میل کچیل والے کپڑے دھونے اور انہیں اِستری کرنے والے شخص
کو دھوبی کہا جاتا ہے اور جہاں اِن کپڑوں کی دھلائی ہوتی ہے وہ دھوبی گھاٹ
یا ڈرائی کلیننگ پلانٹ کہلاتا ہے۔ نون لیگ کی بہت سی سیاسی چڑیاں جو پرویز
مشرف کے اقتدار سنبھالنے پر اُڑان بھر کر قاف لیگ کے گھونسلے میں جا بیٹھی
تھیں، میاں برادران کے وطن واپس آنے پر چند ایک نے دوبارہ نون لیگ کی طرف
واپسی کا رختِ سفر باندھا اور پی پی کو اقتدار ملنے پر قاف لیگ اور نون لیگ
کی بعض چڑیوں نے پیپلز پارٹی کا رُخ کیا۔اسے آپ لوٹا ازم کہیے یا کچھ بھی
نام دیجئے۔ ایک بار پھر دونوں بڑی جماعتوں سے چڑیوں نے اُڑان بھرنا شروع کر
دی ہے اور اس بار ان کی منزل ’’تحریک انصاف ‘‘ہے۔ پیپلز پارٹی کی چڑیاں
اُڑھنا شروع ہو گئی ہیں اورحکمراں جماعت کے بھی بُرے دن چل رہے ہیں،ن لیگی
چڑیاں انتظار میں بیٹھی ہی کہ کب ان کی پارٹی کا سورج غروب ہوتا ہے تاکہ وہ
اپنی نئی منزل تلاش کریں۔ دونوں بڑی پارٹیوں سے کچھ سیاسی پنچھی اُڑان بھر
چکے، کچھ پَروں کو پھیلا رہے ہیں، نہ جانے کس وقت وہ بھی اُڑ کر تحریک
انصاف کے گھونسلے میں جا بیٹھیں۔ ایسے میں مجھے گجرات کے بڑے چودھری صاحب
کی وہ بات یاد آ گئی جو انہوں نے ماضی میں اپنی جماعت کے کچھ سیاسی پنچھیوں
کے اُڑان بھرنے پر خان صاحب کی جماعت کے بارے میں کہی تھی۔ بڑے چودھری صاحب
کے بقول راولپنڈی میں سیاستدانوں کی ڈرائی کلیننگ کا ایک چھوٹا سا پلانٹ
لگا ہوا ہے، جہاں کئی سیاست دانوں کی ڈرائی کلیننگ ہو گی اور پھر وہ پاک و
صاف ہو کر تحریک انصاف کا حصہ بن جائیں گے۔ دو روز قبل پی ٹی آئی رہنما
فواد چوہدری بھی یہ اعتراف کر بیٹھے کہ تحریک انصاف کے پاس سب سے بڑی سیاسی
ڈرائی کلیننگ فیکٹری موجود ہے، عمران خان خود ڈرائی کلین ہیں اس لیے جو بھی
عمران خان کے ساتھ ملتا ہے ڈرائی کلین ہو جاتا ہے۔ جس تیزی سے دیگر جماعتوں
سے تعلق رکھنے والے موجودہ اور سابق ارکان اسمبلی، وفاقی اور صوبائی وزراء
، بلدیاتی نمائندے اور دیگر عہدیدار تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں، اس
سے ظاہر ہوتا ہے کہ درپردہ کچھ قوتیں متحرک ہو چکی ہیں اور ’’کپتان‘‘ کو
آئندہ مرکز میں حکومت دینے کے لئے گرین سگنل مل چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ
سیاسی دھوبی گھاٹ کا مرکزی دفتر کھلنے کے بعد اب مختلف علاقوں میں اس کی
برانچیں بھی کھلنا شروع ہو چکی ہیں جہاں سیاست دان ’’ڈرائی کلین‘‘ ہو کر
دھڑا دھڑ پی ٹی آئی کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس سیاسی دھوبی گھاٹ کی تو سب داد
دیتے ہیں، اس میں ایسے سیاست دانوں کی بھی دُھلائی ہو رہی ہے جن پر کرپشن
کے بے شمار چارجز ہیں۔ اس دھوبی گھاٹ میں کئی سیاست داں دُھل کر پاک ہو چکے
ہیں اور یہاں سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ سابق بیورو کریٹس کی بھی لائنیں لگی
ہوئی ہیں کہ ہم بھی یہاں سے دْھل کر پاک ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لیں۔ یہ
تو ہے تصویر کا پہلا رُخ، تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ اگر دوسری پارٹیوں
کے لوگ تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں تو بے شک ان کے ماضی کتنے ہی
داغدار کیوں نہ ہوں ’’کپتان‘‘ کی اُجلی اور شفاف شخصیت کے ہوتے ہوئے یہ لوگ
اپنی کثافتیں دور کر لیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ قائداعظمؒ کے ارد گرد اکثر
کھوٹے سکے اکٹھے ہو گئے تھے، مگر قائداعظم نے اُن سے جو کام لیا وہ سنہری
تاریخ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قائداعظمؒ کی اپنی شخصیت صاف، شفاف اور اُجلی
تھی۔ تحریک انصاف کا لیڈر عمران خان ہے جو بھٹو کے بعد تیسرے کرشماتی لیڈر
ہیں۔ بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں، یہ اسٹار ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، بے خوف
ہیں، ایماندار ہیں، چور نہیں، کرپٹ نہیں۔ اگر ’’کپتان‘‘ چور ہوتا تو کرپشن
کے خلاف ہرگز سڑکوں پر نہ نکلتا، آواز نہ اُٹھاتا۔ چور کبھی چور کا احتساب
نہیں کر تا بلکہ مُک مُکا کرتا ہے۔ کہتے ہیں بہتا پانی کہ اس میں تنکا ڈال
دیں تو بہا لے جائے پاک ہے، پاک کرنے والا ہے، نجاست پڑنے سے ناپاک نہ ہو
گا۔ آپ چاہیں تو اس پانی سے نہا سکتے ہیں، وضو کر سکتے ہیں اور اسے پینے
کیلئے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ عمران خان کی مثال بھی اُس بہتے پانی کی سی
ہے۔ جو بھی پارٹی میں آئے گا وہ عمران خان کے نظریئے پر آئے گا۔ کوئی بھی
عمران خان کے ویژن اور نظریئے کو تبدیل نہیں کر سکتا بلکہ اُس کو خود تبدیل
ہونا پڑے گا۔اس کی ایک مثال پرویز خٹک صاحب ہیں جو پہلے پی پی میں تھے، اب
خیبرپختونخواہ کے وزیراعلیٰ ہیں۔ لوگ پرویز خٹک کو چلا ہوا کارتوس کہتے تھے
کپتان نے اُن ہی سے پولیس ریفارمز، بلدیاتی اصلاحات، تعلیم اور صحت ریفارمز،
سیاحت اور گرین مہم کروا ڈالی۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں عمران خان بہتر
آپشن ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ وہ اپنے پاس کرپٹ اور مفاد
پرست سیاست دانوں کی فوج ظفر موج اکٹھی کر لیں۔ خان صاحب کو چاہئے کہ اچھے
کرداروں کو تلاش کریں اور بے ضمیر سیاہ ست دانوں سے خود کو بچائیں کیونکہ
کسی بھی انسان کے اچھا یا بُرا ہونے کا پتہ اس بات سے چل جاتا ہے کہ اُس کے
ارد گرد یعنی دوست احباب لوگ کیسے ہیں۔
|