لازوال قسط نمبر 6

اپنے کمرے میں ٹہلتے ہوئے وجیہہ کے کانوں میں وہی الفاظ سر گوشی کر رہے تھے۔
’’ کیا کروں؟ ‘‘ اُس کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔اُس نے سرسری نگاہ گھڑی پر دوڑائی تو رات کے بارہ بچ چکے تھے۔ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کالی چادر اوڑھے آسمان جگ مگ موتی نما ستاروں سے چمک رہا تھا۔لان میں موجود گلاب کے پھول بھی اونگھ رہے تھے۔پتوں کی دلفریب سر سراہٹ بھی اب آرام کرنا چاہتی مگر ہواؤں کا رقص بار بار انہیں جھومنے پر مجبور کر دیتا ۔
’’ یہ کیا ۱۲ بھی بج گئے۔۔‘‘ اُس نے خود سے ہی سوال کیا تھا۔ ہاتھوں کی انگلیوں کو دباتے ہوئے وہ بیڈ پر آلیٹی مگر بے چینی نے اِس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ وہ کروٹیں بدلتی رہی مگر سکون میسر نہ آیا۔کروٹیں بدلتے بدلتے اس کی نظر دائیں طرف کی الماری پر پڑی۔ جس کے عین اوپر اس کا دل تھا۔ اس کے بے چین دل کا علاج تھا
’’ بے شک اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون میسر آتا ہے‘‘
(سورہ الرعد)
کسی نے اس کے کانوں میں سرگوشی کی تھی۔ وہ اس سرگوشی کا مطلب سمجھ چکی تھی۔ جلدی سے اٹھی اور واش روم میں جا کر وضو کیا اور الماری سے قرآن مجید اٹھایا اور اپنے سینے سے لگا لیا۔ قرآن مجید کے اٹھانے کی دیر تھی۔ بے چینی پشیمان ہو کر دور ہٹنے لگی۔ سکون کی چادر اس کی طرف بڑھنے لگی۔وہ اپنے بستر پر آگئی اور تلاوت کرنا شروع کردی۔ وہ تلاوت میں اس قدر محو تھی کے رات کے پہر کیسے بدلتے گئے اسے علم تک نہ ہوا۔رات کی پرفسوں فضا کھڑکی کے راستے اس کے کمرے میں تلاوت سننے داخل ہونے لگی۔
’’ اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔‘‘شیریں الفاظ جب اس کے کانوں میں گئے تو اس کی نظر دوبارہ گھڑی کی طرف گئی صبح کے تین بج چکے تھے۔ تہجد کی اذان دی جا رہی تھی۔اس نے قرآن مجید کو چومتے ہوئے بند کیا اور جائے نماز اٹھا کر خدا کے حضور سر بسجود ہوگئی۔
* * * * *
رضیہ بیگم کچن سے فراغت پانے کے بعد ٹی وی لاؤنج میں آئیں تو انمول کو صوفے پر کچھ سوچتے ہوئے پایا۔ وہ سر کو پشت سے ٹکائے آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا
’’کیا ہوا بیٹا؟ کیا سوچ رہے ہو؟اس کے پاس صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا
’’کچھ نہیں ۔۔۔ بس ویسے ہی۔۔۔‘‘ سرد آہ بھرتے ہوئے جواب دیا ۔ وہ بالوں کو ہاتھوں سے سیٹ کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے کمرے میں جانے کے لئے سیڑھیوں کی طرف بڑھا مگر سیڑھی پر فرسٹ سٹیپ رکھتے ہی اسے کسی سوچ نے واپس پلٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس نے چٹکی بجاتے ہوئے اپنا اردہ ملتوی کیا اور واپس پلٹ آیا
’’ امی آپ نے وجیہہ کے بارے میں کیا سوچا‘‘اب بھی اس نے وجیہہ کے ساتھ آپی لگانا مناسب نہیں سمجھا
