زمانہ قبل از تاریخ میں ایسی تہذیبیں گزری ہیں جنہوں نے
انسانیت کو پامال کرکے ادنیٰ و اعلیٰ ،گورے اور کالے اور کم تر و برتر کا
تصور قائم کیا۔ انسانی رشتوں کا تقدس تار تار کیا۔ بنت ِ حّوا معاشرے کا
اہم جزو ہونے کے ساتھ ساتھ ماں ، بہن ، بیٹی ، بیوی یا بہو کی صورت میں
موجود ہے ، اس کو اپنی غلامی کا سب سے بڑا ہتھیار بنایا۔زمانہ جاہلیت کو
دیکھا جائے تو لڑکیاں پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کی جاتی تھیں یا پھر انہیں
غلامی کا طوق پہنا دیا جاتالیکن اسلام نے عورت کو معاشرے میں مردوں کے
برابری کا رتبہ ، عزت ، قدر اور حیا کے ساتھ جینے کا حق دیا۔ اور جس نے
عورتوں کو معاشرے میں تحفظ ، انصاف اور آزادی رائے جیسے بنیادی حقوق
دیے۔یہاں تک کہ بعض مشرکین مکہ صرف اس لئے ایمان افروز نہیں ہوئے کیوں کہ
وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم افضل ، طاقت ور، نڈر اور جنگ و جدال کے ماہر ہیں
اور کمزور عورتیں ہمارے برابر کیسے ہو سکتی ہیں۔پس یہ اسلام ہی تھا جس نے
عورت کی ناموس اور تقدیس کو تحفظ عطا کیا۔قرآن کریم نے چھٹی صدی عیسوی میں
مرد اور عورت کے درمیان فرق و امتیاز کو ختم کرکے انہیں یکسا ں عزت و
احترام اور وقار و تمکنت سے ہم کنار کرنے کا جو قدم اٹھایا وہ اتنا انقلاب
آفریں تھا کہ جس کی وجہ سے فکرو و نظر کی دنیا ہی بدل گئی اور عورت کی
حیثیت اور مقام کے تعین میں اسلام نے تمام مذاہب کو پیچھے چھوڑدیا ۔ اسلام
نے عورت کے بارے میں مردوں کا کے نظریات کا مکمل نقشہ بدل ڈالا ۔اور بعثت
نبوی ﷺکے بعد خواتین کے حقوق سے متعلق ایسی تاریخ رقم ہوئی جس کی مثال اس
سے قبل موجو دنہ تھی ۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔’’لو گو ، اپنے رب سے ڈرو جس
نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا‘‘۔یعنی قرآن نے صراحت کر دی کہ مرد اور عورت
دونوں ایک جان سے پیداکیے گئے ہیں اس لیے ان میں سے کوئی بر تر یا کم تر
نہیں ہے۔ نہ مر د افضل ہے اور نہ عورت حقیر اور ذلیل ہے۔ دونوں کی اہمیت
اور مقا م و مرتبہ ایک جیساہے۔ قرآن دوسرے مذاہب کے اس خیال کی تا ئید نہیں
کر تاکہ مر د کی بہ نسبت عورت کو ایک حقیر مادے سے پیداکیا گیا ہے اور عورت
کو کم تر مقام طفیلی کا درجہ دیا گیا ہے۔ ماضی میں عورت کے خلاف ایک زہریلا
تصور مو جود رہاہے اور جس کی باقیات آج بھی کلاسیکی ادب میں مو جودہیں۔ وہ
یہ کہ عورت گنا ہ کی جڑ ہے ۔ اس تصور کے مطابق لوگوں کا خیال ہے کہ آدمؑ کو
شیطان نے و ر غلایا تھا ور نتیجے کے طو ر پر انہیں جنت سے نکلنا پڑا تھا ۔قرآن
نے ان تمام نظریات کی تر دید کی اور اعلان کیا کہ سارے انسان ایک جان سے
پیداہوئے ہیں۔ان سب کی اصل ایک ہے ۔ پیدائشی طور پر نہ کوئی شریف ہے نہ
رذیل ، نہ اُونچی ذات کا ہے نہ نیچی ذات کا ، نہ بر تر ہے نہ کم تر بلکہ سا
رے انسان برابر ہیں ۔ خاندان ، قبیلہ ، رنگ و نسل ، ملک و قوم ، زبان ،
پیشہ اور صنف کی بنیاد پر اُن کے درمیان کوئی تفریق کر نا غلط ہے ۔ بد
قسمتی سے موجودہ دور میں کفر و جہالت نے ایک بار پھر انگڑائی لی اور بنت ِ
حوا کو اُس کے حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کی اور اس کو ہوس کے پنجۂ خونیں
میں دبوچ ڈالا ہے۔اقوام متحدہ ، یورپین یونین اور اقوام عالم کی دیگر
تنظیموں نے عورتوں کے تحفظ کے لئے قوانین بنائے لیکن ان قوانین کی موجودگی
آج بھی دنیا میں لاکھوں عورتیں مختلف جرائم کا شکار ہوتی ہیں۔ آج کی نام
نہاد مہذب دنیا میں عورتیں کسی نہ کسی طرح محکومی اور غربت کی زندگی گزار
رہی ہیں اور ظالم کے خلاف کوئی آواز بھی نہیں اُٹھائی جاتی ۔ جس کی زندہ
مثال کشمیر کی عورت ہے جو تقسیم ِ ہند کے وقت سے بھارتی مظالم کا شکار ہو
رہی ہے۔ مگر اقوام ِ عالم کی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔گزشتہ
پچیس برسوں میں دس ہزار سے زائد عورتیں عصمت دری کا شکار ہوئیں ، بیس ہزار
سے زائد بیوہ اور ہزاروں ’’آدھی بیوہ ‘‘ کی زندگی بسر کررہی ہیں جن کے
شوہروں کو بھارتی درندے اُٹھالے گئے ہیں۔جو حقوق نسواں کے عَلم برداروں کے
لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔پس زمانہ قدیم کی جہالت سے لے کر زمانہ جدید کی
جہالت تک بنت ِ حّواانہی مظالم کا شکار ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ فرعونیت نے
نام ، لباس اور چہرہ بدلا مگر ظُلم کا طریقہ وہی پُرانا ہے۔ |