اَرکانِ اسلام میں نماز کے بعداَہم ترین فریضہ زَکوٰۃ
ہے۔اِس اَہم ترین فریضے کواﷲ تبارک وتعالیٰ نے نمازکے ساتھ قرآن مقدس میں
یکجاکئی مقامات پرحکم دیااورنمازکے بعدزکوٰۃ کاحکم ارشادفرمایا ۔ جس طرح
نمازبَدنی عبادت ہے اُسی طرح زَکوٰۃ مالی عبادت ہے۔زَکوٰۃ کے معنیٰ پاکیزگی
کے ہیں کیونکہ اُس کی اَدائیگی سے مال پاکیزہ ہوجاتاہے۔ جب انسان کادل اپنے
اَہل وعیال اورعزیزواَقارِب کی محبت کامکمل عادی ہوگیاتواﷲ تبارک وتعالیٰ
نے اُن سے اُس کارشتہ توڑنے اوراپنے ساتھ جوڑنے کے لئے مسجدمیں
نمازِباجماعت اَداکرنے کاحکم فرمایااورجب انسان کے دل میں کھانے پینے کی
رغبت زیادہ پیداہوئی تواُسے بے رغبت کرنے کے لئے روزہ فرض فرمایاتاکہ بندہ
کھانے پینے کی محبت ورغبت سے دُوررَہ کرروزہ رکھے اوراُس کاقر ب حاصل کرے
اورجب اُس کے دل میں وطن کی محبت جاں گُزیں ہوئی اوراپنے صحرا،دریا،پہاڑوں
،شہروں اوراپنے گھرسے بہت محبت کرنے لگاتووطن مالوف سے مُسافر کرکے حَج بیت
اﷲ شریف کاحکم فرمایاتاکہ وہ اپنے وطن ِعزیزسے جُداہوکراپنے معبودبرحق کی
محبت کوپائے اورجب انسان کے دل میں مال ودولت کی محبت کامل طورسے مستحکم
ہوگئی اورمال کی حرص ولالچ اِس قدر زیادہ ہوئی کہ آخرت کے انجام کوبھول
گیاتواﷲ تبارک وتعالیٰ نے اُسے زکوٰۃ کی ادائیگی کاحکم فرمایاتاکہ بندہ مال
کی محبت سے مکمل بے نیاز ہوکرپاک وصاف ہوجائے اوراُس رَبِّ ذُوالجلال کی
محبت کے لائق ہوجائے اورمال ِدنیاکی محبت اُس کے دل میں جاگزیں نہ ہونے
پائے ۔
قرآن مقدس میں خالق کائنات نے ارشادفرمایاـ:’’واقیمواالصلوٰۃ
واٰتواالزکوٰۃالخ‘‘اورنمازقائم رکھواورزکوٰۃ دو‘‘۔(ترجمہ :کنزالایمان،سورۃ
البقرہ،آیت نمبر43)
اورفرماتاہے:’’وماانفقتم من شئی فھویُخلفہ وھوخیرالرازقین‘‘اورجوچیزتم اﷲ
کی راہ میں خرچ کرووہ اس کے بدلے اوردے گااوروہ سب سے بہتر رزق دینے
والا(ترجمہ :کنزالایمان،سورۂ سبا،پارہ 22،آیت نمبر39)
اورفرماتاہے کہ :یَمْحَقُ اللّٰہ ُالرِّبوا وَیُربِی الصَّدَقٰتِ‘‘اﷲ ہلاک
کرتاہے سودکو اوربڑھاتاہے خیرات کو‘‘(ترجمہ:کنزالایمان،سورۃ البقرہ،آیت
نمبر276)
اورفرماتاہے کہ :’’فلاح پاتے ہیں وہ جوزکوٰۃ اداکرتے ہیں اورفرماتاہے جوکچھ
تم خرچ کروگے اﷲ تعالیٰ اُس کی جگہ اوردے گااوراﷲ بہتر روزی دینے والاہے
اورفرماتاہے جولوگ بخل کرتے ہیں اُس کے ساتھ جو اﷲ نے اپنے فضل سے اُنہیں
دیاوہ یہ گمان نہ کریں کہ یہ اُن کے لئے اچھاہے بلکہ یہ اُن کے لئے بُراہے
