جنگ بدر - دعاؤں کی قبولیت وبشارتوں کی روشنی میں

*فضائے بدر پیداکر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطاراب بھی*(اقبال)

ماہ رمضان کا سترہواں دن اسلامی تاریخ کا نہایت ہی اہم دن ہے جس کا تقاضہ یہ ہیکہ اس دن میں پیش آئے واقعہ کو ہر سال اس دن خصوصی طور پر عالم اسلام کے ہر فرد کے ذہن میں تازہ کیا جائے، قران کریم نے جن واقعات کو اپنے اوراق میں محفوظ فرمایا ان میں سے ایک "غزوۂ بدر "بھی ہے، فرمان باری تعالی ہے، وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍوَّاَنْتُمْ اَذِلَّةٌ . بیشک اللّٰہ تعالیٰ نے میدان بدر میں تمہاری مدد کی حالانکہ تم بالکل کمزور تھے(پ،4ال عمران،123)
اسی طرح دوسری جگہ اللہ تعالی نے اپنے کلام میں اپنے مخصوص انداز سے سورۃ انفال کی آیت نمبر پانچ سے آیت نمبر انیس تک اس مبارک غزوہ کا تذکرہ فرمایا ہے.
غزوہ بدر تاریخی اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور ہر دور اور ہرزمانے کے مسلمانوں کے لئے ایک پیغام اور سبق ہے ،ایمان و مادیت کے درمیان فیصلہ کرنے والا ہے ،حق پرستوں کی غیبی تائید کا مظہر ہے ،نافرمانوں اور خدا فراموشوں کے لئے خدائی تہدید ہے کہ اسباب و وسائل کی کثرت ،مال ودولت کی وسعت خدا کی تدبیر اور منصوبے کے آگے کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور مخلص ایمان والوں کی جد وجہد ، اطاعت و وفا شعاری باطل طاقتوں کی ہو ااکھاڑ کر رکھ دیتی ہے اور یہ کہ صرف زبانی اطاعت شعاری پر دارومدار نہیں بلکہ بوقت ضرورت اس راہ میں جان ومال کا نذرانہ حال کو قال پر دلیل بنانے کےلیے پیش کر نا ضروری ہوتا ہےجو اس غزوہ سے ظاہر ہیکہ بے سروسامانی کی حالت میں پہلی جنگ ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کے جاں نثاروں کا بڑا عجیب امتحان لیا ،ان کی ایمانی قوت کو جانچا ،اور نبی ﷺ کے لئے ان کی فداکاری کے جذبوں کو پرکھا
اس مبارک غزوہ کے پس منظر وپیش منظر سے صرف نظر اس غزوۂ مبارک کی ان مبارک دعاؤں اور بشارتوں کا تذکرہ مقصود ہے، جن کے جلو میں مذہب بیزار، تہذیبِ مہذب و تہذیب افرنگ میں جوتم پیزار، عصر حاضر کے الحادی فکر کے شکار وہ افراد جو اخروی نعمتوں دنیاوی مکافات عمل کو افسانہ سمجھتے ہیں ایک پیغام حق موجود ہےکہ وہ دیکھ لیں یہ حقیقتیں اپنے دعویٰ پر مبیّن دلیل ہیں بس یقین محکم عمل پیہم کی ضرورت ہے

*پہلی دعااوراس کی قبولیت:* غزوۂ بدر میں چوں کہ جنگ کا پہلے سے ارادہ نہیں تھا جنگ میں صرف 313مسلمانوں نے کفارِ قریش کے ایک ہزار کے لشکر کا سامنا کیا جو کیل کانٹے سے لیس تھا۔ ان کے پاس سات سو اونٹ اور تین سو گھوڑے تھے۔ نیزوں ،تلواروں اور ہتھیاروں کا کوئی شمار نہ تھا۔ دوسری طرف مسلمان تعداد ہی میں بہت کم نہ تھے بلکہ اسلحہ بھی چند تلواروں اور گنتی کی چند زرہوں سے زیادہ نہ تھا۔دو گھوڑے اور بار برداری کے لیے کل ستر اونٹ تھے۔ ،اس لئے بڑی ہی بے سرو سامانی کے عالم میں سچے جا ں نثاروں اور اسلام کے فداکاروں کا یہ مٹھی بھرافراد پر مشتمل قافلہ امیر لشکر سید البشر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیاد ت میں اس شان سے نکلا کہ ایک ایک اونٹ پر دو دو تین تین آدمی باری باری سوار ہوتے تھے ،جن کے پاس نہ سامان تھا ، نہ کھانے پینے کے اسباب کی بہتات ،محبت رسول میں سرشار اور دین حق کے ان متوالوں کے لئے سب سے قیمتی چیز اپنے محبوب نبی کی رضا تھی، اس بے سروسامانی کو دیکھ کر خود نبی کریم ﷺ آبدیدہ ہو گئے اور اللہ تعا لی کے حضور دعا کی کہ: اے اللہ ! یہ لوگ برہنہ پا ہیں انہیں سواری دے ، اے اللہ ! یہ لوگ برہنہ ہیں انہیں لباس دے ، اے اللہ ! یہ لوگ بھوکے ہیں ا نہیں سیرکر۔اللہ نے بدر کے دن فتح دی ،وہ لوگ جس وقت لوٹے تو اس حالت میں لوٹے کہ ان میں سے کوئی شخص ایسا نہ تھا جو ایک یا دو سواری کے بغیر ہو انہوں نے کپڑے بھی پائے اور سیر بھی ہوئے۔( طبقا ت ابن سعد:۱/۲۵۹)

