اقوامِ عالم کے تمام مسلمان رمضان المبارک کے ماہ میں خدا
تعالیٰ کی جانب سے عبادت و نوافل سے روزہ و نماز سے فیوض و برکات حاصل کرتے
ہیں جس کے انعام میں اﷲ سبحان و تعالیٰ عید الفطر جیسا مقدس تہوار تمام
مسلمانوں کو بطور تحفہ عطا کرتا ہے،یہ 1967ء کی بات ہے عید الفطر کا دن تھا
تمام اقوامِ عالم کے مسلمان عید الفطر میں اپنے اپنے انداز میں اس تہوار کو
خوشیاں منانے اور بانٹنے میں مشغول تھے ہر جانب مسرت و شادمانی کی فضا ء
تھی کہ اچانک فضاء میں کان پھاڑ دینے والا دھماکہ ہوتا ہے اور پھر آہستہ
آہستہ یہ دھماکوں کی آوازیں شدت اختیار کر کے باقاعدہ طور پہ ایک جنگ کا سے
ماحول پیدا کر دیتی ہیں دراصل اسرائیل نے مسلم عرب دنیا کے ممالک جارڈن ،سیریااور
مصر میں بغیر کسی اعلان کے جنگ کی یلغار کردی تھی یہ جنگ چھ دن تک جاری رہی
جسمیں امریکہ اسرائیل کے ساتھ پیش پیش تھا یہودیوں بلکہ لادینی قوتوں کی یہ
خصلت میں شامل ہے کہ ایک تو وہ معاہدات خود بنا کہ خود ہی بنا بتائے توڑ
دیا کرتے ہیں وعدہ خلاف ہوتے ہیں دوسرے چھپ کے وار کرتے ہیں معصوم نہتے اور
غفلت میں لوگوں پر حملہ کرتے ہیں گیدڑ کی طرح بزدلانی فطرت انکا خاصہ ہوتی
ہے ،یہ خالی 1967ء کی بات نہیں بلکہ آپ اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپکو
بے شمار واقعات نظر آئینگے جس سے آپکو انکی خصلت کا بخوبی اندازہ ہوگا
تو1967ء کی چھ روزہ جنگ بھی انکی اسی تاریخ کا ایک بزدلانہ اور گھناوئنا
فعل تھا جو انہوں نے بغیرکسی اعلان کے مسلم اقوام پر حملہ کر کے کیا یہاں
سے پاکستان نے ہمیشہ کی طرح مسلم اقوام کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے بھائی
ہونے کا ثبوت دیا اپنی فضائیاور بری افواج کی کمک بھیجی اسرایئلی اپنے طور
پر یہ طے کر چکے تھے کی وہ اس جنگ میں تمام مسلم ممالک پر اپنا تسلط قائم
کر لینگے اور بظاہر حالات اور واقعات مسلمانوں کو بھی اسی خطرے کا ریڈ
الارم دے رہے تھے پر وہ ایسا کرنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکے۔
اسکے بعد ہم دیکھتے ہیں 1967ء کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے عربوں کی جو
زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا انکی واپسی کیلئے سفارتی کوششیں ناکام ہو گئیں
تو مصر اور شام نے ایک بار پھر بہ زور بازو انکی واپسی کا ارادہ کیا
6اکتوبر1973ء کو یہودیوں کے مبارک دن یومِ کپور (یومِ کفارہ) پر ان دونوں
نے اچانک وادیء سینا اور جولان کی پہاڑیوں پر حملہ کر دیا ۔یہ رمضان کا
مہینہ تھا اسلئے عرب اسے غزوہ رمضان بھی کہتے ہیں ،ابتدا ء میں مصر اور شام
نے کچھ پیش قدمیاں کیں لیکن پھر انہیں پسپائی اختیار کرنا پڑی ۔اسرائیلی
فوجیں مصر کی سمت میں نہرِسوئز کے کنارے تک پہنچ گئیں ،مصر نے دوسری طرف سے
یلغار کر کے وادی ء سینا کے کچھ علاقے پر قبضہ کر لیا دو ہفتے تک شدید جنگ
ہوتی رہی آخر امریکہ ،سوویت یونین اور اقوامِ متحدہ نے 22اکتوبر کو فائر
بندی کرادی مصر اور شام کے ساڑھے آٹھ ہزار فوجی ہلاک ہوئے اسرائیل کے چھ
ہزار اس جنگ کا ایک نتیجہ جنگ کے فوراََ بعد تیل کے بحران کی شکل میں ظاہر
ہوا ،سعودی عرب نیاسرائیل کے حامی ملکوں پر تیل بندی کر دی دنیا تیل کی قلت
کے بحران میں سپھنس کر رہ گئی اکتوبر میں اقوامِ متحدہ میں قرار داد
338منظور کی فریقین سے مطالبہ کیا گیا کہ فوجی کاروائی سے گریز کریں اور
مزاکرات شروع کریں ۔مارچ1974ء میں تیل کی فروخت پھر جاری ہو گئی ۔
آپ کے ازہان میں یقیناََ یہ بات آتی ہوگی کہ یہاں پر تاریخ کے یہ اوراق
