خیبر پختون خوا کا ٹیکس فری بجٹ!!!

خیبر پختون خوا کے وزیر خزانہ مظفر سید نے بدھ کے روز صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں مالی سال 2017-18 کے لئے 603 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا۔ یہ تحریک انصاف اور اُن کی اتحادی جماعتوں کا پانچواں بجٹ ہے۔ جس کو حسب روایت حزب اقتدار نے ٹیکس فر ی اور عوام دوست کہا اور اپوزیشن نے ’’الفاظ کا گورکھ دھندہ ‘‘ قرار دے کر بجٹ کی کاپیاں پھاڑ ڈالیں۔ وفاقی بجٹ ہو یا صوبائی، ہر سال اس میں معمولی ردو بدل اور اعداد و شمار کی ہیرا پھیری کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ صوبہ کے اپنے محصولات انتہائی کم ہیں اور حکومت کو احساس ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہ لگا کر عوام پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے لیکن محصولات میں اضافہ بھی ناگزیر ہے۔ اس لئے ٹیکسوں کی شرح میں منصافانہ اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ بجٹ سے دو روز قبل وزیر اعلیٰ ہاؤس میں پرویز خٹک نے صوبائی وزراء اور ایم پی ایز کے ساتھ پروپوز بجٹ اجلاس سے میں کہا تھا کہ خیبر پختون خوا کا بجٹ وفاق سے بالکل مختلف ہوگاجس میں مراعات یافتہ طبقے کو نوازا اور غریبوں پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔ اَب ذرا بجٹ ٹیکس فری اور عوام دوست بجٹ ملاحظہ ہو۔ بجٹ کے مطابق سی این جی اور پٹرول پمپ جہاں جنرل سٹور موجود ہیں ان پر پراپرٹی ٹیکس 15 ہزار سے بڑھا کر 22 ہزار 5 سو روپے کر دیا گیا ہے جب کہ جن پر جنرل سٹور موجود نہیں ہیں ان پر ٹیکس کی شرح 38 سو روپے سے بڑھا کر 11 ہزار تین سو روپے کر دی گئی ہے۔ سروس سٹیشنوں پر سالانہ 20 ہزار روپے پراپرٹی ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ سی این جی اور پٹرول پمپ پر سالانہ ٹیکس آٹھ ہزارروپے سے بڑھا کر بارہ ہزار روپے اور جب کہ سروس سٹیشنوں پر نئی شرح کے مطابق پانچ ہزار روپے کے بجائے آٹھ ہزار روپے کردیا گیا ہے۔ جن اداروں کی سالانہ آمدن ایک کروڑروپے ہے ان کے لئے ٹیکس کی شرح میں 9 ہزار روپے اضافہ تجویز کیا گیا ہے، یعنی پروفیشنل ٹیکس 18 ہزار روپے سے بڑھا کر 27 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک کروڑ روپے سے پانچ کروڑ روپے آمدن پر ٹیکس 14 ہزار روپے کے اضافہ کے ساتھ 50 ہزار روپے ہو گیا ہے۔ سب سے زیادہ ٹیکس کیبل آپریٹرز پر عائد کیا گیا ہے، یعنی موجودہ ایک ہزار روپے سے بڑھا کر دس ہزار روپے کردیا گیا ہے۔ صوبہ میں پہلی مرتبہ ہول سیل ڈیلرز ، ایجنسی ہولڈرز اور میڈیکل سٹور وں پر دس ہزار روپے کا پروفیشنل ٹیکس لاگو کیا گیا ہے۔ اس بار ٹیلرنگ سے وابطہ افراد بھی ٹیکسوں کے عتاب سے بچ نہیں پائے۔ ایسے درزی جو صرف شلوار قمیض کی سلائی کرتے ہیں ان پر دو ہزار روپے ، جو شلوار قمیض کے ساتھ واسکٹ کی سلائی کرتے ہیں ان پر پانچ ہزار روپے اور جو درزی شلوار قمیض کے ساتھ پینٹ شرٹ کی سلائی کرتے ہیں ان پر دس ہزار روپے کا پروفیشنل ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔ بجٹ کے مطابق صوبہ سے باہر سپرٹ لے جانے پر دس روپے فی لیٹر ٹیکس ہو گا اس سے پہلے یہ ٹیکس موجود نہ تھا۔ ٹرانسپورٹ سے وابسطہ افراد کو لائسنس کی توسیع ، روٹ پرمٹ کی تبدیلی ، گڈز فارورڈنگ ایجنسیوں، ٹرکوں کا وزن کرنے والے سٹین ، سی این جی کٹس کے معائنہ اور نئی گاڑیوں کی تصدیق پر خاطر خواہ ٹیکس عائد کر دیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ریسٹورنٹ کی فیسوں میں سیٹوں اور مختلف اضلاع کے مطابق اضافہ کردیا گیا ہے۔ ملٹی نیشنل AC اور بغیر AC ہوٹلوں اور ریسٹورنٹ کی رجسٹریشن فیس بالترتیب پچاس ہزار روپے اور تیس ہزار روپے مقرر کردی گئی ہے۔ یاد رہے رجسٹریشن کی یہ فیس پہلے نہیں تھی۔ بجٹ میں ذاتی رہائش کے علاوہ جائیداد پر بھی ٹیکسوں کی مد میں نظر ثانی کرکے 50 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔ صحت کے شعبے کو بھی ٹیکس کے دائرہ کار میں لایا گیا ہے جس کے تحت کلینک کرنے والے نان سپیشلسٹ ڈاکٹروں پر پروفیشنل ٹیکس آٹھ ہزر ار وپے سے بڑھا کر دس ہزار روپے کردیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت نے وفاقی کی پیروی کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈہاک ریلیف 2010 ء کو ضم کرتے ہوئے دس فیصد اور پیشنوں میں بھی دس فیصد اضافہ کیا جب کہ مزدور کی اجرت 15 ہزار روپے کر نے کا اعلان کیا۔ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ ’’ اونٹ کے منہ میں زیرہ ‘‘ کے مترادف ہے۔ کیوں کہ گزشتہ برسوں میں مہنگائی میں اضافہ تین سو فیصد سے زیادہ ہوا ہے۔بجٹ میں ٹیکسوں کی شرح میں اضافے سے مہنگائی کا بے قابو جِن پہلے زیادہ بے قابو ہوجائے گااوریوں غربت ،تنگ دستی ، بے روزگاری اور بنیادی سہولیات سے محروم عوام مہنگائی کے عذاب میں مزید دب جائیں گے۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 209 Articles with 267217 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.