یہ لمحہ فکریہ ہے کہ غیر مسلم ممالک میں مذہبی تہوار آتے
ہی سب کچھ سستا ہو جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں ادھر چاند اپنا رُخ زیبادکھاتا
ہے ادھر ساہوکارخدا کو بھلاتا ہے اور لوٹ مار کا بازار گرم کر دیتا ہے مقام
افسوس تو یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ
وہ ان وعدوں اور دعووں کا پاس رکھ سکیں جو حکومتیں ماہ صیام کی آمد سے پہلے
بڑھ چڑھ کر کرتی ہیں دعوے پرکشش ہوتے ہیں مگر حقائق تلخ ہیں کہ لفاظی ہی
لفاظی ہے لیکن کیاکریں کہ ’’کرسی بچاؤ ‘‘مہم اور’’ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ‘‘سے
فرصت ہی نہیں ملتی۔ اب دیکھے نا کہ پاناما کرپشن سے بات چلی اور بنی گالہ
زمین تک پہنچ گئی ہے یعنی تماشا دیکھنے کے لیے کاوش کرنے والوں کو ہی تماشا
بنا دیا گیا لیکن اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ شروع سے ہی عیاں تھا کہ
ان تلوں میں تیل نہیں مگر کچھ خوش فہموں کی’’ ضد‘‘ تھی کہ اب کہ وراثتی
شہنشاہیت اور بے لگام ا فسر شاہی کا سورج’’ غروب‘‘ ہو جائے گا مگر پیادوں
پر کڑی کمان رکھنے والے نہ صرف موقع شناس نکلے بلکہ رفتہ رفتہ حالات کا
دھارا بھی موڑتے چلے گئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ باالفرض کچھ انہونی ہو بھی
گئی تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا کہ نیچے سے اوپر تک آوے کا آوا پہلے ہی
بگڑا ہوا ہے یعنی حالات یہ ہیں کہ اک طرف میاں کا جوش ہے اور دوسری طرف خان
خاموش ہے اور عوام کے سامنے شہ زور بجٹ باہوش ہے ایسے میں چودہ سوالات کا
جواب بھی ویسا ہی ہوگا جیسا کہ پاناما حساب کتاب تھا تاہم ایک تلوار ہے
جو’’وقت ٹپاؤ‘‘سوچ کے تحت تحریک انصاف کے سر پر لٹکا دی گئی ہے علاوہ ازیں
عوام پر واضح کر دیا گیا ہے کہــ’’اس حمام میں سبھی ننگے ہیں ‘‘۔اس وقت
حکومتی بساط پر ماہر کھلاڑی اپنی اپنی بازی کھیل رہے ہیں کہ ماہ صیام کے
آغاز سے دو دن پہلے بجٹ دھماکہ ہوا جو کہ شاطر دماغوں کی کارستانی ہے یہ تو
طے ہے کہ سرکش لوگوں کے نزدیک یہ لوٹ مار کا مہینہ ہے ایسے میں گرتی ہوئی
دیوار کو ایک دھکا اور دو والی بات بنی ہے کہ عوام کو پتہ ہی نہ چلے کہ
زیادتی کون کر رہا ہے ؟بانئی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا
تھا :’’ اگر ہم پاکستان کو خوش حال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں پوری توجہ
لوگوں بالخصوص غریب طبقے کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی ‘‘۔جبکہ
یہاں غریب کو اس لیے برداشت کیا جاتاہے کہ اگر غریب ختم ہو جائیں گے تو
امیر کیسے امیر کہلائیں گے ایسے میں ہم خوشحال اور ترقی یافتہ وطن کے خواب
کیسے دیکھ سکتے ہیں ؟
اب صورتحال یہ ہے کہ چلچلاتی دھوپ اور لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں ن لیگ کے دور
حکومت کا آخری بجٹ عام آدمی پر غضب ڈھا گیا ہے ’’تختۂ ڈار‘‘ پر غربا جھول
رہے ہیں اور رمضان بازاروں میں دوکاندار انھیں تول مول رہے ہیں حکومتی
