توبہ کے آنسو

میرے سامنے حسن و جما ل کی پیکر خو بصورت ترین جوان لڑکی بیٹھی ہو ئی تھی کبھی وہ اپنی دراز ریشمی زلفوں کو جھٹکے سے سیدھا کر تی کبھی چٹکی میں سیا ہ چشمہ گھما نا شروع کر دیتی سرخ سیب کی قاشوں جیسے با ریک ہونٹوں کی سرخی نے اُس کے حسن کو آگ لگا رکھی تھی کا جل لگی آنکھوں کی مخمل اور بھی گہری ہو گئی تھی اُس کی آنکھیں نہیں تھیں دودھ کے سمندر میں ڈارک براؤن جھا گ کے جزیرے تھے اُس کے برا ؤن دیدوں کی سحر انگیز کشش دیکھنے والے کو سنگی مجسمہ بنا دیتی اُس کی آنکھیں بہت خو بصورت براؤن چمکدار اُس کے جسم اور ریشمی زلفوں کو چھونے والی ہوا خو شبوؤں سے لبریز ہو کر جہاں جہاں جا تی وہاں وہاں خوشبوؤں کے ڈیرے ڈال دیتی اُس کے جسم کو چھو نے والے جھونکے خو شبوؤں کی خیرات لے کر دور دراز تک ما حو ل کو سحر انگیز بنا دیتے اُ سکے یا قوتی ہونٹوں سے الفاظ پھولوں کی طرح جھڑتے تو سریلے جھرنوں میں رقص کر تی مو جوں کا احساس ہو تا اُس کی جا دو نگا ر زبان حرکت میں آتی سما عتیں عقیدت و احترام سے اپنی جھو لیاں پھیلا دیتیں ۔ اُس کی گجرالی آنکھوں سے ریشمی مشکیں زلفوں سے گھٹا ئیں فیض لیتیں اُس کے چہرے کی لالی کے سامنے گلاب کے پھول شرمندہ ہو تے ہونگے اُس کی غزالی آنکھوں کے اٹھنے اور جھکنے سے بجلی کے کوندے لپکتے ہوں گے اُس کی سرمہ آلود ایک نظر کسی کو ہمیشہ کے لیے نشے میں غرق کر دیتی ہو گی اُس کے لہجے کی تھکن سے چاند کے ڈوبنے کا منظر یا د آتا ہو گا اُس کے گلابی آنچل کے ہوا میں لہرانے سے پھولوں کی بر سات ہو تی ہو گی کاجل لگی آنکھوں کی چمک کے سامنے چاند بھی شرماتا ہو گا صرف ایک با ر جھانک کر چلمن ڈالنے سے گر دنیں ڈھلک جاتی ہو نگیں دو قدم چلنے سے فتنہ محشر یا د آتا ہو گا نیم باز آنکھیں شراب مستی کا نشہ پھیکا کر دیتی ہو نگیں گیسو کی شکن ہرحرکت کو بُت میں تبدیل کر تی ہو گی گداز خو شبو ئے بد ن کی بجلیاں پروانوں کو خاکستر کر تی ہو نگیں چشم ِ غزالاں مے خانے نشے سرور کی بھیک مانگتے ہو نگے اِس کے آنے سے محفلیں مے کدوں میں تبدیل ہو تی ہو نگیں پانی کے گلاس میں انگلی ڈبو کر اُسے vineمیں تبدیل کر تی ہوگی اُس کی قربت میں وقت تھم جاتا ہو گا لو گ بہانوں سے پروانوں کی طر ح اُس کا طواف کر تے ہو نگے اس کو پانے کے لیے سینکڑوں پروانے ہر وقت تیا ر رہتے ہو نگے وہ سر سے پا ؤں تک حسن کا لا زوال شاہکار تھی پرانے زمانوں میں یقنا ایسے ہی پیکر حسن کے لیے با دشاہ فوجوں کے لشکر لے کر دوسرے ملک پر چڑھ جا تے ہو نگے اس کے ابروئے چشم پر کو ئی بھی سلطنت تاج و تخت ٹھکرانے پر تیا رہو جاتاہوگا خالق کا ئنات نے خوب کھل کر اِس پر حسن کی برسات کی تھی اُس کے لا زوال شاہی حسن کو دیکھ کر خدا کے منکروں کو بھی خدا یا د آتا ہو گا وہ سر سے پا ؤں تک مکمل تھی بھر پور تھی حسن بلا شبہ خدا ئے بزرگ بر تر کا تحفہ خا ص ہے وہ بے نیاز خالق جسے چاہے دے دیتا ہے کائنا ت کا چپہ چپہ خا لق کی جا