وقت دکھاتا ہے تماشہ کیسے کیسے
ہوئے بے آبرو آج کیسے کیسے
کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف نے پاناما لیکس کے عدالتی فیصلے کے نتیجے
میں قائم ہونے والی جے آئی ٹی کے سامنے خود کو پیش کر کے ملک میں ایک نئی
تاریخ رقم کی ہے، انہوں نے ثابت کردیا کہ ملک میں قانون کی بالادست ہے،
یہاں سب برابر ہیں۔کالے کوگورے پر ، چھوٹے کو بڑے پر ، وزیر اعظم کے بیٹوں
کو عام آدمی کے بیٹوں پر حتیٰ وزیر اعظم کو بھی استثنیٰ نہیں۔ یہ ایک قابل
تقلید مثال ہے جو میاں صاحب نے 15جون 2017کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکر
کی۔ ملکی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ ملک کا وزیر اعظم کسی بھی
تحقیقاتی ادارے کے سامنے پیش ہوا ہو۔ پاناما لیکس کا فیصلہ کہنے کو تو دو
تین کا تھا لیکن تین کی اکثریت کے فیصلے کے نتیجے میں ایک ایسی تاریخ رقم
ہورہی ہے کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز
شریف نے وزارت اعلیٰ کی تشکیل شدہ جے آئی ٹی میں پیش ہوکر سیاست میں ایک
انوکھی اور قابل تقلید مثال قائم کردی ہے۔یہ بات اپنی جگہ ہے کہ میاں صاحب
کو اس وقت اقتدار سے الگ ہوجانا چاہیے تھا یا نہیں۔ جب پاناما لیکس کا
فیصلہ آیا گو کہ وہ دو اور تین کا تھا لیکن عدالت عالیہ کے دو معزز جج
صاحبان کا یہ فیصلہ دیدینا کہ میاں صاحب صادق اور امین نہیں۔ اپنی جگہ اہم
ہے اور تاریخ کا حصہ ہوگا۔ اگر اس وقت میاں صاحب بلند حوصلے اور اعلیٰ
سیاسی برد باری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ سے الگ ہوکر اپنے ہی کسی
بھائی ، بھتیجے، بھانجے، بیٹی یا سمدی جی کو اس کرسی پر براجمان کر دیتے
پھر وہ جے آئی ٹی میں حاضر ہوتے اپنی فیملی کے دیگر افراد کو پیش کرتے تو
آج ان کا قد کاٹ کچھ اور ہوتا۔ ان کی عزت و احترام کچھ اور ہوتی لیکن انہوں
نے دنیا میں ہونے والے اس قسم کے واقعات جن میں ملک کے سربراہوں نے دیر
نہیں لگائی اپنی کرسی چھوڑنے میں سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ انہوں نے
تمام تر الزامات، تحقیقات ، فیصلوں کو صرف اس قدر وقعت دی کہ وہ ان کا
مقابلہ کریں گے اور کر رہے ہیں۔ اپنی صفائی اور اپنی تلاشی دیں گے لیکن
طاقت کی کرسی پر بیٹھے بیٹھے۔ اچھی مثال اپنی جگہ لیکن کسی بھی تحقیقاتی
کمیٹی یا کمیشن کے سامنے کون پیش ہوتا ہے؟ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ میاں
صاحب ایک مجرم کے طور پر پیش ہورے ہیں۔ جہاں میاں صاحب نے خود کو پیش کر کے
اچھی مثال قائم کی وہیں ان پر تنقید کے نشتر بھی ہیں جو اچھی نظیر کا حصہ
ہوں گے۔
قیاس آرائیاں ہیں کہ میاں صاحب سے کیا کچھ پوچھا گیا ہوگا، میاں صاحب کو کس
طرح کا پروٹوکول دیا گیا ہوگا، کیا حسین نواز جیسا تو نہی، یقیناًنہیں ، وہ
پاکستان کے وزیر اعظم ہیں انہیں عزت و احترام دینا قانونی طور پر اور
اخلاقی طور پر ضروری ہے، قانون کی زبان میں کہا جاتا ہے ’بلیو بک‘ کے مطابق
پروٹوکول دیا جانا چاہیے اور یقیناًدیا بھی گیا ۔سوالات جو متوقع ہوسکتے
ہیں وزیر اعظم سے یہ پوچھے گئے ہوں گے ۔ مثال کے طور پر پوچھا گیا ہو گا کہ
گلف اسٹیل مل کیسے لگی، فروخت کیسے ہوئی، فروخت کرنے کی وجوہات کیا تھیں،
کمپنی کے ذمے قرض کیا بنا، پیسے جدہ ، قطر اور لندن کیسے پہنچے، ہل میٹل
کمپنی کیسے بنی، میاں صاحب کو یہ بھی بتا نا پڑا ہوگا کہ نوے کی دہائی کم
عمر بیٹوں نے لندن میں فلیٹ کیسے خریدے، وسائل کہاں سے آئے، فلیٹس کی
خریداری کی تفصیل کیا ہے، ان کے بیٹے حسین نواز نے اپنے والد محترم کو
510ملین روپے تحفے میں دیے اس کا ذریعہ آمدن اور وجوہات کیا تھیں؟ قطری خط
اپنی جگہ ببال جان ہے، اس کے حوالے سے بھی میاں صاحب سے پوچھا گیا ہوگا اور
دیگر سوالات نے کمیٹی کے روبرو وزیر اعظم میاں نواز شریف کا پیچھا کیا ہوگا
۔ انہوں نے ان سب سوالوں کے جوابات کس طرح اور کیا دیے اس کا علم کمیٹی کی
