تکالیف مصائب و شدائد حالات کی سختی نے احسان دانش کو
بچپن ہی میں محبوس کر لیا تھا ،وقت کی غرقاب لہروں نے اس کے ہاتھوں سے
کتابیں چھین کر بیلچے تھما دئے تھے ،نرم و نازک نحیف جسم کو مزدوری کا تحفہ
دیا تھا ،دھوپ کی شدت گرم ہوا کے تھپیڑے ،بھوک پیاس سے ٹوٹتا جسم ،سرمایہ
دارانہ ذہنیت کے افراد سے مقابلہ آراء ،شب روز اس کا امتحان لیا جارہا تھا
،زندگی ساون کی بھیانک رات میں تبدیل ہوگء تھی ،سورج طلوع ہونے کی امیدیں
بھی دم توڑ چکیں تھیں ،حالات اعلان کر رہے تھے ، اس شخص کے نصیب کا فیصلہ
سنا رہے تھے ،اور عیاں کررہے تھے ،کہ اس کی زندگی کدالوں بیلچوں ، کسانوں
اور کھیتوں کے درمیان گذریگی ،عقل بھی اس دعوی کی تصدیق کررہی تھی ،اور
احسان دانش کی زندگی فیض احمد فیض کے اس شعر کی عملی تصویر معلوم ہورہی تھی
۔
زندگی کیا کسی مفلس کی قباء ہے جسمیں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
والدین کا پیٹ بھرنا ،بیوی کی آرزؤوں کو پائیہ تکمیل تک پہونچانا ،چھتوں
سے ٹکپتے پانی کا خیال ،بے روزگاری ،سماج میں گھٹتے وقار کا احساس ،یہی
چیزیں تھیں ،جو احسان دانش کو لاہور لے گئیں تھیں ،جگہ کی تبدیلی بھی تقدیر
کے فیصلہ کو ٹال نہ سکی ،لاہور بھی کاندھلہ ہی محسوس ہوا ،یہاں بھی انہی
افکار و خیالات کی شہنشاہی تھی ،مزدور کا لہو سرمایہ دار کے پسینہ سے بھی
ارزاں تھا مزدورکی آرزؤوں کی بلی چڑھا کر سرمایہ دار اپنا محل تعمیر کرتا
تھا،ان مشکل ترین حالات میں بھی احسان دانش نے مایوسی پر امید کو ترجیح دی
،اور محنت و مشقت کا سفر جاری رکھا ،رہٹ تک چلایا ،اور انسان ہو کر بیلوں
کا کام کیا ،اس سب کے باوجود چار سو صفحات کا روزانہ مطالعہ کرتے رہے ،اور
علم و حکمت کو اپنے اندر جذب کرتے رہے ،تاکہ مزدوروں کے احوال کوبدل سکیں
انقلاب برپا کرسکیں ،زمانے کو احساس کراسکیں ،مزدوروں کی تکالیف کو لفظوں
کا جامہ پہنا سکیں ،اور دنیا کو سماج کہ اس طبقہ کی حالت زار کا احساس
کراسکیں ،ان کے انہی خیالات کی ترجمانی کرتا ہوا یہ شعر ملاحظہ کیجئے ،اور
اندازہ لگائیے ۔
مزدور جیسا کوئی در بدر نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اور اپنا گھر نہیں
احسان دانش نے اپنے تجربات کو شاعری کے پیکر میں ڈھالا اور اس خوبصورتی سے
ڈھالا کہ جب وہ مشاعرہ میں نظمیں پڑھتے تو شور فضاؤں کو چیرتا ہوا
،بلندیوں کا سفر طے کرتا ،اور ہمارا شاعر مزدوروں کا شاعر جیسے الفاظ فضاء
میں تیرنے لگتے ،اور احسان دانش کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے معلوم ہوتے
