غیبت ایک غیر محسوس کبیرہ گناہ

بقلم: حلیمہ سعدیہ، ملتان
آج کل ہم اپنے آپ کو کافی حد حرام کھانے سے تو بچاتے ہیں، سود کا مال کھانے سے بچتے ہیں، رشوت خوری سے پرہیز بھی کافی حد تک کرتے ہیں۔ سود، رشوت، حرام غذا، حرام مال سے بچنے کے باوجود ہم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اگر کوئی اﷲ کا بندہ کہہ بھی دے کہ ’’یہ گناہ ہے، غیبت ہے‘‘ تو ہم بڑی آسانی سے یہ کہہ کر کہ ’’ہم تو ڈسکس کر رہے ہیں یا ہم فلاں کے منہ پہ بھی یہ بات کہہ سکتے ہیں‘‘ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں مگر افسوس کہ ہم تو ڈسکس کرتے کرتے گناہ کر لیتے ہیں۔
کوئی سود خور ہو تو ہم یہ بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ’’سود ناجائز ہے اور سود کا مال حرام ہے‘‘۔ کوئی رشوت خور ہو تو ہم بڑی آسانی سے یہ ٹھپہ لگا دیتے ہیں کہ ’’یہ ناجائز کام ہے‘‘۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے کہ’’رشوت لینے والا اور دینے والا جنت میں داخل نہ ہوگا (یعنی دوزخ کا ایندھن بنے گا)

مگر یہ یاد نہ رہا کہ غیبت کے بارے میں قرآن مجید کا فرمان ہے’’اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان سے بچو، بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ، تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو اﷲ سے ڈرو، اﷲ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔‘‘

رشوت کے بارے میں حدیث ہے تو غیبت کے بارے میں بھی ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہ اجمعین نے کہا اﷲ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کے اس عیب کو بیان کرے کہ جس کو وہ ناپسند سمجھتا ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ اگر وہ عیب واقعی اس بھائی میں ہو جو میں بیان کر رہا ہوں، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر وہ عیب اس میں ہے جو تم کہہ رہے ہو تو وہ تبھی تو غیبت ہے اگر اس میں نہ ہو تو وہ بہتان ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)

اگر کوئی، کس شخص کی برائی کر رہا ہو ، جو موجود نہ ہو اور کوئی کہہ دے کہ بری بات ہے، خاموش تو جواب ملتا ہے کہ ’’فلاں میں یہ برائی ہے، ہم جھوٹ تھوڑی نہ بول رہے ہیں‘‘۔اﷲ کے بندو!! بے شک آپ جھوٹ نہیں بول رہے، ہے تو برائی نا۔ اسی ہی کو تو غیبت کہتے ہیں۔ اگر وہ بات کرو گے، جو اس شخص میں موجود نہ ہو گی وہ تہمت کہلائے گی۔

غیبت جس قدر بری بیماری ہے، اسی قدر ہمارے معاشرے میں عام ہے۔یاد رہے انسان کی غیبت کرنا ، مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے مگر فوت شدہ لوگوں کی غیبت کرنا مردہ گدھے کا گوشت کھانے کے برابر ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ’’بدکاری کرنے والا توبہ کر لیتا ہے مگر غیبت کرنے والا توبہ نہیں کرتا‘‘ (شعب الایمان للبیہقی : 6316)

کیونکہ بدکاری کرنے والا شخص گناہ کو گناہ سمجھ کر کر لیتا ہے مگر غیبت کرنے والا شخص گناہ کو گناہ سمجھ کر نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک غیبت گناہ نہیں ، محض گفتگو ہوتی ہے۔ یاد رہے بعض علماء نے ’’نقل اتارنے اور تحقیر آمیز ‘‘اشارے کرنے کو بھی غیبت شمار کیا ہے۔

جس طرح کسی کی جان اور مال کو نقصان پہچانا حرام ہے اور گناہ ہے، اسی طرح کسی کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچانا بھی حرام ہے۔ غیبت کو قرآن میں واضح طور پر حرام قرادیا گیا اور اسے ایک قبیح فعل سے تشبیہ دی ہے اور مردہ بھائی کا گوشت کھانے کی تمثیل انتہائی بلیغ ہے۔ سورہ الحجرات میں بیان کیا گیا ہے، ’’ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ دیکھو اس چیز کو تم خود بھی ناگوار سمجھتے ہو اور اﷲ سے ڈرتے رہو، بے شک اﷲ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے‘‘۔

عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ صحابہ کرام نے پوچھا کہ اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم! کامیابی کیا ہے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اپنی زبان روک لو اور چاہیے کہ تمہارا گھر تم پر کشادہ ہو (یعنی اپنی زبان کو کنٹرول کرنے کے سبب تمہارے تعلقات اپنے گھر والوں سے اچھے ہو جائیں) اور اپنی غلطیوں پر رویا کرو۔(جامع ترمذی)

مذکورہ حدیث میں ’’زبان‘‘ کو کنٹرول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی غیبت سے دور رہنے کا کہا گیا ہے۔ لایعنی گفتگو سے ’’خاموشی‘‘ بہتر ہے اور خاموشی سے ’’ذکراﷲ‘‘ بہتر ہے۔

ایک حدیث میں دوسروں کے عیوب ٹٹولنے کو ان سخت الفاظ میں تنبیہ کی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’لوگوں کی زبانیں تو ایمان لاچکی ہیں لیکن دل نہیں۔ تم مسلمانوں کی غیبت چھوڑ دو اور ان کے عیب نہ کریدو۔ یاد رکھو! اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اﷲ تعالیٰ تمہاری پوشیدہ برائیوں کو ظاہر کردے گا یہاں تک کہ تم اپنے گھر والوں میں بھی بدنام اور رسوا ہو جاؤ گے‘‘۔ (کتاب الادبابوداؤد )

عبرت ناک تصویر اس روایت میں پیش گئی ہے۔’’ حضرت انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ نے فرمایا جب اﷲ تعالیٰ نے مجھے معراج کی رات اوپر لے گیا تو عالم بالا میں میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان ناخنوں سے اپنے چہروں کو کھرچ رہے تھے ان کی اس حالت کو دیکھ کر میں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون لوگ ہیں انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے یعنی لوگوں کی غیبت کرتے ہیں ان کی عزت و آبرو کے پیچھے پڑے رہتے ہیں‘‘۔ (ابوداؤد رقم 4878)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیبت سے کس طرح پرہیز کیا جائے۔ جب دل میں خوف خدا ہو گا۔ آخرت کی زندگی کا پختہ یقین ہوگا اور قبر کی زندگی ہر وقت یاد ہو گی تو یقین مانیے، یہ گناہ سرزد نہیں ہوگا۔ کوشش کیجئے کہ ہم خود کو ’’ذکراﷲ اور اپنے ضروری کاموں میں مصروف رکھیں۔ فضول گوئی اور غیر ضروری باتوں سے پرہیز کیا جائے۔ اپنی محافلوں اور دوستوں سے بھی زیادہ غیر ضروری مجلسیں کرنے سے بچنا چاہیے۔ اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس بری بیماری سے بچائیے۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142776 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.