انوکھی ایف۔ آئی۔ آر سے۔۔ انوکھے انصاف تک

سفاکیت کی مثال بننا ہو یا نمونہء کمال ۔۔ ہر ہر موقع؂ پر قدرت خوب مواقعوں سے نوازتی ہے ۔ مگر قدرت ظلم، جبر،تنگی و مشقت کے بعد ہی امن، نرمی کشادگی و آسانی کی راہیں وا کرتی ہے ۔اس ظلم و جبر سے نجات کے بعد امن و سکون کی قدر و قیمت بھی بخوبی ہو جاتا ہے اور ظلم و جبر میں کون ظالم و جابر کے ساتھ رہا اور کون اس کے خلاف سینہ تان کر سیسہ پلائی دیوار بنتا ہے یہ راز بھی خوب کھلتے ہیں۔ آج سے 3 سال پہلے سر زمینِ پاکستان پرحکرانوں نے ایک بدترین لقب اپنے نام کروانے کے لئے سفاکیت اور ریاستی دہشتگردی کی وہ مثال قائم کی کہ دنیائے عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔مگر شاید یہ حکمران قدرت کے اس قانون سے کہ’’ ہر بد ترین ظلم کے مقابلے میں امن کی بھی اعلٰی مثال قائم کی جاتی ہیــ‘‘ سے بے خبر تھے۔بیرئیرز ہٹانے کے نام پر پولیس نیک نیتی کے ساتھ چوروں کی طرح رات کے دوسرے پہر ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر کے باہر موجود تھی۔ پھر نجانے کیا ہوا مگر دیکھتے دیکھتے ہی چودہ زندہ انسان اپنی زندگیوں سے گئے۔ نجانے کیا آفت بپا تھی کہ سو سے زائد معصوم شہری گولیوں سے یوں چھلنی تھے کی جالی کا تصور اٹھتا تھا پھر اک غیبی طاقت نے اک شریف انسان گلو بٹ (اسے شریف عدالت نے قرار دیا)کے ہاتھوں منہاج القرآن انٹرنیشنل کے سیکرٹریٹ پر موجود اور سیکرٹریٹ کی ملکیت کروڑوں کی گاڑیوں کو چکنا چور کر دیا۔بیرئیرز ہٹانے کے لئے آئی ہوئی پولیس سے نجانے کیوں مگر یہ سب ہوا۔۔

انوکھے پن کی مثال یہی ختم نہیں ہوتی بلکہ خود کو امیرالمومنین سے تشبیہ دینے والے محترم خادمِ اعلی بے خبر رہے کہ ان کے ہمسائے میں ان کے مالک ( جن کا یہ خود کو خادم پیش کرتے ہیں) لہو لہان ہیں۔ اور دہائی دے رہے ہیں کہ اس ظلم کی جبر و اذیت کی وجہ تو بتائی جائے۔مگر کہاں جی۔۔ نجانے کیوں مگر 24گھنٹوں میں سے 4 گھنٹے سونے والے خادمِ اعلی 16-17 جون کی رات 12 گھنٹے سے بھی زائدان سب دہائیوں سے بے خبر سوتے رہے۔قارئینِ کرام! آپ سب کو یہ انوکھا لگ رہا ہوگا مگر میرے نزدیک اس سے بھی انوکھا یہ تھا کی اس سب قتلِ عام کے بعدخادمِ اعلی منظرِ عام پر تشریف لائے اور کسی جمہوری ٹھیکیدار کی طرح چٹکیاں بجاتے ہوئے اعلان کیا کہ اس معاملے میں اک انگلی بھی ان کی جانب اٹھی تووہ بناء کسی چوں چراں کے استعفٰی دے دیں گے۔ انوکھی مثالوں کی فہرست یہیں نہیں تھمتی بلکہ کسی غیر یقینی تسلسل کے ساتھ جاری رہتی ہے ہوا یوں کہ حکومت کی جانب سے نا حق قتل ہونے والوں کے خلاف ایف۔آئی۔آر کاٹی گئی اور مقتولوں کے ورثاء نے اس تفتیشی طریقہ کار و ٹیم کا مکمل بائیکاٹ کیا اور مطالبہ کیا کہ مقتولوں کے ورثاء کو اعتماد میں لیتے ہوئے تفتیشی ٹیم تشکیل دی جائے ۔ ایسا ہونا نا ممکن ہر گز نا تھا مگر یوں ہوجاتا تو شاید انوکھی مثالوں کا تسلس ٹوٹ جاتا۔ اور جب شروع سے ہی ہر پہلو خود کو انوکھا ثابت کرتا آرہا تھا تو جسٹس باقر نجفی و تفتیشی ٹیم کو پیچھے رہنا مناسب نا لگا اور محترم باقر نجفی نے اپنی رپورٹ میں خادم اعلی کو قاتلِ اعلی ثابت کرتے ہوئے انگلی اٹھانے کی بجائے پورا ہاتھ ان کے سر پر رکھ دیا ۔ خادمِ اعلی و ٹیم اس موقع پر گھبرائے تو ضرور مگر انہوں نے چٹکیوں میں اس رپورٹ کو چھپانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ۔ ہائے۔۔ مگر یہ میڈیا ۔۔۔

