’’ عائشہ ؓ ‘‘ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کی صاحب زادی اور رسول اکرم ﷺ کے شریک حیات کا اسم مبارک ہے ۔ آپ ؓ کا
لقب صدیقہ ، خطاب ام المُومنین اور کنیت ام عبداﷲ ہے ۔ عبداﷲ حضرت امی
عائشہ رضی اﷲ عنہما کے بھانجے کا نام ہے ، عرب میں کنیت شرافت کا نشان ہے ۔
چونکہ حضرت اماں عائشہ رضی اﷲ عنہما کا کوئی بچہ نہ تھا اس وجہ سے ان کی
کنیت نہیں تھی ، ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ سے حضرت اماں عائشہ رضی ﷲ عنہما نے
دریافت کیا کہ دیگر بیبیوں نے تو اپنی سابق اولاد کے نام پر کنیت رکھی ہے
میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں ۔ آپ ؑ نے ارشاد فرمایا: کہ تم اپنے
بھانجے عبد اﷲ کے نام پر اپنی کنیت رکھوں ۔ حضرت اماں عائشہ رضی ﷲ عنہما کے
والد ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ، والدہ کا نام ام رومان ہیں ۔ حضرت اماں
عائشہ رضی اﷲ عنہاباپ کی طرف سے قریش اور ماں کی طرف سے کنانیہ ہیں ۔ حضرت
اماں عائشہ رضی اﷲ عنہما کا نسب آٹھویں پشت میں جاکر رسول اکرم ﷺ سے جاملتا
ہیں ۔
اماں عائشہ رضی اﷲ عنہما کے والدہ ام رومان ؓ کا پہلا نکاح عبداﷲ ازدی نامی
شخص سے ہواتھا ، ان کے انتقال کے بعد ام رومان ؓ کے نکاح حضرت ابوبکر صدیق
رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ہوا ، جن کے بعد ان دونوں کے ہاں دو اولادیں ہوئیں ۔
ایک بیٹا عبدالراحمن رضی اﷲ عنہ اور بیٹی اماں عائشہ رضی اﷲ عنہما۔
دیگر بچوں کی طرح اماں عائشہ رضی اﷲ عنہا بھی بچپن میں کھیل کود کی شوقین
تھی ،محلے کی لڑکیا ں ان کے پاس جمع رہتی اور آپ ؓ کے ساتھ کھیلا کرتی تھی
، لیکن اس بچپن کے کھیل و کود میں بھی رسول اکرم ﷺ کے اداب کا بہت خیال
رکھتی تھی ۔ عموماََ ہر زامنے کے بچوں کے یہیں حال ہوتا ہے جو آج کل کے
بچوں کا ہے کہ سات آٹھ سال تک انہیں کسی بات کا ہوش نہیں ہوتا اداب سے عاری
ہوتے ہے ، اس وقت کے تمام باتیں بھول جاتے ہیں ، لیکن اماں عائشہ رضی اﷲ
عنہا ایسی نہیں تھی وہ بچپن سے ہی کافی سمجھ دار، دیانتد ار اور حیادار
تھیں ۔ آپ ؓ کو اپنی بچپن کی تقرباََ کافی ساری باتیں یاد ہے ۔
اماں عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاوہ دنیا کی وہ خوش قسمت ترین عورت ہیں کہ جن
کورسول اکرم ﷺکی زوجہ محترمہ اور ’ام المومنین‘ ہونے کا شرف اور ازواج
مطہرات میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق آپ کے
فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں اور روشن ہیں۔ ام المومنین حضرت اماں عائشہ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہاسے شادی سے قبل رسول اکرم ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ ایک
فرشتہ ریشم کے کپڑے میں کوئی چیز لپیٹ کر آپ کے سامنے پیش کر رہا ہے، پوچھا
کیا ہے؟ جواب دیا کہ آپ کی بیوی ہے، آپ نے کھول کہ دیکھا تو حضرت اماں
عائشہؓ تھی ( صحیح بخاری مناقب عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا) ام المومنین حضرت
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا خود فرماتی ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے
نو باتیں ایسی عطا فرمائی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی کو عطا نہیں ہوئیں۔
(1)خواب میں حضور کے سامنے فرشتے نے میری تصویر پیش کی۔(2)جب میں سات برس
کی تھی تو آپ نے مجھ سے نکاح کیا،(3)نو برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی۔(4)میرے
سوا آپ کی خدمت میں کوئی اور کنواری بیوی نہ تھی،(5)حضور جب میرے پاس ہوتے
تب بھی وحی آتی تھی،(6)میں آپ کی محبوب ترین بیوی تھی،(7)میری شان میں
قرآنی آیات نازل ہوئیں،(8) میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپنی کھلی
آنکھوں سے دیکھا ہے،(9) آپﷺ نے میری ہی گود میں سر مبارک رکھے ہوئے وفات
