جناب وزیراعظم نے پہلے بھی غریب مریضوں کی حالت زار
اور ہسپتالوں میں ہونے والے ناروا سلوک کا اعتراف کیا تھا اور اب کرپشن کے
ناسور پر بھی صریحاً کہا کہ ملک میں’’ اتنی‘‘ کرپشن ہے کہ اگر اس پر ہاتھ
ڈالیں گے تو ترقیاتی منصوبے انجام کو نہیں پہنچ پائیں گے تاہم اس بیان
پرخان صاحب نے ہمیشہ کی طرح میاں صاحب کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ میاں
صاحب کہتے ہیں وہ کرپشن پکڑیں یا ترقیاتی کام کریں انھوں نے مزید کہا کہ
میاں صاحب کو خوف ہے اگروہ کرپشن کے خلاف قدم اٹھائیں گے تو خود پکڑے جائیں
گے کچھ ایسے ہی ملے جلے بیانات بعض سیاسی مخالفین ،عوامی اور سماجی حلقوں
سے بھی سننے کو ملے اور جناب سینیٹر سراج الحق جماعت اسلامی نے کرک میں
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’وزیراعظم صاحب ! کوئی سیاسی اخلاقیات بھی
ہوتی ہیں پانامہ الزامات پر تین وزرائے اعظم نے عدالت بلائے جانے کے خوف سے
استعفی دے دیا مگر آپ عدالت کی طرف سے مجرم قرار دئیے جانے کے با وجود عہدے
سے چمٹے ہوئے ہیں ‘‘۔اب صورتحال یہ ہے کہ یہ صرف سیاسی اکھاڑ پچھاڑ نہیں
بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کرپشن ، بد عنوانی اور بے حسی اس قدر بڑھ گئی ہے
کہ اس پر اگر ہاتھ ڈالا گیا تقریباً سبھی دھر لئے جائیں گے اب مسئلہ یہ ہے
کہ ان حالات میں آج کے بنئے کل کے سیٹھ ہیں اور مافیاز پر ہاتھ ڈالے بغیر
کامیابی کے منصوبوں پر خرچ کرناایسا ہی ہے جیسے آٹے کا چراغ گھر رکھو تو
چوہا کھائے اور باہر رکھو تو کوّا لے جائے یعنی عوام خالی ہاتھ رہیں گے اس
لیے ہمیں کامیابی کی یہ بیل منڈھے چڑھتے دکھائی نہیں دیتی دوسری طرف
افغانستان اور ایران پاکستان کو آسان ہدف سمجھ بیٹھے ہیں چونکہ بھارت
پاکستان کی اقتصادی خوشحالی سے خائف ہے اسلیے وہ افغانستان اور ایران کے
ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے خواب ہمیشہ سے دیکھتا آرہا ہے کیونکہ
چین کی بڑھتی ہوئے اقتصادی طاقت کیوجہ سے امریکہ کی سپر پاور بھی پریشان ہے
امریکہ اور بھارت تو ایسے ممالک ہیں جو مفادات کے لیے کسی بھی حد تک جا
سکتے ہیں مگر حالیہ صورتحال پریشان کن ہے کہ پہلے چمن میں افغان فورسز کی
طرف سے بلا اشتعال فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس کے بارے میں جناب خواجہ آصف
نے کہا کہ چمن میں افغان فورسز کی کاروائی دلی کابل گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے
لیکن اب ایران کی طرف سے پاکستان میں شدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو
نشانہ بنانے کی دھمکی کیا یہ ایک عالمی جنگ عظیم کا نقارہ تونہیں ہے ؟ ایسے
میں ہماری خارجہ پالیسی کیا کر رہی ہے ؟حالات اس نہج پر کیوں آگئے ہیں ؟ملک
میں جاری افرا تفری نے ہماری ناکام خارجہ پالیسی کو ننگا کر دیا ہے دانستہ
حالات سے رو گردانی کیوں کی جا رہی ہے ؟