اسی چیز کاقیامت کے دن اُن کے گلے میں طوق ڈالاجائے گاجس کے ساتھ بُخل کیا‘‘۔
بعض درختوں میں کچھ اجزائے فاسدہ اس قسم کے پیداہوجاتے ہیں کہ پیڑکی اُٹھان
کوروک دیتے ہیں۔اَحمق نادان اُسے نہ تراشے گاکہ میرے پیڑسے اِتناکم ہوجائے
گا،پرعاقل ہوشمندتوجانتاہے کہ اُن کے چھاٹنے سے یہ نونہال لہلہاکردرخت بنے
گاوَرنہ یونہی مُرجھاکررہ جائے گا۔یہی حساب زَکوٰۃ کے مال کاہے۔
زکوٰۃ دینے کی فضیلت اورنہ دینے پروعیدیں اس کے متعلق چندحدیثیں ملاحظہ
ہوں:
(1)حضورنبی اکرم،نورمجسم ،سیدعالم ﷺارشادفرماتے ہیں کہ:’’ماخالطت الصدقۃ
اومال الزکوٰۃ مالا الاافسدتہ‘‘زکوٰۃ کامال جس مال میں ملاہوگااُسے تباہ
کردے گا۔(رواہ البزازوالبیھقی)(2)حدیث میں ہے کہ حضورﷺ فرماتے ہیں:’’ماتلف
مال فی برولامجوالابحبس الزکوٰۃ‘‘خشکی وتری میں جومال تلف ہوتاہے وہ زکوٰۃ
نہ دینے سے ہی تلف ہوتاہے۔(3) حدیث میں حضوراقدس ﷺ ارشادفرماتے ہیں کہ:’’من
ادازکوٰۃ مالہ فقداذھب اللّٰہ شرہ‘‘جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ اداکردی بے شک
اﷲ تعالیٰ نے اُس ما ل کاشراس سے دورفرمادیا۔(اخرجہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ
والطبرانی فی الاوسط والحاکم فی المستدرک عن جابربن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ
تعالیٰ عنہما)
(4)آقائے دوجہاں ﷺ ارشادفرماتے ہیں کہ ’’حفنواامولکم بالزکوٰۃ
ودادواامراضکم بالصدقۃ‘‘اپنے مالوں کومضبوط قلعوں میں کرلوزَکوٰۃ دے کر
اوراپنے بیماروں کاعلاج کروصدقہ وخیرات سے۔(رواہ ابوداؤدوالطبرانی
والبیھقی)
(5)حضورﷺارشادفرماتے ہیں کہ’’ان تمام اسلامکم ان نؤد وازکوٰۃاموالکم‘‘
تمہارے اسلام کاپوراہونایہ ہے کہ اپنے مالوں کی زکوٰۃ اداکرو۔(رواہ
البزازعن عقلمۃ)
(6)حضوررحمت دوعالم ﷺ ارشادفرماتے ہیں کہ:’’من کان یؤمن باللّٰہ رسولہ
فلیؤد زکوٰۃ مالہ‘‘جواﷲ تعالیٰ اوراس کے رسولﷺ پرایمان لاتاہواُسے لازم ہے
کہ اپنے مال کی زکوٰۃ اداکرے۔(رواہ الطبرانی فی الکبیرعن ابن عمررضی اللّٰہ
تعالیٰ عنہما)
(7)صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی رسول اﷲ
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس کواﷲ تعالیٰ مال دے اوروہ مال کی
زکوٰۃ کی ادانہ کرے توقیامت کے دن مال گنجے سانپ کی صورت میں کردیاجائے
گاجس کے سرپردوچتیاں ہونگی ۔وہ سانپ اُس کے گلے میں طوق بناکرڈال دیاجائے
گاپھراُس کی باچھیں پکڑے گااورکہے گامیں تیرامال ہوں میں تیراخزانہ ہوں
۔(ترمذی،نسائی،ابن ماجہ)