’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘انہوں نے استفہامیہ انداز میں اس کے چہرے کی طرف دیکھا تھا
’’مطلب یہ کہ ساجد اور وجیہہ کے رشتے کے بارے میں۔۔۔اور ویسے بھی اتنی عمر تو ہوگئی ہے اُس کی ۔۔ ابھی شادی نہ ہوئی تو ساری عمر کہیں گھر ہی بیٹھی نہ رہ جائے۔۔‘‘ وہ اپنی رائے دے رہا تھا اور ہمیشہ کی طرح اس کی رائے کو سراہا جا رہا تھا
’’ کی تو ہے وجیہہ سے لیکن اس نے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔۔۔‘‘ وہ سوچ میں پڑ گئیں۔
’’ ایک تو یہ لڑکی بھی ناں۔۔۔ امی اُس کے جواب کا کیا انتظار کرنا اور ویسے بھی آج تک اس نے کبھی آ پ کی بات کا انکار کیا بھی ہے جو آج کرے گی؟ ۔۔۔ بس آپ جلدی سے یہ رشتہ پکا کرنے کی سوچیں۔۔‘‘اس نے شاطرانہ انداز میں اپنا داؤ چلا تھا جو شاید ٹھیک نشانے پر لگا تھا۔
’’لیکن اگر کچھ صبر کر لیتے تو ٹھیک تھا۔۔‘‘ کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا
’’ امی۔۔۔اب سوچنے کی کیا بات ہے؟ آپ جلدی سے بات کریں تاکہ جلد از جلد یہ بوجھ سر سے اترے اور ہم بھی سکون کا سانس لے سکیں۔ ‘‘ اس نے اونچی آواز میں کہا تھا تبھی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے وجیہہ نے اس کی بات سن لی۔انمول کے لفظ ’’ بوجھ‘‘ نے اسے بہت ہرٹ کیا مگر اس نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا
’’ بے فکر رہو۔۔۔ اب یہ بوجھ تمہارے سر پر زیادہ دن تک قائم نہیں رہے گا۔۔‘‘
’’ میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ یہ بوجھ جتنی جلدی ہو سکے اترے اور ایک نحوست تو ہمارے گھر سے کم ہو۔۔‘‘اس کے انداز میں انتہا کی بے رخی تھی۔ جو وہ بچپن سے دیکھتی آرہی تھی
’’تم دونوں بس کرو۔۔۔ انمول تم تو کچھ دیر کے لئے خاموش رہو۔۔۔اور تم وجیہہ کیا تم واقعی ساجد سے شادی کے لئے تیار ہو؟‘‘انہوں نے انمول کو جھڑک کر وجیہہ کی طرف توجہ کی
’’میں نے ایسا تو نہیں کہا کہ میں ساجد سے شادی کروں گی۔۔‘‘
’’کیا مطلب ہے تمہارا اگر ساجد سے نہیں کرو گی تو اور کس سے کرو گی؟‘‘ وہ وجیہہ کی بات پر خاصی حیران تھیں مگر وجیہہ نے خاموشی میں ہی افادیت جانی
’’بولو۔۔۔میں نے کچھ پوچھا ہے۔۔‘‘ انہوں نے اس کے شانوں کو جھٹکا دیا۔مگر وہ خاموش رہی۔
’’ امی کوشگفتہ میڈم کی بات بتادوں کہ انہوں نے۔۔۔‘‘وہ ابھی یہی سوچ رہی کہ انمول کاطنز ایسا چلا کہ وہ سوچوں کی دنیا سے باہر آگئی
’’یہ کیا بولے گی۔۔۔کیا معلوم جس کالج میں جاتی ہو ۔۔، وہیں پر کسی سے۔۔۔‘‘ گردن جھٹکتے ہوئے اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی تھی
’’انمول۔۔۔‘‘ اپنے کردار پر لگے اس بہتا ن کو وہ برداشت نہ کر سکی
’’ میرے کردار پر یوں بے بنیاد بہتان باندھنا بند کرو۔۔‘‘ اس نے سخت لہجے میں کہا تھا
’’کیوں سچ کڑوا لگا کیا؟‘‘ اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی
’’اب بس کرو تم دونوں۔۔۔ انمول تم اپنے کمرے میں جاؤ۔۔۔‘‘مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا ۔ اسی جگہ براجمان وجیہہ کو گھورتا رہا
’’ تمہیں سنا نہیں۔۔۔ جاؤ یہاں سے۔۔‘‘ اس بار قدرے سخت لہجے میں رضیہ بیگم نے کہا تھا
’’مجھ پر چلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔ اگر چلانا ہی ہے تو اپنی اس بیٹی پر چلائیے۔۔۔ گھر میں تو شریف ذادی ہونے کا ناٹک کرتی ہے اور باہر۔۔۔۔‘‘جبڑے بھینچتے ہوئے کہا تھا مگر اس بار وہ برداشت نہ کر پائی اور مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا تو اس نے وجیہہ کا ہاتھ پکڑ لیا
’’اپنے ہاتھوں کو قابومیں رکھنا سیکھو۔۔۔ ورنہ ہاتھ اٹھانا مجھے بھی آتا ہے۔۔‘‘عقابی نظروں سے گھورتے ہوئے انمول نے وجیہہ کا ہاتھ جھٹک دیا۔ وہ بس دیکھتی رہ گئی۔ وہ پاؤں پٹختا ہوا سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا
’’ امی ۔۔ دیکھا آپ نے ۔۔ کیسے بد تمیزی کر رہا تھا۔۔‘‘مگر اس بار بھی اس کی شنوائی نہ ہوئی
’’کیا غلط کہا اُس نے ۔۔۔ صحیح تو کہا ہے ۔۔۔ شادی کرو اور جان سے اترو۔۔۔‘‘ رضیہ بیگم نے انمول کا سارا غصہ وجیہہ پر اتارا تھا۔
’’ لیکن امی۔۔۔‘‘ حسرت بھری نگاہ رضیہ بیگم کے چہرے پر ڈالی
’’اب چپ۔۔۔ ایک لفظ بھی کہا ناں۔۔ مجھ سے برا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بھی چل دیں۔ وہ دونوں کی باتوں کو سن کر رہ گئی۔ کوئی اس کا حال دل پوچھنے والا نہیں تھا۔
’’کاش۔۔ دادی۔۔ آپ اس وقت زندہ ہوتیں۔۔۔‘‘ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر رہ گئے۔
* * * *
لا الہ الا اللہ
اذان مکمل ہوئی تو شگفتہ بی بی نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی او ر پھر اسی جائے نماز پر نماز مغرب ادا کی۔گھر میں وقت وہ صرف اکیلی تھیں۔ ضرغام لازوال کے سیٹ سے ابھی تک نہیں لوٹا تھا۔جب سے لازوال کا سفر اس نے شروع کیا اس کا گھر میں رہنا اور بھی کم ہوگیا۔پہلے تو صرف دوستوں کے ساتھ وقت گزارتا تھا مگر اب کبھی کسی پارٹی میں تو کبھی کسی سیمنار میں پایا جاتا۔شگفتہ بی بی سمجھا سمجھا کر تھک گئیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ انہوں نے اب سلام پھیرا تو دروازے کے کھلنے کی چڑچڑاہٹ پیدا ہوئی۔ انہوں نے دوسرا سلا پھیرا تو کسی کے قدموں کے ساتھ سیٹی کی بھی آواز خاموش کمرے میں گونجنے لگی۔ یہ ضرغام ہی تھا۔گرے جینز پر لائیٹ پنک شرٹ پہنے ہوئے تھا۔کمرے میں آتے ہی وہ دھڑام سے صوفے پرجا بیٹھا۔اُس کی نظریں سامنے لگے آئینے پر تھیں جسے دیکھ کر وہ اب اپنا ہئیر سٹائل ٹھیک کر رہا تھا۔ شگفتہ بی بی نے ایک نظر ضرغام کے حلیہ پر دوڑائی پھر اپنی دعا میں مشغول ہو گئیں۔۔