پلٹنے کی آخر کیوں نوبت پیش آئی اسکی بہت سی وجوہات ہیں جو کہ بیان کی گئی
تاریخ میں آپ پر بخوبی آشکار ہوئی ہونگی لیکن سب سے خاص وجہ جسکی جانب مجھے
آپکی توجہ درکار ہے وہ یہ ہے کہ دراصل میں آپکو اسوقت کے سعودی حکمرانوں کی
ہمت و جرات کو تاریخی پس منظر کے تناظر میں دکھانا چاہتی ہوں کہ انہوں کس
جواں مردی سے یہودیوں کے اس اقدام پر ردعمل کے طور پر ایک مضبوط ایکشن لیتے
ہوئے اپنا دماغ استعمال کرتے ہوئے تیل بندی کا اعلان کیا کیونکہ وہ یہودیوں
کی یہ کمزوری جانتے تھے کہ انکے اقتصادی نظام کے پہیئے کو چلتے رہنے کے لئے
تیل بہت اہمیت کا حامل ہے اسی لئے انہوں نے اسرائیل اور اسکے ہمنوا ممالک
کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے انکو سبق دکھانے اور انکی اوقات یاد دلانے
کیلئے تیل کا بحران پیدا کیا جسکے بعد ہونے والے ردعمل اور نتایئج تاریخی
حوالے سے آپ نے خود ہی ملاحظہ کر لئے ہیں اُسوقت کے سعودی حکمراں کا یہ
اقدام تمام مسلم ممالک کیلئے ایک مثال اور قابلِ ستائش عمل ہے بالخصوص
موجودہ سعودی حکمرانوں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے کم از کم انکو
اپنے رہنماوئں کی تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیئے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ جتنی بھی سپر پاورز ہیں انکو مسلم ممالک سے بہت
زیادہ خوف کے علاوہ سب سے بڑا خوف اپنے اقتصادی اور معاشی نظام کے رُک جانے
کا رہتا ہے ۔کیونکہ مسلمان بھلے سے اپنے اکابرین کی فتوحات اور قربانیاں
فراموش کر دیں پر یہ لادینی قوتیں مسلمانوں کے دئے گئے ماضی کے ذخم اب تک
چاٹ رہے ہیں اور بھولے کُچھ بھی نہیں ہیں انکے اندر بدلے کی آگ ہمیشہ
بھڑکتی رہتی ہے جو انکو چین سے نہیں بیٹھنے دیتی جسکی بنا پر وہ اس قسم کے
اوچھے وار کر کے مسلم اقوام کو اپنے طور پر خود سے خائف رکھنے کی اپنی سی
کوششوں میں مصروفِ عمل رہتے ہیں اسی وجہ سے جنگوں کے بعد مسلمانوں کو
چالاکی سے چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بانٹ دیا مزید یک نا شُد دو شُد کے
مصداق انکو آپس میں لڑوانے کی اپنی مکارانہ سازشوں کا جال بچھا نے میں
مصروف رہتے ہیں نہیں چاہتے کہ تمام مسلم ممالک ایک وحدت ہو سکیں اگر ایسا
ہو ا تو یہ اُنکے زوال کا سب سے بڑا سبب بنے گا ۔
اب گزشتہ دنوں امریکی صدر ٹرمپ کے دورے کو ہی لے لیجئے ہم تب، ہی سمجھ گئے
تھے کہ یہ صاحب یقینا کوئی گُل لازمی کھلا کے آئینگے اور وہی ہوا جسکا ڈر
تھا یہ عیار قوم اپنی فطرت سے کیسے انحراف کر سکتے ہیں سعودی حکومت کی
کمزوری یعنی ایران کو بطور حریف ازخود بنا کر خالی اُسکے خلاف چنگاری سُلگا
کے آگئے نتیجہ آپ سب کے سامنے ہے الجزیرہ چینل پر بے بنیاد الزامات لگا کر
قطر کو ایران کی فیور کا الزام لگا تنہا کر دیا گیا جبکہ قطر اس الزام سے
خود کو بری الزما کہتا ہے سعودی حکومت ،متحدہ عرب عمارات نے قطر سے مکمل
بائیکاٹ کر دیا کیونکہ ٹرمپ اقوامِ عالم میں ایران کو تنہا کرنے پر بضد ہے
لیکن جیسا کہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ایران اور سعودیہ دونوں مسلم ریاستیں
ہیں اور دونوں ممالک کے پاکستان سے بھی دوستانہ ماسم ہیں اور ٹرمپ اور اسکے
حواری اسبات سے بخوبی واقف بھی ہیں ،بظاہر دنیا کی نگاہ میں ٹرمپ کا حدف
ایران ہے پر حقیقت اسکے برعکس ہے دراصل اسکا اصل حدف ایران نہیں پاکستان ہے
کیونکہ ٹرمپ سمیت تمام لادینی قوتیں اسبات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اسلامی