١٦رمضان المبارک کو جب بدر کے مقام پر پہنچے تو دیکھا کہ مشرکین مکہ پہلے سے وہاں پہنچ کر پانی کے چشمہ پر قابض ہیں نیز مناسب جگہوں پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں، مسلمانوں کے پاس اب نہ تو پانی تک رسائی تھی اور نہ ہی پڑاؤ کیلیے کوئی مناسب جگہ، ریتلی زمین تھی جس میں پاؤں دھنسنے کی وجہ سے چلنا بھی دشوار تھا، صحابہ میں سے بعض کو وضو کی بعض کو غسل کی ضرورت تھی اور پیاس کی شدت ،تو شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ تم گمان کرتے ہو کہ حق پرہو اور حال تمھارے دشمنوں کا تم سے بہتر ہےتو اللہ تعالی کی مدد بارش کی صورت میں نازل ہوئی جس سے پانی کا انتظام بھی ہوگیا اور ریت بھی جم گئی۔۔۔۔۔۔ جبکہ مشرکین جو سخت مٹی والی جگہ پر تھے وہاں کیچڑ بن گئی جس سے ان کی دشواری میں اضافہ ہو گیا۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں نے بارش کا پانی جمع کر کے اس سے وضو اور غسل کیلیے استعمال کیا۔اور اسی طرح عین جنگ سے قبل غنودگی کے ذریعیے ان کو تکان اور خوف سے راحت ملی اور وہ تازہ دم ہوگئے۔ قران پاک میں سورۂ انفال میں یہ مذکور ہے،
*إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ*(الانفال، 11)
ترجمہ:جب اس نے تمھیں اونگھ سے گھیر دیا تو اس کی طرف سے چین تھی اور آسمان سے تم پر پانی اتارا کہ تمھیں اس سے ستھرا کردے اور شیطان کی ناپاکی تم سے دور فرمادے اور تمھارے دلوں کی ڈھارس نبدھائے اور اس سے تمھارے قدم جمادے،
ففي مسلم عن ابن عباس قال : " حدثني عمر : قال : لما كان يوم بدر نظر رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى المشركين وتكاثرهم وإلى المسلمين فاستقلهم ، فركع ركعتين وقام أبو بكر عن يمينه ، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وهو في صلاته : اللهم لا تودع مني ، اللهم لا تخذلني ، اللهم لا تترني ، اللهم أنشدك ما وعدتني ، وعند ابن إسحاق أنه - صلى الله عليه وسلم - قال : اللهم هذه قريش قد أتت بخيلائها وفخرها تجادل وتكذب رسولك ، اللهم فنصرك الذي وعدتني في حديث عمر اللهم إن تهلك هذه العصابة من أهل الإسلام لا تعبد في الأرض
حضور سید عالمؐ نے میدانِ بدر میں اپنے جاں نثار سپاہیوں کو دیکھا اور ان کی قلیل تعداد اور بے سرو سامانی کو بھی دیکھا تو دو رکعت نماز پڑھی اور حضرت ابو بکر آپ کے داہنے کھڑے ہوئے بارگاہِ خداوندی میں یوں التجاء کی: ’’ اے اﷲ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ پورا فرما۔ اے اﷲ! اگر آج یہ مٹھی بھر نفوس ہلاک ہوگئے تو پھر قیامت تک تمام روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔‘‘ ابو اسحاق کی روایت میں، یااللہ یہ قریش کا گروہ ہے جو تکبر اور غرور کے ساتھ مقابلہ کیلیے آیا ہے،
(صحیح بخاری، مسلم، ترمذی، مسند امام احمد)

