حضوررسول اکرم،نورمجسم ،شاہ بنی آدم،نبی
محتشم،سیدعالم،شافع اُمم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے عہدِمبارک میں
27؍غزوات وسرایاہوئے،ان میں شوال المکرم میں دوبڑے غزوات ہوئے۔(۱) 3 ھ میں
غزوۂ اُحَداور(۲) 8 ھ میں غزوۂ حُنین۔ان دونوں غزوات سے پہلے 2؍ہجری میں
غزوۂ بدرالکبریٰ اور8؍ہجری میں فتح مکہ کی صورت میں مسلمانوں کومشرکین مکہ
کے خلاف تاریخی فتوحات حاصل ہوئیں۔لیکن اس کے باوجودمسلمانوں کاسب سے زیادہ
نقصان غزوۂ اُحداورغزوۂ حُنین میں ہوا۔اورغزوۂ بدراورفتح مکہ کی صورت میں
تاریخی فتوحات کے باوجودعارضی پسپائی سے دوچارہوناپڑا۔یہ بات ذہن میں رہے
کہ وہ دَورایمانی اورروحانی قوت اوردینی جذبے کے اعتبارسے مثالی
دَورتھا،کیونکہ حضور سیدالمرسلین،خاتم النبین،رحمۃ للعالمین ﷺبنفس نفیس
اپنی حیات ظاہری کے ساتھ تشریف فرماتھے اورانبیاء کرام علیہم السلام کے
بعدتاریخ انسانیت میں سب سے پاکیزہ،وفاشعار،جانثاراورپیکراخلاص ورِضاصحابۂ
کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی مقدس جماعت آپ ﷺ کی رفاقت میں موجودتھی، ان سے
بہترانسانی نفوس کی جمعیت کاتصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔
مقام غورہے کہ مسلمانوں کوسیدالمرسلین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی موجودگی
میں اتنے بڑے نقصان سے کیوں دوچارہوناپڑا۔صحابۂ کرام کااخلاص ورضاہرقسم کے
شک وشبہے سے بالاترہے،لیکن اخلاصِ نیت کے باوجودان سے اِجتہادی خطائیں
ہوئیں،جن کاخمیازہ بھاری نقصان اورعارضی ہزیمت کی صورت میں اٹھاناپڑا۔ہمیں
اپنی تاریخ کامطالعہ کرتے ہوئے اِن واقعات سے سبق حاصل کرنے کی شدیدضرورت
ہے۔
غزوۂ اُحَدکے موقع پر حضوررسول اکرم،نورمجسم ،شاہ بنی آدم،نبی
محتشم،سیدعالم،شافع اُمم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک رائے یہ تھی کہ
شہرکے اندررہتے ہوئے مدینہ منورہ کادفاع کیاجائے ،لیکن پرجوش نوجوان صحابۂ
کرام کی ایک جماعت نے اصرارکیاکہ ہمیں باہرمیدان میں نکل کردشمن کامقابلہ
کرناچاہئے،ان کے سامنے ’’غزوۂ بدر‘‘کی تاریخی فتح کانقشہ موجود تھا،جذبۂ
جہاداورشوق ِشہادت کاکامل غلبہ تھا۔حضورنبی اکرم ﷺ نے جب اپنے آپ کومُسلح
کرلیا،یعنی زرہ پوش ہوگئے،سرِمبارک پرعمامہ شریف پہن لیااورتلواراورتیرکمان
سے لیس ہوکرسَکَبْ نامی گھوڑے پرسوارہوئے ،توان صحابۂ کرام کواپنی خطاء
