دیسی بدیسی کتّے

کتّے کا اردو ادب میں نمایاں کردارہے۔ الف لیلہ کی کہانیاں ہوں یا لیلیٰ مجنوں کی عشقیہ داستان، کتا ہر جگہ دم ہلاتا ہوا ملے گا۔ الف لیلہ کے خواجہ سگ پرست اپنی زوجہ محترمہ کو کتے کا جھوٹا کھلاتے تھے جبکہ سگ لیلیٰ کو مجنوں والہانہ انداز میں چومتا تھا اور فلم کے ناظرین اس منظر سے گھن کھاتے تھے۔ 12؍اکتوبر1999ء سے قبل پاکستان میں اقتدار کے مزے لوٹنے والا ’’پانچ کا ٹولہ‘‘ بھی پرنٹ میڈیا کی زینت بنا تھا ۔ حکومت سے وابستہ شخصیات فخریہ طور سے خودکو حکومتی سربراہ کے کتّے سے تشبیہ دیتی تھیں لیکن اپنے مالک کی مسند اقتدار سے معزولی کے بعد انہوں نے کتّے کی وفادارانہ خصلت کے برعکس اپنی وفاداریاں بھی دوسرے مالک کے نام منتقل کردیں اور نئے مالک کی خوشنودی میں پرانے مالک پر بھونکنے لگیں۔ اردو ادب کے محاوروں اور تشبیہات میں بھی اس جانورکو جو پذیرائی ملی ہے وہ الّو اورگدھے کے مقابلے میں غیرمہذبانہ کی بجائے زیادہ تر مہذبانہ انداز میں ہے۔کتّا پن، کتّاخصلت، کتّے جیسی شکل اور کتّے کی تیڑھی دُم جیسی تشبیہات اسی حیوانی مخلوق کی شخصیت حیوانی کا طرئہ امتیاز ہیں ۔

امریکا اور یورپ میں کتّے کو مغربی ممالک میں رہائش پذیر افراد کے مساوی عزت و توقیر دی جاتی ہے جبکہ ایشیائی باشندوں کی ابتلاء کو دیکھ کر سگ مغرب بھی احساس برتری میں مبتلا رہتے ہیں۔ امریکا میںگدھے کی طرح کتّے کا کوئی سیاسی مقام تو نہیں ہے لیکن اسے مغربی معاشرے میں اس قدر اعلیٰ مقام حاصل ہے کہ وہاں اس کے نام پر بننے والے ہاٹ ڈاگ یعنی گرم کتّے کو بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔ اس سے ہم لاعِلم ہیں کہ ہاٹ ڈاگ میں ڈاگ میٹ شامل ہوتا ہے یا اس کا نام صرف غذائی تشہیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن مشرق بعید میں کتّے کے گوشت سے بنے ہوئے پکوان، لِحم حیوانی کے دِلدادہ افراد بڑی رغبت سے کھاتے ہیں اور ہمیں شَک ہی نہیں بلکہ کسی حد تک یقین ہے کہ ان ممالک میں مقیم ہمارے ملک کے گوشت خور حضرات بھی کتّا فرائی اور اس سے ملتے جلتے پکوانوں سے شوق فرماچکے ہوں گے۔ مذکورہ ممالک میں کتّوں کی نایابی کی صورت میں غیر ممالک سےکتّا بقدرجثہ کی قیمت پر درآمد کیا جاتا ہے۔کتّوں کی بے شمار نسلیں اور قسمیں ہیں لیکن ہمارے ملک کے آوارہ کتّے ان میں سے کسی بھی قسم پر پورا نہیں اترتے اس لیے گردن زدنی سے محفوظ رہتے ہیں۔ ہم کتّے کی جن غیر ملکی اقسام سے واقف ہیں ان میں افغان ہاؤنڈ اور ایسیشئن ہی ہمارے ذہن میں محفوظ ہیں اور ان سے بھی ہمارا واسطہ کسی بلڈنگ میں بلا اجازت داخلے کی صورت میں پڑا اور ان سے ریس کے مقابلے میں ہمیں سرپٹ دوڑنا پڑا، اس ریس میں ہم ہی اوّل آئے جبکہ میڈل کی صورت میں پتلون یا پاجامے کا پھٹا ہوا پائنچا اور پنجہ سگ کے کھرونچے اپنے ہاتھ اور ٹانگوں پر لے کر گھر پہنچے۔ دوئم آنے کی صورت میں اُدھڑا ہوا بدن لے کر اسپتال جانا پڑتا۔ ان کے مقابلے میں دیسی المعروف آوارہ کتّوں سے ہمارا واسطہ ہرگلی کوچے یا شاہراہ عام پر شب و روز پڑتا ہے اور رات کو دفتر سے چھٹی کے بعد جب ہم اپنی بائیک پر گھر کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو ویران شاہراہوں پر جگہ جگہ اسی حیوانی مخلوق کو چیکنگ پر مامور پاتے ہیں جو نظمیہ اور رَزمیہ انداز میں ہر آنے جانے والے کا حال احوال پوچھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سے فارغ ہوکر ہم جیسے ہی اپنے محلّے میں پہنچتے ہیں تو انہی کے ہم قبیل گروہ کو استقبالیہ نعروں کی گونج میں اپنے استقبال پر مامور پاتے ہیں اور پھر انہی نعروں کی فلک شگاف آوازوں میں ان کی معیت میں ڈرے ڈرے اور سہمے سہمے اپنے گھر کے دروازے تک پہنچتے ہیں جہاں پر ہماری آمد کے منتظر ان کے ہم جنس دروازہ کھلنے تک ہمیں باقاعدگی سے گارڈ آف آنر پیش کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے اہل خانہ سے کئی بارکہا کہ ہم اس ریڈکارپٹ استقبال کے متحمل نہیں ہوسکتے، اس میں تھوڑی سی ترمیم و تخفیف ہونی چاہئے لیکن ان کا جواب ہوتا ہے کہ یہ استقبالی انتظامات ہر خاص و عام کے لیے بلدیاتی اداروں کے مرہون منّت ہیں ہم ترمیم و تحریف کا استحقاق نہیں رکھتے۔

