ہندوستان میں دو الیکشن کافی اہم ہوتے ہیں ایک ریاستی اور
دوسرا پارلیمانی۔ان دونوں الیکشن میں مسلمانوں کو اب کافی سوجھ بوجھ سے کام
لینا ہوگا۔
میرے خیال میں ریاستی الیکشن میں مسلمانوں کے لیے سمجھ داری یہ ہوگی کہ وہ
بلاتفریق مسلک کسی غیر بھاجپائی پارٹی کے لیے متحد ہو جائیں اور ہر ہر فرد
مسلم صرف اسی پارٹی کو ووٹ دے دوسری کسی پارٹی کو ایک ووٹ بھی نہ دے۔ اب
سوال یہ ہے کہ کس پارٹی کا انتخاب کیا جائے تو اسے حالات پر چھوڑ دیں
دیکھیں کہ اس بار کونسی سیاسی غیر بھاجپائی پارٹی دم دار ہے اور واقعی
حالات اس کے لیے بہت حد تک بہتر ہیں۔ بس اسی پارٹی کو چن لیں اور اپنا حق
رائے دہی اسے کے نام کردیں۔ نام نہاد مسلم لیڈروں کے چکر میں نہ پڑیں جو آپ
کے ووٹوں کو تقسیم کرکے بھاجپا جیسی اقلیت مخالف پارٹی کو جتاتے ہیں اور
اپنی تجوری بھرتے ہیں۔ بھاجپا نے اب مکمل طور سے ہندو مسلم کا کارڈ کھیلنا
شروع کر دیا ہے جیسا کہ یوپی میں بھاجپا کی جیت سے یہ بات بخوبی ظاہر ہے کہ
اس بار اکثر برہمن،دلت،یادو ہندوؤں نے ایک جٹ ہو کر بھاجپا کو ووٹ دیا۔
اکثر اس لیے کہ ابھی بھی ہندوؤں میں ایک بڑا طبقہ سیکولر ہے جو بھاجپا کو
بالکل پسند نہیں کرتا۔ مسلمان اب کسی بھی ریاست میں کبھی بھی پارٹی نہ کریں
کہ چاہے کچھ بھی ہو ووٹ اسی پارٹی کو دینا ہے۔اس طرح مختلف پارٹیوں کو ووٹ
دےکر آپ اپنا ووٹ تقسیم کر بیٹھیں گے۔ یہ نہایت ہی غلط روش ہوگی اور اس کا
راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ بلکہ ہر بار مسلمان ریاست کے سیاسی احوال کے
لحاظ سے اس غیر بھاجپائی پارٹی کا انتخاب کریں جس کے جیتنے کی واقعی کچھ
امید ہو۔اس طرح ہی سے آپ بھاجپا جیسی غیر سیکولر پارٹی کو شکست دے سکتے ہیں۔
اس کے لیے سارے مسالک کے مخلص ارباب دانش کو آگے آنا ہوگا اور مسلم ووٹوں
کو متحد کرکے ایک پارٹی کو ووٹ دلانا ہوگا۔بالفرض مان لیجیے کہ آپ کی پارٹی
جس کا آپ نے انتخاب کیا تھا وہ جیت نہ سکی تو کم از کم اتنا فائدہ تو ضرور
ہوگا کہ آپ کے اکثریتی حلقوں سے آپ کے نمائندے اسمبلی میں پہنچ جائیں گے۔
اور یہ فائدہ بھی کم نہیں۔ ویسے واقعہ یہ ہوگا کہ اگر ووٹ دینے میں آپ نے
یکتائی دکھائی تو آپ ہی حکومت ساز ہوں گے۔ یہ تو ریاست کی سطح پر بات ہوئی
کہ جس میں ہر ریاست میں سیاسی احوال کے لحاظ سے مسلمانوں کو الگ الگ غیر
بھاجپائی پارٹیوں کا انتخاب کرنا ہوگا جس کے لیے ہر مسلک کے مخلص ارباب
بصیرت کو ایک ہوکر کسی ایک غیر بھاجپائی پارٹی کے لیے مسلمانوں کو تیار
کرنا ہوگا۔اس معاملے میں نام نہاد مسلم لیڈروں کے بہکاوے میں قطعا نہیں آنا
ہوگا اور نہ ان پر کچھ بھی بھروسہ کرنا ہوگا۔اور ابھی سارے مسلم لیڈر نام
نہاد ہی ہیں الا ماشاءاللہ ۔
پارلیمانی انتخابات کے لئے بھی ساری باتیں وہی ہیں جو ریاستی الیکشن کے لئے
کہی گئیں۔ صرف فرق یہ ہے کہ یہاں پورے ہندوستان کی سطح پر ایک ہی کسی غیر
بھاجپائی پارٹی کا انتخاب کرنا ہوگا اور پورے ہندوستان سے ہر ہر فرد مسلم
کو اسی پارٹی کو ووٹ دینا ہوگا۔ اب یہ حالات پر ہے کہ کس غیر بھاجپائی
پارٹی کا انتخاب کیا جائے۔ پارلیمانی الیکشن میں بھی ایک ہی پارٹی کو پکڑے
رہنا قطعا درست نہ ہوگا کہ آپ ہر بار اسے ہی ووٹ دیں۔یعنی پارٹی کرنے لگیں،
بلکہ حالات کے لحاظ سے بدل بدل کر غیر بھاجپائی پارٹی کا انتخاب کریں۔ یہ
ہوسکتا ہے کہ جس پارٹی کا آپ نے ایک بار انتخاب کیا اسی پارٹی نے حکومت
بنائی اور دوسری بار بھی دوسری غیر بھاجپائی پارٹیوں کے بالمقابل سیاسی
حالات اسی کے موافق ہیں تو آپ اس بار بھی اسی پارٹی کا انتخاب کریں اور اگر
حالات کسی دوسری غیر بھاجپائی کے لیے موافق ہوں تو اس بار اس کے لیے متحد
ہو جائیں۔یہ بات ریاستی الیکشن کے لیے بھی یاد رکھیں۔ آج سوشل میڈیا کا دور
ہے خبریں ایک دوسرے تک بڑی سرعت کے ساتھ پہنچائی جاسکتی ہیں۔ بس محنت ہر
مسلک کے مخلص ارباب بصیرت و سیاست کو کرنا ہوگا۔اب مخلصین کو میدان عمل میں
آنے کی ضرورت ہے اور گھر بیٹھے نام نہاد مسلم لیڈروں پر بھروسہ کرکے تماشہ
دیکھنے کا وقت نہیں۔مسلم رائے دہندگان کو بھی سیاسی شعور پیدا کرنا ہوگا
اور جو سیاسی شعور نہیں رکھتا تو مخلص ارباب بصیرت اور سیاسی شعور رکھنے
والے کے کہنے پر عمل کرنا ہوگا۔
غلط روی سے منازل کا بعد بڑھتا ہے
مسافرو! روش کارواں بدل ڈالو ۔۔۔۔۔
محمد شہباز عالم مصباحی
گنجریا،اسلام پور،مغربی بنگال
13مارچ 2017۔ 25: 01 رات |