خبر کا نشر ہونا تھا کہ اک طوفان برپا ہوگیا شاید اوور کانفیڈنس میں محترم یہ کمیشن خریدنا بھول گئے تھے بہرحال انہوں نے اس عوام کو ’’اک واری ہور‘‘ کا لولی پاپ دیتی ہوئے اک اور کمیشن تشکیل دیا ۔یہ انوکھی داستان قدم قدم پر انوکھے مرحلوں میں داخل ہو تی ہوئی ابھی اپنا ایک سال مکمل کرنے کو ہی تھی کہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے احتجاجی دھرنے کا اعلان کر دیا۔ اس انوکھے اعلان کا ہونا تھا کہ پولیس نے اپنے ٹھیکیداران اور مالکان کے حکم پر انوکھی شرارتیں شروع کر دیں۔ گھروں پر بے جا چھاپے، بناء کسی جرم کے گرفتاریاں، لوٹ مار اور نجانے کیا کیا۔۔ یہ بھی شاید انوکھا نہیں تھا ۔انوکھا یہ تھا کہ 14 چراغوں کو اپنی آنکھوں سے بجھتا دیکھ کر سو سے زائد کو گولیوں سے چھلنی ہوتا دیکھ کر بھی پاکستان عوامی تحریک کے کارکن لاکھوں کی تعداد میں اس دھرنے کا حصہ تھے۔پاکستان کی تاریخ کاسب سے بڑا دھرنا اور منظم دھرنا اپنے آپ میں انوکھے پن کے کئی پہلو سموئے ہوئے تھا۔ بعض نادانوں کو اس دھرنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی تو الٹے سیدھے سوالوں کے نشتر کمانوں میں کس کر سیدھا دھرنے کے شرکاء پر تانے گئے اور شرکائے دھرنا کی جانب سے یکبارگی میں جواب دیا گیا کہ
’’ نام نہاد پاکیزہ جمہوریت کے نام نہاد پاکیزہ اور اہل ٹھیکیدارو! وہ جو اک سال پہلے ددنیا اور کیمرے کی آنکھ کے سامنے ظلم و بربریت کی کربناک مثال قائم کی تھی نا ہم اسی سفاکیت کے ستائے ہوئے ہیں۔ ہمیں قرآن و قانون کے مطابق خون کا بدلہ خون چاہیئے۔ہمیں تمہارے قارون جتنے خزانوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہمیں اپنے عزیزوں کے بہنے والے ناحق خون کا بدلہ چاہیئے۔ظلم در ظلم یہ کہ تم انصاف کے ٹھیکیداروں نے ایک سال گزر جانے کے بعد تک ہماری ایف۔آئی ۔آر تک درج نہیں کی۔ تمہاری پاکیزہ جمہوریت ہم سے یہ حق بھی چھینے ہوئے ہے مگر یاد رکھو ’ہم قصاص لیے کے رہیں گے‘ ‘۔

تاریخ گواہ ہے کہ نہ ایسا قتلِ عام ہوا اور نہ کسی پارٹی کے ورکرز نے فرط ِمحبت میں اپنے قائد کی غیر موجودگی میں اس کے گھر کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیئے۔ نہ کسی پارٹی کی ماؤں بہنوں نے اپنے گھروں کو داؤ پر لگاتے ہوئے اپنے جبڑوں پر گولیا کھا کر شہادتیں پیش کیں اور نا ہی کسی پارٹی میں کبھی مقتولین کے ورثاء نے کروڑوں روپوں کی آفرز ٹھکراتے ہوئے قصاص کے نعرے کو بلند کیا۔ اس پورے سانحے میں جہاں سفاکیت وظلم و جبر کی مثالیں ہیں۔ وہیں امن پسندی، خلوص و وفا اور قربانی کی بھی اعلٰی مثالیں موجود ہیں۔

خیر جب اس انوکھے دھرنے نے جمہوریت کے ٹھیکیداروں کی نیندیں حرام کیں تو انہوں نے نیند میں ڈوبے ہوئے ہی اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے اس معاملے میں facilitator بننے کی درخواست کر دی جسے انہوں نے اپنا فرض سمجھتے ہوئے قبول کیا۔ اور پھر یوں اس انوکھی واقعے کی ایف۔آئی۔آر وقت کے چیف آف آرمی سٹاف کی مداخلت سے کٹی جس میں مقتولین کی جانب سے نامزد ملزمان کے نام شامل کیئے گئے۔ امید تو یہ تھی کہ راحیل شریف صاحب اسے کسی پارٹی کا مسئلہ جاننے کی بجائے عوام کی مشکل جانتے ہوئے حل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے اور شاید انہوں نے کی بھی ہو مگر وہ کوششیں منظرِ عام پر نا آسکیں۔ اور راحیل شریف صاحب کا عہدے سے فارغ ہونا تھا کہ عدالت نے بھی مناسب وقت دیکھتے ہوئے بڑے مگرمچھوں کے نام ہی ایف۔آئی۔آر سے نکال دیئے۔ اب یہ سارا سانحہ انوکھی ایف۔آئی۔آر سے انوکھے انصاف تک کا منتظر ہے۔ اور یقینا اس کا سانحہ کا انجام اور اس کیس کا فیصلہ انوکھا ہی ہوگا مگر سوال ہے کب؟؟ تو جواب یہ ہے کہ جب یہ قوم اپنی اس انوکھی خاموشی کو توڑے گی تو قارون کے خزانوں کا خاتمہ بھی ہوگا فرعون کے ظلم کا بھی اور انصاف بھی اس قوم کا مقدر ہوگا۔

Iqra Yousaf Jami
About the Author: Iqra Yousaf Jami Read More Articles by Iqra Yousaf Jami: 23 Articles with 23542 views former central president of a well known Students movement, Student Leader, Educationist Public & rational speaker, Reader and writer. student
curr
.. View More