سیدنا حیدر کرّارکرّم اللہ وجہہ

سیدنا علی المرتضی حیدر کرار کرم اللہ وجہہ کی حیات مبارکہ کا خلاصہ

مکہ مکرمہ کی وادی پر رات کے مہیب سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے ۔ مسجد حرام میں مکمل سکوت طاری تھا ۔ البتہ کبھی کبھی کسی پجاری کے اُعْلُ ہُبُلْ کی آواز آجاتی تھی ۔ خانہ خدا میں پڑے تین سو ساٹھ بت ماحول کی پر اسراریت کو بڑھا رہے تھے ۔ اچانک ایک جوان اندر داخل ہوا اور کوئی گوشہ سکون تلاش کرنے لگا تاکہ خدائے واحد کی عبادت کر سکے ۔ ناگاہ اس کی نظر مقام ابراہیم کے قریب لیٹے ایک اجنبی پر پڑی ۔ جس نے کچی زمین کے فرش کو بستر اور توشہ دان کو تکیہ بنا رکھا تھا ۔ بھوک کی وجہ سے اس کی حالت ابتر تھی ۔ تھکاوٹ کی وجہ سے اس کا حال برا تھا ، یوں لگتا تھا کہ آج کا دن اس نے بڑی مشقت میں گزارا ہے ۔ نوجوان نے اسی لمحے اس اجنبی کو اپنا مہمان بنانے کی ٹھان لی ۔چنانچہ آگے بڑھا اور اس اجنبی کے سامنے جا کھڑا ہو ا ۔’’چچا جان ! کیا آپ میرا مہمان بننا پسند کریں گے ‘‘۔ نوجوان نے شیریں زبان میں اجنبی کو دعوت دی تو وہ بلا چوں و چرا کھڑا ہو گیا ۔ نوجوان اسے لے کر اپنے گھر آگیا ، رات کا کھانا کھلایا ، اس کے آرام کا خیال کرتے ہوئے اسے فوراً سونے کا مشورہ دیا اوربرتن اٹھا کر خود زنان خانے میں چلا گیا ۔ صبح ناشتے کے وقت بھی اجنبی سے اس کا تعارف نہ پوچھ سکا ۔ اور اجنبی چلا گیا ۔ اگلی شام نوجوان مسجد میں آیا تو وہی اجنبی دوبارہ اسی حالت میں دکھائی دیا ۔ نوجوان اسے دوبارہ اپنے گھر لے آیا ۔ اور صبح ناشتہ کروا کے روانہ کردیا ۔ تیسری شام پھر یہی واقعہ پیش آیا ۔ نوجوان ، اجنبی کو پھراپنے گھر لے آیا ۔لیکن آج اس نے پختہ ارادہ کیا ہوا تھا کہ آج ضرور اجنبی سے اس کا قصہ پوچھوں گا ۔چنانچہ کھانا کھانے کے دوران نوجوان نے بڑی ملائمت سے پوچھا ۔ ’’چچا جان ! آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ تین دن سے آپ کے چہرے پر تھکاوٹ کے اثرات معلوم ہوتے ہیں ، آپ یہاں کس مقصد کیلئے آئے ہیں ؟
’’بیٹا!میر انام جندب بن جنادہ ہے ، لوگ مجھے ابوذر کہتے ہیں ، قبیلہ غِفار سے میرا تعلق ہے، جو یثرب کے قریب بستا ہے ۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ سچے اور آخری نبی کی آمد ہو گئی ہے اور ان کا ظہور مکہ مکرمہ کی بے آب و گیاہ وادی میں ہوا ہے ۔بیٹا ! میں سارا سارا دن اس کی تلاش میں حیران و سرگردان پھرتا رہتا ہوں ۔ اور شام کو اللہ کے گھر میں آرام کی غرض سے پہنچ جاتا ہوں ۔لیکن تم تو میرے لئے فرشتہء رحمت ثابت ہوئے ہو ۔میرا تعارف اور مقصد پوچھے بغیر میری خدمت میں لگے رہے ۔اللہ تعالی تمہیں جزائے خیر دے ۔ اب تم بھی اپنے بارے میں بتا دو ، تاکہ میں اپنے محسن کے حالات سے واقفیت حاصل کر سکوں ۔ ‘‘ اجنبی نے اپنا مکمل تعارف کروانے کے بعد کہا تو نوجوان بولا ۔