بد قسمتی تو یہ ہے کہ ایسے گھمبیر حالات میں’’ متفرق لیکس ‘‘ نے عوام کو
ہذیانی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے اور رہی سہی کسر اکثر مفاد پرست صحافی
حضرات ٹاک شوز اور تحریروں کے ذریعے پوری کرتے رہتے ہیں نتیجتًہ حقیقی
مسائل اورعوامی حالات کی گونج ٹھٹہ اور ہنسی مذاق میں دب جاتی ہے لیکن یہ
طے ہے کہ ٹامک ٹوئیاں مارنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا کہ آج کرپشن کا خاتمہ
اور قانون و انصاف کی عملداری حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے اور اگر
کرپشن کا وجود نہیں مٹے گا تو ترقی اور امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں
ہو سکتا در حقیقت عوامی سطح پر تمام مسائل کی جڑ ’کرپشن ‘‘ ہی ہے اور جب تک
پر خلوص حکمت عملیاں نہیں ہونگی تب تک نہ سیاسی بحرانوں کا حل نکلے گا اور
نہ ہی ترقیاتی منصوبوں سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ حاصل ہوگا لہذا اس پر سب
سے پہلے کام ہو نا چاہیے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہوس ،لالچ اور مفادات میں ہم
اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ اپنے دائروں سے ہی نکل گئے ہیں اس کیفیت کو ہمارے
اپنے اور پرائے جان گئے ہیں کیونکہ وہ تو ہمیشہ سے ہی کبھی اپنے اور کبھی
پرائیوں کے اشاروں پر چلے ہیں اور ہم مغربیت کے دلدادہ اپنے مشاہیر کو
پھانسی لگوا کر دوسروں کی غلامی کرنے والی قوم بنتے جا رہے ہیں ہمیں نہ
اپنی آخرت کی فکر ہے اور نہ ہی اس چیز کی کہ ہمارے اعمال کے اثرات صرف
انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہونگے اور اپنی ذات کی نفی میں ہی بقائے ملت
پوشیدہ ہے شاید اس لیے پرانے وقتوں کے بادشاہوں کی حیات اور طرز حکومت کو
سوانح نگاروں نے ہمیشہ ہی مثال کے لیے رقم کیا تاکہ دوسرے سبق حاصل کر سکیں
یقینا عقلمندوں کے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے اور جاہل کو تو نصیحت سے مطلب
ہی نہیں ہوتا جیساکہ ایک دفعہ ایک ننھے پرندے’’ بیا ‘‘نے بارش میں بھیگتے
ہوئے’’ بندر ‘‘سے کہا تھا کہ ا ﷲ تعالیٰ نے تمہیں انسانوں کی طرح ہاتھ پاؤں
اور سوجھ بوجھ بھی دی ہے اگر تم اپنا گھر بنا لیتے تو آج طوفان میں نہ
بھیگتے تو اس نے غصے میں آکر اس کا گھونسلہ ہی توڑ دیا تھا یہ کہتے ہوئے کہ
تمہیں نصیحتیں کرنے کا بہت شوق ہے جبکہ بے چاری بیا اور اس کے بچے بارش میں
بھیگتے کانپتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ۔ بیا یہ نہیں جانتی تھی کہ
بیوقوف اور جاہل کو نصیحت ایسے ہی لگتی ہے جیسے عقلمند کو گالی یہی وجہ ہے
وہ اپنا ہی نہیں دوسرے کا بھی نقصان کر بیٹھتا ہے بے شک سیکھنے والوں کے
لیے ہر قدم پر نشانیاں اور راہنمائی موجود ہے مگر افسوس اب سیکھنے والے بھی
بیزار ہیں کیونکہ سکھانے والے بھی اپنے مقام سے گر چکے ہیں اور سیکھنے
