CRAZYلوٹا

لوٹوں کا ذکر ہم اکثر سنتے رہتے ہیں، جبکہ روزمرّہ کے معمولات میں ان کا استعمال مشرقی معاشرے کی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ مغربی ممالک کا ہمیں علم نہیں کہ وہاں لوٹوں کا استعمال کس طرح کیا جاتا ہے، کیونکہ وہاں ٹوائلٹ پیپر اور ٹشو پیپرکا رواج عام ہے۔ وہاں کے ایوان بھی لوٹوں کے اِدھر اُدھر لڑھکنے سے محفوظ ہیں۔ ہم نے آج تک جو لوٹے دیکھے ہیں، وہ کسی زمانے میں سِلور یا پیتل کے ہوتے تھے، مگر آج کل پلاسٹک کی صنعت کے عروج نے سب سے پہلے لوٹے کے اجزائے ترکیبی تبدیل کیے، جس کی وجہ سے آج متوسط و غریب طبقے کے گھروں میں زیادہ تر پلاسٹک کے لوٹے نظر آتے ہیں، جبکہ پیتل یا سلور کے لوٹوں کا استعمال متروک ہوتا جارہا ہے اور ان کے دیدار کا شرف صرف شادی بیاہ کے موقعوں پر، جہیز کے برتنوں میں نمائشی حیثیت میں ہی ہوتا ہے، جبکہ بیٹی کی سسرال میں بھی جہیزکا دھاتی لوٹا موجود ہونے کے باوجود عموماً پلاسٹک کا لوٹا ہی استعمال ہوتا ہے۔ لوٹا سازی کے میٹریل میں تبدیلی ہمارے خیال میں اس کے سیاسی استعمال اور غریب اور متوسط طبقے میں مفلوک الحالی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مارشل رجحانات کی وجہ سے عمل میں آئی ہے، کیونکہ پیتل یا سلور کے وزنی لوٹوں کو اندرون خانہ جنگ وجدل میں بطور آلات حرب بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے اس سے اہم جسمانی اعضاء کی شکست و ریخت بھی ممکن ہے۔

لوٹوں کی کتنی اقسام ہوتی ہیں، اس کا تو ہمیں علم نہیں، کیونکہ ہم نے اپنے بچپن میں صرف دو اقسام کے لوٹے دیکھے ہیں، بے ٹونٹی کے لوٹے اور ٹونٹی دار لوٹے۔ ٹونٹی والے لوٹے دادی امّاں یا دادا ابّا گھر کے صحن میں بیٹھ کر وضو کے لیے اور دیگر افراد ہاتھ منہ دھونے کیلئے استعمال کرتے تھے جبکہ بے ٹونٹی کے لوٹے کا استعمال جسے لُٹیا بھی کہتے ہیں، اکثر گھروں میں بیت الخلا یا ہندوؤں میں اشنان اور مردے کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے کیا جاتا ہے۔ نئے دور کے جدید تقاضے اپنانے، ایشیائی ممالک میں انسانی اجسام کی افزائش میں اضافے اور وسیع و عریض گھروں کے کابک نما فلیٹوں اور چھوٹے گھروں کی صورت میں سکڑنے اور سمٹنے کے بعد صحن اور آنگن کا خاتمہ ہوگیا۔ قدیم باتھ رومز کی جگہ فلش اور کموڈ نے لے لی ہے، جبکہ پوش علاقوں میں رہنے والی پِزا فیملیز (بن کباب کی برگر کی شکل میں تبدیلی، گلی کوچوں میں ٹھیلوں پر بکنے اور غریب و مزدور پیشہ افراد کی سستی خوراک بننے کے بعد تصوراتی برگر فیملیز نے برگر کو حقیر جان کر اس سے اپنا رشتہ ختم کرکے اپنا ناتہ پِزاسے جوڑ لیا ہے) یورپ کی نقالی کرتے ہوئے لوٹے سے قطعی طور سے دست کش ہوگئی ہیں اور وہ ’’غسل فوارہ ‘‘ یعنی شاور سے نہانے کے علاوہ دیگر صفائی ستھرائی کا کام بھی لوٹے کی بجائے کموڈ یا فلش کے ساتھ لگے ہوئے ہینڈ شاور سے لیتی ہیں۔ دادا اباّ اور دادی اماّں بھی جدّت پسندی کے ہاتھوں مجبور ہوکر با ادب بیٹھ کر لوٹے سے وضو کرنے کی بجائے دین کا یہ بنیادی فریضہ بھی واش بیسن پر کھڑے ہوکر انجام دیتے ہیں۔ لُٹیا ڈبونے یا ڈوبنے کے محاورے کو شاید رُبع صدی سے استعمال کیا جاتا رہا ہے، اب اس محاورے کا استعمال کم ہوتا جارہا ہے، جبکہ اپنی حمایت یا تعاون کو بار بار ایک کے بعد دوسرے شخص کو منتقل کرنے والے کیلئے ’’بے پیندے کے لوٹوں‘‘ کی اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے اور ہم اس اصطلاح کی غرض و غایت پر انتہائی شدّو مد سے غورکرنے کے باوجود اس کے مطلب ومفاہیم سے ہنوز نابلد ہیں، کیوںکہ آج تک ہماری نظر سے کوئی بھی لوٹا بے پیندے کا نہیں گزرا اور اگرکسی لوٹے کا پیندا ٹُوٹ بھی گیا تو وہ بے مصرف رہا، کیونکہ اس میں پانی جیسی مائع یا کسی حجم والی شے کا چند سیکنڈ ٹھہرنا بھی ناممکنات میں ہوتا ہے۔ اس میں پانی تو بھرا ہی نہیں جاسکتا، لیکن اس سے فٹ بال کی طرح کھیلنےکا کام بھی نہیں لیا جاسکتا کیونکہ ٹونٹی آڑے آتی ہے، تاہم اب بے پیندے کے لوٹوں کا گزشتہ پچپن برسوں سے سیاسی لوٹوں اور لوٹا کریسی کی اصطلاح میں انضمام کردیا گیا ہے۔ بے پیندے کا لوٹا جو ہمارے خیال میں قطعی بے مصرف ہوتا ہے، سیاست میں اس کی بادشاہ گر کی حیثیت ہوتی ہے اور کوئی بھی برسر اقتدار فرد لوٹے کی سیاسی وفاداری خریدنے اور مذکورہ افراد اپنی وفاداری بیچنے کیلئے پوری قوم یعنی ووٹ بینک کوسیاسی قربان گاہ پر چڑھانے کیلیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

