رمضان المبارک سے قبل سعودی عرب میں 50سے زائد اسلامی
ملکوں کی ایک اہم کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر
کے تقریباََ تمام مسلم ممالک نے شرکت کی، کانفرنس کی سب سے عجیب بات یہ تھی
کے اس کانفرنس کو نام دیا گیا تھا اسلامی اتحاد کانفرنس مگر اس میں مہمان
خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا امریکا کے متعصب اور اسلام مخالف صدر جناب
ڈونلڈ ٹرمپ کو، یہ کیا منطق تھی کہ امریکا کا سب سے متعصب شخص اسلامی اتحاد
کی کانفرنس میں شرکت کرنے چلاآیا، یہ گتھی اب آہستہ آہستہ سلجھنے لگی ہے۔
امریکا کے صدر نے اس کانفرنس میں ہندوستان اور اسرائیل کو مظلوم ملک کہا
اور کہا کہ یہ ممالک دہشتگردی سے متاثر ممالک ہیں، لیکن امریکا کے صدر کو
شام، عراق، فلسطین، کشمیر اور افغانستان کی مظلومیت نظر نہیں آئی۔ خیر
انہیں یہ ممالک نظر بھی کیسے آتے کس کو اپنا ظلم نظر آتا ہے؟ہر شخص اور ہر
ملک خود کوبے گناہ تصور کرتا ہے۔
کانفرنس کے اختتام کے کچھ دنوں بعد کانفرنس کے نتائج شروع ہونے لگے، پہلا
نتیجہ ہمارے سامنے جو آیا وہ سعودی عرب اور قطر تنازع، قطر سے سفارتی
تعلقات ختم کرنا ان پر کئی اقسام کی پابندیاں لگا نا اور قطر کواسلامی
اتحاد سے باہر نکالنا، دوسرا، اسرائیل کے خلاف بر سر پیکار تنظیم جو گزشتہ
چالیس سالوں سے مظلوم فلسطینیوں کے حق کے لئے اسرائیل کی افواج سے لڑ رہی
ہے، اس پر پابندی اور اس کے ساتھ مشہور و معروف عالم دین یوسف القرضاوی اور
اس کی کتابوں پر پابندی عائد کردی گئی، سعودی عرب کی اس حرکت میں مزید چھ
اسلامی ممالک نے ان کا ساتھ دیا، سعودی عرب نے یہ تمام پابندیاں امریکا کے
کہنے پر لگائیں جو الزامات ہیں قطر پر اور علامہ یوسف القر ضاوی پر وہ ہیں،
اخوان المسلمین کے ساتھ تعاون اور حماس کے لئے نرم رویہ اور اس کے ساتھ ہی
ساتھ سعودی عرب نے 59افراد پر دہشتگری کا لیبل لگایا، جو قطر میں موجود ہیں
سعودی عرب نے حال میں ہی جن 59 افراد پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا ہے،
یہ تمام لوگ بہت پہلے سے قطر میں پناہ گزیں ہیں، ان کی یاد اب کیوں آئی؟
حقیقت یہ ہے کہ سب ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل کے اشارے پر ہوا ہے، امریکی
صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد ٹرمپ نے پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا ہی
کیا تھا، کیا شان کا خیرمقدم تھا،طیارے سے لے کر ٹرمپ کی گاڑی تک زیر قدم
سرخ قالین بچھا کر اس کو سلامی دی گئی، سعودی حکمراں کا دیدہ و دل فرشِ راہ
کرنا اب بھی لوگوں کو تازہ یاد ہوگا، سعودی عرب کی پاک سرزمین پر ٹرمپ کا
آنا عرب میں طغیانی کا واضح سبب ہے، عرب کے موجودہ بحران پر ٹرمپ نے مسرت
کا اظہار کیا ہے، دہشت گرد ملک دہشت گردی کا خاتمہ چاہ رہا ہے، اس سے
بھونڈا مذاق اور کیا ہوگا!
