نوٹ :۔ اس مضمون میں جتنی بھی قادیانی کتب کے حوالہ جات
دئیے گئے ہیں وہ تمام کتب بفضلہ تعالی بندہ عاجز کے پاس موجود ہیں اگر کوئی
دوست حوالہ دیکھنا چاہتا ہے تو درج ذیل نمبر پر مجھ سے رابطہ کر سکتا ہے
0304.6265209
محترم قارئین !مرزا قادیانی نے 1991ء میں ’’فتح اسلام‘‘ نامی رسالہ شائع
کیا جس میں اس نے اپنے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا توا س سے اہل اسلام
میں ایک عام شور برپا ہو گیا۔ اس شور کو مٹانے اور اس دعویٰ کی توضیح کے
لیے اس نے ایک رسالہ ’’توضیح مرام ‘‘ مشتہر کیا تواس نے شور کی آگ کو اور
بھی تیز کر دیا اور خوب بڑھکایا کیوں کہ فتح اسلام میں تواس نے مسیح موعود
ہونے کا دعویٰ کیا تھا ، توضیح مرام میں اپنے نبی ہونے کا بھی دعویٰ
کردیااور علاوہ برآں بہت سے ایسے عقائد کا اظہاربھی کیا جونہ صرف اسلامی
عقائدکے مکمل طورپر مخالف تھے بلکہ وہ عقائد نیچریہ ، فلاسفہ ، ہنود او ر
یہود و نصاریٰ کے عقائدکے عین مطابق و موافق بھی تھے۔
اس رسالہ کی اشاعت سے مرزا قادیانی کے خلاف نفرت بڑھی تواس کے ازالے کے لیے
اس نے ایک اور رسالہ ’’ازالہ اوہام‘‘ شائع کیاجس سے مرزا قادیانی کے مزید
کفریہ عقائد کھل کر سامنے آ گئے کیونکہ اس رسالہ میں مرزا قادیانی نے نہ
صرف معجزات انبیاء کا واضح انکار کیا بلکہ ملائکہ اور لیلۃ القدر کی بھی
عجیب و غریب تعریف بیان کی ۔ ایسے ہی کفریہ عقائد کو مدنظر رکھتے ہوئے سب
سے پہلے جماعت اہل حدیث کے سرخیل مولانا محمد حسین بٹالوی رحمۃاﷲ علیہ نے
ایک استفتاء تیار کیا جو انھوں نے اپنے استاد محترم سید نذیر حسین محدث
دہلوی رحمۃاﷲ علیہ کی خدمت میں پیش کیا توانھوں نے اس استفتاء کا تفصیلی
جواب دیتے ہوئے مرزاقادیانی اوراس کی ذریت کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج
قرار دیا۔ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اسی فتویٰ پر برصغیر
میں تمام مکاتب فکر کے دو سو سے زائد علما ء کے تائید ی دستخط کروا کر
مشتہر کیا ۔ یہی وہ فتویٰ تکفیر ہے جو سب سے پہلے مرزا قادیانی کے خلاف
شائع ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے:
’’نذیر حسین دہلوی نے تکفیر کی بنا ڈالی ، محمد حسین بٹالوی نے کفار مکہ کی
طرح یہ خدمت اپنے ذمہ لے کر تمام مشاہیر اور غیر مشاہیر سے کفر کے فتوے اس
پر لکھوائے۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 73، مندرجہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ75)
مرزا قادیانی مزید وضاحت کے ساتھ تحفہ گولڑویہ میں رقم طراز ہے کہ
’’مولوی محمدحسین جو اول المکفرین بانی تکفیر کے وہی تھے اور اس آگ کو اپنی
شہرت کی وجہ سے تمام ملک میں سلگانے والے میاں نذیر حسین دہلوی تھے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 129مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 215)
ایک اور مقام پرمرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ:
’’شیخ محمد حسین صاحب رسالہ اشاعۃ السنۃ جو بانی مبانی تکفیر ہے اور جس کی
گردن پر نذیر حسین دہلوی کے بعد تمام مکفروں کے گناہ کا بوجھ ہے۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 78 مندرجہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ 80)
مرزاقادیانی مذیدرقم طراز ہے کہ