دیسی کتّوں کے بارے میں مثل مشہور ہے کہ ’’ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘۔ ہم نے تو کسی بھی دھوبی گھاٹ یا دھوبی کے گھر میں کتّا نہیں دیکھا ہاں گھاٹ کے اطراف کچرے کے ڈھیر پرکتّوں کے غول کو ہڈّی، مردہ مرغی یا دوسری خوراک کیلئے چھین جھپٹ کرتے یا پیٹ بھرا ہونے پر چہلیںکرتے دیکھا ہے۔ کتّے کو نجس تصوّر کیا جاتا ہے اور علمائے کرام اس کی سانسوں کو بھی ناپاک قرار دے کر اس سے گزوں دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور اس نفرت کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ کتّے کا وجود میںآنا لعابِ ابلیس کی کارستانی ہے اور ابلیس کو خود اللہ تعالیٰ نے دھتکارا ہوا ہے لیکن یہ امتیازی سُلوک صرف دیسی کتّوں کے ساتھ ہی روا رکھا جاتا ہے جبکہ بڑے صاحب کے بدیسی کتّے کو وہ وہی عزت و توقیردیتے ہیں جو بڑے صاحب کو دی جاتی ہے۔ بلند قامت اور شیرجیسے جبڑے، کٹی ہوئی دم والے اور مختصر الوجود اور پستہ قامت غیر ملکی کتّوں کو ہمارے ملک کے دیسی کتّوں پر ہی نہیں بلکہ انسانوں پر بھی فوقیت حاصل ہے۔ انہیں عالیشان محل نما کوٹھیوں میں پاکستان کے اٹھانوے فیصد عوام سے بھی زیادہ عیش و آرام میسر ہے۔ خوراک میں وافر مقدار میںگوشت، پھل، اصلی مکھن، گھی اور خشک میوے کھاتے ہیں جبکہ قیمتی کاروں اور جیپوں میں اپنے مالکان کی ہم نشینی میں انہیں سیر و تفریح کے بھر پور مواقع بھی ملتے ہیں، ان کے مقابلے میں عوام کی اکثریت گوشت کے نرخ آسمان پر پہنچنے کے باعث گوشت خوری سے محروم رہتی ہے اور مہینے دو مہینے میں پاؤ، ڈیڑھ پاؤگوشت سے ایک کنبے کے افراد جسم کی لحمیاتی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ انہی کی طرح لاغر دیسی کتّے قصابوں کی دکانوں کے اِردگرد منڈلانے کے باوجود چھیچھڑوں اور ہڈیوں سے محرومی کے بعد اپنی حیوانی اورگوشت خوری کی جبلّت سے مجبور ہوکر اپنی ٹانگوں کی طرح پتلی پتلی انسانی ٹانگوں اور جسم کے دوسرے قابل دسترس حصوں پر منہ مارکر گوشت خوری کی حیوانی عادت کو تسکین پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ان کی خوں خواری کے شکار سگ گزیدہ افراد اینٹی ربیز ویکسین کی تلاش میں سرکاری اسپتالوں میں مارے مارے پھرتے ہیں یا پھر ہائیڈروفوبیا جیسے مرض میں مبتلا ہوکر قلّت آب سے بے حال اپنے اہل خانہ کو برساتی سپنے سجھاتے ہیں۔