’’چچا جان !آپ صحیح جگہ پر آئے ہیں ۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واقعی تشریف لا چکے ہیں۔ جن کا لوگوں کو صدیوں سے انتظار تھا ۔ لیکن انہیں مکہ مکرمہ کے شر پسندوں سے خطرہ ہے ، بلکہ اس کو بھی جو ان کی بات مانے ، اسلئے آپ اپنی اس بات کا اظہار کسی کے سامنے مت کرنا ۔ ورنہ لوگ آپ کے بھی جانی دشمن بن جائیں گے میں اس نبی کا چچا زاد بھائی ہوں ۔ آپ کو صبح ان کی خدمت میں لے چلوں گا۔‘‘
جی ہاں ! یہ نوجوان ، داماد رسول ؐ ، عم زاد رسول ؐ ، شیر خدا ، رأس الاولیا ، فاتح خیبر ، والد حسنین کریمین ، حضرت ابو تراب علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ ٗ تھے ۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حقیقی چچا ابو طالب ( عبد مناف ) کے بیٹے تھے ۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت اسد ؓ تھا ۔ ابو طالب کا کنبہ بڑا ہونے کی وجہ سے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں اپنی گود میں لے لیا تھا ۔ بچوں میں سب سے پہلے آپ ؓ نے ہی اسلام قبول کیا ، اور اپنی ساری برادری کے سامنے سب سے پہلے علی الاعلان کلمہ حق کہنے کی توفیق بھی آپ ہی کو ہوئی ۔ ہجرت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مواخات قائم کرتے وقت آپ ؓ ہی کو اپنا بھائی بنایا۔ پھر بعد میں حضرت فاطمہ ؓ سے نکاح فرما کر آپ کو اپنا داماد بھی بنا لیا ۔آ پ ؓ نے تمام غزوات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور خوب داد شجاعت دی ۔غزوہ بد ر میںپہلے نکلنے والے تین قریشی سُورموں میں سے ایک کو آپؓ نے جہنم رسید کیا ۔غزوہ خندق میں عرب کے معروف پہلوان عمرو بن عبدوُدّ نے جب خندق پار کرکے پکارا ہل من مبارز تو اس کے مقابلے میں نکل کر اس کا کام تمام کرنے والے حضرت علیؓ ہی تھے۔ غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی نیابت سنبھالی اورپہلے حج میں حضرت ابو بکر صدیق ؓکے نائب بن کر ساتھ گئے ۔ شرک کے بڑے بڑے اڈوں یعنی بتوں میں سے بعض کو گرانے کیلئے بھی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے آپ ؓہی کا انتخاب کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تدفین میں بھی آپ ؓ شریک تھے ۔اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت بھی آپ ؓ نے لوگوں کے ہجوم کو چیر کر کی۔ بعد ازاں تمام خلفاء کے مشیر رہے ۔ آپؓ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ۔’’انا دار الحکمۃ و علی بابھا‘‘ (ترمذی)اور حضرت عمر ؓ نے فرمایا ’’لولاک علی لہلک عمر ‘‘ اگر آج علی ؓ نہ ہوتے عمر ؓ ہلاک ہو جاتا) ۔حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں ۔’’ہم انصار کا گروہ منافقین کو حضرت علی ؓ سے بغض رکھنے کی وجہ سے پہچان لیا کرتے تھے ۔حضر ت ام سلمہؓ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان سناتی تھیں کہ ’’ علی سے کوئی منافق محبت نہیں کر سکتا اور کوئی منافق بغض نہیں رکھ سکتا۔‘‘ نیز آپ ؓ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ اے علی ! تیری وجہ سے دو گروہ جہنم جائیں گے ۔ایک تیرے ساتھ محبت ( میں غلو ) کی وجہ سے ، اور دوسرا تیرے ساتھ دشمنی کی وجہ سے ۔ جب خارجیوں آپ کے نام مبارک کے ساتھ گستاخانہ جملوں کے مرتکب ہوئے تو مسلمانوں نے آپ کو کرم اللہ وجہہ (اللہ آپ کے چہرے کو باعزت کرے) کے لقب سے نوازا۔ چنانچہ آپ ؓ کو ۱۷۔رمضان المبارک ۴۰ ؁ ہجری میں۸۵ یا ۸۳ سال کی عمر میں اشقی امت عبدالرحمن بن ملجم نے زہر میں بجھی تلوار مار کر شہید کردیا ۔ رضی اللہ عنہ ٗ ۔