کارندوں کے پاس تاحال انتخابی مہم کی مصروفیت ہے جس کیوجہ سے ان چھوٹی
چھوٹی باتوں پر نظر نہیں رکھی جاسکتی ویسے بھی عوامی سہولیات پر خرچ کی
جانے والی رقم ٹی وی اشتہارات پر خرچ کی جارہی ہے اور عوام کو یہ باور
کروایا جا رہا ہے کہ قیام پاکستا ن سے لیکر آج تک جو بھی اچھا کام یا
منصوبہ بنایا گیا ہے وہ سب کا سب اسی حکمران جماعت کی کاوشوں اور مخلصانہ
قیادت کا نتیجہ تھا اور جو کچھ خراب کیا گیا ہے وہ دوسری جماعتوں نے کیا ہے
یہاں تک کہ تحریک انصاف کے دھرنے میں عوامی سیکیورٹی پر اتنے پیسے خرچ ہو
گئے کہ ابھی تک وہ خسارہ پورا نہیں ہو رہا ویسے خسارہ تو جیب سے بھی پورا
ہو سکتا تھا اور اخلاص کا تقاضا بھی یہی تھا مگر شاید کسی قصیدہ گو نے اس
طرف توجہ نہیں کروائی مگر وہ بھی کیا کریں کہ انھیں بھی سمیٹنے اور لپیٹنے
سے فرصت نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ آج کل تمام سہرا نویسی کرنے والے بجٹ کو
تنقید کا نشانہ بنانے والوں کو معاشیات کا سبق دے رہے ہیں ادھر جناب
وزیراعظم نے کہا ہے کہ بجٹ غریبوں کو دیکھ کر بنایا ہے کاش غریبوں کے لیے
بنایا ہوتا کیونکہ کسانوں کے ساتھ بجٹ والے دن جو سلوک ہوا اس سے ویسے بھی
ثابت ہو چکا ہے کہ یہ کس حد تک غریبوں کے لیے ہے ؟یقیناً وڈیرہ شاہی اور
افسر شاہی نظام طے کر چکا ہے کہ عام آدمی کی حیثیت اور اہمیت ہی کچھ نہیں
ہے اور حالیہ بجٹ میں اسے عملی شکل دے دی گئی ہے کہ عام آدمی کی کم سے کم
اجرت15ہزار روپے کی گئی ہے ۔کیا اس منہ زور مہنگائی میں ایک گھر کا خرچ صرف
پندرہ ہزار میں چل سکتا ہے ؟ مکان کاکرایہ ، بچوں کی فیس ، بجلی ، پانی اور
گیس کے بل ، اشیائے خوردو نوش ، لباس ،یونیفارم ،مہمان داری ،علاج معالجہ
غرضیکہ اتنے اخراجات کہ حساب سے باہر ہیں اس پر گلہ تو یہ کہ بنیادی
ضروریات زندگی کو مزید مہنگا کر دیا گیا ہے ایسے میں عام آدمی کس کے آگے
سوال کرے گا اور کیسے کرے گا کہ جنھوں نے سوال کیا تھا وہ بھگت رہے ہیں ۔فیض
احمد فیض نے شاید اسی دن کے لیے کہا تھا کہ
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
حالانکہ یہ جمہوری حکومت ہے اگر جمہوری طرز حکومت دیکھنا ہے تو حضرت عمر
فاروقؓ کا دیکھیں کہ جن سے ایک عام آدمی یہ سوال کر سکتا تھاکہ آپ نے یہ
کرتا کیسے بنا لیا جبکہ تقسیم کی گئی چادروں سے یہ کُرتا نہیں بن سکتا تھا
تو حضرت عمر ؓ کو یہ وضاحت بیٹے سے دلوانا پڑی تھی کہ میں نے اپنی چادر
اپنے والد کو گفٹ کی تھی تو یہ کرتا بنا تھا۔ مسیحی مزدور کا قصہ تو سب نے
سنا ہی ہوگا ویسے یہ الفاظ میں نے حال ہی میں سنے بھی ہیں ’’دینو اپنی بیوی
کو بار بار ایک ہی بات سمجھا رہا تھا کہ پلیئے لوکے! بس اک مہینے دی گل اے
۔۔صبر کر ! فیر سب کچھ سستا ہو جاسی ۔۔بس اے مسلماناں دا مہینہ لنگ جاندے ،عید
توں اگلے دن ہی سب کجھ پہلی قیمت تے آجاسی ،فیرمیں تینوں تے بنتو نوں نوے
کپڑے لے دے ساں۔‘‘آج سوال یہ ہے کہ حالیہ بجٹ کو عوامی بجٹ کہنے والے اتنے