پائی (مستدرک حاکم)
حضرت اماں عائشہ رضی اﷲ عنہا اور رسوال اکر م ﷺ کے شادی کس طرح انجام پائی
۔ حضرت عثمان بن مظعون رضی اﷲ عنہ کی بیوی خولہ ؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر
ہوئی اور کہا کہ آپ ایک اور شادی کرلیں ، تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کس سے ؟
خولہ ؓ نے کہا کہ جس کو آپ ﷺ پسند فرمائیں ، آپ سے نے فرمایا کہ آپ کی نظر
میں کون ہے ؟ خولہ ؓ نے کہا کہ بیوہ تو سودہ ؓ بنت زمعہ ہیں اور کنواری
ابوبکرؓ کی لڑکی عائشہ ؓ ، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بہتر ہے تم ان کی
نسبت گفتگو کرو، خولہ ؓ نے رسول اکرم ﷺ کی مرضی پاکر سیدے حضرت ابوبکر صدیق
رضی اﷲ عنہ کے گھر تشریف لائیں اور صدیق اکبر ؓ سے ان کی بیٹی کا ہاتھ
مانگا رسول اکرم ﷺ کے لئے ، چونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ پہلے ہی
اماں عائشہ ؓ کے نکاح کے لئے جبیر بن مطعم ؓکے بیٹے کے ساتھ کرنا چاہتے تھے
اور ان سے بات بھی تے کر چکے تھے اس لئے ان سے پوچھنا لازمی سمجھا اور ان
سے اجازت لے کر نبوت کے دسویں سال سات برس کی عمر میں اماں عائشہ رضی اﷲ
عنہا کانکاح رسول اکرم ﷺ سے ہوا اور نبوت کے باریں سال نو برس کی عمر میں
رخصتی ۔
رسول اکرم ﷺ کو حضرت اماں عائشہ رضی اﷲ عنہا سے بہت محبت تھی، ایک مرتبہ
حضرت عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہ نے حضور سے دریافت کیا کہ آپ دنیا میں سب سے
زیادہ کس کو محبوب رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو،
عرض کیا گیا کہ اے اﷲ کے رسول! مردوں کی نسبت سوال ہے! فرمایا کہ عائشہ کے
والد ‘‘ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ’’ کو (صحیح بخاری)
رسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعد حضرت اماں عائشہ رضی اﷲ عنہا عبادت الٰہی میں
ابہت ہی زیادہ مصروف رہا کرتی تھی، دیگر نمازوں کے ساتھ ساتھ رات کو اٹھ کر
نماز تہجد ادا فرمایا کرتی تھیں اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی تہجد کی نماز
کی پابندی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ رسول اکرم ﷺ نے عورتوں کے لئے حج ہی کو
جہاد ارشاد فرمایا ہے، اس لیے حضرت اماں عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حج کی
بہت زیادہ پابندی فرمایا کرتی تھیں اور تقریباً ہر سال حج کیلئے تشریف لے
جاتیں (بخاری شریف)۔ حج کے بعد عمرہ بھی ادا کرتیں، رمضان میں جب رسول اکرم
ﷺ اعتکاف فرماتے تو حضرت اماں عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بھی اتنے ہی دن صحن
میں خیمہ نصب کروا کر اعتکاف میں گزارتیں۔ آپ کی ذات اقدس میں قناعت کی صفت
اور ایثار کا جذبہ بھی بہت زیادہ پایا جاتا تھا۔ صرف ایک قسم کے کفارہ میں
آپ نے ایک بار چالیس غلام آزاد کئے تھے، آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد
67 ہے (بحوالہ کتاب سیرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا)۔
حضرت اماں عائشہ رضی اﷲ عنہا نے نو برس رسول اکرم ﷺ کے ساتھ رہیں، جب رسول
اکرم ﷺ کا انتقال ہو ا تو آپ رضی اﷲ عنہا کی عمر مبارک اٹھارہ برس کی
تھی۔رسول اکرم ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعداماں عائشہ رضی اﷲ عنہا اڑتالیس برس
حیات رہیں اور سترہ رمضان المبارک 57ھ میں آپؓ کا انتقال ہوا وفات کے وقت
آپؓ کی عمر 66سال تھی۔آپؓ کی وصیت کے مطابق آپ کو جنت البقیع میں رات کے
وقت دفن کیا گیا۔ صحابی رسول حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ نے آپ رضی اﷲ
عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی۔
حضرت اماں عائشہ رضی اﷲ عنہ کی زندگی موجودہ دور میں عورتوں کے لئے ایک
بہترین نمونہ ہے ۔ اﷲ پاک ہماری عورتوں کی سیرت عائشہ ؓ کا پابند بنائیں (آمین) |