وزیر اعظم آزادکشمیر کے شریف نامے اور ون زیرو ون کے کارنامے

آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کا بجٹ اجلاس طلب کر لیا گیا ہے ، فاروق حیدر حکومت اپنا پہلا بجٹ پیش کرنے جارہی ہے جس کے حجم میں گزشتہ سال کی نسبت دس ارب کا اضافہ بتایا گیا ہے ، یہاں اصل بات دستیاب فنڈز کے مطابق منصوبہ بندی اور ترجیحات کا تعین کرنا ہو تا ہے۔ اب فاروق حیدر حکومت اپنی پیش رو حکومتوں کے طرز بجٹ کے رنگ کس ڈھنگ میں لاتی ہے یہ کابینہ کی دانش صلاحیتوں پر منحصر ہے ۔ صدر ریاست اور ممبران اسمبلی کی تنخواہوں مراعات میں اضافہ کیا جارہا ہے ، حکومت پاکستان نے بھی صدر مملکت کی تنخواہ میں اضافہ کیا ہے لہذا صدر ریاست کا بھی حق ہے کہ ان کی تنخواہ مراعات بڑھائی جائیں ۔ وزیر اعظم وزراء کی تنخواہ مراعات میں پہلے ہی حوصلہ افزاء کشادگی ہو چکی ہے جس کے بعد مساوات کا تقاضہ ہے صدر ممبران اسمبلی بھی اس کے ثمرات سے محروم نہ رہ جائیں اور سب شیر و شکر ہو کر ریاست کے عوام کی بھلائی کیلئے پہلے سے زیادہ محنت کے ساتھ کام کریں ،کشادگی کے دسترخوان سجاتے ہوئے اب وزراء کے ساتھ دو آفیسرتعلقات عامہ کو ایک کرنے کا فیصلہ جذباتی ثابت ہو گیا ہے لہذانہ صرف فلیگ ہولڈرز کے ساتھ پہلے کی طرح دو پی آر او بحال کیئے جائیں بلکہ ممبران اسمبلی کو بھی ایک پی آر او ایک پی اے فراہم کرتے ہوئے اسمبلی کی نئی عمارت میں ایک کمرے کا دفتر فراہم کرنے کا اہتمام ہو جائے تو سونے پر سہاگہ ہو جائے گا۔یہ اعزازات صرف آزاد کشمیر کے ایک سو ایک اکاؤنٹ سے وابستہ روزگار والوں کو ہی حاصل ہے ملک کے چاروں صوبوں میں جہاں بھی تنخواہ مراعات کا اضافہ ہوتا ہے اس کا مطالبہ یہاں بھی ہو جاتا ہے بلکہ ساری دنیا میں عجوبہ مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ وزراء ممبران کو پنشن ملتی ہے جسکی دنیا کے کسی اور خطہ میں مثال نہیں ملتی یہ عظیم تر اعزاز بھی سکندر حیات حکومت میںآزاد کشمیر اسمبلی نے حاصل کیا ہے جو پار کے سیاست دانوں سے یہاں کے سیاست دانوں کی فکری قلبی رواداری کی درخشاں مثال ہے ۔میر کارواں تندرست توانا ہوں گے تو یکسوئی کے ساتھ عوام کی فلاح و بہبو کیلئے کام کر سکیں گے۔ ابھی اضافے پر عملدرآمد ہونا باقی ہے مگر صدر ریاست مسعود خان نے کمال جذبات کا اظہار کیا ہے ، آزاد کشمیر میں چار درجاتی اختیاراتی فارمولہ ہے یعنی چار حکومتیں ہیں جو اختیار استعمال کرتی ہیں۔ ایک آزاد حکومت ہے ایک کشمیر کونسل ہے ایک وزارت امور کشمیر ہے اور وفاقی حکومت کے پاس بھی اختیار ہیں جو وہ استعمال کرتی ہے۔قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں بلوچستان کا حصہ نو فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے اور آزاد کشمیر کا وہی دو فیصد ہے۔ صوبہ کے پی کے کو واٹر یوز چارجز ایک روپیہ دس پیسے فی یونٹ مل رہے ہیں جبکہ ہمیں فی یونٹ صرف پندرہ پیسے دیئے جاتے ہیں۔ایسی باتیں معاشی الجھنوں سے آزاد آسودہ حال ماحول میں ہی ممکن ہیں جب صدر وزیر اعظم وزراء ممبران اسمبلی سبھی بولیں گے تو پھر عوام بھی بہتری محسو س کرنے لگیں گے۔ مگر اسلام آباد کی بیورو کریسی کو یہ بات سمجھ نہیں آتی ہے وہ عقل سے پیدل ہے اور گزشتہ دوتین عشروں سے پوچھ رہی ہے آپ چار ارب یعنی چار سو کروڑ ماہانہ تنخواہ مراعات پر خرچ کرتے ہو اس کے بدلے خطے کے عوام کے کیا دے رہے ہو ،کارکردگی کیا ہے اور آمدن کے زرائع میں کس قدر اضافہ کیا ہے۔ اس طرح کے جاہلانہ سوال کیئے جاتے ہیں اور خود آکر دیکھتے نہیں ہیں کہ پاکستان کے ضلع جتنے رقبے والے آزاد خطہ میں تین ڈویژن دس اضلاع اور تحصیلوں حلقہ انتخابات کا وسیع انتظام اہتمام کیا ہے ایک پورے ملک جیسا نظام ہے جس میں خاندانی منصوبہ بندی کا سب سے کامیاب تسلسل کامیاب و قائم و دائم ہے، ایم ایل اے کا بیٹا ،بھائی ، بھتیجا ایم ایل اے بیوروکریٹ کا بیٹا ، بھائی رشتہ دار بیوروکریٹ چپڑاسی کا بیٹا ، بھائی چپڑاسی بنتا چلا آرہا ہے ۔ جب جب اختیار اور وسائل ملے جن کا اکاؤنٹ ایک سو ایک سے رزق حلال سے وابستہ ہے سب نے باہمی مساوات قائم رکھتے ہوئے ایک دوسرے کا آئندہ نسلوں تک خیال رکھنے کا کلچر عظیم سے عظیم تر بنایا ہے جسے ناقابل تسخیر بنانے کیلئے ضروری ہے سب اختیار وسائل مل جائیں تو پھر سعودی عرب والا خادم مظفرآباد ولی عہد پونچھ سپہ سالار میرپور نظام لے آئے تو پھر کوئی مسئلہ رہے گا نہ پریشانی رہے گی۔رہ گئی عوام کو یہ محنت مزدوری کرے اور زیادہ مشکلات ہیں تو پھر بیرون شہر ، بیرون ملک جا کر دن رات محنت مشقت کریں وہاں محنت کرنے والوں کی بڑی قدر و قیمت ہے ۔یہ سب کچھ طرز بالا احوال کا وہ خاکہ ہے جو گزشتہ حکومتوں تک چل چلاؤ کے تحت چلتا رہا ہے اب یہاں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے جو اپنا پہلا بجٹ پندرہ جون کو پیش کر رہی ہے جس کے ساتھ ہی انتخابات کے وعدوں اعلانات پر اول شروع ہوتے سب ہی دیکھیں گے پندرہ جون سے پہلے جو کچھ کیا گیا یا ہوتا رہا وہ گزشتہ حکومت کے منظور کردہ بجٹ کے تحت ہی ہوا ہے ن لیگی حکومت اپنے پہلے بجٹ میں ہی دس ارب کے ترقیاتی فنڈز سے اضافے کے ساتھ نئی تاریخ رقم کرنے جارہی ہے جس میں مرکزی حکومت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل اربوں کے میگا پراجیکٹس الگ ہیں پھر کیوں نہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف پر اعتماد کا اظہار کیا جائے اور ان کی تعریفوں کے پل باندھے جائیں جو اپنے محسن مربی کا احسان مند ہونے کا اظہار نہ کرے شکریہ ادا نہ کرے وہ رب کا بھی نہ شکرہ ہوتا ہے وزیر اعظم فاروق حیدر نے اپنی کابینہ پارلیمانی پارٹی کے ہمراہ اسلام آباد کشمیر ہاؤ س میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سہی معنوں میں نواز شریف کے حق میں اظہار خیال کے زریعے محسنوں سے وفا کا ثبوت دیا ہے ملک و ملت کیلئے میاں نواز شریف کے کردار و خدمات کو دلیل سے ثابت کرتے ہوئے ساری ملت کو اطلاع دی ہے نواز شریف حکومت کے خلاف سازشیں پراپیگنڈہ در حقیقت ملک کو ناکام کرنے کا منصوبہ ہے بلکہ اس سے بھی بڑی پیش گوئیاں کر دی ہیں پاکستان کو ناجانے کیا ہو جائے گا ۔ببر شیر کی طرح دھاڑنے والے وزیر اعظم فاروق حیدر اپنے قائد کی حمایت میں زمین و آسمان کی قلابے ملائیں مگر ملک پاکستان کو معاف رکھیں اس سے پہلے کچھ نہیں ہوا ہے۔ چل رہا ہے اور چلتا رہے گا چاہے کوئی اور رہے یا نہ رہے اور جس طرح قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے نواز حکومت کو بجٹ پیش کرتے ہوئے احتجاج کا سامنا ہوا ہے اس طرح یہاں بھی اپوزیشن لیڈر چوہدری یٰسین و دیگر تیاری کر کے آئیں گے یہاں دیکھنا ہے حکومت اپوزیشن کو جانے دیتی ہے یا اس کا سامنا کرتی ہے ۔
 

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 131997 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.