تبصر ہ ’’ صدائے لائبریرین‘‘
ماشااللہ صدائے لائبریرین کے ۴ سال مکمل ہو گئے چوتھی سالگرہ سب کو مبارک
ہوآپ نے اور آپ کی ٹیم نے اس کے معیار کو بر قرار رکھا یہ مزید بہتری کی
طرف گامزن ہے آپ نے اپنی صحت خراب کرلی مگر رسالے کی صحت پر ماشااللہ کوئی
فرق نہیں آنے دیا اور اس پر توجہ برقرار رکھی اس سے مستفید ہونے والوں کے
لیے مآخذ میں بھی اضافہ ہوا اس عرصہ میں کچھ لوگو ں نے آپ کو تنگ کرنے کی
کوشش کی ان کی مثال ایسی ہے کہ جب ہم بچپن میں کوئی کھیل کھیلتے تھے تووہ
بچے جن کو کھیل میں شریک نہیں کیا جاتا تھا یا کسی نبا پر شامل نہیں ہوتے
تھے کھیل شروع ہونے کے بعد اکر کھیل بگارٹے تھے اور طرح طرح سے کھیل میں
رخنہ ڈالتے تھے ۔ جب انھیں کھیل میں شامل کرلیا جاتا تھا تو وہ خوش ہوجاتے
تھے آپ بھی ایسے لوگوں کو صدائے لائبریرن میں شریک ہونے کی دعوت دیں تاکہ
ان کے دل سے ملاَل نکل جائے آگے ان کی مرضی وہ پھر مخا لفت نہیں کریں گے
ہوسکتا ہے میری رائے درست نہ ہو مگر اس پہلو پر سوچا جا سکتا ہے جون ۲۰۱۷
کا رسالہ’’ ماشااللہ ‘‘سارے مضامین بہت زبردست ہیں بخت یار ظفر نے
لائبریریوں کی خستہ حالی کا جو نقشہ بیان کیا ہے وہ کم ترقی یافتہ علاقے
ہیں یہاں کراچی جیسے بڑے شہر کی لائبریریوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے جو
حضرآت اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کتب خانوں سے استفادہ حاصل کرتے رہے تھے
جب کسی گورنمنٹ ادارے کے پرنسپل بن جاتے ہیں تو کتب خانوں کو یکسر نظر
انداز کر دیتے ہیں اور بجٹ ہضم کرنے کی ترکیبیں کرتے ہیں ان کو کتب خانوں
سے کوئی ہمددری ہوتی ہے نہ قارئین سے ۔ کتب خانہ ان کی آخری ترجیح ہوتا ہے
وہ بھی اگر لائبریرین ہوصلہ مند ہو
پبلک لائبریریوں میں بجٹ افسران بالا ہضم کرجاتے ہیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ
اس ادارے کا بجٹ کتنا ہے ریڈر کتابوں کے کیے چکر لگاتے رہتے ہیں اور ما یوس
ہوکر چلے جاتے ہیں معاون عملہ کی شدت سے کمی ہے اگر لائبریرین ریٹائر
ہوجائے تو برسوں اس کی جگہ کوئی نہیں آتا اسکی مثال کراچی یونیورسٹی
اور لیاقت میموریل لائبریری ہے اگر عملے کے دس افراد میں سے دو باقی رہ
جائیں تو وہ ہی کافی سمجھے جاتے ہیں کتب خانے کا بیڑاغرق ہوجائے یا عوام
پریشان ہوں تو حکومت اور ذمہ د ارآفسران بے حسی تصویر بنے ہوئے ہیں
لائبریرین اپنی جیب سے صفائی کراتے ہیں کیڑے مار دوائیاں منگاتے ہیں ضرورت
کی کوئی چیز فراہم نہیں کی جاتی اس کی مثال فر یرئر حال لائبریر ی ہے جہاں
حکومت کی بے توجہی کی وجہ سے قیمتی کتابیں ضائع ہو رہی ہیں نئی کتابوں کا
فقدان ہے ڈاکٹر نسیم فاطمہ جو تسلیم شدہ محقق ہیں اور بہت دوبین نظر رکھتی
ہیں انھوں نے جن مسائل کی طرف اشارہ کیا قابل غور ہیں اکرام الحق کا افسانہ
بہت پسند آیا ، ایک مقولہ ہے کہ’’ زرہ سی بات کا افسانہ بنا دیا ‘‘ انھوں
نے اس مقولہ کو سچ کر دکھایا منظر کشی پرواز تخیل اور الفا ظ پر ان کی
دسترس زبردست ہے اور بہت خوب ہے جس نے کم آز کم مجھے بہت حیران کردیا بہت
جلد ملک کے نامورافسانہ نگارون میں شامل ہوجائیں گے ان کا دوسرا مضمون بھی
بہت معلوماتی ہے عامر لطیف کا مضمون لائبریرین کے لیے مشعل راہ ہے انھیں
غور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کرنا چا ہئے سعید صدیقی نے پائیلو کی کتا
ب کا تعروف بہت خوبی سے کرایا ہے معروف کا مضمون بھی معلوماتی ہے اور
خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے نسرین شگفتہ نے واھاب صاحب کی شخصیت کے جن
پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے اُس کے سب معترف ہیں اللہ انھیں صحت عطا فرمائے
آمین
آ پ سب کو پیشگی عید مبارک ۔ |