ذیل میں آپ ؓ کی گوشہئِ زندگی سے چنداوراق اٹھانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ اللہ تعالی ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔
ابو تراب : ایک مرتبہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو گھر نہ پایا تو حضرت فاطمہ ؓ سے پوچھا کہ علی کہاں ہیں ؟ انہوں نے جواب دیاکہ ناراض ہو کر گھر سے باہر چلے گئے ہیں ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام ان کی تلاش میں نکلے تو آپ کو مسجد نبوی میں اس حال میں سویا ہوا پایا کہ آپ کی چادر زمین پر پڑی تھی اور جسم سے مٹی لگ گئی تھی ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے پیار سے آواز دی۔ یا ابا تراب! (او مٹی والے ) اس دن سے آپ کی کنیت ابو تراب پڑ گئی ۔
جرأت و بہادری :
ہجرت کی رات آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو اپنے بستر پر لٹا دیا اور خود کفار کا نرغہ توڑ کر چلے گئے ۔ حضرت علی ؓ اپنی دلیری کے باعث کئی سو تلواروں کے سائے میں پڑے سوتے رہے ۔
شجاعت :
یہودی مرحب پہلوان کا سر ایک ہی وار میں اڑا دیا حالانکہ وہ ڈیل ڈول میں آپ ؓ سے کئی گنا بڑھ کر تھا ۔اس وقت آپ نے مشہور عالم درج ذیل اشعار پڑھے ۔
اَنَا الَّذِی سَمَّتْنِی اُمِّی حَیْدَرَہْ

کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیہِ الْمَنْظَرَہْ
اُوْفِیْہِمْ بِالصَّاعِ کَیْلَ السَّنْدَرَہْ
ترجمہ:’’میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر(شیر ) رکھا ہے ،جنگل کے شیر کی طرح نہایت ہیبت ناک ہوں، تلوار کے پیمانے سے پورا ناپ کر دیتا ہوں‘‘
سخاوت:
کئی بار ایسا ہوا کہ آپ ؓ نے سارا دن روزے کی حالت میں مزدوری کر کے چند کھجوریں کمائیں ۔ اور جب ان سے افطار کرنے کا وقت آیا تو کوئی سوالی دروازے پر آگیا ۔ آپ ؓ نے وہ کھجوریں اٹھا کر اسے دے دیں اور خود پا نی سے افطار کر کے اللہ تعالی ٰ کا شکر ادا کیا۔
اخلاص:
ایک مرتبہ ایک کافر کو قتل کرنے کیلئے اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے ۔ قریب تھا کہ اسے قتل کر دیں، اس نے آپ کے چہرۂ انور پر تھوک دیا ۔ آپ ؓ نے اسے فوراً چھوڑ دیا ۔وہ حیران رہ گیا ،پوچھنے لگا یہ کیا؟ آپ ؓ نے فرمایا ’’اگر میں تجھے اسی حالت میں قتل کر دیتا تو اس میں اللہ کی رضا شامل حال نہ ہوتی ۔ کیونکہ میرا اپنا غصہ بھی ساتھ شامل ہو جاتا ۔
عدالت :