’’غرض بانی استفتاء بٹالوی صاحب اور اول المکفرین میاں نذیر حسین صاحب ہیں
اور باقی سب ان کے پیرو۔‘‘
(دافع الوساوس صفحہ 31مندرجہ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 31)
الغرض ان تمام دلائل سے یہ بات پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے کہ مرزا قادیانی
اور اس کی ذریت کے خلاف سب سے پہلے فتویٰ کفر شائع کرنے اور اس کی بیخ کنی
کرنے کی سعادت جماعت اہل حدیث کو حاصل ہوئی ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک
نہیں کہ مرزا قادیانی کے خلاف علمائے دیوبند اور پیر مہر علی شاہ گولڑوی
رحمۃ اﷲعلیھم نے بھی اہم کردار ادا کیا لیکن اس کے باوجود یہ مانے بغیر
چارہ نہیں کہ مرزا قادیانی کے خلاف تحریک ختم نبوت کا آغاز کرنے والے بھی
اہل حدیث ہی تھے اور جن کے ساتھ مباہلے میں مرزا قادیانی عبرتناک انجام سے
دوچار ہوا وہ بھی اہل حدیث ہی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مولانا محمد حسین
بٹالوی، بشیر شہسوانی، سعداﷲ لدھیانوی، عبدالحق غزنوی، قاضی سلیمان منصور
پوری اور مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمۃ اﷲ علیہم اجمعین نے اس کے باطل دعووں
کی بنیا دپر اسے ہر جگہ رگیدا توتنگ آ کر مرزا قادیانی نے 15اپریل 1907ء کو
ایک اشتہار بعنوان ’’مولوی ثناء اﷲ کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘ شائع کیا جس میں
مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’بخدمت مولوی ثناء اﷲ صاحب ، السلام علیکم علی من اتبع الہدیٰ! مدت سے آپ
کے پرچہ اہل حدیث میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیشہ مجھے
آپ اپنے اس پرچہ میں مردود وکذاب اور دجال مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں
اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور کذاب اور دجال
ہے اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افتراء ہے۔ میں نے آپ سے
بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا۔ مگر چوں کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے
پھیلانے کے لیے مامور ہوں اور آپ بہت سے افتراء میرے پر کرکے دنیا کو میری
طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں اور ان تہمتوں اور ان الفاظ سے
یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہو سکتا۔ اگر میں ایسا ہی
کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر پرچہ میں مجھے یاد کرتے
ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہو جاؤں گا کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ مفسد
اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد
دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام وہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی
بہتر ہوتاہے، تاکہ خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے اور اگر میں کذاب اور مفتری
نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو
میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اﷲ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے
نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے
ہاتھوں سے ہے ، جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں
ہی وارد نہ ہوئیں تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ۔ یہ کسی الہام یا وحی
کی بنیاد پر پیشگو ئی نہیں محض دعا کے طور پر کرتا ہوں کہ اے میرے مالک
بصیر و قدیر جو علیم وخبیر ہے، جو میرے دل کے حالا ت سے واقف ہے ۔ اگر یہ
دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ء ہے اورمیں تیری نظر میں
مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افتراء کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے
مالک! میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کی
زندگی میں مجھے ہلاک کر دے اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش
کر دے۔(آمین)
مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثنا ء اﷲ تہمتوں میں جو مجھ پر
لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری
زندگی میں ہی ان کو نابود کر ۔ مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون وہیضہ
وغیرہ امراض مہلکہ سے بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے روبرو
اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدزبانیوں سے توبہ کرے جن کو
فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے ۔ آمین یارب العالمین۔
میں ان کے ہاتھ سے بہت ستایا گیا ہوں اور صبر کرتا رہا مگر اب میں دیکھتا
ہوں کہ ان کی بدزبانی حد سے گزر گئی،وہ مجھے ان چوروں اور ڈاکوؤں سے بھی
بدتر جانتے ہیں جن کا وجود دنیا کے لیے سخت نقصان رساں ہوتا ہے اور انھوں
نے تہمتوں اور بدزبانیوں میں آیت ﴿لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ﴾
پربھی عمل نہیں کیا اور تمام دنیا سے مجھے بدتر سمجھ لیاا ور دور دور ملکوں
تک میری نسبت یہ پھیلا دیا کہ یہ شخص درحقیقت مفسد اور ٹھگ اور دکاندار اور
کذاب اورمفتری اور نہایت درجہ کا بد آدمی ہے۔ سو اگر ایسے کلمات حق کے
طالبوں پر بداثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا مگر میں دیکھتا ہوں
کہ مولوی ثناء اﷲ انہی تہمتوں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا
ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تو نے اے میرے آقا اور میرے
بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے۔ اس لیے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت
کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اﷲ میں سچا
فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں درحقیقت مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق
کی زندگی میں دنیا سے اٹھا لے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے
برابر ہو مبتلا کر،اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر آمین ثم آمین!
﴿رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ
خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَ﴾
(مجموعہ اشتہارات جلد 2صفحہ 705طبع چہارم)
محترم قارئین! یہ تو تھا مرزا غلام احمد قادیانی کا وہ اشتہار جس کے نتیجے
میں مرزا غلام احمد قادیانی چند ماہ بعد ہی 26مئی 1908ء بروز منگل ہیضہ کے
موذی مرض میں مبتلا ہو کر واصل جہنم ہوا۔ مرزا کی موت کا تذکرہ کرتے ہوئے
