خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کا بھائی خلیفہ ھشام بن عبد
الملک بن مروان بیت اللہ شریف کے حج کو آیا۔ طواف کے دوران اس کی نگاہ حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پوتے زاہد و متقی اور عالم ربانی حضرت سالم بن
عبداللہ رضی اللہ عنہ پر پڑی جو اپنا جوتا ہاتھ میں اٹھائے ہوئے خانہ کعبہ
کا طواف کررہے تھے۔ ان کے اوپر ایک کپڑا اور ایک عمامہ تھا جس کی قیمت 13
درھم سے زیادہ نہیں تھی۔ خلیفہ ھشام نے کہا "کوئی حاجت ہو تو فرمائیے" حضرت
سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا "مجھے اللہ سے شرم آ رہی ہے کہ میں اس
کے گھر میں ہوتے ہوئے کسی اور کے سامنے دستِ سوال دراز کروں"-
یہ سننا تھا کہ خلیفہ کے چہرے کا رنگ سرخ ہونے لگا اُس نے حضرت سالم بن
عبداللہ رضی اللہ عنہ کے جواب میں اپنی سبکی محسوس کی جب حضرت سالم بن
عبداللہ رضی اللہ عنہ حرم شریف سے باہر نکلے تو وہ بھی ان کے پیچھے ہی حرم
سے نکل پڑا اور راستہ میں ان کے سامنے آ کر کہنے لگا "اب تو آپ بیت اللہ سے
باہر نکل چکے ہیں کوئی حاجت ہو تو فرمائيں بندہ حاضر ہے" حضرت سالم بن
عبداللہ رضی اللہ عنہ یوں گویا ہوئے "آپ کی مراد دنیاوی حاجت سے ہے یا
اخروی حاجت سے؟" خلیفہ ھشام نے جواب دیا "اخروی حاجت کو پورا کرنا تو میرے
بس میں نہیں البتہ دنیاوی ضرورت ضرور پوری کر سکتا ہوں، فرمائيں"
حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا "میں نے دنیا تو اُس سے بھی
نہیں مانگی جس کی یہ ملکیت ہے پھر بھلا میں اس شخص سے دنیا کیوں کر طلب کر
سکتا ہوں جو خود اِس کا مالک نہیں ہے" یہ کہہ کر اپنے گھر کی طرف چل دیے
اور ھشام بن عبدالملک اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔
(البدایۃ و النھایۃ 9/135) |