والوں کو مغربی تعلیم نے ہر چیز سے متنفر کر دیا ہے ۔پھر بھی کہتے ہیں کہ
اچھی بات پھیلانا نیکی ہے حالانکہ نیکی کرتے رہنا چاہیئے کیا خبر کسی کا
بھلا ہو جائے ۔
پرانے وقتوں میں کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا جو کہ انتہائی ظالم
اور لالچی تھا کیونکہ اس کا وزیر با تدبیر اسے ہمیشہ ہی اس بات پر اکساتا
رہتا تھا کہ بادشاہ سلامت !’’ یہ غریب لوگ آپ کے غلام ہیں ، صرف غلامی کے
لیے ہی پیدا ہوئے ہیں، یہ کمائیں گے اور آپ کھائیں گے ، انھیں سہولیات یا
کسی چیز سے کیا مطلب ہے یہ روکھی سوکھی کھا کر ز مین پر سونے والے کیڑے
مکوڑیوں کی طرح ہیں اور ان کی حیثیت ہمارے گھوڑوں سے بھی بد تر ہے ‘‘۔ بریں
سبب بادشاہ کے دل میں اگر رعایا کی بہتری یا خوف آخرت کبھی بھولے سے بھی
آجاتا تو وزیر کی باتیں سن کر وہ سب بھول جاتا اور نغمہ و سرور میں ڈوب
جاتا جبکہ وزیر اور اس کے رفقا ء رعایا پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے رہتے ۔
وقت یونہی گزرتا رہا کہ ایک دفعہ بادشاہ محفل سجائے بیٹھا تھا کہ اس نے بہت
شور سنا ،معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ کوئی درویش با ریش اند ر آنا چاہ رہا ہے
مگر دربانوں نے سختی سے روک رکھا ہے مگر وہ بضد ہے کہ اسے اﷲ نے بھیجاہے
اور وہ بادشاہ سے ضرور ملے گا۔
بادشاہ نے حکم دیا کہ ’’حاضر کیا جائے ‘‘! باریش درویش اندر آیا اور بادشاہ
سے کہا :’’ میں آپ سے ملنے بہت دور سے آیا ہوں کہ آپ کے انصاف اور خوشحالی
کا شہرہ مجھے یہاں کھینچ لایا ہے ‘‘۔بادشاہ بہت خوش ہوا کہ چلو میری طرز
حکومت کی دھوم دور دور تک ہے اور درویش سے کہا :’’ کہو کیا کہتے ہو ‘‘؟
درویش گویا ہوئے ’’مجھے اپنے لیے کچھ نہیں چاہییے مجھے آپ کے وزیر مملکت کے
لیے کچھ چاہیئے کہ آج آپ کی جو بھی شہرت ہے وہ انہی کے سبب ہے ‘‘۔وزیر لالچ
و حرص میں چیمپئین تھا وہ خوشی سے پھولا نہ سمایا اور کہا بادشاہ سلامت !
’’آپ بابا کی بات سنیں اور جیسا یہ کہتے ہیں ویسا کریں کیونکہ یہ اﷲ والے
لوگ ہیں اور اﷲ ہی ایسے لوگوں کو بھیجتا ہے ‘‘۔بادشاہ نے کہا ’’ جی بزرگوار
آپ فرمائیں ‘‘ بابا نے کہا :’’ میں چاہتا ہوں کہ آپ وزیر مملکت کو ان کی
خدمات کے صلے میں تحفتًہ زمین عنایت فرمائیں مگر انھیں یہ اختیار دیں کہ
سورج غروب ہونے تک یہ جتنی زمین پر دائرہ مکمل کر لیں وہ ساری زمین ان کی
ہوگی اور اگر یہ دائرہ مکمل نہ کرسکیں اور سورج غروب ہو گیا تو انہیں کچھ
بھی نہیں ملے گا‘‘ ۔چونکہ وزیر اس فیصلے پر راضی تھااس لیے یہ سفر شروع
ہوگیا ۔اور وزیر چل پڑا چلتے چلتے دوپہر ہوگئی تو وزیر نے سوچا کہ واپسی کا
سفر شروع کرنا چاہیئے کیونکہ کافی زمین ہو چکی ہے مگر لالچ نے غلبہ پالیا
اور تھوڑا سا چکر لگا کر واپسی کا سفر شروع کرنے ہی والا تھا کہ سامنے
خوبصورت پہاڑ اور باغ دیکھ کر رک گیا اور سوچا اسے بھی اپنی زمین میں شامل
کر لوں ممکن ہے بعد ازاں بادشاہ کا موڈ بدل جائے۔الغرض واپسی کا سفر دیر سے