کامکمل احساس ہوااورعرض کیا:یارسول اﷲ ﷺ!جیسے آپ ﷺ کی مرضی کیجئے،مگررسول
اﷲ ﷺ نے ارشادفرمایاکہ:اﷲ تعالیٰ کانبی جب جہادکے لئے تیارہوکراسلحہ
بندہوجاتاہے،توپھروہ اسلحہ نہیں اتارتا،اﷲ تبارک وتعالیٰ کاارشادپاک
ہے:’’اورکاموں میں ان سے مشورہ لواورجوکسی بات کاارادہ پکاکرلوتواﷲ
پربھروسہ کروبیشک توکل والے اﷲ کوپیارے ہیں‘‘۔(ترجمہ :کنزالایمان،سورہ ٔآل
عمران،آیت نمبر159)
اس واقعہ سے امت محمدیہﷺ کودوسبق ملتے ہیں (۱)ایک یہ کہ حاملِ وحی ﷺ کے
سامنے اپنی رائے پراصرارنہیں کرناچاہئے (۲)اوردوسرایہ کہ کوئی بھی فیصلہ
کرنے سے پہلے تمام پہلوؤں پرگہرائی سے غورکرو،لیکن جب ایک بارفیصلہ ہوجائے
توپھراﷲ تعالیٰ پرتوکل کرکے اس پرثابت قدم رہو،اس لئے کہ ارادے میں تزلزل
اوربے یقینی سے ہمتیں پست ہوجاتی ہیں۔
راستے میں سے رئیس المناقفین عبداﷲ بن اُبی اپنے تین سو) (300 ساتھیوں کے
ہمراہ واپس چلاگیا۔اس موقع پربعض صحابۂ کرام نے مشورہ دیاکہ یہودکے کئی
قبائل جوہمارے حلیف ہیں ان سے مددطلب کی جائے۔حضورنبی اکرم ﷺ نے
ارشادفرمایاکہ:ہمیں اُس کی حاجت نہیں ہے،اﷲ تبارک وتعالیٰ
ارشادفرماتاہے:’’ائے ایمان والوں !غیروں کواپنارازدارنہ بناؤ وہ تمہاری
برائی میں کمی نہیں کرتے ان کی آرزوہے،جتنی ایذاپہنچے بَیران کی باتوں سے
جھلک اُٹھااوروہ جوسینے میں چھپائے ہیں اوربڑاہے،ہم نے نشانیاں تمہیں کھول
کرسنادیں اگرتمہیں عقل ہو‘‘۔ (ترجمہ :کنزالایمان،سورہ ٔآل عمران،آیت
نمبر118)۔ اس سے معلوم ہواکہ کسی بھی مشکل مرحلے میں مشتبہ اورمشکوک لوگوں
کونہ ہمرازبناناچاہئے اورنہ ان پراعتمادوبھروسہ کرناچاہئے کیونکہ مسلمانوں
کااصل سرمایہ ہمیشہ مخلصین کی جماعت ہے۔
مشرکین تو12؍شوال المکرم 3 ھ بدھ کے دن ہی مدینہ منورہ کے قریب پہنچ
کرکوہ ِاُحد پراپناپڑاؤ ڈال چکے تھے۔اُحدایک پہاڑکانام ہے جومدینہ شریف سے
تقریباتین (3)میل دورہے۔چونکہ حق وباطل کایہ عظیم معرکہ اسی پہاڑکے دامن
میں درپیش ہوا۔اسی لئے یہ لڑائی ’’غزوۂ اُحَد‘‘کے نام سے مشہورومعروف ہے
اورقرآن کریم کی مختلف آیتوں میں اس لڑائی کے واقعات کاخدائے وحدہٗ لاشریک
نے تذکرہ فرمایاہے۔حضوراکرم ،نورمجسم ،سیدعالم،شافع اُمم صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم 14؍شوال المکرم 3 ھ بعدنمازجمعہ مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے۔رات
کوبنی نجّارمیں رہے اور15؍شوال المکرم ہفتہ کے دن نمازِفجرکے وقت اُحدمیں