اس کا بیٹا مرزا بشیر احمد اپنی کتاب ’’سیرۃ المہدی‘‘ جلد اوّل روایت
نمبر12 میں رقم طراز ہے:
’’حضرت مسیح موعود کی وفات کا ذکر آیا تو والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت
مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا مگر اس کے بعد تھوڑی
دیر تک ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کر سو گئے اور میں
بھی سو گئی لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک
یا دودفعہ رفع حاجت کے لیے آپ پاخانہ تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ نے زیادہ
ضعف محسوس کیا تو اپنے ہاتھ سے مجھے جگایا ،میں اٹھی توآپ کو اتنا ضعف تھا
کہ آپ میری چارپائی پر ہی لیٹ گئے اور میں آپ کے پاؤں دبانے کے لیے بیٹھ
گئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا : تم اب سو جاؤ ، میں نے کہا :
نہیں، میں دباتی ہوں اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا مگر اب اس قدر ضعف تھا
کہ آپ پاخانہ نہ جا سکتے تھے۔ اس لیے میں نے چار پائی کے پاس ہی انتظام کر
دیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے۔ اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے اور میں ہاتھ
پاؤں دباتی رہی ۔ مگر ضعف بہت ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور دست آیا اور
پھر آپ کو ایک قے آئی اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت
دگرگوں ہو گئی۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر12صفحہ 11-10 از مرزا بشیر احمد)
ذرا غور کیجیے! کس طرح مرزا قادیانی اپنے آخری فیصلے والے اشتہار کے نتیجے
میں ہی ہیضہ کی بیماری کے ساتھ واصل جہنم ہوا۔ جب کہ مولانا ثناء اﷲ
امرتسری رحمۃ اﷲ علیہ اس کے بعد چالیس سال تک زندہ رہے اوران کی وفات 1948ء
کو سرگودھا میں ہوئی۔ لیکن اس کے باوجود قادیانی ذریت اس بات کو ماننے کے
لیے تیار نہ تھی کہ مرزا اپنی دعا کے نتیجے میں ہی مرا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ
قادیانی جماعت کے جوشیلے خطیب اور قلم کار مرزا غلام احمد قادیانی کے مرید
خاص منشی قاسم علی نے اخبار الحق میں مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمۃ اﷲ علیہ
کو مباحثہ کا چیلنج دیا جس کا جواب مولانا امرتسری رحمۃ اﷲعلیہ نے اخبار
اہل حدیث یکم مارچ 1912ء کے شمارہ میں قبول کرکے دیا۔ مباحثہ کی بنیاد ی
شرائط درج ذیل تھیں:
-1 مباحثہ تحریری ہوگا۔
-2 ایک منصف محمدی اور دوسرا مرزائی ، تیسرا غیر مسلم ، مسلم الطرفین
سرپینچ۔
-3 دونوں منصفوں میں اختلاف ہو تو سرپینچ جس منصف کے ساتھ متفق ہوں گے وہ
فیصلہ ناطق ہوگا۔
-4 کل تحریر یں پانچ ہوں گی ، تین مدعی کی اور دو مدعا علیہ کی۔
-5 مولانا ثناء اﷲ امرتسری مدعی اور منشی قاسم علی قادیانی مدعا علیہ ہوں
گے۔
-6 مدعی کے حق میں فیصلہ ہو تو مدعا علیہ مبلغ تین سو روپیہ بطور انعام یا
تاوان مدعی کو دے گا ۔ مدعا علیہ غالب ہو تواس کو مدعی کچھ نہیں دے گا۔ غرض
رقم ایک طرف سے ہوگی۔
مباحثہ کی تاریخ 15اپریل1912ء مقرر ہوئی۔ مباحثہ میں مسلمانوں کی طرف سے
مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی رحمۃ اﷲعلیہ منصف نامزدہوئے اور قادیانیوں کی
طرف سے منصف منشی فرزند علی صاحب ہیڈ کلرک قلعہ میگزین فیروزپور مقرر ہوئے