(8)سیدنا ابوذرغفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ (جولوگ اپنے مال کی
زکوٰۃ نہیں نکالتے ہیں)ان کے پستان پروہ جہنم کاگر م پتھررکھیں گے کہ سینہ
کو توڑکرشانہ سے نکل جائے گااورشانہ کی ہڈی پررکھیں گے کہ ہڈیاں توڑتاسینہ
سے نکلے گا۔(اخرجہ الشیخان عن الاحنف بن قیس)
اورفرمایامیں حضورنبی اکرم ،نورمجسم ،سیدعالم ﷺ کوفرماتے سُناکہ پیٹھ
توڑکرکروٹ سے نکلے گااورگدّی توڑکرپیشانی سے(رواہ مسلم)
(9)حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکوئی روپیہ دوسرے روپے
پرنہ رکھاجائے نہ کوئی اشرفی دوسری اشرفی سے چھوجائے گی بلکہ زکوٰۃ نہ دینے
والے کاجسم اِتنابڑھادیاجائے گاکہ لاکھوں کروڑوں جوڑے ہوں توہرروپیہ جداداغ
دے گا۔(رواہ الطبرانی فی الکبیر)
(10)حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ حضورپاک ﷺ نے ارشاد فرمایا’’اﷲ تبارک وتعالیٰ
اُس شخص کی نمازکو قبول نہیں فرماتاجوزکوٰۃ اَدانہ کرے۔(کنزالعمال)
اِن مذکورہ تمام اَحادیث طیبہ سے زَکوٰۃدینے والے کی فضیلت اورنہ دینے والے
پروعیدیں صاف طورپرمعلوم ہوااِس لئے اگرخدائے وحدہ لاشریک نے آپ کومالکِ
نصاب بنایاہے توزکوٰۃ کی اَدائیگی میں پہل کریں تاکہ جواُس کے مستحقین ہیں
اُس کی ضروت پوری ہوجائے ورنہ خداوندقدوس کی گرفت سے آپ بچ نہیں سکتے۔
جوکچھ(مال) اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیاجائے اوراپنے مال سے زکوٰۃ اداکی
جائے اُس سے رزق کم نہیں ہوتابلکہ دنیاوآخرت میں بڑھتاہی رہتاہے ۔
ائے عزیز! کیاخدائے رب ذوالجلال اوراُس کے محبوب پیغمبرخاتم الانبیاء صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرمان مقدس کو آپ یونہی ہنسی ،مذاق اورٹھٹھاسمجھتے
ہویاپچاس ہزاربرس کی مدت میں یہ جانکاہ مصیبتیں جھیلنی آسان جانتے ہو
۔ذرایہیں(دُنیا) کی آگ میں ایک آدھ روپیہ گرم کرکے اپنے بدن
پررکھو!دیکھوپھرکہاں یہ گرمی کہاں وہ قہرآگ .......،کہا یہ ایک ہی روپیہ
کہاں وہ ساری عمرکاجوڑاہوامال........،کہاں یہ منٹ بھرکی دیرکہاں وہ
ہزاربرس کی آفت........ ،کہاں یہ ہلکاساچکساکہاں وہ ہڈیاں توڑکرپارہونے
والاغضب ......۔ ایک بے عقل گنوارکودیکھ کہ تخم گندم اگرپاس نہیں ہوتابہ
ہزاروقت قرض دام سے حاصل کرتااوراُسے زمین میں ڈالتاہے۔اُس وقت تووہ اُسے
خاک میں ملادیتاہے مگرایک اُمیدلگی ہے کہ خدتعالیٰ چاہے تویہ کھونابہت کچھ
پاناہوجائے گا۔تجھے اُس گنوارکِسان کے برابربھی عقل نہیں یاجس قدرظاہری