پہنچے۔عاشق رسولؐ حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آذان دی اورآپ ﷺ نے
نمازِفجرپڑھاکرمیدانِ جنگ میں مورچہ بندی شروع فرمائی۔حضرت عُکاشہ اسدیؓ
کولشکرکے میمنہ(دائیں )بازوں پراورحضرت ابوسلمہ مخزومی ؓکومیسرہ(بائیں
بازو)پراورحضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓوحضرت سعدبن ابی وقاص ؓکومقدمہ(اگلے
حصے)پراورحضرت مقدادبن عمرکوساقہ(پچھلے حصے)پرافسرمقررفرمایا۔اورصف بندی کے
وقت اُحدپہاڑکوپشت پررکھااورکوہ عَینین کوجووادی قناۃ میں ہے،اپنے بائیں
طرف رکھا۔لشکرکے پیچھے پہاڑمیں ایک درّہ (تنگ راستہ)تھا،جس سے گزرکرکُفّارِ
قریش مسلمانوں کے صفوں کے پیچھے سے حملہ آورہوسکتے تھے۔اس لئے حضورپاک ﷺ نے
اُس درّہ کی حفاظت کے لئے پچاس تیراندازوں کاایک دستہ مقررفرمادیااورحضرت
عبداﷲ بن جُبیرؓ کواس دستہ کاافسربنادیااوریہ حکم دیاکہ دیکھوہم چاہے مغلوب
ہوں یاغالب مگرتم لوگ اپنی اس جگہ سے اُس وقت تک نہ ہٹناجب تک کہ میں
تمہارے پاس کسی کونہ بھیجوں۔یہاں تک کہ اگر(خدانخوستہ)تم دیکھوکہ ہمیں قتل
کیاجارہاہے،توہماری مددکے لئے بھی اپنے مورچے کونہ چھوڑنااوراگرتم دیکھوکہ
ہم فتح یاب ہوگئے ہیں اورمال غنیمت جمع کررہے ہیں،توپھربھی اپنی جگہ سے نہ
ہلنا،یعنی ہرصورت میں ہمارے عقبی جانب کی حفاظت کرنا۔مجاہددستوں کی اس خاص
جگہ پرتعیناتی اورفتح ہویاشکست ،ہرصورت میں اپنی پوزیشن کونہ چھوڑنے کی
تاکیدوہدایت ،حضوراکرم،نورمجسم،سیدعالم ﷺ کی حربی مہارت کاواضح ثبوت تھا۔(مدارج،ج2،ص115،بخاری
شریف باب مایکرہ من التنازع)
مشرکین نے بھی نہایت باقاعدگی کے ساتھ اپنی صفوں کودرست کیا۔چنانچہ انہوں
نے اپنے لشکرکے میمنہ پرخالدبن ولیدکواورمیسرہ پرعکرمہ بن ابوجہل
کوافسربنادیا۔سواروں کادستہ صفوان بن اُمیہ کی کمان میں تھا۔تیراندازوں
کاایک دستہ الگ تھا،جن کاسردارعبداﷲ بن ربیعہ تھا۔اورپورے لشکرکاعلم
بردارطلحہ بن ابوطلحہ تھاجوقبیلۂ بنوعبدالدارکاایک آدمی تھا۔(مدارج،ج2،ص115)
حضورپاک ﷺ نے جب دیکھاکہ پورے لشکرِکُفّارکاعلم برادارقبیلۂ
بنوعبدالدارکاایک شخص ہے توآپ ﷺ نے بھی اسلامی لشکرکاجھنڈاحضرت مصعب بن
عمیرؓکوعطافرمایا۔جواسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔
سب سے پہلے کفارقریش کی عورتیں دف بجابجاکرایسے اشعارگاتی ہوئی آگے بڑھیں
جن میں جنگ بدرکے مقتولین کاماتم اورانتقام ِخون کامکمل جوش