اور سرپینچ کے لیے سردار بچن سنگھ صاحب بی اے گورنمنٹ پلیڈ ر لدھیانہ مقرر
ہوئے۔
15اپریل 1912ء کومبلغ تین سوروپیہ مولانامحمدحسن صاحب رئیس لدھیانہ کے
سپردکیاگیا کیونکہ انہیں امین کے طورپرنامزد کیاگیاتھا۔17اپریل 1912ء کو
3بجے دوپہر مباحثہ شروع ہوا۔ 21اپریل 1912کو مباحثہ کے سرپینچ سردار بچن
سنگھ نے مولانا ثناء اﷲ امرتسری کے حق میں فیصلہ دیا اور قادیانیوں سے مبلغ
تین سو روپیہ لے کر مولانا ثناء اﷲ امرتسری کو دے دیا۔ مولانا امرتسری رحمۃ
اﷲ علیہ نے اس تین سو کی رقم سے ’’فاتح قادیان‘‘ نامی رسالہ شائع کرکے
تقسیم کیا جس میں مباحثہ کی مکمل روئیداد بیان کی۔
محترم قارئین ! مرزا قادیانی نے مباہلے کے چیلنج تو اکثر علما کو دیے ،لیکن
مباہلہ صرف ایک عالم دین مولانا عبدالحق غزنوی رحمۃاﷲ علیہ (جو کہ اہل حدیث
تھے )سے 1893ء میں امرتسر میں ہوا ۔مرزاقادیانی عوام النّاس کواس مباہلے
میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے اشتہار بعنوان ’’اعلان عام :۔اس مباہلہ کی اہلِ
اسلام کواطلاع جو دہم ذیقعدروزشنبہ کوبمقام امرتسرعیدگاہ متصل مسجدخاں
بہادرحاجی محمدشاہ صاحب مرحوم ہوگا‘‘ میں رقمطرازہے کہ
’’اے برادران اہل اسلام کل دہم10ذیقعدروزشنبہ کو بمقام مندرجہ عنوان میاں
عبدالحق غزنوی اوربعض دیگرعلماء جیساکہ انہوں نے وعدہ کیاہے اس عاجز سے اس
بات پر مباہلہ کریں گے کہ وہ لوگ اس عاجزکوکافراوردجّال اور بیدین اوردشمن
اﷲ جلّشانہ ‘اوررسول اﷲﷺکاسمجھتے ہیں۔اس عاجز کی کتابوں کومجموعہ کفریات
خیال کرتے ہیں۔اوراس طرف یہ عاجزنہ صرف اپنے تئیں مسلمان جانتاہے بلکہ اپنے
وجودکو اﷲاوررسول کی راہ میں فداکیے بیٹھاہے لہٰذاان لوگوں کی درخواست پریہ
مباہلہ تاریخ مذکورہ بالامیں قرارپایاہے۔ مگرمیں چاہتاہوں کہ مباہلہ کی
بددعاکرنے کے وقت بعض اورمسلمان بھی حاضرہوجائیں کیونکہ میں یہ دعاکروں
گاکہ جس قدرمیری تالیفات ہیں ‘ان میں سے کوئی بھی خدااور رسولﷺکے فرمودہ کے
مخالف نہیں ہیں اورنہ میں کافرہوں۔اوراگرمیری کتابیں خدا اوررسولﷺکے فرمودہ
سے مخالف اورکفرسے بھری ہوئی ہیں توخداتعالیٰ وہ لعنت اور عذاب میرے پرنازل
کرے جوابتدائے دنیاسے آج تک کسی کافربے ایمان پرنہ کی ہو ۔ اورآپ لوگ آمین
کہیں۔کیونکہ اگرمیں کافرہوں اورنعوذباﷲدین اسلام سے مرتداوربے ایمان
تونہایت برے ایمان سے میرامرناہی بہترہے اور میں ایسی زندگی سے بہزاردل
بیزار ہوں۔اوراگرایسانہیں توخداتعالیٰ کی طرف سے سچافیصلہ کردیگا۔وہ میرے
دل کوبھی دیکھ رہاہے اورمیرے مخالفوں کے دل کوبھی بڑے ثواب کی بات ہوگی
اگرآپ صاحبان کل دہم ذیقعدکودوبجے کے وقت عیدگاہ میں مباہلہ پرآمین کہنے کے
لیے تشریف لائیں۔والسلام۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ349ازمرزاقادیانی طبع چہارم)
اسی مباہلہ کاتذکرہ کرتے ہوئے مرزابشیراحمدابن مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’انہی دنوں میں آپ نے ایک دن یعنی 10ذیقعدہ 1310ھ مطابق 27مئی 1893ء
کومولوی عبدالحق غزنوی کے ساتھ امرتسر کی عیدگاہ کے میدان میں مباہلہ
فرمایا۔۔۔۔۔۔۔۔اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس مباہلہ میں کوئی
میعادمقررنہیں کی گئی تھی اورنہ ہی فریق مخالف کے لیے بددعاکی تھی بلکہ صرف