اسباب پربھروسہ ہے اپنے مالِک جل جلالہ کے ارشادِمبارک پراِتنااطمینان بھی
نہیں کہ اپنے مال بڑھانے اورایک ایک دانہ کاایک ایک پیڑبنانے
کوزَکوٰۃ کابیج نہیں ڈالتا۔وہ فرماتاہے کہ زکوٰۃ دوتمہارامال بڑھے
گا۔اگردِل میں اِس فرمان الٰہی پریقین نہیں جب توکُھلاکافرہے ورنہ تجھ سے
بڑھ کراَحمق کون کہ اپنے یقینی نفع دین ودنیاکی ایک بھاری تجارت
چھوڑکردونوں جہاں کانقصان مول لیتاہے۔
زکوٰۃ کی تعریف:زکوٰۃ شریعت میں اﷲ تعالیٰ کے لئے مال کے ایک حصہ کا جوشرع
نے مقرکیاہے
مسلمان فقیرکومالک قراردیناہے اوروہ فقیرنہ ہاشمی ہونہ ہاشمی کاآزادکردہ
غلام۔
زکوٰۃ ہربالغ اورآزادمسلمان پرفرض ہے ،مگر اس صورت میں جب اُس کے پاس سال
تک ساڑھے سات تولہ سونایاساڑھے باون تولہ چاندی یااس کی قیمت کے برابرنقدی
یاتجارت کاسامان ہواوروہ گھرکی ضروریات سے زیادہ ہواورجونہی سال پوراہوجائے
اس رقم ،زیورات کاچالیسواں حصہ یاڈھائی فیصدبطورزکوٰۃاداکرناہرمسلمان پر
فرض ہے ۔ اس طرح زمین کی پیداوارپربھی زکوٰۃ فرض ہے،نہری اورچاہی زمین کی
فصل کابیسواں حصہ اوربارانی زمین کی فصل کادسواں حصہ بطورزکوٰۃ فرض
ہے۔گھرکے استعمال کی چیزوں پرزکوٰۃ فرض نہیں ہے۔پاگل اوربچے اورمقروض آدمی
پرزکوٰۃ فرض نہیں ہے۔پالتوجانوروں اورمویشیوں پرزکوٰۃ فرض ہے ۔اس کی
تعدادیوں ہے بھیڑ،بکریاں،کم ازکم چالیس ہوں،بھینس یاگائے کم از کم بیس
اوراونٹ کم از کم پانچ ہوں اِن کی قیمت کے حساب سے ڈھائی فیصدزکوٰۃ فرض ہے۔
اس کامنکرکافراورنہ دینے والا فاسق اورقتل کامستحق اوراَدامیں تاخیرکرنے
والاگنہگار مردودالشہادۃ ہے۔
زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے چندشرطیں ہیں: (۱)مسلمان ہونا(۲)بالغ ہونا(۳)عاقل
ہونا(۴)آزادہونا(۵)مالک نصاب ہونا(۶)پورے طورپرمالک ہونا(۷)نصاب کاقرض سے
فارغ ہونا(۸)نصاب کاحاجت اصلیہ سے فارغ ہونا(۹)مال کانامی ہونا(۱۰)سال
گزرنا۔(سال سے مرادقمری سال ہے یعنی چاندکے مہینوں سے بارہ مہینے شروع سال
اورآخرسال میں نصاب کامل ہے مگردرمیان میں نصاب کی کمی ہوگئی تویہ کمی کچھ
اثرنہیں رکھتی یعنی زکوٰہ واجب ہے)۔
زکوٰۃ کے مصارف: (۱)فقراء۔جس کے معنی ہیں غریب وتنگ دست(۲)مساکین۔جوکمانے
کے قابل نہ ہو(۳)عاملین۔وہ لوگ جوزکوٰۃ وصول کرنے کے لئے ملازم رکھے گئے
ہوں (۴)مسافر۔ایسے لوگ جووطن سے دورہوں(۵)غارمین۔وہ لوگ جن کے ذمہ قرض ہوں
اوراَداکرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں(۶)مجاہد۔خدائے رب ذوالجلال کی راہ میں
لڑنے والے(۷)فی الرقاب۔جوکسی کی غلامی میں ہوں اورآزادہونے کے لئے اُن کے