بھراہواتھا۔لشکرِکُفّارکے سپہ سالارابوسفیان کی بیوی’’ہندہ‘‘آگے آگے
اورکُفّارِقریش کے معززگھرانوں کی چودہ عورتیں اُس کے ساتھ ساتھ
تھیں۔مشرکین کے صفوں سے سب سے پہلے جنگ کے لئے میدان میں ’’ابوعامراَوسی‘‘نکل
کرپکاراکہ ائے انصار!کیاتم لوگ مجھے پہچانتے ہو؟میں ابوعامرراہب
ہوں۔انصارنے چلاکرکہاکہ ہاں ،ہاں!ائے فاسق !ہم تم کوخوب پہچانتے
ہیں۔خداتجھے ذلیل فرمائے۔پھرکُفّارقریش کی ٹولی جواُس کے ساتھ تھی ،مسلمانوں
پرتیربرسانے لگی۔اس کے جواب میں انصارنے بھی اس زورکی سنگ باری کی کہ
ابوعامراوراس کے ساتھی میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے۔(مدارج،ج2 ،ص116)
لشکرکُفّارکاعلم بردارطلحہ بن ابوطلحہ صف سے نکل کرمیدن میں آیااورکہنے
لگاکہ کیوں مسلمانوں!تم میں کوئی ایساہے کہ وہ مجھ کودوزخ میں پہنچادے
یاخودمیرے ہاتھ سے وہ جنت میں پہنچ جائے۔اُس کایہ تکبروگھمنڈسے بھراکلام
سُن کرحضرت علی شیرخداکرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم نے فرمایاکہ ’’ہاں !میں
ہوں‘‘یہ کہ کرفاتح خیبرنے ذوالفقارکے ایک ہی وارسے اُس کاسرپھاڑدیااوروہ
زمین پرتڑپنے لگا۔اورشیرخدامنہ پھیرکروہاں سے ہٹ گئے۔لوگوں نے پوچھاکہ آپؓ
نے اُس کاسرکیوں نہیں کاٹ لیا۔شیرخدانے فرمایاکہ جب وہ زمین پرگراتواس کی
شرم گاہ کھل گئی اوروہ مجھے قسم دینے لگاکہ مجھے معاف کردیجئے۔اس بے
حیاکوبے ستردیکھ کرمجھے شرم دامن گیرہوگئی۔اس لئے مَیں نے منہ پھیرلیا۔(مدارج،ج2،ص116)
طلحہ کے بعداس کابھائی عثمان بن ابوطلحہ رجزپڑھتاہواحملہ آورہوا،حضرت ہمزہ
ؓاس کے مقابلے کے لئے تلوارلے کرنکلے اوراس کے شانے پرایسابھرپوروارکیاکہ
تلوارریڑھ کی ہڈی کوکاٹتی ہوئی کمرتک پہنچ گئی اورآپ کے مبارک منہ سے یہ
نعرہ نکلاکہ :اناابن ساقی الحجیج‘‘ترجمہ:میں حاجیوں کوسیراب کرنے والے
عبدالمطلب کابیٹاہوں۔(مدارج،ج2،ص116)
اس کے بعدعام جنگ شروع ہوگئی اورمیدان جنگ میں کُشت وخون کابازارگرم
ہوگیا۔حضرت ابودجانہ ،حضرت ہمزہ اورحضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہم دشمنوں کی
صفوں میں گُھس گئے اورکُفّارکاقتل عام شروع کردیا۔
ابتداء میں مسلمانوں کوفتح نصیب ہوئی اورمجاہدین مال غنیمت جمع کرنے میں لگ
گئے ۔اس منظرکودیکھ حضرت عبداﷲ بن جُبیررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں
متعین مجاہدین کے دستے میں اختلافِ رائے ہوگیا،کچھ لوگوں نے کہاکہ فتح مل
گئی ہے،مالِ غنیمت سمیٹاجارہاہے،ہمیں بھی آگے بڑھ کرمالِ غنیمت سمیٹنے میں
شریک ہوجاناچاہئے،اب یہاں مورچہ بندرہنے کاکیافائدہ؟۔چنانچہ دس تیراندازوں
کے سواباقی سب تیرانداز مورچہ چھوڑکرمالِ غنیمت جمع کرنے کے لئے کفارکی
صفوں میں گُھس گئے،اورآپس میں ایک دوسرے سے یہ کہنے لگے کہ مال غنیمت
لوٹو،غنیمت لوٹو،تمہاری فتح ہوگئی ۔ان لوگوں کے افسرحضرت عبداﷲ بن جبیرؓ
ہرچندروکا۔اورحضوراکرم ﷺکافرمان یاددلایا۔اورفرمان مصطفوی ﷺ کی مخالفت سے
ڈرایامگران تیرانداز مسلمانوں نے ایک نہیں سُنی اوراپنی جگہ چھوڑکرمالِ
غنیمت لوٹنے میں مشغول ہوگئے۔جب خالدبن ولیدنے ،جواُس وقت لشکرِکُفّارمیں
تھے دیکھاکہ عَینین کی پہاڑی تیراندازوں سے تقریباًخالی ہوچکی ہے تووہ اور
عکرمہ بن ابوجہل گُھڑسواروں کے ہمراہ جبل اُحَدکاچکرکاٹ کرآئے۔جب اُس نے یہ
دیکھاکہ درّہ پہرے داروں سے خالی ہوگیاہے ۔فور۱ًہی اُس نے درّے کے راستے سے
فوج لاکرمسلمانوں کے پیچھے سے حملہ کردیا۔ حضرت عبداﷲ بن جُبیررضی اﷲ تعالیٰ
عنہ اوران کے چندجاں بازساتھی جواپنی پوزیشن پرقائم تھے انتہائی دلیرانہ
اندازسے مزاحمت کرتے ہوئے شہیدہوگئے۔اب کیاتھاکافروں کے فوج کے لئے راستہ
صاف ہوگیا۔خالدبن ولیدنے زبردست حملہ کردیا۔یہ دیکھ کربھاگتی ہوئی
کُفّارِقریش کی فوج بھی پلٹ پڑی۔مسلمان مالِ غنیمت لوٹنے میں مصروف تھے ۔پیچھے
پھرکردیکھاتو تلواریں برس رہی تھیں اورکُفّارآگے پیچھے دونوں طرف سے
مسلمانوں پرحملہ کررہے تھے۔اورمسلمانوں کالشکرچکی کے دوپاٹوں میں دانہ کی
طرح پسنے لگااورمسلمانوں میں ایسی بدحواسی اورابتری پھیل گئی کہ اپنے
اوربیگانے کی تمیزنہیں رہی۔خودمسلمان مسلمانوں کی تلواروں سے قتل ہوئے ۔چنانچہ
حضرت حذیفہ ؓکے والدحضرت یمانؓ خودمسلمانوں کی تلواروں سے شہیدہوئے۔حضرت
حذیفہ ؓ چلاتے ہی رہے کہ:ائے مسلمانوں!یہ میرے باپ ہیں،یہ میرے باپ
ہیں‘‘مگرکچھ عجیب بدحواسی پھیلی ہوئی تھی کہ کسی کوکسی کادھیان ہی نہیں
تھااورمسلمانوں نے حضرت یمانؓ کوشہیدکردیا۔ قرآن مقدس میں خدائے وحدہٗ
لاشریک نے اس منظرکویوں بیان فرمایا:’’اوربے شک اﷲ نے تمہیں سچ
کردکھایااپناوعدہ جبکہ تم اس کے حکم سے کافروں کوقتل کرتے تھے یہاں تک کہ
جب تم نے بزدلی کی اورحکم میں جھگڑاڈالااورنافرمانی کی بعداس کے کہ اﷲ
تمہیں دکھاچکاتمہاری خوشی کی بات تم میں کوئی دنیاچاہتاتھااورتم میں کوئی
