پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی میں صحافتی اداروں نے خوب
ترقی کی ہے لیکن اس سب کے باوجود کارکن صحافیوں کے حالات میں کوئی خاص
تبدیلی نہیں آئی ،یہاں صحافی آج بھی عدم تحفظ و معاشی مسائل کا شکار ہیں
اور ان کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں غالب اکثریت ایسے چینل مالکان کی ہے جن کا نہ تو
صحافت سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی صحافیوں کی فلاح وبہبود کی پرواہ۔یہ وہ
لوگ ہیں جنہوں نے خالصتاََ کاروباری نقطہ نگاہ سے چینل کھولے ہیں اور اب وہ
نہ صرف ڈھیروں ڈھیر دولت کما رہے ہیں بلکہ اِنہیں ’’ مَن مانی ‘‘کرنے کی
کھلی چھوٹ بھی ہے کیونکہ یہ ارب پتی خوب جانتے ہیں کہ آزاد اور بے باک
میڈیا سے حکومت اور ادارے ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں۔ میڈیا کی آزادی ہر قوم کی
ترقی کا جزوِ لا ینفک ہوتی ہے لیکن ’’مادر پدر‘‘ آزادی قوموں کو پاتال کی
گہرائیوں میں دفن بھی کر دیتی ہے۔
میڈیا مالکان کی اکثریت ایسے انڈسٹرلسٹ کی ہے جن کا کاروبار ی طریقہ ’’
بنیئے ‘‘والا ہے۔ ان ساہوکاروں نے اپنی فیکٹریوں میں سالہاسال سے ریت اپنا
رکھی ہے کہ جیسے ہی کوئی فیکٹری ملازم سنئیر ہوتا ہے اور اس کی تنخواہ
لاکھوں میں پہنچتی ہے اس کو فارغ کر دیا جاتا ہے کہ تمھاری سیلری میں تو
پانچ ملازم رکھے جاسکتے ہیں۔یہ استحصالی نظام آج بھی فیکٹریوں میں چل رہاہے،
سنئیر مینجر دربدرہے اور ایک فیکٹری سے بطور جنرل مینجر نکالے جانے والا
کسی دوسری فیکٹری میں ڈپٹی جنرل مینجر کی نوکری کا منتظر ہوتا ہے۔یہی
استحصالی نظام بلکہ تذلیل سسٹم میڈیا میں بھی متعارف کروادیا گیا ہے۔آغاز
میں اپنی پبلسٹی اور ریٹنگ کیلئے سنئیر نیوز اینکرز کو ڈبل اور منہ مانگی
تنخواہوں پر ہائیر کیا جاتا ہے اور کچھ ہی مہینوں بعد ان کو بغیر نوٹس چھٹی
کا پروانہ تھما دیا جاتا ہے۔ان کی جگہ پر نئے ٹرینی اینکرز کو آن ائیر
کردیا جاتا ہے۔جی ہاں وہی سکیم ایک سنئیر اینکر کی تنخواہ میں درجن بھر
ٹرینی اینکرز رکھے جاسکتے ہیں۔اس سے ملتی جلتی حالت پروڈکشن اورنیوزکنٹرول
رومز میں کی جاتی ہے۔ان تاجروں نے میڈیا ورکرز میں بے یقینی کی سی کیفیت
پیدا کردی ہے۔’’ڈھنگ ٹپاؤ پالیسی‘‘کے تحت نان پروفیشنل افراد سے سستے داموں
کام لیا جاتا ہے۔بلکہ اب تو معاملات سستے داموں کی بجائے مفت خوری کی طرف
جارہے ہیں۔کچھ ٹی وی چینلز سیاسی پارٹیوں کی حمایت اور مخالفت میں انتہائی
جانبداری کا مظاہرہ کررہے ہیں،ایسے میڈیا مالکان خود تو دونوں ہاتھوں سے
لوٹ رہے ہوتے ہیں اشتہارات کی مد میں کروڑوں اور’’چینل پالیسی‘‘کے مطابق
کام کرو’’ پلانٹڈ پروگرامات‘‘ کے لفافے بھی ڈائیریکٹ میڈیا مالکان وصول
کررہے ہوتے ہیں جبکہ بدنامی صحافیوں کا مقدر۔انٹرنشپ کی آڑ میں مہینوں بلکہ
سال بھر مفت کام کروایا جاتاہے۔ اس کلچر کو پروان چڑھانے میں ہم خود بھی
قصور وار ہیں کہ میڈیا کے پروٹوکول کے چکر میں مفت میں کام کرنے کی حامی