’’ اتنی دعائیں مانگنے کا کیا فائدہ۔۔۔؟ سب کچھ تو ہے آپ کے پاس۔۔‘‘وہ نادان تھا۔ یہ سمجھ نہ سکا کہ اُس دن جو وہ عنایہ کے شیطانی ارادوں سے صحیح سلامت نکلا تھا ۔ وہ انہی دعاؤں کا ہی اثر تھا۔ لیکن نادان لوگ سمجھ نہیں پاتے۔وہ بھی انہی نادانوں میں سے ایک تھا۔ جنہیں وقت نے اپنے لپیٹے میں لیا ہوا تھا۔
’’ کتنی بار کہا ہے کہ گھر میں داخل ہوتے ہی پہلے سلا م کیا کرو۔۔گھر میں امن رہتا ہے مگر نہیں تمہارے سر پر تو جونک تک نہیں رینگتی۔۔‘‘دعا مکمل کرنے کے بعد جائے نماز اٹھاتے ہوئے وہ گویا ہوئی تھیں
’’آپ تو اپنی دعا میں مگن تھیں تو سلام کسے کرتا ؟؟ان دیواروں کو۔۔‘‘ روکھنے پن سے اس نے طنز کیا تھا
’’دیواروں کو نہ سہی کم سے کم فرشتوں کو ہی کردیتے ۔ اور ویسے بھی آنے والے کا فرض بنتا ہے کہ آتے ہی سب کو سلام کرے مگر تم۔۔۔‘‘جائے نماز کو انہوں نے صوفے کی پچھلی سائیڈ پر رکھے ہوئے ایک چھوٹے سے میز پر رکھا جہاں اور بھی جائے نماز رکھے ہوئے تھے
’’اچھا بھی۔۔۔‘‘ مصنوعی ندامت میں اس نے مداخلت کی تھی
’’آئندہ کروں گا اب خوش۔۔۔‘‘چہرے پر ایک مسکراہٹ لانے کی کوشش کی
’’یہ بتائیے کھانے میں کیا بنایا ہے؟ بڑی بھوک لگی ہوئی ہے۔‘‘ گہری سانس لیتے ہوئے وہ جھکا اور شوز اتار کر جرابیں اتارنے لگا
’’تمہاری پسند کی بریانی بنائی ہے اور ساتھ چپل کباب بھی۔۔۔ تم اٹھو ہاتھ منہ دھو لو ۔۔۔ میں اتنے سب چیزیں ڈائنگ ٹیبل پر رکھ دیتی ہوں۔‘‘ انہوں اس کی جرابیں اٹھائیں اور وارڈ روب میں بغیر دھلے کپڑوں کے ساتھ رکھ دیں
’’ جو حکم۔۔۔‘‘وہ بڑا ہی فرماں بردار بیٹوں کی طرح بی ہیو کر رہا تھا۔ اٹھتے ہی واش روم میں گیا اور ہاتھ منہ دھونے کے بعد ڈائنگ ٹیبل پر آبیٹھا۔ شگفتہ بی بی نے پہلے سے ہی کھانے کی تمام چیزیں ٹیبل پر سجا دی تھی۔ بڑی سی پلیٹ میں بریانی اس کی چئیر کے سامنے رکھی تھی۔ ساتھ ہی سالڈ اور رائیتہ بھی پیش پیش تھا۔کوک کی بوتل بھی ٹیبل کی رونق میں اضافہ کر رہی تھی۔ بس چپل کباب کی کمی تھی جو شگفتہ بی بی پلیٹ میں رکھے کچن سے لا رہی تھیں۔
’’ واؤ۔۔۔۔ اتنا اچھا کھانا۔۔۔‘‘اس نے آستینیں کہنیوں تک چڑھائیں اور ہاتھ بڑھا کر ایک کباب اپنی پلیٹ میں رکھااور رائیتہ کے ساتھ بریانی کا مزہ لینے لگا
’’ ایسے ہی رہا کرو۔۔۔ا چھے لگتے ہو۔۔‘‘وہ ضرغام کو یوں کھاتا ہوا دیکھ رہی تھیں ۔ وہ بالکل معصوم لگ رہا تھا۔ ایک معصوم سا چہرہ، جسے دنیا کا کچھ پتا نہ ہو، صرف اپنی ہی دنیا میں مگن۔
’’آپ یونہی اچھے اچھے کھانے بناتی رہا کرو۔۔ میں ایسا ہی رہوں گا۔۔‘‘ اس نے ایک ہچکی لیتے ہوئے کہا۔ شگفتہ بی بی نے فوراً گلاس میں کوک ڈال کر اس کے سامنے رکھ دی۔ اُس نے جب دیکھا کہ شگفتہ بی بی کا موڈ کافی اچھا ہے تو اصل بات کی طرف آیا جس وجہ سے و ہ اچھا بننے کا ناٹک کر رہا تھا
’’امی۔۔ آپ سے کچھ پیسے چاہئے تھے۔۔‘‘ اس نے تقریباً سرگوشی ہی کی تھی
’’ ابھی پرسوں ہی تو دیئے تھے تیس ہزار،،، کہاں گئے وہ؟۔۔‘‘ وہ جان چکی تھیں کہ وہ آج اتنا میٹھا کیوں ہو رہا تھا ۔ یہ اس کی پرانی عادت تھی جب بھی کوئی کام ہوتا تو شہد سے زیادہ شیریں ہوجاتا اور پھر زہر سے زیادہ کڑوا