انسان کو خالق کائنات نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے لیکن معاشی و معاشرتی تقسیم نے شیطان کی کارستانی کے نتیجے میں وجود میں آنے والی بدیسی مخلوق کو اس سے کہیں زیادہ ارفع و اعلیٰ بنادیا ہے اس کی وجہ ہمارے دانشور ان کا اصیل النسل ہونا بتاتے ہیں جبکہ دیسی کتّوں کی تولیدگی کو ان کی آوارہ فطرت کی وجہ سے مخلوط اختلاط کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کے کروڑوں عوام یورپی و امریکی باشندوں کے رہن سہن اور وہاں کے کتّوں کے رعب داب سے مرعوب رہتے ہیں جسے محسوس کرکے ہمارے یہاں کے کتّے تک ان کے اندازِسُخن کی نقالی کرتے ہیں یعنی جب کسی نووارد شخص سے ان کی سرِ راہ ملاقات ہوتی ہے تو فوراً سامنے آکر انگریزی انداز میں بھونک کر ’’ہو‘‘ (Who) (یعنی کون ہو) اور ’’ہائو‘‘ٔ (How) (کیسے ہو) کے سوالات کرتے ہیں۔ یہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان کی بہت سی عادات و خصائل مغربی و مشرقی معاشرے میں روزمرّہ کے معمولات انسانی کا حصہ بن گئے ہیں۔ پطرس بخاری سمیت کئی اردو ادیبوں نے اس مخلوق کو سماجی تنزّلی کے گرداب سے نکالنے کی سعی لاحاصل کی۔ ان کی عادات و خصائل اور حرکات و سکنات کا انتہائی باریک بینی سے مشاہدہ کیا اور ان پر تحقیقی مضامین شائع کراکے انہیں بھی مہذّب دنیا کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی بلکہ پطرس مرحوم نے تو ان کی شاعری سے متاثر ہوکر اپنی ادبی تخلیق میں ان کا مشاعرہ بھی کرادیا۔ ماضی و حال کے فلم سازوں نے اپنی فلموں میں ان کے محیر العقول کارنامے دکھا کر انہیں سائیڈ ہیروکے طور پر پیش کیا۔ اگر ان میں ذرا بھی عقل و شعور ہوتا تو یہ مذکورہ مصنفین اور فلمسازوں سے معاوضوں کی ادائیگی اور رائلٹی کا مطالبہ کرتے اورکسی کردار میں اپنی تضحیک کی صورت میں ہرجانے کا دعویٰ بھی کرنے کا استحقاق استعمال کرتے لیکن اگر وہ یہ سب حرکتیں کرتے توان کا کتّا پن برقرار نہیں رہ پاتا ۔

ہمارے یہاں کے باکمال لوگ اپنے رہن سہن اور طرزگفتگو میں یورپ اور امریکا کے باشندوں کی نقّالی کرتے ہیں لیکن یورپ اور امریکا کے مہذّب معاشرے پرہمارے دیسی کتوں کے بے باکانہ کردار کے نمایاں اثرت نظر آتے ہیں۔ جس طرح ہمارے یہاں کے کتّے نسل سگاں میں اضافے کیلئے پُر ہجوم شاہراہوں پر دوئی کے فرق کو ختم کرکے یک جان ہونے کی کوشش کرتے ہیں، بالکل اسی طرح کے مناظر یورپ و امریکا کے تفریحی مقامات، بس اسٹاپوں، پارکس وغیرہ میں دیکھنے کو ملیں گے اور ہماری نئی نسل اتحاد و یکجہتی کے ان درآمد شدہ سمبلز کو جو ہمارے ہی ملک سے برآمد ہوکر گئے ہیں، کیبل نیٹ ورک کی فیوض و برکات سے ٹی وی اسکرین پر ملاحظہ کرکے اپنے ملک میں بھی دہرانے کی کوشش کرتی ہے اور اس کے لئے اسے کراچی سمیت ملک کے تمام شہروں کی تفریح گاہوں اور پارکس میں آزادانہ ماحول کی تمام جملہ سہولتیں دستیاب ہوتی ہیں جو روشن خیال معاشرتی اقدارکا بین ثبوت ہے۔ ان کے سکون و تخلیے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دقیانوسی ذہن رکھنے والے افراد نے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ تفریحی مقامات کا رخ کرنا چھوڑدیا ہے۔ ہمارے ملک میں روزمرہ کے معمولات زندگی میں بھی کتّے کی حرکات و سکنات کی تقلید کی جاتی ہے۔ جس طرح ایک کتّے کیلئے دوسرے کتّے کا وجود برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے اور وہ اس پر بھونکنا اپنے بنیادی حقوقِ سگاں کا حصہ سمجھتا ہے بالکل اسی طرح ہمارے یہاں سیاست سمیت دیگر شعبہ زندگی کے افراد میں ایک دوسرے کو برداشت کرنا اور خلاف مزاج و مفاد بات انسانی حقوق، آئین و قانون کی خلاف ورزی قرار دی جاتی ہے۔ لڑائی، جھگڑے، دنگا فساد ہی نہیں بلکہ پیار محبت میں بھی اسی نجس کہلائی جانے والی مخلوق کی نقّالی کی جاتی ہے۔ اگر اردوکے محققین کی طرح کتّوں نے بھی فطرت انسانی اور عادات و خصائل کا مشاہدہ و مطالعہ شروع کردیا تو وہ خود کو کتّا کہلانے سے دست کش ہوجائیں گے اور ہم سمیت دیگر مضمون نگاروں پر توہین سگ کی پاداش میں ہرجانے کی وصولی کیلئے پنجے جھاڑ کر پیچھے دوڑیں گے۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.