رپورٹ میں معلوم ہوسکتا ہے۔ اپنی پیشی کے بعد میڈیا سے جو گفتگو میاں صاحب
نے کی وہ تمام کی تمام سیاسی تھی،اپنے ورکروں کے حوصلے بلند کرنے کی۔ میاں
صاحب نے لکھی ہوئی تقریر پڑھی، اس سے مطب یہ نکلتا ہے کہ پیشی سے قبل ہی
انہوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ باہر آکر کیا کہنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں
نے کوئی نئی بات نہیں کی، صاف صاف کہہ ڈالا ، پہلے بھی کہہ رہے تھے کہ ہم
نے تمام ثبوت فراہم کردئے سپریم کورٹ کو آج پھر یہ تمام دستاویز جے آئی ٹی
کو دیدی ہیں۔ آئندہ انتخابات میں بھی اپنی فتح کی نوید سنائی، انہوں کہا کہ
مجھ پر کرپشن کا الزام نہیں ذاتی و کاروباری معاملات اچھالے جارہے ہیں۔ بات
میاں صاحب کی درست ہے کہ ان پر سرکاری خزانے سے خرد برد کے الزامات نہیں ،
انہیں تو صرف ان باتوں کو سامنا ہے کہ ان کے بچے عم عمری میں ارب پتی کیسے
بن گئے۔ لندن کے فلیٹ خریدنے کے لیے رقم کس راستے سے لندن گئی۔
جے آئی ٹی نے جب سے کام شروع کیا ہے میاں صاحب کی پہلی صف کے درباریوں نے
جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ نون لیگیوں کا کہنا ہے کہ جے
آئی ٹی کوئی آئینی ادارہ نہیں اور نہ ہی یہ سپریم کورٹ ہے بات تو درباریوں
کی درست ہے لیکن یہ تحقیقاتی کمیٹی کس نے تشکیل دی ہے؟ حکومت نے، کپتان نے
، شیخ رشید نے یا پھر زرداری صاحب نے ؟ اگر یہ ان میں سے کسی نے بنائی ہوتی
تو بات تھی کیا یہ کمیٹی سپریم کورٹ نے نہیں بنائی ؟ کیا اس کے ممبران کا
انتخاب سپریم کورٹ نے نہیں کیا؟ اگر یہ کمیٹی اتنی ہی بے وقعت ہے تو کمیٹی
جن کو جن کو طلب کر رہی ہے وہ کیوں ہاتھ جوڑ کر حاضر ہورہے ہیں، لندن سے
دوڑے چلے آرہے ہیں، ایک بار بار نہیں بار بار پیش ہورہے ہیں۔ وہ کیوں سر
جھکائے اس کے سامنے بیٹھے ہیں، آپ نہ بولیں سچ، نہ دیں دستاویزات ، نہ
سنائے داستان ظلم ، نہ بتائیں کہ پیسہ کہاں سے آیا اور کس ذریعہ سے لندن
پہنچا، کس طرح فلیٹ خریدے گئے۔ کیا یہ آپ کی شہرت ، عزت اور وقار کو مجروح
کرنے کے لیے کافی نہیں کہ آپ کو جب جب طلب کیا جارہا ہے آپ بارات کے ساتھ
حاضرہورہے ہیں، اندر کیا کر رہے ہیں یہ آ پ جانیں اور کمیٹی کے معزز ارکان
کو معلوم ہوگا۔ بات بیٹوں تک تھی پھر غنیمت تھی اب تو معاملا بڑے میاں صاحب
اور ان کے بعد چھوٹے میاں صاحب تک پہنچ گیا ہے۔ یقیناًکمیٹی نے میاں صاحب
کو عزت و احترام کے اور پروٹوکول دیا ہوگا۔ اس طرح نہیں جیسے حسین نواز
کواپنے سے دور دیوار سے لگایا ہوا تھا۔ یہ کس طرح معلوم ہوا اس لیک ہونے
والی تصویر سے، تصویر جس نے بھی لیک کی اسے تو اس کی سزا مل گئی اور مل
جائیں گی ، یہ تصویرلیک نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن کوئی قیامت نہیں آگئی۔ اس
تصویر سے آپ کو پوچھ گچھ کے لیے، ثبوت فراہم کرنے کے لیے، تحقیقات کرنے کے
لیے بلاگیا ۔ آپ وزیر اعظم کے بیٹے ضرور ہیں لیکن اس کمیٹی کے سامنے آ پ کی
حیثیت وہ نہیں جو آپ اور نون لیگی وزراء تصور کر رہے ہیں ۔ آپ کی تلاشی
ہورہی ہے، آپ سے پوچھنا ہے کہ آپ نے اس قدر بھاری رقم کہاں سے کیسے حاصل
کی، یہ رقم پاکستان سے کس طرح لندن پہنچی۔ بقول کسی تجزیہ نگار کہ تحقیقات
کے لیے بلایا گیا تھا آپ کو کسی کی دعوت ولیمہ میں نہیں بلایا گیا تھا۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ کچھ بھی آئے میاں صاحب کو سابقہ دو ججوں کے فیصلے کے
مطابق نا اہل قرار دے دیا جائے یا میاں صاحب عدالت سے کلین چٹ لے لیں۔ ہر
دو صورتوں میں میاں صاحب کو تنقید کا سامنا رہے گا۔ اگر دو ججوں والا فیصلہ
آتا ہے تو کپتان سارا کریڈٹ لے جائے گا اور اس کی واہ واہ ہوگی، اگر فیصلہ
میاں صاحب کے حق میں ہوا تو میاں صاحب اور ان کے جماعت کی واہ واہ ہوجائے
لیکن دو ججوں کا فیصلہ تمام عمر میاں صاحب کے گلے کا ہار بنا رہے گا۔ |