’’وہ۔۔۔ وہ تو پرسوں ہی ختم ہوگئے تھے۔۔۔ پلز۔۔۔ ستر ہزار کا چیک بنا کر دے دیں ، کل میں خود ہی کیش کر والوں گا۔۔۔‘‘
’’ کیا کہا؟؟ ستر ہزار؟ تمہارا دماغ تو ٹھکانے پر ہے۔۔۔!! جانتے بھی ہو تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘لفظ ستر ہزار سن کران کو ایک جھٹکا لگا تھا۔ اگر بات اپنے اوپر خرچ کرنے کی ہوتی تو شاید وہ منع نہ کرتی مگر یہ تو رقم دوسروں پر لٹانا جانتا تھا۔ عیاشی میں پیسوں کو ایسے بہاتا جیسے کوئی پانی بہاتا ہو۔
’’تمہارے لئے پیسے کیادرخت کے پتے ہیں کہ جب دل چاہا جتنے چاہا توڑ لئے؟‘‘انہوں نے تلخ لہجے میں کہا تھا
’’امی ۔۔ اب اس میں اتنا غصہ ہونے والی کیا بات ہے؟ صرف ستر ہزار ہی تو مانگے ہیں۔۔‘‘ اس نے بے نیازی سے کہا
’’ تمہارے لئے یہ ستر ہزار صرف ہیں؟؟؟‘‘ ان کا انداز استفامیہ تھا
’’ جی ہاں۔۔‘‘ فی الفور جواب دیا
’’ضرغام۔۔۔ اتنی عیاشی اچھی نہیں ہوتی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کچھ پل کے لئے خاموش رہیں
’’ اور تمہیں روز روز پیسے مانگتے شرم نہیں آتی؟‘‘ انہوں نے سوال داغا تھا۔
’’شرم آتی ہے تب ہی تو کہتا ہوں کہ سب کچھ میرے نام کردیں۔۔۔ نہیں مانگوں گا روزروز۔۔‘‘ اس نے جیسے مسئلے کا حل بتایا تھا
’’ ہاں تاکہ تم دو دن میں کنگال ہو کر بیٹھ جاؤ۔۔‘‘ایک بار پھر خاموشی نے ڈیرہ جمایا
’’ضرغام۔۔۔ انسان کو کفایت شعاری ہر عمل کرنا چاہئے۔۔۔یوں پیسوں کو۔۔۔‘‘ ضرغام نے مداخلت کی
’’اگر پیسے نہیں دینے ناں۔۔ تو نہ دیں کم سے کم یہ نصیحتیں تو بند کری۔۔‘‘ وہ غصے میں ایک زور دار ہاتھ ٹیبل کو مارتا ہوا کھڑا ہوا تھا
’’کہاں جا رہے ہوتم؟؟‘‘ انہوں نے کھانے کی طرف اشارہ کیا تھا
’’جہنم میں۔۔۔ سارہ مزہ کڑکڑاکر دیا کھانے کا۔۔‘‘ وہ بڑبڑاتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چل دیا
’’اے خدا۔۔!! تُو ہی ہدایت دے۔۔۔‘‘ حسرت بھری نگاہوں سے اس کے جاتے وجود کو دیکھتے ہوئے اپنے رب سے دعا مانگی اور پھر اس کا بچا ہوا کھانا سمیٹتے لگیں۔ کھانا سمیٹے ہوئے ان کے ذہن میں وجیہہ کا خیال آیا
’’ اے خدا! وجیہہ ہاں کر دے۔۔۔شاید وجیہہ جیسی بیوی آنے پر یہ کچھ سدھر جائے۔۔‘‘
* * * *
علی عظمت اپنے کمرے میں جانے لگے تو رضیہ بیگم نے انہیں آواز دے کر روکا
’’ سنیئے۔۔‘‘ وہ پلٹے
’’ جی۔۔۔فرمائیے۔۔‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا
’’ پہلے ادھر بیٹھیں۔۔۔ آرام سے۔۔‘‘ وہ چلتے ہوئے ٹی وی لاؤنج میں آگئیں اور کچھ سوچتے ہوئے علی عظمت بھی وہاں آگئے اور آکر صوفے پر بیٹھ گئے
’’اب فرمائیں۔۔۔‘‘ انہوں نے سنجیدگی سے کہا تھا
’’ میں نے وجیہہ سے بات کی تھی ساجد کے سلسلے میں۔۔‘‘ انہوں نے تمہید باندھی
’’ گڈ۔۔ یہ تو اچھی بات ہے تو پھر کیا جواب دیاوجیہہ نے۔۔۔‘‘آگے کی طرف جھک کر پوچھا
