وال اسٹریٹ جرنل سے وال میڈیا تک

اکثر و بیشتر سیاستدانوں کے بیانات میں سیاست یا سیاستدانوں کو ’’دیوارسے لگائے جانے ‘‘ کی شکایت اخبارات میں پڑھتے ہیں لیکن ذرائع ابلاغ کو دیوار سے لگا دیکھنے کا منظر صرف ہم ہی نہیں بلکہ برصغیر پاک و ہند بشمول مشرقی و مغربی بنگال کے کروڑوں عوام روزانہ ملاحظہ کرتے ہیں اور’’ وال میڈیا پبلسٹی ‘‘ سے نہ صرف لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ اپنی ملکی و غیر ملکی حالات کے بارے میں معلومات میں اضافہ کرتے ہیں

اکثر و بیشتر سیاستدانوں کے بیانات میں سیاست یا سیاستدانوں کو ’’دیوارسے لگائے جانے ‘‘ کی شکایت اخبارات میں پڑھتے ہیں لیکن ذرائع ابلاغ کو دیوار سے لگا دیکھنے کا منظر صرف ہم ہی نہیں بلکہ برصغیر پاک و ہند بشمول مشرقی و مغربی بنگال کے کروڑوں عوام روزانہ ملاحظہ کرتے ہیں اور’’ وال میڈیا پبلسٹی ‘‘ سے نہ صرف لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ اپنی ملکی و غیر ملکی حالات کے بارے میں معلومات میں اضافہ کرتے ہیں جبکہ ادویات، حکماء ، اتائی ڈاکٹروں اور ماہرین عملیات و طلسمیات کے ’’دیواری‘‘ اشتہارات سے استفادہ کرتے ہیں۔ بعض اشتہارات اتنے دلفریب اور لطیف پیرائے میں ہوتے ہیں کہ پڑھنے والا کیف و سرور میں مبتلا ہوکر بغیر کسی دوا یا غذا کے سیروں خون بڑھاتا ہے اور بعض دیواری تحریریں جو سیاسی و طلباء تنظیموں کی طرف سے لکھوائی گئی ہوتی ہیں، اپنے اندر اتنی ہولناکیاں لیے ہوتی ہیں کہ قاری تحریر یہ وال(Wall Publicity) پبلسٹی مواد پڑھ کر اپنا دوران خون بڑھا بیٹھتا ہے جو اس کے ہرٹ والو (Heart Volve) کو ہرٹ (Hurt)کرتا ہے ۔ دیواری اشتہار بازی یا وال میڈیا پبلسٹی کا آغاز کب سے ہوا، ادبی مورخین اس کی صحیح تاریخ بیان کرنے سے قاصر ہیں،شاید امریکہ میں ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ کے اجراء سے پہلے یا بعد میں لیکن جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ، گلی ، محلّوں اور سڑکوں سے متصل دیواروں کو مختلف پینٹروں اور دیواری آرٹسٹوں کے ناموں اور ان کے تحریر کیے ہوئے اشتہارات سے بھرا ہوا پایا۔ جبکہ کراچی کی مصروف شاہراہوں، ریلوے لائنوں کے اطراف کراچی سے پشاور اور لاہور سے دہلی، آگرہ اور جہاں جہاں انڈین اور پاکستانی ریلوے کی پٹریاں بچھی ہوئی ہیں، دیواروں پر لکھی تحریریں ہی دیکھیں جو سفر کی صعوبتوں سے بیزار مسافروں کی ذہنی کدورت دور کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ مذکورہ تحریریں نہ صرف ’’قارئین دیوار‘‘ کی دلچسپی، آنکھوں کی تراوٹ کا باعث بنتی ہیں بلکہ ان پر تحریر کردہ ملکی حالات، سیاسی و مذہبی تنظیموں کے ارشادات اور سیاسی قائدین کی اخلاقیات و کردار کے بارے میں مہیا کی گئی معلومات ان کی سیاسی بصیرت میں اضافہ کرتی ہے اور انہیں پڑھ کر ہر گلی کوچے میں ایک سیاسی رہنما وجود میں آجاتا ہے اور بعد ازاں اس کی طرف سے لکھوائی گئی تحریریں بھی ’’وال میڈیا‘‘ کو شرف اشاعت بخشتی ہیں۔