اس وقت قطر اور سعودی تنازع اس قدر شدت اختیار کرچکا ہے کہ مسقبل قریب میں
چالیس اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد بھی ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ قطر ایک چھوٹا
سا ملک ہے اس کی آبادی کراچی سے بہت کم ہے لیکن معیشت انتہائی مضبوط، اس
وقت کئی غیر اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ رقم قطر اور اس کے امرا کی لگی
ہوئی ہے۔ لیکن سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ امریکا کی پابندیوں
سے قطر انتہائی مشکل میں گرآیا ہے، سعودی عرب سمیت باقی چھ ملکوں نے قطر سے
اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں، ان کے سارے باہمی رابطے بندکردیئے ہیں،رابطے
کے ساتھ ہی راستے بھی بند۔ قطر کے جہاز بھی ان ممالک کی فضا میں نہیں اڑ
سکتے، یہ بہادران بھی قطر کی زمین، ہوا اور فضا استعمال نہیں کریں گے،
سعودی عرب نے کہا کہ کوئی عرب ملک قطر سے تعلق نہ رکھے،ساتھ ہی اپنے
باشندوں کو سخت تاکید کی کہ قطر کی تائید میں ہرگز حصہ نہ لیں، ورنہ زندگی
کے پندرہ سال عقوبت خانوں میں گزارنے پڑیں گے، پچاس ہزار درہم کا جرمانہ
الگ ہوگا، دھمکی ہے کہ یہ تحریک اس وقت تک چلے گی، جب تک قطر ان کے مطالبات
پورے نہ کردے، ورنہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاے گی، سعودی عرب اور قطر
تنازع کے بعد جو دراڑیں اسلامی اتحاد میں آئی ہیں وہ دن بدن بڑتی جارہی ہیں،
قطر میں غذائی قلت پیدا ہونے لگی ہے، جس کے لئے ترکی نے سعودی عرب کی
پابندیوں کے باوجود قطر کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا ہے اور کہاہے کہ کسی
نے بھی قطر پر حملہ کیا تو اس کو ترکی پر حملہ تصور کیا جائیگا۔ ساتھ ہی
ساتھ قطر کے لیئے امدادی سامان بھی روانہ کیا۔ اس کے بعد مراکش بھی قطر کی
حمایت میں کمر بستہ ہوگیا۔
سعودی عرب اور قطر کے معاملات ختم کرنے کے لئے گزشتہ دن پاکستان کے وزیر
اعظم جناب میاں محمد نواز شریف صاحب سعودیہ گئے اور اس مسئلے میں ثالثی کی
پیشکش کی جس کے جواب میں سعودی عرب کے حکمرانوں نے میاں صاحب کی کاوشوں کو
سراہا اور کہا کے اس مسئلے میں آپ نہ ہی بولیں تو اچھا ہے۔ پاکستان کی اس
ناکام کوشش سے شاید یہ تنازع ختم نہ ہو لیکن امید ہے مزید نہیں بڑھے گا
کیوں کہ پاکستان نے سعودی عرب کو یہ وضاحت کردی ہے کہ اگر آپ قطر پر حملہ
کریں گے تو پاکستان اس میں آپ کاساتھ نہیں دیگا، یہ اسلامی اتحاد اسلامی
ملکوں کے خلاف استعمال نہیں ہوگا، یہ بھی اتحاد میں دراڑوں کا شاخسانہ ہے۔
امریکا کی یہ خواہش ہے کہ اس اتحاد کو قطر کے خلاف استعمال کیا جائے یہ
خواہش ان کی پوری نہیں ہوگی۔
پاکستان کے ثالث بننے کی پیشکش کو رد کرنے بعد ترکی نے مزید سخت فیصلے کئے
اور پانچ ہزار فوجی قطر بھجوانے کے فیصلے کو اپنے پارلیمنٹ سے منظور
کرایا،اور بھی کئی اسلامی ملکوں نے قطر کو اپنے تعاون کی یقین دھانی بھی
کرائی ہے۔ ایک دن سے دوسرے دن اسلامی اتحاد میں دراڑوں کا سلسلہ جاری ہے،
اگر یوں ہی یہ جاری رہا تو یہ اتحاد بننے سے پہلے ہی ٹوٹ جائیگا جس کا زمہ
دار سعودی عرب اور اس کے بدوں حکمران ہونگے۔
ان تمام معاملات پر غور کرنے کے بعد میں جس پہلو پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ
اگر یوں ہی معاملات چلتے رہے تو عنقریب پاکستان بھی اس اتحاد سے باہر نکل
آئیگا۔ پاکستان کے نکلنے کے بعد یہ اتحاد بیمعنی بن کر رہ جائیگا۔ دوسرا
پہلو یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل (ایک نصرانی جبکہ ایک یہودی ملک) کبھی
بھی مسلمانوں کے خیر خواں نہیں ہوسکتے، یہ میں نہیں اﷲ کا قرآن کہہ رہا ہے۔
امریکا کی یہ کوشش ہے کہ کسی طرح اس اتحاد کو یرغمال بنا کر مشرقی وسطیٰ
میں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے اور اس میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں
یہ بدقماش عربی حکمران۔
آخر میں عرب ممالک سے یہی التجا کرونگا کہ خدا کے واسطے ہوش میں آؤ،یہ یہود
و نصاریٰ بروز قیامت تک تم سے خوش نہ ہو سکیں گے، کیا تمہیں اﷲ تعالیٰ کی
اس تنبیہ پر یقین نہیں ؟ ترکی سے ہی سبق لے لو، کمال اتاترک جیسے بیمارذہن
والے شخص نے ترکی کوکہاں پہنچایا تھا، وہ ترکی آج کہاں پہنچ گئی ہے، اس کی
تکبیرِ مسلسل کوہ و بیاباں اور گلشن و صحرا میں سنی جا رہی ہے، مسلمانوں پر
جہاں افتاد پڑے، اس کا عشق آتشِ نمرود میں بے کھٹک کود پڑتا ہے، حالیہ
تنازع میں بھی ترکی نے تمہارا نہیں، قطر کا ساتھ دیا اور اپنے پانچ ہزار
فوجی اس کی مدد کو بھیجنے کا فیصلہ کیا، اب بھی تمہاری آنکھیں کھلیں یا
نہیں؟ صبح کا بھولا شام کو آجاے تو اسے بھولا نہیں کہتے، تم اب بھی اپنے
فیصلے واپس لے کر مسلمانوں کے نورِ نظر بن سکتے ہو، خدارا ان کی تخریبات
اور خوں آشامیاں چھوڑو! بھائی بھائی بن جاؤ! یہ فلسفہ تمہارے ذہن میں ہر
وقت رہنا چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو اتفاق نصیب کرے (آمین) |