ہم کوئی بھی کام کیوں کرتے ہیں؟

السلام و علیکم! آج اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہماری روز مرّہ زندگی میں ہم جو بھی کررہے ہوتے ہیں وہ کیوں کرتے ہیں چاہے وہ عادتاً ہو یا باقاعدہ کسی مقصد کے تحت۔ اس کیلئے ہمیں اپنے دل ودماغ کے بارے میں مطالعہ کرنا ہوگا یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ انسان ہر طرح کی کتاب اور انسانوں کو پڑھتا ہے یا پڑھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ خود کو بہت کم یا یوں کہہ لیں کہ نہ پڑھنے کے برابر پڑھتا ہے۔دل پورے جسم کا مرکز و محور ہوتا ہے ، کیونکہ کوئی بھی نیا خیال پہلے دل میں آتا ہے جس کے بعد انسانی دماغ اُس پر غور وفکر اور عمل کرنے نا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے پھر یہاں دو باتیں آجاتی ہیں کہ وہ انسان جذباتی واعصابی طور پر مضبوط ہے یا کمزور ، اگر کمزور ہوگا تو اُس کا دل دِماغ کو سوچنے سے قاصر رکھے گا اور خود ہی فیصلہ کرلے گا اور ایسے فیصلے زیادہ تر معاملات میں ناکام ثابت ہوتے ہیں لیکن اگر انسان جذباتی اور اعصابی طور پر مضبوط ہوگا تو اُس کادل دماغ کو پورا اختیار دے دے گا کہ وہ اُس فیصلہ کو عمل میں لانے سے پہلے اُس کے سارے منفی و مثبت عوامل اور نتائج سامنے رکھ لے۔ اور یہ عمل انسانی حیات میں شعور کے آتے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے جس میں اُس کا خاندان ، معاشرہ ، تعلیمی ادارے اور میڈیا اُس کے سیکھنے کے عمل میں مدد کرتا ہے۔اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ انسان جس طرح کے خاندان اور معاشرہ میں پھلتا پھولتا ہے اُس کے کردار اور شخصیت میں اُس کا رنگ نُمایاں ہوتا ہے لیکن شعوری عمر کو پہنچتے ہی اُس کی زندگی میں بدلاؤ آنے لگتا ہے اور زندگی کے بہت سارے معاملات میں تبدیلی آنے لگتی ہے چنانچہ اب اُس کی توجہ اُس تبدیلی کی ذمہ دار ہے کہ وہ کن چیزوں یا باتوں کی طرف اپنی توجہ شعوری طور پر مرکوز کرے یا پھر کوئی دوسرا انسان جس کو وہ اپنی زندگی میں بہت اہمیت دیتا ہے اُس کی توجہ جس طرح کے معاملات میں لگادے وہ اُس کی زندگی میں شامل ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور وہ اُسی طرز کی زندگی گزارتا ہے ۔ اس معاملے میں کہ انسان کی توجہ کہاں مبذول ہوتی ہے اُس کی پسند و ناپسند کا گہرا تعلق ہوتا ہے جو کہ بچپن یا لاشعوری عُمر میں ہی طے ہوجاتی ہیں ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ انسان شعوری طور پر اپنی پسند و ناپسند تبدیل کرتا ہے ۔ اس کیلئے آپ کو بہت ہی سادہ سی مثال دوں گا کہ بلاول بھٹو زرداری نے تقریباً اکثر وقت اپنی والدہ بینظیر بھٹو کے ساتھ گُزارا جس کی وجہ سے آج وہ سیاست میں موجود ہیں جیسے بینظیر بھُٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھُٹّو کے ساتھ رہا کرتی تھیں اور انکی زندگی کی ترجیح سیاست بن چُکی تھی۔ لیکن اگر بات کی جائے عمران خان صاحب کے بچوں کی، تو آپ صاف طور سے دیکھ سکتے ہیں کہ اُن کا کوئی سپوت سیاست میں نہیں ہے اور اس کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ اُن کے بچے اپنی والدہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ انسان اپنی عادتوں کو پالتا ہے اور وہ جس طرح کی عادت پال لے پُختہ عُمر میں بالکل ویسا ہی ہوجاتا ہے اس کی آسان سی مثال باکسر محمد علی مرحوم اور جیت کون ڈو کے بانی و لیجینڈ بروس لی ہیں۔اور عادت بنانے کیلئے اُسی طرح کی صُحبت اختیار کرنی ہوتی ہے کہ جیسا آپ بننا چاہتے ہیں۔بالکل اسی طرح ہم اپنی زندگی میں جو کچھ بھی پڑھتے،دیکھتے، سُنتے، سوچتے ، غور وفکر کرتے اور اُس پر عمل کرتے ہیں ویسے ہی ہوجاتے ہیں۔آج ہم نے یہ سمجھ لیا کہ ہم جو کرتے ہیں وہ کیوں کرتے ہیں، اب آئندہ آنے والے مضامین میں راقم آپ کو زندگی کے کچھ ایسے حقائق سے آگاہ کرنے کی کوشش کرے گا کہ جنہیں آپ نے شاید پہلے کبھی نہ سوچاہوگا۔ اﷲ حافظ

Abdullah Ibn-e-Ali
About the Author: Abdullah Ibn-e-Ali Read More Articles by Abdullah Ibn-e-Ali: 22 Articles with 18637 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.