شہروں اور قصبات کی دیواریں تو مختلف النوع سیاسی نعروں، اتائی ڈاکٹروں، حکماء کے تعارف ناموں، ان کے دنیائے طب کیلئے انجام دئیے گئے کارناموں اور ان کی بنائی ہوئی ادویات ومعجونوںکے اشتہارات سے سیاہ و رنگین نظر آتی ہیں لیکن اسکولوں، کالجوں اور دفاتر کے باتھ رومز کی دیواروں پر وال میڈیا پبلسٹی کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ یہ دیواریں پن اور پنسل ورک کا شاہکار نظر آتی ہیں۔ ان دیواروں پر مخرب الاخلاق تصاویر کے ساتھ اسکول و کالج میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کے حالات زندگی کے بارے میں انکشافات و اسکینڈلز، مخالفانہ و موافقانہ سیاسی نعرے بازیوں، دفاتر میں ناپسندیدہ افسران، منتظمین کے کردار اور ان کا خاندانی پس منظر چٹکلوں اور نعروں کی صورت میں نظر آتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بعض اخبارات و ٹی وی چینلزکے دفاتر جن کے صفحات اور آن ائیر پروگرامز مختلف سیاستدانوں و شوبز شخصیات کی معرکتہ الآرا گفتگواور تذکروں کے بغیر نامکمل یا کورے رہتے ہیں جبکہ مذکورہ شخصیات پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں ’’ان‘‘ رہنے کیلئے خطیر رقوم خرچ کرتی ہیں لیکن کاش وہ ان اخبارات اور ٹی وی چینلز کے باتھ رومز کی دیواریں بھی ملاحظہ کرلیں جن پر بغیر سرمایہ کاری کئے انہیں مفت کی پبلسٹی ملتی ہے۔ ان دیواروں پر سیاسی و شو بز شخصیات کے بارے میں بے لاگ تبصرے اور ان شخصیات کی نجی زندگی اور واقعات تحریر ہوتے ہیں اور حاجت مند اپنی ناگزیر ضرورت کے ہاتھوں مجبور ہوکر جب باتھ روم یا ہماری قومی زبان میں بیت الخلاء میں پہنچتا ہے تو وہ بجائے اپنی حاجت رفع کرنے کے خلاء میں گھوم گھوم کر باتھ روم کی سہ طرفہ دیواروں اور دروازوں پر تحریر کردہ سیاسی تبصرے، سیاسی و شوبز شخصیات کے ماضی، حال و مستقبل کے احوال اور ان کے کردار کے بارے میں دلچسپ جملے بازیاں ملاحظہ کرتا ہے۔ بعض دیواروں پر قارئین دیوارکیلئے یہ بھی تحریر ہوتا ہے کہ ’’مذکورہ دفتر کے تمام باتھ رومز کی دیواریں ان کی آراء لکھنے کیلئے بلا معاوضہ خالی ہیں، عوام النّاس کے علم میں اضافے کیلئے مذکورہ دیواروں پر اپنی قیمتی آراء کا اظہار کریں‘‘ ۔ قاری مذکورہ اعلان پڑھ کر اپنی جیب میں موجود آلہ تحریریعنی قلم و پنسل نکال کر حسب توفیق دیوار پر اپنا جامع تبصرہ لکھتا ہے۔ اس تمام عرصے میں جیسے کسی ہنگامی صورتحال سامنے آنے پرکسی ذی روح کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ جاتی ہے بالکل اسی طرح انتہائی ضرورت کے تحت باتھ روم کا رخ کرنے والے شخص کا حاجت رفع کرنے کا پروگرام اوپر کی جانب رفع دفع ہوجاتا ہے جس کے بعد اسے قبض کشا ادویات کے استعمال پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ اس کیلئے وہ دیواری نسخہ ہائے قبض کشا سے استفادہ کرتا ہے۔

مرکزی سڑکوں یا گلیوں میں کارنر کے مکانات کے مکینوں کو اکثر خوشی و غم کے ملے جلے جذبات کا سامنا رہتا ہے۔ وہ بڑے ارمانوں سے اپنے گھروں کے درودیوار خوبصورت دکھائی دینے کیلئے زرکثیر صرف کرکے مہنگے پینٹ کے استعمال سے شفاف و براق کراتے ہیں لیکن چند روز بعد ہی جب وہ صبح خرامی یا جاگنگ کیلئے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو ان کا واسطہ وال چاکنگ سے پڑتا ہے۔ان کے گھر کی بیرونی دیواریں، دیواری پینٹروں اور آرٹسٹوں کے کمال تحریر کے باعث بدصورتی کا بدترین نمونہ پیش کررہی ہوتی ہیں ۔