آخرت چاہتاتھاپھرتمہارامنہ ان سے پھیردیاکہ تمہیں آزمائے اوربے شک اس نے
تمہیں معاف کردیااوراﷲ مسلمانوں پرفضل کرتاہے‘‘۔(ترجمہ :کنزالایمان،سورہ ٔآل
عمران،آیت نمبر152)
پھربڑاغضب یہ ہواکہ لشکراسلام کے علم بردارحضرت مصعب بن عمیرؓکوابن قمِیّہ
کافرنے اس زورسے تلوارچلائی کے دونوں مبارک بازوایک کے بعدایک کٹ گئے
اورپھرتیرمارکر آپؓ کوشہیدکردیا۔آپؓ شکل وصورت میں حضوراقدﷺ سے کچھ مشابہ
تھے،ان کوزمین پرگرتے ہوئے کُفّارنے شوروغُل مچادیاکہ (معاذاﷲ)’’حضورتاجدارمدینہ
ﷺ قتل ہوگئے‘‘۔اﷲ اکبر!اس آوازنے توغضب ہی ڈھادیا۔مسلمان یہ سُن کربالکل ہی
سراسیمہ اورپراگندہ دماغ ہوگئے اورمیدان جنگ چھوڑکربھاگنے لگے۔بڑے بڑے
بہادروں کے پاؤں اکھڑگئے اورمسلمانوں میں تین گروہ ہوگئے۔کچھ لوگ توبھاگ
کرمدینہ منورہ کے قریب پہنچ گئے۔کچھ لوگ سہم کرمردہ دل ہوگئے۔اورجہاں تھے
وہیں رہ گئے۔اپنی جان بچاتے رہے یاجنگ کرتے رہے۔کچھ لوگ جن کی
تعدادتقریباًبارہ (12)تھی جوحضورنبی اکرم ﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔جنگ جاری
تھی اورجانثاران اسلام جوجہاں تھے وہیں لڑائی میں مصروف تھے۔مگرسب کی
نگاہیں انتہائی بے قراری کے ساتھ جمالِ نبوت کوتلاش کرتی تھیں۔ سب پرایک بے
قراری،بے چینی اورمایوسی کی کیفیت طاری تھی،مجاہدین کے مبارک قدوم بھی وقتی
طورپرڈگمگاگئے تھے،بالآخرکافی نقصان اُٹھانے کے بعد دوبارہ سنبھلے۔اﷲ تبارک
وتعالیٰ نے اسی موقع پرکلام مقدس میں ارشادفرمایا:’’اورمحمد(صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم)توایک رسول(ہیں) ان سے پہلے اوررسول ہوچکے توکیااگروہ انتقال
فرمائیں یاشہیدہوں توتم اُلٹے پاؤں پھرجاؤگے اورجواُلٹے پاؤں پھرے گااﷲ
کاکچھ نقصان نہ کرے گا،اورعنقریب اﷲ شکروالوں کوصلہ دے گا‘‘۔(ترجمہ :کنزالایمان،سورہ
ٔآل عمران،آیت نمبر144)
خدائے رب ذوالجلال نے مسلمانوں کی تسلی واطمینان قلبی کے لئے
مزیدارشادفرمایا:’’اگرتمہیں کوئی تکلیف پہنچی تووہ لوگ (یعنی تمہارے
مخالفین)بھی ویسی ہی تکلیف پاچکے ہیں(اس سے پہلے بدرمیں) اوریہ دن ہیں جن
میں ہم نے لوگوں کے لئے باریاں رکھی ہیں اوراس لئے کہ اﷲ پہچان کرادے ایمان
والوں کی اورتم میں سے کچھ لوگوں کوشہادت کامرتبہ دے اوراﷲ دوست نہیں
رکھتاظالموں کو‘‘۔(ترجمہ :کنزالایمان،سورہ ٔآل عمران،آیت نمبر140)
اسی امیدوبیم وعین مایوسی کے عالم میں سب سے پہلے جس نے تاجداردوعالم ﷺ