ایک مرتبہ دو آدمی آپ ؓ کے پاس اپنا مقدمہ لے کر آئے ۔ان میں سے ایک کہنے لگا اے امیر المومنین ! ہم دونوں ایک درخت کے نیچے بیٹھے کھا نا کھا رہے تھے کہ ایک پردیسی ہمارے پاس آیا۔ہم نے اسے بھی کھانے میں شریک کر لیا ۔کھا نا کھا نے کے بعد اس نے ہمیں آٹھ درہم دیے اور چلا گیا ۔ میرے ساتھی نے مجھے ان میں سے تین درہم دیے اور خود پانچ درہم رکھ لئے ۔حالانکہ میرا حصہ چار درہم بنتا تھا اور اس کا بھی چار درہم ۔کیونکہ اس نے ہمارے ساتھ اکٹھاکھا ناکھایا ، لہذا درہم بھی نصف نصف بنتے ہیں ۔اس پر دوسرا آدمی بولا ـ: ’’ امیر المومنین! اس کی تین روٹیا ں تھیں اور میری پانچ ، اس لئے میں نے اسے تین درہم دیے اور خود پانچ درہم رکھے ۔آپ فیصلہ فرمائیں کہ کیا اس کا حصہ نصف دراہم کا بنتا ہے ؟ ‘‘ پوری بات سن کر حضرت علی ؓ بولے کہ ’’ پانچ روٹیوں والے کو سات درہم ملیں گے اور تین روٹیوں والے کو ایک درہم ۔‘‘یہ فیصلہ سن کر دونوں حیران رہ گئے ۔ اور کہا ، امیر المومنین ! اپنا یہ فیصلہ ہمیں ذرا سمجھا دیں۔‘‘ حضرت علی ؓ نے فرمایا ۔’’ دیکھو ، تین آدمیوں نے کل آٹھ روٹیاں کھائیں۔اس حساب سے ہر روٹی کے تین حصے ہوئے ۔یوں کل چوبیس ٹکڑے ہو گئے ۔ گویا فی آدمی آٹھ ٹکڑے کھائے گئے ۔اس طرح پانچ روٹیوں والے سے اس پردیسی نے سات ٹکڑے کھائے کیونکہ پندرہ میں سے آٹھ تو خود روٹیوں والے نے کھا لئے تھے ۔لہذا پانچ روٹیوں والے کو سات دراہم ملیں گے ۔اور تین روٹیوں والے سے اس نے ایک ٹکڑا کھایا کیونکہ نو میں سے آٹھ اس نے خود کھا لئے تھے باقی ایک پردیسی نے کھا یا اس لئے تین والے کو ایک درہم ملے گا ۔‘‘یہ فیصلہ سن کر دونوں خوش وخرم لوٹ گئے ۔
حلم اور بردباری :
جب آپؓ کو اشقی امت عبدالرحمن بن ملجم نے زخمی کیا تو آپ ؓ نے اس سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا نیز اپنے حصے کا شربت اس کے پاس بھیجا لیکن اس بد بخت نے یہ کہ کر واپس کر دیا کہ آپ نے اس میں زہر ملا دیا ہے ۔پھر بھی آپ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ اگر میں زندہ رہا تو خود اس سے نپٹ لوں گا ۔اور اگر شہید ہو گیا تو اسے صرف ایک وار سے قتل کرنا تاکہ اسے زیادہ تکلیف نہ ہو ۔سبحان اللہ ! اپنے قاتل سے اس قسم کے سلوک کی مثال، یقینا دنیا لانے سے قاصر ہے ۔ اولئک آبائی فجئنی بمثلہم۔
عشق رسول ؐ:
صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے نام مبارک کے ساتھ رسول اللہ کے لفظ پر اعتراض کیا اور کہا کہ اسے مٹا دو ، لیکن آپ نے اسے مٹانے سے انکار کر دیا ۔
صحابہ کرام ؓ سے محبت :
ایک مرتبہ آپؓ نے خطبہ دیا اور فرمایا ’’ کیا میں تمہیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد امت میں سے بہترین آدمی کے بارے میں نہ بتائوں؟ وہ حضرت ابوبکر ؓ ہیں ۔پھر حضرت عمر ؓ ہیں اور اگر چاہوں تو تیسرا بھی بتا سکتا ہوں ۔(معجم کبیر للطبرانی) حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ پر باغیوں کے حملہ کے وقت حفاظت کیلئے حضرات حسنین کریمین ؓ کو بھیجاتاکہ ان کی حفاظت فرمائیں ، اور کوتاہی پر سخت ڈانٹ فرمائی ۔
کسی نے آپ ؓ سے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ سے پہلے خلفاء کے دور میں فتن کم تھے اور کے دور میں زیادہ ؟ تو آپ نے فرمایا ’’ ان کے مشیر ہم تھے اور ہمارے مشیر تم جیسے لوگ ہیں ۔‘‘