بعض دیواری تحریریں اپنے اندر مخفی معنویت لیے ہوتی ہیں جن میں اتائی ڈاکٹروں، بوڑھوں کو نوجوانی کی حدود میں واپس لانے کے دعویدار ویاگرا ٹائپ حکماء، ماہرین عملیات و تعویزات اور نجومیوں کے تعارفی دیواری اشتہارات شامل ہیں۔1972-73میںخاکسار تحریک کے بانی علامہ عنایت اللہ مشرقی مرحوم کے صاحبزادے نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ’’شفاف تحریک‘‘ کے نام سے ایک تحریک کی بنیاد رکھی جس کے شاید وہ اکلوتے ممبر تھے لیکن انہوں نے سارے شہر کی صاف و شفاف دیواریں ’’شفاف تحریک‘‘ کے نعروں سے سیاہ کردیں۔ انہی دنوں ہم نے دیواروں پر تحریر کردہ ایک ماہر عملیات کا اشتہار پڑھا جس کا عنوان تھا ’’ محبوب آپ کے قدموں پر‘‘ اسے پڑھ کر ہم عالم تصور میں اپنے نک چڑھے دوست محبوب قدوائی کو جو اپنی امارت اور قابلیت کے بل بوتے پر ہمارے سر پر چڑھنے کی کوشش کرتا تھا، اپنے قدموں پر پڑا دیکھنے لگے اور اسی اشتیاق میں ان ماہر عملیات کا پتہ تلاش کرتے ہوئے ان کے آستانے پر جا پہنچے ۔ کلین شیو جدید تراش خراش کے لباس میں ملبوس عامل صاحب خواب ناک ماحول والے کمرے میں اگر بتیوں سے مہکتی فضا میں ایک جہازی سائز کی میز کے پیچھے ریوالونگ چئیر پر ساکت و جامد بیٹھے تھے۔ انکی پشت پر دیوار پر مالائیں، زبان خوفناک انداز میں باہر نکالے اور ہاتھ میں خنجر لیے ہوئے کالی دیوی اور ہنومان دیوتا کی شبیہ آویزاں تھی۔ ہم نے ان کے پوچھنے پرمدعا دل بیان کیا تو انہوں نے کہاکہ ’’مطلوب اور اسکی ماں کا نام بتاؤ‘‘۔ ہم نے جواب دیا ’’محبوب قدوائی ماں کا نام نا معلوم‘‘۔ وہ بولے کہ ہم نے لڑکی کا نام پوچھا ہے اس کے باپ کا نام نہیں۔ ہم نے کہا کہ محترم ہم نے مطلوب ہستی کا نام ہی بتایا ہے جسے ہم اپنے قدموں پر محو استراحت دیکھنے کے متمنی ہیں۔ ہمارا جواب سن کر وہ گویا ہوئےکسی صنف مخالف محبوبہ کا کیس لے کر آؤ تو اسے صرف تمہارے ہی نہیں بلکہ تمہارے ماں باپ تک کے قدموں میں جھکادیں گے۔ ہم عشق و محبت کا یہ بھاری پتھر چوم کر عامل مذکور کے آستانے پر ہی چھوڑ آئے۔ ایک مرتبہ سو سالہ سنیاسی بابا کا دیواری اشتہارپڑھ کر ہم گزشتہ صدی کی نایاب نسل کے دیدار کیلئے ان کے ’’اتا خانے‘‘ جا پہنچے۔ اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک پچاس ساٹھ سالہ شخص ایک مونڈھے پر بیٹھا جڑی بوٹیوں سے شغل کررہا ہے۔ ہم نے اس سے سنیاسی بابا کے بارے میں معلوم کیا تو اس نے کہا کہ ’’حکم کرو کیا کام ہے میں ہی سنیاسی بابا ہوں‘‘۔ ہم نے حیران و پریشان نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ’’ لیکن ہم تو سو سالہ قدیم بزرگ کی زیارت کیلئے آئے ہیں‘‘۔ مذکورہ بزرگ ہماری بچکانہ بات سن کر مسکرائے اور بولے ’’ بچہ یہ کاروباری راز ہیں ۔ صرف تجھے بتا رہے ہیں، عمر ہماری ساٹھ سال ہے لیکن بقیہ چالیس سال ہمارے والد بڑے حکیم صاحب مرحوم سے حاصل کیا ہوا تجربہ ہے جسے ہم مفاد عامہ کیلئے استعمال کررہے ہیں، تو یہ کل ملا کر ہوا ہمارا سوسالہ تجربہ ‘‘۔ ہم زمانہ قدیم کے بزرگ سے ملنے کی حسرت لیے ہوئے واپس اپنے گھر آگئے۔