’’ جواب کیا دینا تھا ۔۔۔ بات کو گول مٹو ل کر گئی‘‘ انہوں نے گہری سانس لیتے ہی پشت صوفے کے ٹیک سے لگا لی
’’ تو پھر۔۔۔ ‘‘
’’ تو پھر کیا۔۔۔ میں سوچ رہی تھی کہ کیوں نہ ساجد کو ہاں ناں کر دیں۔۔ ویسے بھی وجیہہ نے آج تک ہماری بات تو ٹالی نہیں جویہ ٹالے گی۔۔‘‘ انہوں نے تقریبا رازدارانہ بات کہی تھی
’’ لیکن۔۔ یہ بات کچھ اور ہے۔۔‘‘
’’ مگر ۔۔۔۔جب وہ کچھ جواب ہی نہیں دے گی تو ہم کیسے سمجھیں گے کہ اس کے دل میں کیا چل رہا ہے۔۔!!‘‘
’’ بات تو ٹھیک ہے۔۔مگر۔۔‘‘ سیڑھیوں سے اترتے قدموں کی آواز سن کر وہ خاموش ہوگئے۔ دونوں نے سیڑھیوں کی طرف دیکھا تو ادھر وجیہہ تھی۔ وہ سیڑھیاں اتر کر ان کے پاس آئی
’’ السلام علیکم۔۔‘‘ دونوں کو سلام کیا
’’ وعلیکم السلام۔۔‘‘ صرف علی عظمت نے ہی جواب دیا ۔
’’ اچھا ہوا آپ دونوں یہیں مل گئے۔۔ مجھے آپ دونوں سے بات کرنی تھی۔۔‘‘ وہ صوفے کی ٹیک پر ہاتھ جمائے کھڑی ہوگئی
’’ ہاں ۔۔ آؤ بیٹھو،۔۔۔‘‘ علی عظمت نے صوفے پر بیٹھنے کو کہا
’’ نہیں ابو۔۔ میں نے صرف آپ سے بات کرنی ہے اور بس۔۔۔ واپس کمرے میں جا کر مجھے نوٹس بھی بنانے ہیں‘‘
’’ تو پھر کرو۔۔۔‘‘ روکھے پن میں رضیہ بیگم نے کہا تھا
’’ بات یہ تھی کہ میں شادی کے لئے تیار ہوں۔۔۔‘‘اس نے اپنی نظریں سامنے دیوار پر جمائے کہا تھا
’’ کیا کہا؟‘‘رضیہ بیگم کو اپنے کانوں پر یقین نہیں ہوا
’’ تم سچ کہہ رہی ہو؟‘‘ علی عظمت نے تصدیق چاہی
’’ جی ابو۔۔۔۔ میں شادی کے لئے تیار ہوں۔۔‘‘ اس نے ایک بار پھر وہی جملہ دہرایا
’’سچ میری بیٹی۔۔‘‘ رضیہ بیگم نے اٹھ کر اس کے چہرے کو بوسہ دیا
’’ لیکن میں ساجد سے شادی نہیں کروں گی۔۔۔‘‘اس نے سپاٹ لہجے میں کہا تھا۔
’’ کیا؟؟‘‘ یہ سن کر رضیہ بیگم کو دھچکا لگا۔ دونوں ہاتھ خودبخود پیچھے ہٹ گئے ۔ وہ استفہامیہ اندا زمیں اس کے چہرے کو تکنے لگیں
’’اگر ساجد سے نہیں کرنی شادی تو پھر کس سے کرنی ہے؟‘‘ علی عظمت نے کھڑے ہوتے ہوئے سوال کیا
’’ضرغام عباسی سے۔۔۔‘‘ اس نے بڑے مان سے کہا تھا
’’ ضرغام؟؟‘‘ رضیہ بیگم نے استفہامیہ انداز میں کہا تھا
’’ جی۔۔ ضرغام۔۔۔اگلے ہفتے آرہا ہے میرے رشتے کے لئے۔۔‘‘یہ کہہ کر وہ کمرے کی طرف پلٹ گئی
’’ لیکن یہ ہے کون۔۔‘‘ علی عظمت نے پوچھا تھا
’’ جس کالج میں میں پڑھاتی ہوں ، وہاں کی پرنسپل شگفتہ بی بی کا بیٹا۔۔۔‘‘وہ ایک ثانیے کے لئے رکی اور پھر سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ رضیہ بیگم نے حیرت سے علی عظمت کی طرف دیکھا تو انہوں نے کندھے اچکا دئیے ۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے ناول
 

Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 64 Articles with 99266 views I'm a student of Software Engineering but i also like to write something new. You can give me your precious feedback at my fb page www.facebook.com/Mu.. View More