،چونکہ یہ خیالات کتابوں سے حاصل کئے ہوئے نقوش نہیں تھے ،بلکہ وہ تلخ
حقائق تھے ،جنہیں احسان دانش نے تپتی زمین کا سینہ چیر کر ،لوگوں کے
گھروندے تعمیر کر ،گیہوں کاٹ کر ،چونا کمر پر لاد کر ،رہٹ چلاکر ،درخت کاٹ
کر حاصل کیا تھا ،ان جذبات میں سچاء تھی ،لوگوں کے جذبات سے ہم آہنگی تھی
،احسان دانش نے جو جھیلا تھا ،اسے لفظوں کی حسین قباء پہنا رہے تھے ،اور اس
حقیقت کو انہوں نے خود اس طرح بیان کیا ہے ،"جہاں میری شاعری میں میرا خلوص
کار فرما تھا ،وہیں عوام کی قدر افزاء بھی میری تواناء کا سبب بنی رہی ،آج
بھی نوجوانوں اور طالب علموں کے علاوہ عوام میری آواز میں آواز ملاتے ہیں
،کیونکہ میں عوامی شاعر ہوں عوام کی بات کہتا ہوں "(جہان دانش صفحہ
475)انہوں نے اپنی شاعری میں عوام کے مسائل ان کا درد انکی تکالیف کو پیش
کیا ،سماج میں ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے ،اسے پیش کیا ،زمینداروں
کے مظالم کو لفظوں کا پیرہن عطاکیا ،سرکاری حکام کی بد اخلاقی کو موضوع
گفتگو بنایا ،چونکہ یہ وہ مسائل ہیں ،جن سے غریب مزدور ہر روز نبرد آزما
ہوتا ہے ،ملاحضہ کیجئے ان کے یہ اشعار اور ان کی قلبی کیفیت کا اندازہ
کیجئے ۔
مضمون: ماہ نامہ الاصلاح کریم نگر :ایک تعارف
آہ و زاری سے زمینداروں کا دل ہلتا نہیں
دودھ گھی برسوں یہاں کسانوں کو ملتا نہیں
اور یہ بھی دیکھئے ۔
کس قدر بے درد ہے عمال سرکاری نہ پوچھ
بات کرنے میں ہے ان سے کتنی دشواری نہ پوچھ
انکے دروازوں پہ ہے کیا ذلت و خواری نہ پوچھ
انکا شیوہ ہے کہاں تک مردم آزاری نہ پوچھ
ان اشعار میں ان حقائق کو نظم کیا گیا ہے ،جو ہمارے سماج کی وہ تلخ سچاء
جسے آج اکیسوی صدی کا انسان بھی بھگت رہا ہے ،سرمایہ دارانہ نظام کی موت
کے بعد اشتراکی نظام کی حکمرانی کے بعد ،جمہوری نظام کی کارفرماء کے باوجود
آج بھی یہ طرز عمل زندہ ہے ،بہرحال احسان دانش غریبوں مفلسوں اور ناداروں
کے شاعر ہیں ،ان پر ظلم برداشت نہیں کرتے ،علم احتجاج بلند کردیتے ہیں ،اور
انکی حمایت کا اعلان کرتے ہیں ،انکی تکالیف کو عالم آشکارا کرتے ہیں ،انکے
مسائل کو نوک قلم پر لاتے ہیں ،انہیں حوصلہ عطاکرتے ہیں ،جرئت بخشتے ہیں
،انکے وجود کو کائنات کی نیرنگی اور خوبصورتی کا باعث خیال کرتے ہیں ،
ملاحظہ کیجیے ۔
تم یہ کیا جانو کتنی سخت دشواری میں لوگ
شام کو کیسے سحر کرتے ہیں ناداری میں لوگ ،
اور یہ بھی دیکھئے ۔
غرور زر کا کیا ہے ذکر دانش
سرور مفلسی بھی کم نہیں ہے
اسکے علاوہ ان کی نظمیں مزدور کا مقام اور تاج محل اس دعوی کی تصدیق
کردینگی ،مزدوروں میں انہوں نے جو خوبیاں دیکھیں وہ بیاں کردیں -