پاس رقم نہ ہوں(۸)نومسلم۔ان مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے جونئے نئے
مسلمان ہوتے ہیں۔
کن لوگوں کوزَکوٰۃ دیناجائز نہیں: اپنے ماں باپ،دادا،دادی،نانا،نانی،
بیٹا،بیٹی،پوتا،پوتی،نواسا،نواسی،شوہربیوی کواوربیوی شوہرکوزکوٰۃ نہیں دے
سکتے۔
زکوٰۃ تین قسم کے مال پرہے: (۱)ثمن یعنی سوناچاندی(۲)مال تجارت(۳)سائمہ
یعنی چرائی پرچھوڑے جانور۔
سونے چاندی میں مطلقاًزکوٰۃ واجب ہے جب کہ بقدرنصاب ہوں اگرچہ دفن کرکے
رکھے ہوں یااستعمال میں ہوں تجارت کرے یانہ کرے اوراُن کے علاوہ باقی چیزوں
پرزکوٰۃ اُس وقت واجب ہے کہ تجارت کی نیت ہویاچرائی پرچھوڑے جانور۔
مسائل فقہیہ:٭موتی اورجواہرات پرزکوٰۃ واجب نہیں اگرچہ ہزاروں کے ہوں ۔ہاں
اگرتجارت کی نیت سے لئے توزکوٰۃ واجب ہوگی۔٭جوشخص نصاب کامالک ہے اگردرمیان
سال میں کچھ اورمال بڑھاتواس بڑھے مال کاسال الگ نہیں بلکہ پہلے مال کاختم
سال اس کے لئے بھی ختم سال ہے ۔اگرچہ سال پوراہونے سے ایک ہی منٹ پہلے
ہواہو۔٭زکوٰۃ دیتے وقت یازکوٰۃ کے لئے مال الگ کرتے وقت زکوٰۃ کی نیت
کاہوناضروری ہے۔نیت کے یہ معنی ہیں کہ اگرپوچھاجائے توبلاتامل بتاسکے کہ
زکوٰۃ ہے۔٭سال بھرخیرات کرتارہااس کے بعدنیت کی کہ جوکچھ دیاہے وہ زکوٰۃ ہے
،اِس طرح زکوٰۃ ادانہ ہوگی۔٭زکوٰۃ کامال ہاتھ پررکھاتھاکہ فقیروں نے لوٹ
لیاتوزکوٰۃ اداہوگئی اوراگرہاتھ سے گرگیااورفقیروں نے اُٹھالیااگریہ اُسے
پہچانتاہے اورراضی ہوگیااورمال بربادنہ ہواتواداہوگئی ۔٭زکوٰۃ کاروپیہ مردہ
کی تجہیز وتکفین (کفن دفن)یامسجدکی تعمیرمیں نہیں لگاسکتا کہ اِس میں
فقیرکومالک کردینانہیں پایاگیا،اگران چیزون میں خرچ کرناچاہے تواس کاطریقہ
یہ کہ فقیرکومالک کردیں یہ فقیرخرچ کرے ثواب دونوں کوہوگا۔حدیث شریف میں
آیاہے کہ اگرسوہاتھوں میں صدقہ گزراتوسب کوویساہی ثواب ملے گاجیسادینے والے
کواوراس کے اَجرمیں کچھ کمی نہ ہوگی۔٭زکوٰۃ دینے میں اس کی ضرورت نہیں کہ
فقیروں کوزکوٰۃ کہ کردے بلکہ صرف زکوٰۃ کی نیت کافی ہے یہاں تک کہ اگرکوئی
اورلفظ جیسے ہدیہ ،نذریابچوں کے لئے مٹھائی کھانے،تمہیں عیدکرنے کو،کہ
کردیااورخودنیت زکوٰۃ کی رکھی توبھی اداہوجائے گی۔(بعض محتاج ضرورت
مندزکوٰۃ کاروپیہ نہیں لیتے اُنہیں زکوٰۃ دینے میں زکوٰۃ کالفظ نہ کہے)٭ایک
ہزارکامالک ہے اوردوہزارکی زکوٰۃ دی اورنیت یہ ہے کہ سال تمام تک اگرایک
ہزاراورہوگئے تویہ اُس کی ہے ورنہ آئندہ سال میں محسوب ہوگی تویہ