شروع کیا اور اب یوں لگتا تھا کہ سورج نے اس کے ساتھ ساتھ سفر شروع کر دیا
ہے وہ جتنا تیز چلتا اتنی تیزی سے سورج ڈھلتا جاتا تھا اور اب تو سہ پہر
میں یوں لگ رہا تھا کہ جیسے سورج پگھلنے لگا ہے وزیر نے دوڑنا شروع کر دیا
کیونکہ سب کچھ ہاتھ سے جاتا دکھائی دے رہا تھا وہ پاگلوں کی طرح دوڑ رہا
تھا اور یوں دوڑتے دوڑتے غروب آفتاب کے وقت وہ مقررہ لائین پر پہنچ کر یوں
گرا کہ اس کا سر سٹارٹنگ پوائینٹ کو چھو رہا تھا اور پاؤں واپسی کے دائرے
کو مگر وہ مر چکا تھا ۔درویش نے بادشاہ سے کہا کہ اسی جگہ اس کی قبر
کھدوائی جائے اور اسے دفنایا جائے جب وزیر کو دفنا دیا گیا تو درویش نے اس
کی قبر پر لکھا کہ در حقیقت اس شخص کی ضرورت اتنی سی جگہ ہی تھی مگر یہ
تمام عمر لوگوں سے چھینتا رہا اور خود بھی آگ جمع کرتا رہا اور تمھارے لیے
بھی دوزخ خریدتا رہا ۔اﷲ پاک نے قرآن پاک میں بھی اس کا ذکر فرمایا ہے کہ :
والعصر ، ان الانسان لفی خسر ۔۔آج کہیں نہ کہیں ہمارے دائرے بھی بڑے ہو گئے
ہیں ہمیں سوچنا چاہیئے اس سے پہلے کہ آگاہی اور توبہ کا دروازہ بند ہو جائے
اور دشمن ہم پر عذاب الہی بن کر ٹوٹ پڑے بہتر ہے کہ ہم پورے اخلاص اور
جزبہء خیر کے تحت اپنے دائرے میں رہیں اور ہوس اقتدار ختم کر دیں ۔
آج اگر ہم تمام اسلامی ریاستوں اور ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ایک
بات الم نشرح ہے کہ ہمارے اسلامی ممالک کے سربراہان نے جمہوریت کو بادشاہت
بنا دیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا آرہا ہے کہ ہم اپنی لوٹ مار کے لیے اپنے
بد خواہوں سے قرض پر قرض لیئے جاتے ہیں اور اپنی تجوریاں بھرتے جاتے ہیں
ہمارے تمام حکمرانوں اور ان کے سہرے بنانے ،پرونے ،گانے اور قصیدے کہنے
والے تمام کے تمام بغیر میرٹ ،بغیر کسی استحقاق اور قابلیتوں کے اہل لوگوں
کی محنتوں کا خون کر کے نظارے لوٹ رہے ہیں جبکہ امریکہ اپنے حواریوں کو ہم
رائے کر کے عالمی مقتدر اداروں کو ہم آواز بنا کر انھیں برباد کرتا یا
کرواتا جا رہا ہے ۔اگر دوسرے ممالک کی طرح ہمارے اسلامی ملکوں کے سربراہان
جمہوریتوں کو اپنی شاہانہ جاگیروں میں تبدیل کرنا چھوڑ دیں تو کوئی ہمارا
بال بیکا نہیں کر سکتا۔آج پاکستان بدخواہوں کے نشانے پر ہے ایسے میں فوری
طور پر پاکستان کے وسیع تر مفاد میں مثالی اقدام اٹھانے ہونگے ۔ہٹ دھرمیوں
،ہو شیاریوں ،عیاریوں ،بد معاشیوں اور اقربا پروریوں سے ہاتھ اٹھانا ہوگا ۔عوام
کو انصاف ،بنیادی سہولتوں میں رعایت اور اختلافات کی روشوں کو ختم کرنا
ہوگا ۔لیکن ایسا سب کچھ کرنے کیلیے دوسروں کو مواقع دینا بنیادی ہوگا ۔خوش
آمدی اور دوسروں پر بیان بازیاں کرنے والوں کا شعبہ ختم کرنا ہوگا ۔سیاست
کو مقدس مشن سمجھنا ہوگا حقیقتاً اس طرح کرنے سے پاکستان اسلام کا قلعہ
ثابت ہوگا اور یہ طے ہے کہ پاکستان تاقیامت شاد و آباد رہنے کے لیے وجود
میں آیا ہے ۔ |