جب لوٹوں کے عروج کا زمانہ تھا اور ہرکام دھاتی لوٹے سے لیا جاتا تھا تو تانبے اور پیتل کے دیگر برتنوں کے ساتھ اس کی چمک دمک کا بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا اور اس کیلئے گشتی قلعی گر کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں جو گلی میں ہی اپنی قلعی فیکٹری جما کر محلے بھرکے کالک لگے ہوئے بدنما برتن چند گھنٹوں میں نئے اور چمچماتے ہوئے کردیا کرتا تھا اور اس کی کاوشوں سے لوٹے کی بھی قسمت چمک جایاکرتی تھی لیکن دھاتی لوٹے کی افادیت ختم ہونے کے بعد قلعی گروں کا وجود بھی ماند پڑتا گیا اور آج معدوم ہوچکا ہے۔ لیکن اب ان لوٹوں کی جگہ سیاسی لوٹوں نے پُرکردی ہے اور عوام قلعی گروں کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔ قلعی گر کی قسمت میں پہلے بھی صرف لوٹوں کو چمکا کر نیا کرنا ہوتا تھا اور آج بھی ان کا کام سیاسی لوٹوں کو اپنے ووٹ بینک سے چمک دمک دینا رہ گیا ہے جو بعد ازاں اپنی قسمت چمکانے کیلئے اسمبلی کے ایوانوں کا رخ کرتے ہیں اور خود کو چمکانے والوں کو بھول جاتے ہیں۔