دونگری کا پتہ دیتا ہے خالق کا ئنات کے ہو نے کا احساس دلا تا ہے یہ حسن ہی تو ہے جو پھول میں مہک چہرے میں گداز اور تبسم میں ملا حت بن کر جلو ہ افروز ہو تا ہے یہی حسن کردار میں ہو تو عظمت رو ئیے میں ہو تو شرافت اور مقا صد میں ہو تو عزیمت بن جاتا ہے یہی حسن شعور کو معرفت اور فکر کو بصیرت عطا کر تا ہے گفتگو میں فصاحت اسلوب میں بلا غت خیال میں قدرت اور ابلا غ میں سلاست اور جب یہ عطیہ خدا وندی حسن لہجے میں ڈھل جا ئے تو حلا وت نظرمیں آئے تو مروت اور دل میں آئے تومحبت کہلاتا ہے اور ماتھے سے جھلکے تو سعادت اور پیکر سے چھلکے تو نزاکت کا روپ دھا رلیتا ہے اور جب حسن سیا ست میں آجائے تو اُسے عبادت قانون میں آجائے تو عدالت اور حکمرانی میں آجائے تو سراپا خدمت کہا جاتا ہے انسان بلا شبہ خد اکی تخلیق کا شاہکار ہے خوش قسمت ہو تے ہیں وہ لو گ جن کو اﷲ تعالی ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ با طنی حسن کی عظیم نعمت سے بھی نوا زتا ہے ایسے ہی لو گ اپنے آپ کو پا لیتے ہیں اورجو خو د کو پالے اُس نے راز الٰہی اور راز کائنات کوپا لیا انسانوں کے ہجوم میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہو تی ہے جو ظاہری حسن سے مالا مال ہو تے ہیں لیکن جب آپ کا واسطہ اُن کے کردار سے پڑتا ہے تو اُن کے ظاہری حسن کا بت پاش پا ش ہو جاتاہے اُن کے با طن کی گندگی اور زہر اُن کی اصل حقیقت سے آگا ہی عطا کر تی ہے میرے سامنے بیٹھی خو برو لڑکی ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ با طنی حسن کردار کی نعمت سے بھی خو ب مالا مال تھی میں نے جب اُس سے پو چھا کہ وہ میرے پاس کیوں آئی ہے تو اُس نے بتا یا کہ وہ ہر سال رمضان میں ضرورت مندو ں کے گھروں میں سحری افطاری کے لیے راشن ڈالتی ہے میری دوست نے آپ کا بتا یا کہ آپ کے پاس بہت ضرورت مند لوگ آتے ہیں تو میں آپ کے پاس آئی ہوں آپ یہ ایک لا کھ روپے رکھ لیں اُن ضرورت مندوں کے گھر راشن یا پیسے دے دیں جس کو ضرورت ہے مجھے اُس کی نیکی اور خدمت خلق کا جذبہ بہت پسند آیا میں ستا ئشی نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا کہ اﷲ تعالی نے اُسے ظا ہری حسن کے ساتھ ساتھ با طنی حسن سے بھی نواز رکھا تھا میں نے پیسے لینے کے لیے اُس کی طرف ہاتھ بڑھا یا تو رسمی سا سوال کر دیا آپ کر تی کیا ہیں تو وہ بو لی میں مُجرا کر تی تھی میں مشہور و معروف ڈانسر ہوں لیکن اب میں ڈانس سے تو بہ کر چکی ہوں میرا آگے بڑھنے والا ہا تھ ر ک گیا بلکہ میں نے اپنا ہا تھ واپس کر لیامیں نے پیسے لینے سے انکا ر کر دیا میرے انکار سے اُس کی بڑی بڑی گجرالی آنکھوں میں درد کی نمی تیرنے لگی شرمندگی اداسی کے سائے اُس کے دلنشیں چہرے پر لہرانے لگے وہ دل سوز لہجے میں بو لی سرکیا میں نیکی نہیں کر سکتی کیا میں قابل نفرت ہوں اُس کے لہجے میں شامِ غریباں کا غم شامل ہو چکا تھا سر آپ بھی مو لوی ہی نکلے سر آپ بھی عام انسان