حضور سرکارِ دو عالمؐ نے جب صحابہ کرامؓ کے اس جذبہ سرفروشانہ اور جوش ِایمانی کو دیکھا جو آپ نے انصار ومھاجر صحابہ کو ترغیب دے کر ابھارا تھا تو آپ کا چہرئہ اقدس فرط ِمسرت سے چمک اٹھا۔ پھر آپؐ نے اپنا چہرئہ مبارک آسمان کی طرف اٹھا کر ان سب کے لیے بارگاہِ خداوندی میں دعاء خیر فرمائی، اور ارشاد فرمایا: ’’ خداوند قدوس نے مجھے قافلہ و لشکر میں سے کسی ایک پر فتح عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ بلاشبہ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور قسم بہ خدا! میں ابھی سے کفار کے سرداروں کی قتل گاہ دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اس جگہ فلاں کافر قتل ہوگا، اس جگہ فلاں کافر قتل ہوگا۔ آپؐ نے مقتولوں میں سے ہر ایک کا محل قتل بتا دیا۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جہاں جہاں حضور سید عالمؐ نے فرمایا تھا، وہ کافر وہاں ہی قتل ہوا۔ (مشکوٰۃ / مدارج النبوت)

(حديث مرفوع) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : أَنْشَأَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يُحَدِّثُنَا " عَنْ أَهْلِ بَدْرٍ ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُرِينَا مَصَارِعَ أَهْلِ بَدْرٍ بِالأَمْسِ مِنْ بَدْرٍ ، يَقُولُ : هَذَا مَصْرَعُ فُلانٍ غَدًا ، وَهَذَا مَصْرَعُ فُلانٍ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ ، قَالَ عُمَرُ : فَوَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ ، مَا أَخْطَأُوا الْحُدُودَ الَّتِي حَدَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ ، فَجُعِلُوا فِي بِئْرٍ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ ، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَهَى إِلَيْهِمْ ، فَقَالَ : يَا فُلانُ بْنَ فُلانٍ ، وَيَا فُلانُ بْنَ فُلانٍ ، هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ حَقًّا ؟ ، فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي اللَّهُ حَقًّا ، فَقَالَ عُمَرُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، كَيْفَ تُكَلِّمُ أَجْسَادًا لا أَرْوَاحَ فِيهَا ؟ ، فَقَالَ : مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ غَيْرَ أَنَّهُمْ لا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَرُدُّوا شَيْئًا " (طبراني ح: 1082)،مسلم ح (1779).
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ساتھ لیکر میدان کارزار کی طرف چلے تاکہ مشرکین کی قتل گاہیں ہمیں آنکھوں سے دکھلا دیں، چنانچہ آپ اپنے ہاتھ مبارک سے اشارہ فرماتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے "ان شاء اللہ یہ صبح فلاں کی قتل گاہ ہے" اور نام بنام مقام قتل بتاتے رہے، قسم ہے اس رب کی کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا...... کسی ایک نے بھی اس جگہ سے بال برابر تجاوز نہ کیا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک سے اس کے قتل کی طرف اشارہ فرمایا تھا.. پھر ان سب کو ایک کے اوپر ایک کنویں میں پھینک دیا گیا
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اس کنویں پر پہنچے جس میں مشرکین کے سرداروں کی لاشیں ڈالی گئی تھیں اور...... آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نام بنام آواز دی (یاعتبہ، یا شیبہ، یاابا جہل اسی طرح نام لیکر پکارا )فرمایا: بے شک جس چیز کا ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا تھا ہم نے اسے سچ پایا _ کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدے کو سچ پایا؟......
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ بے جان لاشوں سے کلام فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میرے کلام کو تم ان سے زیادہ نہیں سنتے (یعنی وہ بھی تمہاری طرح ہی سنتے ہیں) مگر وہ جواب نہیں دے سکتے......
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کو اپنے ایک قصیدے میں یوں بیان کیا ہے: (اشعار کا ترجمہ)
جب ہم نے ان کی جماعتوں کو کنویں میں پھینک دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آواز دی کیا تم نے میری بات کو سچ نہیں پایا اور اللہ تو دلوں کا مالک ہے..
بس انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اگر بولتے تو یہی کہتے کہ آپ نے سچ کہا اور آپ کی راۓ ٹھیک تھی..)جاری
 

Irfan raza misbahi
About the Author: Irfan raza misbahi Read More Articles by Irfan raza misbahi: 15 Articles with 34696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.