سیاسی لوٹوں کی اصطلاح اسکندر مرزا کے زمانے میں اراکین اسمبلی کے بار بار اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے اور چند مہینوں میں کئی حکومتیں بننے اور بگڑنے کے بعد ایک نوجوان کی جولانی طبع کے ہاتھوں عمل میں آئی تھی۔ یہ نوجوان سیاسی لوٹا کریسی کے خلاف اسمبلی کے ایوان کے سامنے لوٹا بردار جلوس نکال کر کھڑا ہوا اور لوٹا کریسی کی اصطلاح کوعام کرگیا۔ دور ایوبی میں سیاسی عمل رکنے کے بعد لوٹوں کا وجود بھی قائم نہ رہ سکا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مستحکم جمہوری دور نے کسی بھی سیاستدان کو لوٹا بننے کا موقع فراہم نہیں کیا لیکن جنرل ضیاء الحق کے نیم جمہوری دور حکومت میں لوٹوں کی خرید و فروخت خوب پروان چڑھی۔ ہم نے تاریخ کی کتابوں میں ماضی بعید میں گزرنے والے خاندان غلامان کے بادشاہوں کے قصے پڑھے ہیں جو بعد ازاں اپنے غلاموں کی بادشاہ گری کی بھینٹ چڑھتے رہنے کے بعد قصئہ پارینہ بن گئے۔ موجودہ دور کے سیاسی لوٹے ماضی کے شاہان غلامان کے تجربات سے استفادہ کررہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کی طوالت کیلئے ان لوٹوں کا انتہائی ڈپلومیٹک انداز میں استعمال کیا۔ انہوں نے پہلے غیرمنتخبہ مجلس شوریٰ اور اس کے بعد غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی اسمبلیوں کو جماعتی پیراہن پہنانے کیلئے لوٹوں کو انتہائی مہنگے داموں خریدکر اپنی حکومت کو دوام بخشا لیکن پھر یہ لوٹے ایسے پروان چڑھے کہ ملک کے ایوانوں میں لوٹا کریسی اور لوٹا کریٹک سیاستدانوں کا تناسب بڑھتا چلا گیا۔ ایک سیاسی و روحانی رہنما نے ضیاء الحق کو دست تعاون فراہم کیا اور اپنے اسٹور روم میں جمع کیے ہوئے تمام لوٹوں کوعرصہ دراز تک بادشاہ گرکا بلا شرکت غیرے لقب اختیار کرنے کیلئے استعمال کرتے رہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسمبلی کے ایوانوں میں اگر ان کا طوطی بولتا ہے تو ریس کے میدانوں میں بھی انہی کے گھوڑے دوڑتے ہیں۔ اس لیے لوٹا کریزی کے بعد ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح بھی انہی کی وجہ سے عام ہوئی۔

ارکان اسمبلی میں لوٹا کریسی کے بڑھتے ہوئے کریز اور ان کے اِدھر اُدھر ڈگمگانے کی وجہ سے ملک میں 1988ء سے 1999ء تک متعدد مرتبہ منتخب وزرائے اعظم کی حکومتیں ڈانوا ڈول ہوکر انجام بَدسے دوچار ہوئیں۔ معزول وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اسمبلیوں میں’’لوٹا کریزی‘‘ کے رجحان کی حوصلہ شکنی کیلئے اپنے دوسرے دورحکومت میں آئین میں فلورکراسنگ کے خاتمہ کی شق منظور کرائی (کیونکہ پہلے دور حکومت میں فلورکراسنگ کی وجہ سے انہیں انتہائی تلخ تجربات اور صدمات برداشت کرنا پڑے تھے) جس کی وجہ سے لوٹوں کی چمک دمک بھی ماند پڑتی گئی لیکن نواز حکومت کے خاتمہ کے بعد چمک کی سیاست کو دوبارہ فروغ ملا، فلورکراسنگ کے خاتمے کی شق ناپسندیدہ قرار دے کر ختم کردی گئی اور بیشتر ارکان اسمبلی کروڑوں روپے خرچ کرکے منتخب ہونے یا عوامی قلعی گروں سے قلعی کروا کر چمکدار لوٹے کی شکل میں ایک مرتبہ پھر اسمبلی کے ایوانوں میں ایک فرد سے دوسرے فردکے پاس لڑھکنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور ملک کے انتہائی طاقتور اور بااختیار حکمران بھی اپنی قوت کا بھرم قائم رکھنے کیلئے طاقت کا سرچشمہ کہلوانے والے عوام کی بہ نسبت لوٹوں کی خوشنودی حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ اس صورتحال کے تناظر میں سرمایہ دارانہ ذہنیت رکھنے والے ہمارے ایک سیاستدان دوست تمام سیاسی لوٹوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے آل پاکستان لوٹا کریٹک پارٹی کے نام سے ایک نئی سیاسی پارٹی قائم کرکے سیاسی سرمایہ کاری کرنے کے بارے میں غورکر رہے ہیں تاکہ مستقبل قریب میں انتخابات کے بعد وہ اپنے لوٹوں کا حکومت سازی میں استعمال کرکے اپنا سیاسی و اقتصادی مستقبل چمکا سکیں۔ لیکن کیا یہ لڑھکنیاں کھانے والے لوٹے ان کے پاس اکٹھا رہ پائیں گے……؟
 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223047 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.