لیکن انکی شاعری کا سفر یہیں پر ختم نہیں ہوتا ،ان کا خمیر کاندھلہ کی زمین
سے بنا تھا ،یہ بزرگوں صوفیوں اور اولیاء اللہ کی سرزمین ہے ،احسان دانش کے
خون میں بھی ان کے اثرات موجود تھے ،وہ شریعت اسلامیہ کے ثناخواں تھے ،اس
پر عمل کرنے والے تھے ،اسے کائنات کی فلاح کا ضامن خیال کرنے والے تھے
،لوگوں کو شرعیت سے دور ہوتا دیکھکر تکلیف محسوس کرتے تھے،چونکہ معاشرہ کی
اصلاح ان کے خیال کے مطابق اسلامی احکامات میں پنہاں تھی ،انہی احساسات کی
ترجمانی کرتے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے ۔
بھٹک رہے ہیں وہ تارے زمین کی ظلمت میں
فلک سے جن کے لئے آئے دن رسول آئے
شکر خدا میں ہوں گدائے در رسول
شاہوں کہ در پہ میری بلا مانگتی پھرے
یہ اشعار انکی اسلام سے اور نبی آخرالزماں سے وابستگی کو ظاہر کرتے ہیں
،اور احساس دلاتے ہیں کہ احسان دانش کی شاعری میں اسلامی اقدار کی پاسداری
ہے ،فحش گوء کا انکے یہاں تصور بھی نہیں ہے ،معاشرہ اسلامی چاہتے ہیں ،عورت
کی عزت و مقام کیا ہے،اس کو واضح کرتے ہیں ،سماج میں عورتوں کے ساتھ ہورہے
ناروا سلوک پر چراغ پا ہوجاتے ہیں ،اور کچھ اس طرح گویا ہوتے ہیں ۔
مضمون: مزاحیہ: قصہ ایک پروفیسر کا!
بوجھ اٹھانے کے لئے ہندوستاں کی لڑکیاں
تف ہے اس تہذیب پر لعنت ہے اس ادراک پر
انکا لہجہ بتا رہا ہے ،کہ وہ عورتوں کے حقوق کے لئے کس درجہ فکر مند ہیں
،اور انہیں بدوی تہذیب سے بچانا چاہتے ہیں ،اور ان کی عزت قدر و منزلت سے
لوگوں کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں ۔
احسان دانش کی شاعری ہمارے سماج کی شاعری ہے ،ہمارے دکھ درد کا بیان ہے
،ہماری زندگی کا آئینہ ہے ،وہ ہمارے احساسات و جذبات کو لفظوں کے حسیں
سانچہ میں ڈھالتے ہیں ،انہیں ہماری روایتیں عزیز ہیں ،مشرقی روایتوں کے وہ
دلداہ ہیں ،وہ ترقی پسند نہیں ہیں لیکن سچے ترقی پسند کو سماج کے لئے بہتر
خیال کرتے ہیں ،احسان دانش کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے بیسوی صدی
کی شعراء کے درمیان اپنے فن کی وجہ سے اپنا مقام اور اپنی حیثیت ثابت کی ہے
،ان کے بیس شعری مجموعے شائع ہوئے ،نثر میں بھی انہوں نے ذریں خدمات انجام
دیں ،مگر وقت کی چادر نے ان کے فن کو ڈھک دیا اور وہ جس مقام کے حامل تھے
،وہ انہیں میسر نہ آسکا ،انکے فن سے جس قدر استفادہ کیا جاسکتا تھا ،وہ
نہیں ہوسکا ،ہماری بدقسمتی ہے ،کہ آج تک انکی کلیات بھی مرتب نہ ہوسکی،
ضرورت ہے کہ انکے فن پر پڑے پردوں کو چاک کیا جائے ،اور انکی شخصیات اور اس
کے وقار سے لوگوں کو روبرو کرایا جائے ۔
|