پیسوں میں کیا اپنا گھریلو بجٹ بنا سکتے ہیں ؟جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ حال
ہی میں مہنگائی کا رونا رو کر وزراء نے اور دیگر اعلی عہدے داران نے
تنخواہوں میں اضافے کروائے تھے کیا مہنگائی صرف شرفا ء کو متاثر کرتی ہے
جبکہ وہ کئی دیگر کاروبار چلا رہے ہوتے ہیں تو ایسے میں یہ صریحاً نا
انصافی نہیں تو کیا ہے؟کیا جمہوری اسلامی ریاست کا طرز حکومت ایسا ہوتا ہے
؟
یقینا عام آدمی صبر کر ہی لے گامگر جب اس کا صبر پڑے گا تو زمین کم پڑ جائے
گی کیونکہ اب ہر کوئی تو خوف آخرت سے راتوں کو گشت نہیں کرتا جیسا کہ ایک
رات سلطان محمود غزنوی رات کے وقت معمول کے مطابق گشت پر تھے کہ ایک تندور
کے پاس کسی شخص کو سویا ہوا دیکھا تو اسے اٹھا کر پوچھا کہ وہ کون ہے ؟جواب
میں اس شخص نے بتایا کہ وہ غریب مزدور ہے دن بھر مزدوری کرتا ہے اور رات کو
اس تندور کے پاس آکر سو جاتا ہے ۔سلطان نے پوچھا :’’ اس سردی میں اس کی رات
کیسے گزرتی ہے‘‘؟ تو اس نے جواب میں جو کہا اس نے سلطان کو ہلا کر رکھ دیا
۔مزدور نے کہا :’’ جناب ! نصف رات آپ کے انداز میں گزرتی ہے اور نصف آپ سے
اچھے انداز میں گزرتی ہے ۔‘‘سلطان نے بڑی حیرت سے پوچھا کہ وہ کیسے ؟ تو
مزدور نے کہا :’’ جب تک تندور گرم رہتا ہے تو آپ کی جیسی نیند سے لطف اندوز
ہوتا ہوں، جب تندور ٹھنڈا ہوجاتا ہے تو اٹھ کے عبادت شروع کر دیتا ہوں جو
کہ آپ کے مقابلے میں وقت کا بہترین استعمال ہے اور خدا سے پوچھتا ہوں کہ اس
نے ہم پر غیر منصف بادشاہ کیوں مسلط کیا ہے ۔۔؟یقیناًروز محشر اس کا جواب
مل جائے گا ۔۔!‘‘تو سلطان نے تو اس کے بعد ایسے انتظامات کئے کہ مثالیں رقم
ہوئیں اور جنھیں سب خبر ہے مگر وہ بے خبر بنے بیٹھے ہیں یقینا تیاری تو
رکھی ہوگی اسی لیے تو یہ ڈھول پیٹا جا رہا ہے کہ ایسا ترقیاتی بجٹ آج تک
پیش نہیں کیا گیا ہے ۔دکھ تو یہ ہے کہ خوشامد کر کے اپنا پیٹ بھرنے والوں
کی دن دوگنی رات چوگنی ترقیاں ہو رہی ہیں اسی وجہ سے وہ حکمرانوں کو اچھا
بولتے رہتے ہیں لیکن سب کی آنکھوں کی بناوٹ ایک سی ضرور ہوتی ہے مگر دیکھنے
کا انداز الگ ہوتا ہے یعنی کہ آپ خود کو شیر سمجھ رہے ہوتے ہیں مگر دیکھنے
والا آپ کو گدھا سمجھ رہا ہوتا ہے اس لیے ڈریں اس کامیابی سے جو آپ کو بے
وقار کر دے مگر المیہ یہ ہے اس اندھی اورشتر بے مہار سیاست میں سبھی بے
وقار چکے ہیں اور جو بچے تھے انھیں بھی اس منصوبے کے تحت کہ’’ ہم تو ڈوبے
ہیں صنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے‘‘ ساتھ لپیٹ لیا گیا ہے اب حالات یہ ہیں جس
دیئے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا ۔
سب سے زیادہ نا پسندیدہ چیز ماہ مقدس میں نام کے علما ء، اداکاروں ،بھانڈوں
،میراثیوں اور فلمی اداکارؤں کا دینی پروگرامز میں روحانی مبلغ بن کر ہمیشہ
سے بیٹھنا ہے اس پر سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیاپر عوام چیختے رہے یہاں تک کہ
پیمرا کو درخواست بھی دی گئی مگر سبھی تماش بین بنے بیٹھے رہے اور اب وہی
