔ اگر جامع مسجد میں اعتکاف کرے تو زیادہ بہترہے تاکہ
نماز جمعہ کے لئے نکلنے کی ضرورت نہ پڑے ۔
اعتکاف کا وقت :
نبی ﷺ نے رمضان میں اکثر دس دنوں کا اعتکاف کیا ہے اس لئے افضل ہے کہ رمضان
کے آخری عشرے میں دس دنوں کا اعتکاف کرے کیونکہ آخری عشرے کی بڑی فضیلت آئی
ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اعتکاف کی دل سے نیت کرے اور بیسویں رمضان کا
سورج ڈوبتے ہی مسجد میں داخل ہوجائے ۔یہ اکیسویں کی رات ہوگی ۔ رات بھر
ذکرواذکار اور نفلی عبادات میں مصروف رہے اور فجر کی نماز پڑھ کے اعتکاف کی
جگہ پہ چلاجائے ۔ عید کا چاند ہوتے ہی اعتکاف ختم کردے ۔
اعتکاف کے مباح امور:
بحالت اعتکاف مسجد میں کھانا پینا،غسل کرنا،بقدرضرورت بات کرنا،تیل خوشبو
استعمال کرنا،بغیر شہوت بیوی سے بات چیت اور اسے چھونا، ناگزیر ضرورت کے
لئے باہرجانا مثلا مسجد میں بیت الخلاء نہ ہوتوقضائے حاجت کے لئے ، جمعہ
والی مسجد نہ ہوتو نماز جمعہ کے لئے ، کھانا کوئی لادینے والا نہ ہوتوکھانا
کے لئے وغیرہ۔
اعتکاف کے منافی امور:
بلاضرورت مسجد سے باہرجانا،جماع یا کسی اور طرح سے قصدا ً منی خارج کرنا
اعتکاف کے بطلان کا سبب ہے ۔ اسی طرح حیض ونفاس بھی عورت کا اعتکاف باطل
کردے گا۔ ان کے علاوہ بلاضرورت بات چیت، غیرضروری کام میں تضییع اوقات یا
عبادت کے منافی کام جھوٹ و غیبت سے بچے ۔ یہ بطلان کا سبب تو نہیں مگر ان
سے اعتکاف کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح مریض کی عیادت، نمازجنازہ اور
دفن کے لئے مسجد سے باہر نکلنا بھی جائز نہیں ہے ۔
اعتکاف کے مسنون اعمال :
معتکف کو چاہئے کہ دس دنوں میں کثرت سے تدبر کے ساتھ تلاوت، ذکر واذکار،
دعا واستغفار اور نفلی عبادات انجام دے ۔خشوع وخضوع اور خضورقلبی کے ساتھ
اللہ سے تعلق جوڑنے پہ محنت و مشقت کرے ۔ رمضان تقوی کا مظہر ہے ، اعتکاف
سے تقوی کو مزید تقویت بخشے ۔ان ہی دنوں میں لیلۃ القدربھی آتی ہے معتکف کے
لئے اسے پانی کا سنہرا موقع ہے ، آپ ﷺ نے اسی غرض سے تینوں عشرے میں اعتکاف
کیا۔ جب آخری عشرے میں شب قدر کی خبرملی تو اس میں اعتکاف کرنے لگے ۔
مزید چند مسائل :
٭ اعتکاف کی اس طرح نیت کرنا"نویت سنت الاعتکاف ﷲ تعالیٰ"(میں نے اﷲ تعالیٰ
کی رضا کے لئے سنت اعتکاف کی نیت کی) بدعت ہے ۔ نیت محض دل سے کرنا ہے۔
٭ اعتکاف کے لئے روزہ شرط نہیں (لااعتکاف الابصوم) والی روایت پہ کلام ہے ۔
٭ مسجد میں عورت کے لئے جب تک مخصوص ومحفوظ جگہ نہ ہو تب تک اسے اعتکاف میں
بیٹھنا جائز نہیں۔
٭ صرف تین مساجد میں اعتکاف کا اعتقاد بھی صحیح نہیں ہے ۔
٭ اعتکاف کی مدت متعین نہیں ہے اس لئے دس دن سے کم اور زیادہ کا بھی اعتکاف
کیا جاسکتا ہے ۔ حدیث میں کم ازکم ایک دن ایک رات کے اعتکاف کا ذکر آیا ہے
۔
٭ رمضان کے علاوہ دیگر ماہ میں بھی اعتکاف کیاجاسکتا ہے جیساکہ نبی ﷺ سے
ثابت ہے ۔
٭اگر کسی نے اعتکاف کی نیت کی (نذرنہیں مانی) مگر حالات کی وجہ سے اعتکاف
نہیں کرسکا تو اس پہ کچھ نہیں ہے ۔
٭اجتماعی اعتکاف اس طرح کہ ایک مسجد میں کئی معتکف ہوں جائز ہے مگر اجتماعی
صورت سے ذکر یا دعا یا عبادت کرنا صوفیاء کی طرح جائز نہیں ہے ۔
اعتکاف سے متعلق بعض ضعیف احادیث :
(1)منِ اعتَكَفَ عشرًا في رمضانَ كانَ كحجَّتينِ وعُمرتينِ۔( السلسلة
الضعيفة:518)
ترجمہ:جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج
اور دو عمرہ کے برابر ہے۔
(2)مَنِ اعتكف يومًا ابتِغاءَ وجهِ اللهِ ؛ جعل الله بينَه وبينَ النارِ
ثلاثةَ خنادقَ ، كُلُّ خَندَقٍ أبْعدُ مِمَّا بينَ الخافِقَيْنِ .(السلسلة
الضعيفة:5345)
ترجمہ: جو شخص اﷲ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اﷲ تبارک و تعالیٰ
اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے
مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔
(3) أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في المعتكف هو يعكف الذنوب ،
ويجرى له من الحسنات كعامل الحسنات كلها(ضعيف ابن ماجه:352) .
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے بارہ میں فرمایا :وہ
گناہوں سے باز رہتا ہے ، اوراس کے لیے سب نیکی کرنے والے کی طرح نیکی لکھی
جاتی ہے۔
(4) مَنِ اعتكفَ إيمانًا واحتسابًا غُفِرَ لَهُ ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
(ضعيف الجامع (5452) .
ترجمہ:جس نے ایمان اوراجروثواب کی نیت سے اعتکاف کیا اس کے پچھلے سارے گناہ
معاف کردئےجاتے ہیں۔
(5)لا اعتكافَ إلا في المساجدِ الثلاثةِ(ضعیف عندشیخ ابن باز،مجموع فتاوى
ابن باز25/218)
ترجمہ: اعتکاف تین مساجد کے علاوہ کسی میں نہیں۔
|