سلمان تیز تیز قدموں سے،،ہسپتال کی جانب جارہا تھا‘‘،،وہ
دل ہی دل میں بچے کی صحت کے بارے میں دعائیں کرتا ہوا جارہا تھا‘‘،،،حد ہو
گئی‘‘،،،سلمان،،،خوامخواہ ٥٠٠٠٠(پانچ ہزار) واپس کر دئیے‘‘،،،آج ضرورت پڑ
گئی تو خود تو کیسے معاف کروگے‘‘،،،ہر کسی کو اپنے ہی ترازو میں نہیں تولنا
چاہیے‘‘،،ہاؤ سیلفش ایم آئی،،،،اپنی انا کے لیے،،ان کے پانچ ہزار مروادئیے‘‘،،تجھے
کیا پتا،،اولاد کے دکھ کیا ہوتے ہیں‘‘،،،انسان کی اپنی لاش تو بےشک کسی اور
کے کندھوں پر ہوتی ہے‘‘،،مگر کسی اور کی لاش تو ہمارے کندھوں کی ہی محتاج
ہوتی ہے‘‘،،،
ہروقت زندگی کو اپنی ہی عینک سے نہیں دیکھنا چاہیے‘‘،،،اگر بچے کی کنڈیشن
نہ سنبھلی تو،،،وہ کانپ کے رہ گیا‘‘،
اسلم کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے آنسو اس کو یاد آنے لگے‘‘،،بھابھی کی
آنگوٹھی شاید آخری ہی ہو،،غریب آدمی سونا رکھ کے کیا کرے گا‘‘،،اس کی ساری
دولت اس کا گھر اور بچے ہوتے ہیں‘‘،،،سلمان ان سوچوں میں غرق ہسپتال کی
جانب بڑھتا جارہا تھا‘‘،،جاتے ہی ڈاکٹر سے بات کروں گا‘‘،،ورنہ کسی
اورہسپٹل بچہ شفٹ کرنا ہوگا‘‘،،بے شک روزی کے بڑے سے بنگلے کے باہر جاکر
چھوٹی سی التجا ہی کرنی پڑجائے‘‘،،،وہ ضرور مدد کرے گا،،پھر کریم صاحب کے
اسلم سے ریلیشن بھی اچھے ہی ہیں‘‘،،اک رکشہ پاس سے گزرا،،کسی نے اسے زور سے
پکارا‘‘،،،سلمان،،،،،،،،،،،،،
وہ چونک گیا،،رکشہ تھوڑا آگے جاکررک گیا‘‘،،،اس میں سے اسلم کا چہرہ نمودار
ہوا‘‘،،،سلمان بھائی کم بیک‘‘،،،
جب وہ خوش ہوتا تو کچھ کچھ انگلش کی ٹانگ توڑتا تھا‘‘،،سلمان کے دل میں اک
امید نے سراٹھایا،،یااللہ رحم،،،
اسلم بھائی خوش ہیں مطلب سب ٹھیک ہے‘‘،،وہ تیزی سے ان کے پاس گیا‘‘اندر
بھابھی،،بچہ ،،اسلم تھے‘‘،،گھر واپس آؤ میں بتاتاہوں‘‘،،،سلمان مسکرادیا‘‘،،،وہ
الٹے قدم واپس ہوگیا،،،
سلمان اسلم بھائی کے گھر بیٹھا گرم چائے کے مزے لے رہاتھا،،یار بچے کی
کھانسی نے گلے میں خراش پیداکر دی تھی‘‘،،الٹی ہوئی تو خون آگیا‘‘،،،اب دو
گیندیں بھی لے دی ہیں ،،خوش ہے،،ڈرپ بھی لگ گئی ہے،،،تیرے پیسوں میں بڑی
برکت ہے استاد‘‘،،،انگوٹھی بچ گئی،،سلمان کے چہرے پرصدیوں کا سکون تھا‘‘،،واہ
میرے رب‘‘بےشک تو سب سے قریب ہے‘‘،،،،،،(جاری)
|