ہی نکلے میں اُس سے نظریں چرا رہا تھا میرے پاس اُس کی با توں کا جواب نہیں تھا اُس نے اندر کے درد اُس کی خوبصورت آنکھوں سے مسلسل چھلک رہا تھا شاید اُس کے پرانے زخم تا زہ ہو گئے تھے سر میں میرا تعلق ایک گا ؤں سے ہے بچپن میں ہی والدین مجھے بے رحم زمانے کی ٹھوکروں کے حوالے کر کے اگلے جہاں سدھار گئے رشتے داروں کے بچے ٹکڑوں پر پلتی جوان ہوئی تو لا ہو ر نوکری کے لیے آگئی زیا دہ پڑھی لکھی نہیں تھی اپنی خو بصورتی کی وجہ سے ہر جگہ نوکری مل جا تی چند دن بعد ہی ما لک کی گندی سوچ سامنے آجاتی جب میں اُس کے بیڈ روم میں جانے سے انکار کر تی تو نو کری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ایک جگہ سے دوسری جگہ میں رولنگ سٹون کی طرح ٹھوکریں کھا تی رہی اسی دوران ایک نیک شخص نے مجھ سے دوسری شادی کر لی لیکن سال بعد ہی ایک بیٹے کا تحفہ دے کر وہ بھی انتقال کر گیا اُس نے ایک دوکان میرے نام کی ہو ئی تھی اب میں نے اُس کے کرائے پر گزارہ کرنا شروع کر دیا لیکن یہ کرا یہ بہت تھوڑا ہو تا تھا اب میں نے بیوٹی پارلر میں جاب شروع کر دی پارلر کی مالک گدھوں کی طرح ہم سے کام لیتی پیسے بہت کم دیتی پا رلر کی مالک نے مجھ پر چوری کا جھوٹا الزام لگا کر مجھے تھانے بند کرا دیا تو پا رلر پر میری ایک گا ہک جوڈانسر تھی اُس کو میں نے فون کیا اُس نے میری مدد کی تو میں قید سے رہا ہو ئی اب میں اپنی ڈانسر دوست کے ساتھ رہنا شروع ہو گئی زمانے کے رویوں سے میں تنگ آچکی تھی ڈانسر دوست کے کہنے پر میں نے بھی ڈانس کو دھندے کے طو ر پر اپنا لیا اپنی بے پنا ہ خو بصورتی کی وجہ سے چند دنوں میں ہی ہٹ ہو گئی جتنے پیسے میں نے کئی سالوں میں نہیں کما ئے تھے اب میں ایک رات میں کما لیتی تھی میں نے لاکھوں کا نام سنا تھا اب ایک رات میں لاکھوں روپے کما لیتی میں نے چند سالوں میں ہی کا ر کو ٹھی اور بنک بیلنس بنا لیا کیونکہ میں فطری طو ر پر شریف تھی جیسے پیسے آئے تو میں نے تو بہ کرلی اور ڈانس کا دھندہ چھو ڑ دیا اب مجھے دوکانوں اور گھروں سے اتنے پیسے مل جاتے ہیں کہ میرا اور میرے بیٹے کا اچھا گزارا ہو جاتاہے لیکن جو پیسے میں آپ کو دینے آئی ہوں یہ میرے دھندے کے پیسوں سے نہیں ہیں یہ میرے مرحوم خاوند کی دی ہو ئی دوکان کے کرائے کے پیسے ہیں جو حلال ہیں میں سارا سال یہ جمع کر تی ہو ں اور پھر رمضان میں اﷲ کے لیے لوگوں کے گھروں میں راشن ڈالتی ہوں اُس کی آنکھوں سے نکلنے والے مسلسل تو بہ کے آنسوؤں سے پیسے بھیگ چکے تھے میں نے ہا تھ بڑھا یا اور تو بہ کے آنسوؤں سے دھلے پیسوں کو پکڑ لیا کیونکہ کسی بھی آنکھ سے نکلنے والے توبہ کے آنسو پر وہ شخص جنم کی آگ سے محفوظ ہوجاتاہے میرے سامنے بیٹھی لڑکی کے سامنے مجھے خدمت خلق کے بڑے بڑے چھتیں کیڑے مکوڑوں کی طرح نظر آرہی تھیں ۔

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 652042 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.