بعض سیاسی جماعتیں و طلبہ تنظیمیں ’’دیواروں‘‘ ہی سے پروان چڑھیں اور ’’دیوار ’’سے لگنے کے بعد ختم ہوگئیں جبکہ کئی سیاسی، لسانی و مذہبی تنظیمیں وال میڈیا پبلسٹی (دیواری تشہیر) کے ذریعے وجود میں آئیں اور پھر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر چھا کر بام عروج پر پہنچ گئیں۔ دیواری تشہیر کا سہارا لینے والی زیادہ تر غریبوں کے نام پر بننے والی تنظیمیں اور جماعتیں ہیں جن کا وجود فرد واحد یا تانگے میں سوار جتنے افراد کے ساتھ جڑا ہوتا ہے (ایسی پارٹیوں کو سائیکل یا تانگہ پارٹی بھی کہا جاتا ہے) جو تشہیر کی مد میں اخبارات اور چینلز پر زر کثیر صرف کرنے کی بجائے سستے بازاری نسخے یعنی وال میڈیا پبلسٹی (دیواری تشہیر) سے استفادہ کرتی ہیں۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک دوست جو غریبوں کے نام پر بنائی گئی ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں ہمارے پاس آئے اور اپنی جماعت کے پروگرام کو کم مصارف میں ملک کے کونے کونے تک پہنچانے کیلئے ہم سے مشورہ طلب کیا۔ ہم نے دیواری پینٹروں کی خدمات حاصل کرنے کی تجویز دی کہ ’’پیشہ ور‘‘ صحافیوں کی خوشامد اور بھاری رقومات خرچ کرکے تمہاری پارٹی کی محض چند سطروں کی خبروں کو اخبارات کے اندرونی صفحات میں جگہ مل سکتی ہے جو بہت ہی کم لوگوں کی نظروں سے گزرے گی اور وہ اخبار بھی شام کو ردّی کی نذر ہوجائیں گے جبکہ شہر کی مصروف شاہراہوں اور ریلوے لائین کی دیواروں پر کسی پینٹر کو معمولی معاوضہ دے کر مہینوں تک مفت کی شہرت حاصل کی جاسکتی ہے۔ اپنی جماعت کے نعرے اور پروگرام ان دیواروں پر لکھوادو، ان شاہراہوں اور ریل گاڑیوں میں صبح شام لاکھوں مسافر گزرتے ہیں، تمہارا اور تمہاری جماعت کا نام اور نعرے اس وقت تک ان کی نظروں سے گزرتے رہیں گے جب تک اسے مٹا کر دوسرا دیواری اشتہار نہ لکھوا دیا جائے۔ انہیں ہمارا مشورہ اتنا پسند آیا کہ انہوں نے نہ صرف تمام شہر کی شاہراہوں اور ریلوے لائنوں بلکہ شہر سے اندرون ملک جانے والے ہائی ویز پر کوسوں دور تک دیواروں پر اپنی جماعت کے نعرے اور پروگرام لکھوادئیے ۔ دو مختلف دیواری تحریریںآپس میں گڈ مڈ ہوکر ایک نیا مزاح پیدا کرتی ہیں۔ حس مزاح کے حامل افراد اس قسم کے کارنامے انجام دیتے رہتے ہیں۔ ہمارے مذکورہ دوست نے شہر کے ایک مصروف کاروباری مرکز کی شاہراہ پر نعرہ تحریر کرایا ’’ قوم کی یہ مجبوری ہے‘‘ اس کے ساتھ لکھے ہوئے دوسرے مصرعے پر چونا پھیر کر کسی دل جلے نے لکھ دیاتھا کہ ‘‘ یہاں پیشاب کرنا ضروری ہے‘‘۔ نیچے لکھا تھا، ’’سربراہ تحریک فلاں……فلاں‘‘۔
شہری انتظامیہ و حکومت کی طرف سے وقتاً فوقتاً وال میڈیا پبلسٹی یعنی دیواری تشہیر یا وال چاکنگ کے خلاف مہم جوئی کی جاتی ہے، دیواروں پر لکھے ہوئے تمام دیواری اشتہارات بشمول سیاسی نعرے سفیدی پھیر کر مٹادیئے جاتے ہیں کیونکہ انہیں بھی اپنی رٹ برقرار رکھنے کیلئے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے، لیکن ان دیواری تحریروں کو مٹوا کر دراصل نئے لکھنے والوں کی اسی طرح حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جیسے بعض اخبارات و جرائد نئے لکھنے والوں کی کرتے ہیں کیونکہ انہیں یہ بھی احساس رہتا ہے کہ غریب پینٹروں اور دیواری آرٹسٹوں کا ذریعہ معاش یہی ہے جبکہ بعض سیاسی و مذہبی تنظیموں، بوڑھوں کو جوان بنانے والے حکماء اور اتائی ڈاکٹروں کو اپنی بقاء کیلئے دیوار گیر شہرت کی ضرورت ہے اس لئے تشہیر کے اس سستے ذریعے کے خاتمہ کیلئے اقدامات بھی محض رسماً کیے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ ساتھ وال میڈیا کا وجود بھی قائم و دائم ہے۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223046 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.