کاجمال ِمبارک دیکھاوہ حضرت کعب بن مالک ؓ کی خوش نصیب آنکھیں ہیں۔انہوں نے
حضورﷺکوپہچان کرمسلمانوں کوپکاراکہ ائے مسلمانو!اِدھرآؤ رسولِ خداﷺ یہ
ہیں۔اس آواز کوسُن کرتمام جانثاروں میں جان پڑگئی۔اورہرطرف سے
دوڑدوڑکرمسلمان آنے لگے۔کُفّارنے بھی ہرطرف سے حملہ روک کررحمت دوعالم ﷺ
پرقاتلانہ حملہ کرنے کے لئے سارازورلگادیا۔لشکرِکُفّارکادل بادل ہجوم کے
ساتھ اُمنڈپڑا۔اورباربارمدنی تاجدارپریلغارکرنے لگا۔مگرذوالفقارحیدری کی
بجلی سے یہ بادل پھٹ پھٹ کررہ جاتاتھا۔
جنگ اُحَدمیں مَردوں کی طرح عورتوں نے بھی بہت ہی مجاہدانہ جذبات کے ساتھ
لڑائی میں حصہ لیا۔حضرت بی بی عائشہ صدیقہ اورحضرت بی بی اُم سُلیم رضی اﷲ
عنہماکے بارے میں حضرت اَنس رضی اﷲ عنہ کابیان ہے کہ یہ دونوں پائینچے
چڑھائے ہوئے مشک میں پانی بھرکرلاتی تھیں اورمجاہدین خصوصاًزخمیوں کوپانی
پلاتی تھیں۔اسی طرح حضرت ابوسعیدخدری کی والدہ حضرت بی بی ااُمِّ سَلیطؓ
بھی برابرپانی کی مشک بھرکرلاتی تھیں اورمجاہدین کوپانی پلاتی تھیں۔(بخاری
شریف،ج2،باب ذکراُمِّ سِلیط،ص582)
وہ مجاہدین جنہوں نے حضوراکرم ،نورمجسم،سیدعالم ﷺ کی تاکیدکے باوجودعَینین
کی پہاڑی کوچھوڑدیاتھا،اُن کی نیت صحیح تھی،آقائے دوجہاں ﷺ کی نافرمانی
کاارادہ ہرگزنہیں تھا،لیکن ان سے اجتہادی خطاہوئی اورانہوں نے یہ سمجھاکہ
کفارپرفتح پانے کے بعداب مورچے میں ڈٹے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔انہوں
نے حضوراکرم ،نورمجسم ،شاہ بنی آدم ﷺ کے فرمان کواپنی اس اجتہادی خطاء کی
بناپر نظرانداز کردیا،جس کے نتیجے میں مسلمانوں کوبے انتہانقصان اٹھاناپڑا۔
آقائے دوجہاں صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات گرامی کوخودبھی بہت تکلیف
اُٹھانی پڑی ،آپ ﷺکے سامنے کے دندان مبارک شہیدہوئے، آپ ﷺ کے رخسارِمبارک
پرزخم آئے،چہرہ انورسے کافی خون بہتاتھااورحضرت فاطمہ زہرا ؓاپنے مقدس
ہاتھوں میں پانی لے کرخون دھوتی تھیں مگرخون بدنہیں ہوتاتھابالآخرکھجورکی
چٹائی کاایک ٹکڑاجلایااوراس کی راکھ زخم پررکھ دی توخون فوراً ہی تھم
گیا۔آپ ﷺ کے عزیزترین چچاسیدالشہداء حضرت امیرہمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نہ
صرف شہیدہوئے بلکہ ان کے اعضاء مبارکہ کامُثلہ کیاگیا،یعنی اُن کی
آنکھیں،کان،ناک کاٹ دی گئیں،شکم اطہرکوچاک کیاگیا اورمبارک کلیجہ نکال
