بہار بن کر ماہِ رمضان آیا اور اب رُخصت ہونے کو ہے۔ اس
ماہِ مقدس میں رحمتیں اتنی کے شمار نہیں کی جاسکتیں؛ لیکن یہ ماہِ اقدس ایک
طرف انعامات کی بارش لاتا ہے تو دوسری طرف خود احتسابی و من کی اصلاح کی
جانب بھی راغب کرتا ہے۔ ہم نے رحمتوں سے دامن حیات بھرا لیکن اصلاحِ نفس کی
طرف توجہ کم کی۔ اسی لیے زندگی کے گلستاں میں نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔
الاماشاء اﷲ۔
تقویٰ : روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری ہے۔ یہاں بھی ریا کے شائبہ نے
نیتوں کو متاثر کیا۔ اﷲ کی رضا و خوش نودی کے لیے روزے کا اہتمام ہوتا ہے۔
اس میں دکھاوے کا مرض پروان چڑھ رہا ہے۔ اکثر سیٹھ جی، فعال شخصیات، ادارے
دعوتِ افطار اس غرض سے رکھتے ہیں کہ اصحابِ ثروت کو بلائیں گے، غیرمسلم
افسران کو خوش کریں گے، روزہ داروں کے درمیان مشرکین کی وہ آؤ بھگت کہ دعوتِ
افطار؛ دعوتِ نمائش بن جاتی ہے۔ طرفہ یہ کہ غریبوں کو نظر انداز کر دیا
جاتا ہے۔ وہ غریب جو آپ کی اس سخاوت کا زیادہ حق دار ہے؛ مال داروں کے
مقابل، اگر اس کی دل جوئی کی خاطر آپ نے دعوت دے دی تو اس کی دعائیں گناہوں
کا تریاق ہوں گی۔اور افطار روحانی خوشیوں کا باعث ہوگی۔
روزوں سے فرار: روزہ تقویٰ کا ساماں ہے۔ باطن کی تطہیر کا زینہ ہے۔ خشیت
الٰہی کا خزینہ ہے۔ آج روزے چھوڑنے کی عادت جڑ پکڑ رہی ہے۔ ہٹے کٹے افراد،
جوان اور جو صحت مند ہیں وہ اس طرح کا عذر پیش کر کے روزے نہیں رکھتے کہ ہم
سے سپڑتا نہیں، کہا جاتا ہے کہ ہم دھوپ میں کام کرتے، یا پھر محنت زیادہ
کرنی پڑتی ہے، لوم چلاتے ہیں، دکان داری میں لگے رہتے ہیں۔ حقیقت واقعہ یہ
ہے کہ کام کی مصروفیت سے روزے کا احساس نہیں ہوتا۔ جو بے کار رہتے ہیں
انھیں کام والوں کے مقابل روزے کی شدت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ یہ مشاہدے کی
بات ہے کہ کام میں مصروف آدمی کو روزے کا احساس کم ہوتا ہے۔ ویسے بھی اگر
روزہ محسوس ہو تو یہ خوف و خشیت کا سبب ہے کہ ہم اﷲ کی رضا کی خاطر کھاتے
پیتے نہیں۔ تو روزے کا محسوس کیا جانا بھی رحمت ہے؛ زحمت نہیں۔ اب ان
والدین سے سوال ہے کہ خود روزہ رکھتے ہیں بچوں کو ترغیب نہیں دیتے، روزہ
ترک کرنے پر انھیں کھانا وغیرہ فراہم کرتے ہیں، ان کے لیے اہتمام کرتے
کراتے ہیں۔ان کی ذمہ داری ہے کہ ترکِ روزہ سے منع کریں۔ عادت نہیں ہو تو
روزے کی عادت ڈلوائیں۔وہ نوجوان جن کے صحت مند والد روزہ نہ رکھتے ہوں تو
حدِ ادب میں گزارش کریں کہ وہ روزوں کے پابند بن جائیں۔ امسال تو ایسا
محسوس ہوا کہ ہر سال سے زیادہ روزے سے فرار اختیار کیا گیا۔جو تشویش کی بات
ہے۔
خشیت پیدا کریں: آخری عشرۂ رمضان میں چوں کہ ماہِ مبارک رخصت کو ہوتا ہے اس
لیے ہمیں اور زیادہ اہتمامِ عبادت کرنا چاہیے، اس کے برخلاف یہ دیکھا جاتا
ہے کہ مسجدوں، عبادتوں سے رغبت کم ہونے لگتی ہے، بازاروں میں ہجوم امڈ آتا
ہے، بوقت تراویح بھی یہ ہجوم بدستور رہتا ہے اور مساجد میں لوگ کم ہوجاتے
ہیں، جہاں ۴؍ صفیں تھیں وہاں اب ایک ڈیڑھ صف ہوتی ہے۔ یہ المیہ ہے کہ ہم
ماہِ مبارک کے اہتمام سے بے رغبتی کے شکارہو کر بازاروں میں پڑے ہیں۔
خواتین کا ہجوم: خواتین کے زیبائشی بازاروں میں انبوہِ کثیر ہوتا ہے۔ مردوں
کو چاہیے کہ کوشش کریں کہ ہجوم نسواں نہ ہو اس لیے خود ہی خریدی نمٹا لیں۔
یا دن میں یہ کام کر لیں کہ رات کے میلے سے گریز ہو۔ یوں ہی خریداری میں