جائزہے۔٭اگرشک ہے کہ زکوٰۃ دی یانہیں دی تواَب دے۔٭زَکوٰۃ دینے کے لئے وکیل
بنایااوروکیل کوبہ نیت زکوٰۃ مال دے دیامگر وکیل نے فقیرکودیتے وقت نیت
نہیں کی زَکوٰۃاداہوگئی یونہی زکوٰۃ کامال ذِمِّی کودیاکہ وہ فقیرکودے دے
اورذِمِّی کودیتے وقت نیت کرلی تھی تویہ نیت کافی ہے۔٭وکیل کواختیارہے کہ
مالِ زکوٰۃ اپنے لڑکے یابیوی کودے دے جب کہ یہ فقیرہوں اورلڑکااگرنابالغ ہے
تواُسے دینے کے لئے خوداس وکیل کافقیرہونابھی ضروری ہے۔مگراپنی بیوی
یااولاد کواُس وقت دے سکتاہے جب مؤکل نے اُن کے سواکسی خاص شخص کودینے کے
لئے نہ کہ دیاہوورنہ انہیں نہیں دے سکتا۔٭وکیل کویہ اختیارنہیں کہ وہ خودلے
لے ،ہاں اگرزکوٰۃ دینے والے نے یہ کہ دیاہوکہ جس جگہ چاہوصَرف کروتولے
سکتاہے۔٭مباح کردینے سے زکوٰۃ اَدانہ ہوگی۔مثلاًفقیرکوزَکوٰۃ کی نیت سے
کھاناکھلادیاتوزکوٰۃ اَدانہ ہوگی۔اِس لئے کہ یہ مالک کردینا نہ ہوا۔ہاں
اگرکھانادے دے کہ کھالے یالے جائے تواداہوگئی۔یونہی زکوٰۃ کی نیت سے کپڑادے
دیاتواداہوگئی۔٭مالک کرنے میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے کوزکوٰۃ دے جوقبضہ
کرناجانتاہویعنی ایسانہ ہوجوپھینک دے یادھوکاکھائے ورنہ اَدانہ ہوگی ۔جیسے
چھوٹے بچے یاپاگل کوزکوٰۃ دینے سے ادانہ ہوگی جس بچے کواتنی عقل نہ ہوتواُس
کی طرف سے اس کاباپ جوفقیرہووہ قبضہ کرلے یااس بچے کاوصی یاوہ کہ یہ بچہ جس
کی نگرانی میں ہے وہ قبضہ کرلے۔
آج کل عوام توعوام بلکہ بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی ایک غلطی میں مبتلاہیں کہ
نفلی نمازیں ،نفلی روزے ،نفلی حج اورنفلی صدقات وخیرات کابڑااہتمام کرتے
ہیں اوربہت سے اُمورمیں جوزیادہ سے زیادہ صِرف بہتراورمستحب ہیں اُس میں
بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں اوراُن پرپانی کی طرح دولت بہاتے ہیں اوراُسے ثواب
اورنجاتِ آخرت اورقرب الٰہی کاذریعہ سمجھتے ہیں لیکن اﷲ تبارک وتعالیٰ کے
فرض (زکوٰۃ )اوراُس بادشاہ ِقہَاروجَبَّارکایہ بھاری قرض اپنی گردن سے
اُتارنے کی طرف قطعاًتوجہ نہیں کرتے ۔یہ شیطان کابڑادھوکاہے جوکہ آدمی
کونیکی کے پردہ میں ہلاک کرتاہے اوربندہ نہیں جانتاکہ نفل بے غیرفرض کے
دھوکے کی چیزہے۔اس لئے پہلے فرائض کی ادائیگی میں پہل کریں پھرنوافل کی طرف
اپنے ذہن ودماغ کومتوجہ کریں۔مولیٰ تعالیٰ کی بارگاہ ِعالی جاہ میں دعاء
گوہوں کہ جوحضرات مالکِ نصاب ہیں اُنہیں زکوٰۃ کی رقم جلدی اَداکرنے کی
توفیق عطافرماآمین بجاہ سیدالمرسلین۔ |