بھر لیتے ہیں۔میری معلومات کے مطابق میڈیا ورکر دنیا کی واحد مخلوق ہے جو
خوشی خوشی مفت کی لیبر بن جاتے ہیں۔مختلف شہروں میں مقرر کیے گئے رپورٹرز
کو تنخواہ یا اعزازیہ دینا تو درکنار الٹا سکیورٹی اور نمائندگی فیس کے نام
پر ہزاروں روپے ہتھیائے جاتے ہیں۔سرمایہ داروں( میڈیا مالکان) کو خیال کرنا
ہو گا کہ وہ انہی کارکنوں کے سروں پر اپنا بہروپیا پن چھپائے بیٹھے ہیں جب
یہی کارکن ان کے خلاف ہو گئے تو ان کے پاس کچھ باقی نہیں رہے گا۔
پریس کلب کو چاہیے کہ اس استحصالی کلچر کے خاتمے کیلئے بھرپور کردار اداکرے
کیوں کہ اس کام میں تاخیر کے نتیجے میں ہر ایرا غیرا نتھو خیرا بزنس مین
چینلز بنائے گا اور’’ہماری جوتیاں ہمارے سر‘‘کے مصداق صحافیوں کو اپنی مرضی
کے مطابق ہانکتا پھرے گا اوراپنی بلیک منی کو وائٹ بھی کرے گا جبکہ میڈیا
ورکرز تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر خودسوزئیوں پر مجبور ہوں گے۔
اس بات سے تو سب ہی واقف ہیں کہ مختلف بزنس ٹئیکونز نے اپنے کاروبار ی
معاملات کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ٹی وی چینلز بنارکھے ہیں ۔لیکن ایک حیران
کن انکشاف بھی کرتا چلوں کہ ٹی وی چینلز ملازمین کے ساتھ کی جانے والی
ناانصافیوں اور استحصالی سسٹم پر پردہ ڈالنے اور ورکرز کی آواز کو دبانے
کیلئے مختلف صحافی تنظیموں کے سرکردہ عہدیدران کو پرکشش تنخواہ اور بھاری
مراعات پر صرف اس لیے رکھا جاتاہے کہ ان کا کام چینلز کے خلاف اٹھنے والی
آوازوں کو دبانا اورمالکان کو کو شیلٹر فراہم کرنا ہے۔صحافتی تنظیموں کا
بنیادی مقصد میڈیا ورکر زکے مسائل حل کرنا اور ہر مشکل گھڑی میں ان کا ساتھ
دینا ہے نہ کہ میڈیا مالکان کیلئے دم ہلانا۔تنظیموں کے نام پر لوٹ مار کا
سلسلہ عجیب سمت کو چل نکلا ہے کچھ لوگ میڈیا مالکان کی دلالی کر رہے ہیں تو
کہیں پر ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ آنے والا پرچی کلچر متعارف کروادیا
گیا ہے۔ٹی وی چینلز انتظامیہ کے مطابق صحافی راہنماؤں کی طرف سے ٹی وی
چینلز کوخاص طور پر نئے چیلنز کو بندے رکھنے اور نکالنے کی پرچی بھیجی جاتی
ہے ۔حکم عدولی کی صورت میں خودساختہ ایشوز بنا کر اداروں کو بدنام کرنے کے
درپے ہوجاتے ہیں اور بے بنیاد احتجاج شروع کر دیا جاتا ہے جس کا اختتام ان
کو خوش کیے بغیر نہیں ہوتا۔پریس کلب ،ایمپرا،ایمرا،پی ایف یو جے اور پی یو
جے سمیت بڑی صحافتی تنظیموں کو ان جعلی تنظیموں کے خلاف مؤثر کاروائی عمل
میں لانی چاہئے۔میڈیا ہاؤسز کی دلالی کرنے والے اور پسند نہ پسند کی پرچی
چلانے والے دونوں گروہ ہرگز صحافی راہنما کہلانے کے حقدار نہیں بلکہ یہ
صحافت کے نام پر کلنک کا داغ ہیں۔صحافیوں کو بھی چاہئے کہ ایسی کالی بھیڑوں
کا ساتھ دینے کی بجائے ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ایسی خودساختہ تنظیم کی
ممبرشپ لینے کی بجائے ان جعل سازوں کی پریس کلب کی رکنیت بھی منسوخ کروائیں
تاکہ صحافت کے مقدس پیشے کو ایسے لٹیروں سے پاک کیا جائے۔(جاری ہے) |