یہی دعا کی تھی کہ اگر میں جھوٹا اور مفتری ہوں توخداتعالیٰ وہ لعنت میرے
پرنازل کرے جوابتدائے دنیاسے آج تک کسی کافربے ایمان پرنہ کی ہو۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ380‘381روایت نمبر420طبع چہارم)
محترم قارئین!مرزاقادیانی نے 2اکتوبر1907ء کوایک اصول وضع کرتے ہوئے بیان
جاری کیاکہ
’’مباہلہ کرنے والوں میں سے جوجھوٹا ہوتاہے وہ سچے کی زندگی میں ہی ہلاک
ہواکرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں اتنی بات صحیح ہے کہ سچے کے ساتھ جو جھوٹے مباہلہ
کرتے ہیں تو وہ سچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوجاتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد 5صفحہ327‘328ازمرزاقادیانی طبع چہارم)
اس اصول کو وضع کرنے کے چند ماہ بعد 26مئی1908ء کوالہٰی فیصلہ کے تحت ہیضہ
کے مرض سے اپنے مباہل مولاناعبدالحق رحمۃاﷲعلیہ کی زندگی میں ہی ذلت ناک
موت کا شکارہوا ۔اور مولانا عبدالحق غزنوی رحمۃ اﷲ علیہ مرزا قادیانی کی
عبرتناک موت کے بعد تقریباًنوسال زندہ رہے اور 23رجب 1335ھ بمطابق16
مئی1917ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
محترم قارئین!صوفی عبدالحق غزنوی ؒؒؒؒؒؒرحمۃ اﷲ علیہ کاایک اورمباہلہ حافظ
محمدیوسف کے ساتھ ہوا جس کا تذکرہ کرتے ہوئے مرزاقایانی ایک اشتہار میں
رقمطراز ہے کہ
’’پھرتکفیرکافتویٰ تیارہونے کے بعداس طرف سے بھی مباہلہ کااشتہاردیاگیا
جوکتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ بھی شامل ہے اورابھی تک کوئی شخص مباہلہ
کے لیے مقابلہ پرنہیں آیا مگرمجھ کو اس بات کے سننے سے بہت خوشی ہوئی کہ
ہمارے ایک معززدوست حافظ محمدیوسف صاحب نے ایمانی جوانمردی اورشجاعت کے
ساتھ ہم سے پہلے اس ثواب کو حاصل کیا۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حافظ صاحب
اتفاقاًایک مجلس میں بیان کررہے تھے کہ مرزاصاحب یعنی اس عاجزسے کوئی آمادہ
مناظرہ یامباہلہ نہیں ہوتا اوراسی سلسلہ گفتگومیں حافظ صاحب نے یہ بھی
فرمایا کہ عبدالحق نے جومباہلہ کے لیے اشتہاردیاتھااب اگر وہ اپنے تئیں
سچاجانتاہے تومیرے مقابلہ پرآوے میں اس سے مباہلہ کے لیے تیارہوں تب
عبدالحق جواسی جگہ کہیں موجودتھاحافظ صاحب کے غیرت دلانے والے لفظوں سے
طوعاًوکرہاًمستعدمباہلہ ہوگیا اورحافظ صاحب کاہاتھ آکرپکڑلیاکہ میں تم سے
اسی وقت مباہلہ کرتاہوں مگرمباہلہ فقط اس بارہ میں کروں گاکہ میرایقین ہے
کہ مرزاغلام احمدومولوی حکیم نورالدین اورمولوی محمداحسن یہ تینوں مرتدین
اورکذابین اوردجالین ہیں حافظ صاحب نے فی الفوربلاتامل منظورکیاکہ میں اس
بارہ میں مباہلہ کروں گاکیونکہ میرایقین ہے کہ تینوں مسلمان ہیں تب اسی بات
پرحافظ صاحب نے عبدالحق سے مباہلہ کیا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ازمرزاقادیانی جلد1صفحہ324‘325طبع چہارم)
محترم قارئین !اس مباہلہ کا الہٰی فیصلہ کچھ یوں ہواکہ یہی حافظ محمدیوسف
صاحب وقوع مباہلہ کے کچھ عرصہ بعد قادیانیت کوترک کرکے نہ صرف مسلمان ہو
گئے بلکہ مرزاقادیانی اور اس کی ذریت کو علمی میدان میں ناکوں چنے چبواتے
رہے ۔یہی وجہ تھی کہ مرزاقادیانی کو حافظ یوسف صاحب کے خلاف اشتہارات
اورکئی تحریریں شائع کرناپڑیں جن میں سے ایک اشتہار ضمیمہ تحفہ گولڑویہ
مندرجہ روحانی خزائن جلد17صفحہ37پرموجودہے۔ننننن
|