حضرت معاویہؓ کے بارے میں بھی انتہائی مبنی بر انصاف بات فرمائی ’’اہلِ شام اور ہمارا خدا ایک اور نبی ایک،اللہ پر ،رسولؐپر اورقیامت پر ایمان رکھنے میں نہ وہ ہم سے زیادہ نہ ہم ان سے زیادہ ہمارا اور ان کا معاملہ بالکل ایک سا ہے ،اختلاف صرف خونِ عثمانؓ کا ہے تو اللہ جانتا ہے کہ میں اس خون سے بری ہوں ۔‘‘(نہج البلاغہ)
جنگ جمل میں بعض لوگوں نے کہا کہ ہم امی عائشہ ؓ کی فوج کو غلام اور لونڈیاں بنائیں گے۔تو آپ سخت غصے میں آگئے اور فرمایا کون ہے جو اپنی ماں (حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ) کو لونڈی بنائے؟
انصاف کی پیروی :
ایک مرتبہ آپ نے ایک زرہ خریدی جس کا گواہ کوئی نہ تھا ۔ ایک یہودی کو اس بات کا پتہ چل گیا اس نے زرہ کے بارے میں جھوٹا مقدمہ قائم کیا اور کہا کہ یہ زرہ میری ہے ۔حضرت علیؓ کے پاس گواہ نہ تھے، اس لئے وہ زرہ یہودی کو مل گئی ۔ لیکن اسلام میںانصاف کا بول بالا دیکھ کرفوراً اسلام قبول کر لیا ۔
بیت المال کی تقسیم :
ایک مرتبہ آپ کے سگے بھائی حضرت عقیل آئے اور کہا کہ مجھے بیت المال سے کچھ رقم بطور عطیہ عنایت فرمادیں لیکن آپ نے دینے سے انکار فرماد یا کیونکہ ان کو حصہ مل چکا تھا اور مزید دینا بیت المال میں خیانت شمار ہوتی تھی ۔حضرت عقیل نے کہا میں امیر معاویہ ؓ سے مانگ لوں گا ۔ (جو اس وقت شام کے خود مختار حکمران تھے ۔)لیکن اس کے باوجود آپ ؓ نے کچھ نہ دیا اور سگے بھائی کو ناکام لوٹا دیا ۔
جنگ نہروان :
خارجی اپنے عقائد باطلہ کی وجہ سے کفر کی حد تک پہنچ چکے تھے ۔اس لئے ان کا خاتمہ کرنا ضروری ہو گیا تھا اگر جنگ نہروان میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ ان کا خاتمہ نہ کر دیتے تو شاید روافض کی طرح یہ بھی آج تک امت مسلمہ کیلئے ایک مستقل درد سر ہوتے ۔
علم :
آپ ؓ کے بارے میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا فرمائی ’’اللہم ثبت لسانہ و اہد قلبہ‘‘ چنانچہ حضرت سعید بن المسیبؒ فرماتے ہیں کہ لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں کہتا تھا ’’سلونی (مجھ سے سوال کرو ) ‘‘ سوائے علی ؓ کے ۔(اسد الغابہ ) عبدالملک بن ابی سلیمان نے حضرت عطاء ؒ سے پوچھا کیا اصحاب نبی ؐ میں حضرت علی سے بڑھ کر عالم تھا ؟ تو انہوں نے فرمایا ’’نہیں ، اللہ کی قسم ان سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں تھا ۔‘‘(اسد الغابہ )
زہد و تقوی :
دنیا فانی کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ’’ دنیا ایک مردار کی طرح ہے جو اس کو حاصل کرنے کی نیت کرے اسے چاہیے کہ وہ کتوں سے اختلاط کا انتظار کرے ۔‘‘(اسد الغابہ ) حضرت علی ؓ نے اپنے بارے میں فرمایا کہ کبھی یوں ہوتا کہ میرے پاس چالیس ہزار دینار ہوتے لیکن خود میری یہ حالت ہوتی کہ بھوک کی وجہ سے میرے پیٹ پر پتھر بندھے ہوتے ۔(کیونکہ وہ سارے دینار صدقہ کر دیے ہوتے اور اپنی بھوک کا خیال ہی نہ ہوتا )
اللہ تعالی ہمیں انہی حضرات کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

عبدالصبور شاکر
About the Author: عبدالصبور شاکر Read More Articles by عبدالصبور شاکر: 53 Articles with 99373 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.