دیاگیا۔ہندہ بنت عتبہ زوجہ ابوسفیان نے آپؓ کاکلیجہ چبایااوراُسے گلے
کاہاربنایا،70؍جلیل القدرصحابۂ کرام اس جنگ میں شہیدہوئے ،جن میں
چار(4)مہاجراورچھیاسٹھ(66)انصارتھے۔تیس (30) کی تعدادمیں کُفّاربھی نہایت
ذلت کے ساتھ قتل ہوئے۔مسلمانوں کی مفلسی کایہ عالم تھاکہ ان شہدائے کرام کے
کفن کے لئے کپڑابھی نہیں تھا۔حضرت مصعب عمیرؓ کاحال یہ تھاکہ بوقت شہادت
اُن کے بدن پرصرف ایک اتنی بڑی کملی تھی کہ اُن کی مبارک لاش کوقبرمیں
لٹانے کے بعداگراُن کاسرڈھانپاجاتاتھاتوپاؤں کُھل جاتاتھااوراگرپاؤں
چھپایاجاتاتوسرکُھل جاتاتھا۔بالآخرسرچھپادیاگیااورپاؤں پراِذخرگھاس ڈال دی
گئی۔شہدائے کرام خون میں لُتھڑے ہوئے دُودُوشہیدایک ایک قبرمیں دفن کئے
گئے۔جس کوقرآن کریم زیادہ یادہوتااس کوآگے رکھتے۔
حضوراقدس ﷺ شہدائے اُحدکی قبروں کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے اورآپ ﷺ
کے بعدحضرت ابوبکروحضرت عمرفاروق اعظم رضی اﷲ عنہماکابھی یہی عمل رہا۔ایک
مرتبہ حضورنبی اکرم ﷺ شہدائے اُحدکی قبروں پرتشریف لے گئے ،توارشادفرمایاکہ
یااﷲ!تیرارسول گواہ ہے کہ اس جماعت نے تیری رضا کی طلب میں اپنی مقدس جان
دی ہے۔پھریہ بھی ارشادفرمایاکہ قیامت تک جومسلمان بھی اِن شہیدوں کی قبروں
پرزیارت کے لئے آئے گااوران کوسلام کرے گاتویہ شہدائے کرام اس کے سلام
کاجواب دیں گے۔چنانچہ حضرت فاطمہ خُزاعیہ ؓ کابیان ہے کہ میں ایک دن اُحدکے
میدان سے گزررہی تھی ۔حضرت ہمزہ ؓ کے قبرکے پاس پہنچ کرمیں نے عرض کیاکہ
’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاعَمَّ رَسُوْلِ اللّٰہﷺ‘‘(ائے رسول اﷲ ﷺ!کے
چچاآپ پرسلام ہو)تومیرے کان میں یہ آوازآئی کہ ’’وَعَلَیْکِ السَّلَامُ
وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ‘‘(مدارج النبوۃ،ج2،ص135)
چھیالیس(46)برس کے بعدشہدائے اُحدکی بعض قبریں کُھل گئیں تواُن کے کفن
سلامت اوربدن اقدس بالکل تروتازہ تھے۔تمام اہلِ مدینہ اوردوسرے لوگوں نے
دیکھاکہ شہدائے کرام اپنے زخموں پرہاتھ رکھے ہوئے ہیں اورجب زخم سے ہاتھ
اُٹھایاگیاتوتازہ خون نکل کربہنے لگا۔)مدارج النبوۃ،ج2،ص135)
مولیٰ تعالیٰ کی بارگاہ عالی جاہ میں دعاء گو ہوں کہ ہم تمام مسلمانوں
کوشہدائے کرام کی مقدس ذات سے بے پناہ عقیدت ومحبت رکھنے کی توفیق
عطافرمااوران کے صدقے میں ہم سب کاایمان پرخاتمہ نصیب فرما۔آمین بجاہ النبی
الامین۔ |