توازن بھی ضروری ہے کہ پورا ماہ ملتا ہے پھر راتوں کو میلا لگانا کیا مناسب
ہے؟ کیا خواتین کو یوں بازاروں میں پھرنے دینا کیا بے راہ روی کو بڑھاوا
نہیں دیتا؟ ٹھیک ہے ماہِ صیام کی وجہ سے دکانیں دیر تک کھلی ہوتی ہیں لیکن
کیا ضروری ہے کہ خواتین ہی خریدی کریں؟ مرد حضرات حتی المقدور جو خریدی کر
سکتے ہیں وہ کر لیں تا کہ عورتوں کا زبردستی ہجوم نہ ہو۔اور حیا یوں رُسوا
نہ ہو۔ اسی طرح چپل کی دکانوں سے خریدی میں بھی گھر کے سرپرست آگے
آئیں۔وہاں بھی خواتین کے ہجوم سے اجتناب ضروری ہے۔
صالح اعمال کو تباہی سے بچائیں: رمضان میں عبادتوں کی رغبت اور گناہوں سے
توبہ کا ماحول بنتا ہے۔ اس کا اہتمام کرنے والے بڑے ستھرے ہو جاتے ہیں۔پھر
عید کی خوشیوں میں اعمالِ صالحہ سے منھ موڑ لینا دانش مندی نہیں۔ فلم ہاؤس
بھرے ہوتے ہیں۔گناہوں سے توبہ کے بعد رجوع افسوس ناک ہے! خدارا! اپنی
عبادتوں اور نیکیوں کو بچائیں۔ انھیں یوں آلودہ نہ کریں۔ بلکہ عید کی جائز
طریقے سے خوشیاں منائیں۔ تفریح گاہوں میں مرد و زن کا اختلاط، بے پردگی، بے
حیائی، بے جا تفریح یہ سب ہماری قومی تباہی کے اسباب ہیں۔ بلکہ ماہِ صیام
کے برکات سے محرومی کا اولین مرحلہ یہی اعمال ہیں۔ اس جانب بھی اصلاح کی
ضرورت ہے۔ سرپرستوں کی زیادہ ذمہ داری ہے کہ نونہالوں کی تفریح کو اپنی
نصیحتوں کے سائے میں رکھیں
رزقِ خدا کھایا کیا، فرمانِ حق ٹالا کیا
شکرِ کرم ترسے سزا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
[اعلیٰ حضرت]
فرقہ وارانہ منافرت : اس وقت ملک جس طرح کے حالات سے گزر رہا ہے وہ مخفی
نہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک، اسلامی شعائر پر پابندی کی سازشیں،
مسلم شناخت پر تعصب عام ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں کوئی چھوٹی بات بڑے مسائل
کا موجب بن سکتی ہے۔ اس لیے عید کی تفریحات کو ایسے تمام کاموں سے بچائیں
جن سے ماحول خراب ہو۔ غیروں کے علاقوں میں تو بہت ہی سختی سے ایسی حرکات نہ
ہونے دیں جن سے انھیں اعتراض کا موقع ملے۔دھینگا مستی، ہلڑ بازی، شور
ہنگامہ، دوسروں کی املاک کو نقصان پہنچانا، کھیتی کو کچلنا، باغوں کو
اجاڑنا، یہ عوامل عموماً فتنے کا باعث بنتے ہیں، غیر تو تاک میں ہوتے ہیں
مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا موقع ہاتھ آئے اس لیے بھی شائستگی، تہذیب،
اخلاق، مروت، اور کردار کی بلندی کا مظاہرہ کریں، سرپرست بچوں کو تاکید
کریں کہ بے جا تفریح سے بچیں اور ایسی حرکات سے دور رہیں جن سے غیر مسلم ہم
پر معترض ہوں۔ یوں ہی غیروں کی املاک کو تفریح کا محور نہ بنائیں۔
بہت سے ایسے پہلو ہیں جہاں کوتاہی بڑے فتنے کی بنیاد بنتی ہے۔ اس لیے
سرپرست اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے تنبیہ و تاکید سے کام لیں۔ تمام
سرگرمیوں پر نگاہ رکھیں۔ غیر مناسب تفریحات پر روک لگائیں۔ اپنے اور اپنی
عیال کی اخلاقی قدروں کی حفاظت کریں۔بے پردگی پرروک لگائیں۔ حدود میں مواقع
فراہم کریں کہ عبادتوں کی تربیت (ماہِ رمضان کی نیکیاں) باقی رہیں اور دامن
دل تازہ گناہوں سے آلودہ نہ ہو۔ رب کی رحمتوں کا ساون گنہ گاروں پر برستا
رہے اور بحیثیت مسلمان ہم اپنی ذمہ داریوں کا احساس رکھیں، قومی وقار کی
پامالی کی راہ دشوار ہوجائے تا کہ مسائل کے غبار چھٹیں اور مصائب کی
آندھیاں دور ہوں۔
٭٭٭
|