جمہوریہ پاکستان تمام اسلامی ممالک کی نمائندگی کرتا ہے دنیا کے کسی بھی
حصے میں اگر کہیں کوئی اسلامی ریاست ظلم کا شکار ہورہی ہوتی ہے تو ہماری نا
صرف افواجِ پاکستان انکی مدد کو پہنچتی ہے بلکہ پاکستانی قوم بھی اس ظلم کے
خلاف جس حد تک ممکن ہوتا ہے آواز ضرور اُٹھاتے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ بوسنیا
،چیچنیا ،فلسطین ہویا لبنان ہماری افواجِ پاکستان اپنی جان و مال ایک کر
دیتی ہیں اسکی بقا کی جنگ میں مشکل کا شکار ریاست کے ساتھ کھڑی صفِ آرا
ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان تمام لادینی قوتوں کی نگاہ
میں ہمیشہ کھٹکتا رہتا ہے ۔
آپکو ایک خاص بات بتاوئں جو شاید ہم میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ امریکہ
بھارت سمیت تمام مسلمانوں خاص کر پاکستان کو انتہاپسند(دہشتگرد) اور نجانے
کیا کیا ساری دنیا پر ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں کیونکہ چور کی داڑھی میں
تنکا کی مصداق سب سے بڑے دہشت گرد یہ خود ہیں بلکہ جن دہشت گرد تنظیموں پر
مسلمانوں کا ٹیگ لگا کر اسکو مسلمانوں پر تھوپنے پر مُسر رہتے ہیں ان تمام
تنا ظیموں کے موجد یہ خود ہیں یہ میں کوئی خلائی بات نہیں کر رہی بلکہ
تاریخ و تحقیق میں آپ کو خود انکے خود کے ماہرین اورناقدین کی زبانی
باآسانی بہت سارے شواہد مل جاینگے جنگِ عظیم اول اور دوم کی خونریزیوں کے
نتیجے میں امریکہ سمیت دیگر سپر پاورز کی دہشت گردی کا ساری دنیا نے دیکھا
تاریخ ان لرزاخیز مناظر سے اٹی پڑی ہے اسکے بعد اقوام ِ عالم کے سامنے انکو
اپنی پوزیشن clear کرنا بہت لازمی تھا انکو یہی راستہ آسان معلوم ہوا کہ
اپنی یہ خونی تاریخ مسلمانوں پر چسپاں کر دیں اس ضمن میں طے شدہ پلان
کیمطابق 9/11کا حادثہ کرکے اپنے تمام دہشت گردانہ کارناموں کو مسلمانوں پر
چسپاں کر کے خود عالمی امن کا تمغہ لگا کے حقوقِ انسانی کا علم ہاتھ میں
لئے کروڑوں انسانوں کی لاشوں پر گاڑ کے کھڑے ہیں ۔
خود امریکہ کے ایک چینل کی رپورٹ کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی جنداﷲ ریپبلکن
آرمی لشکرِ طیبہ ،جنداﷲ ایسی تنظیم ہے جو ایک عرصے سے ایران کو غیر مستحکم
تکر رہی تھی اسکا امریکہ اور مغربی طاقتوں کے مفادات سے براہِ راست رشتہ
ہے،تاکہ چین کو روکا جا سکے پاکستان میں عدمِ استحکام پیدا کیا جا سکے تاکہ
اس ملک پر گھیرا تنگ کیا جا سکے نیز بیرونی طریقے سے تباہ کیا جاسکے امریکی
حکومت جنداﷲ اور بلوچ دہشت گرد تنظیموں سے بظاہر لا تعلقی کا اظہار کرتی ہے
لیکن CIAکی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ جانتا ہے کہ وہ چین سے اقتصادی اور
صنعتی میدان میں مقابلہ نہیں کر سکتا اسلئے اس نے چین کی ترقی کو ان
اقدامات کے زریعے روکتا ہے اب وہ ان دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات رکھنا
چاہتے ہیں جنسے دو دہائیوں سے نہیں بلکہ سالوں سے تعلقات رکھے ہوئے ہیں تا
کہ چین کی اقتصادی ترقی کو روکا جا سکے لیکن امریکہ 70کی دہائی میں بھی
مجاہدین کو روس کے خلاف فنڈنگ کرتا رہا ہے۔اب آپ خود ہی غور کیجئے ان رپورٹ
سے کیا بات ثابت ہو رہی ہے امریکہ اگر یہ سب کرنے کے باوجود یہ سمجھتا ہے
کہ وہ ساری اسلامی ریاستوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنا مفاد حاصل کر
سکے گا تو یہ اُسکی بھول ہے ہماری تمام مسلم ریاستیں ایک مٹھی ایک وحدت ہیں
اور آپکی ہزار کوششوں کے باوجود ہمیشہ رہینگی(انشااﷲ)۔ |