سب لوگ اسلام اور اخلاقی اقدار و روایت کی دھجیاں اڑاتے دکھائی دے رہے ہیں
مقام افسوس ہے کہ آزاد اسلامی ریاست کا مقصد اور نظریہ پامال کر دیا گیا ہے
مگر کس کس چیز کا ماتم کیا جائے کہ جب فہم پر بے حسی کا پردہ پڑھ جائے تو
صحیح اور غلط کی تمیز ختم ہوجاتی ہے ۔جیسے ایک نوجوان جیل میں بھرتی ہوا
۔اس کی ڈیوٹی جیل میں لگی تو اس کو جیلر نے بتایا کہ چونکہ ہماری تنخواہ کم
ہوتی ہے تو اس لیے اوپر کی آمدنی یعنی رشوت بہت ضروری ہے ،لیکن ہم اس کو
رشوت نہیں بلکہ ’’چائے پانی ‘‘کہتے ہیں اور اس میں کوئی برائی نہیں یہ
ہمارا حق ہے ساتھ ہی اس نے کہا کہ فلاں قیدی فوت ہو گیا ہے ۔اس کی لاش لیکر
اس کے گھر والوں کو دے آؤ اور ساتھ میں چائے پانی ضرور لے کے آنا ۔اس نئے
نوجوان نے پوچھا : ’’سر !اتنی افسوسناک خبر اس کے گھر والوں کو سنا کر چائے
پانی کیسے طلب کریں گے ‘‘؟ جیلر نے ایک پرانے پولیس والے کو ساتھ روانہ کیا
کہ اس کی بھی ٹریننگ کرا لاؤ ۔جب یہ دونوں لاش لیکر متعلقہ گھر پہنچے تو
تجربہ کار پولیس والے نے اس قیدی کے گھر والوں سے کہا : ’’دیکھیں جی اس
بندے کو چار سال کی سزا ہوئی تھی اور ابھی دو سال ہی گزرے ہیں اور یہ مر
گیا ۔۔۔اب باقی کی دو سال سزا پوری کرنے کے لیے بندہ دو ۔۔۔یا پھر چائے
پانی نکالو ‘۔‘ تومسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران آج تک درست ترجیحات کا تعین
نہیں کر سکے بہر صورت اب عوامی مسائل کو حل کرنا ہوگا اور ایساترجیحی
بنیادوں پر کرنا ہوگا ورنہ عوامی اعتماد کبھی بحال نہیں ہو سکتا کیونکہ آج
عوام باشعور ہیں اور سب جان چکے ہیں کہ بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی چلا
جا رہا ہے جبکہ عوام کو معیاری ریلیف نہیں ملا ،گڈ گورننس کا خواب بھی خواب
ہی رہ گیا اور بنیادی سہولیات کا یہ عالم کہ کینڈل لائیٹ سحری اور پسینے سے
شرابور افطاری نے ہذیانی کیفیت میں مبتلا کر رکھاہے اگر آج کرپشن ،بے جا
اسراف اور حکومتی اہلکاروں کو، ناجائز مراعات نہ دی جائیں ،امن و امان ،عدل
و انصاف حقوق و فرائض کی عام تقسیم ہو ،انسانیت کی قدر ہو تو اﷲ پاک زمین و
آسمان کے خزانے کھول دیں گے جیسا کہ خلفائے راشدین کے دور حکومت میں تھا
مگر اس کے لیے نفس کی غلامی سے آزاد ہونا ہوگا جبکہ یہاں تو یہ عالم ہے کہ
یوم اقبال ختم ہوچکا ہے اور یوم تکبیر پر محسن پاکستان کا ذکر تک کیا نہیں
گیا اور اہم مقامات پر قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تصاویر بھی سائیڈ پر
ہوتی نظر آرہی ہیں سقراط نے کہا تھا کہ میں کسی کو کچھ نہیں سکھا سکتا بس
سوچنے پر آمادہ کر سکتا ہوں توتاریخ گواہ ہے کہ جب کسی ریاست میں انصاف
نہیں ہوتا تو سکون اٹھ جاتا ہے ، امن نہیں رہتا تو افراتفری اور انتشار
پیدا ہوجاتا ہے ، محنت کش کے حقوق کا دفاع نہ کیا جائے تو بھوک غالب آجاتی
ہے اور جب اقوام اپنے محسنوں ، مشاہیر اور اپنی اقدار کی بھلا دیتی ہیں تو
ان کی داستان نہیں ملتی داستانوں میں- |