مچھر ہمارے بھائی

مچھردانی کے حصار میں قید ہوکر اپنے تئیں خود کو کنکریٹ کے بنکرز میں محصور سمجھتے ہوئے اس کے حملوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ مہلک اور زہریلے قسم کے کیمیاوی اسپرے، میٹ، کوائلزکے ذریعے اسے نیست و نابودکرنے کی تگ و دو بھی کرتے ہیں لیکن ملیریا، ڈینگی یا زرد بخار کے جراثیمی ہتھیاروں (Biological Weapons)سے لیس مچھر اس حفاظتی حصار میں بھی نقب لگاکر اپنے ہدف تک پہنچ جاتے ہیں اور انسانوں کو اپنی ’’حیوانیت‘‘ کا نشانہ بناتے ہیں۔ نقب زنی کا یہ طریقہ انہوں نے شاید سیاست دانوں کی ہم نشینی میں سیکھا ہے جو ہر وقت سیاسی نقب زنی کیلئے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں

مختصر الوجود اور بے حجم مچھر کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک مچھر لمبے چوڑے آدمی کی بھی مردانگی ختم کرکے اسے مثل خواجہ سرا بنا دیتا ہے جبکہ کئی ٹن وزنی اور عظیم الجثہ ہاتھی کی سونڈ کے راستے دماغ میں گھس کر اس کے دیو ہیکل وجود کو عدم وجود کی طرف گامزن کردیتا ہے۔ خدائی کا دعویٰ کرنے والے نمرودکے دماغ سے ’’گلوبل ویلیج‘‘ کی حکمرانی کا خنّاس نکالنے اور اپنی وحدانیت کی رٹ قائم کرنے کے لئے رب کائنات نے اسی ننھے سے پرندے کو مامورکیا تھا جس نے اس کی ناک میں گھس کر اس کا ناک میں دم کردیا اور اس کے دماغ میں وہ ہلچل مچائی کہ اس کے ذہن سے نہ صرف دعویٰ خدائی نکل گیا بلکہ اس کے جسم سے روح بھی پروازکرکے اللہ تعالی کے حضور میں سجدہ ریز ہوگئی۔

انسان اور مچھر کا اَزل سے تعلق ہے اور شاید اَبد تک رہے گا۔ نئی صدی اور نئی ملینئیم کے آغاز سے ہی ہمارا ملک حالت جنگ میں ہے۔ ایک طرف حکومت ڈرون حملوں، خودکش بمباروں، ٹارگٹ کلرز سے نمٹنے کے لئے کوشاں ہے جبکہ دوسری طرف عوام ملیریا اور ڈینگی مچھروں کی یلغار سے نبرد آزما ہیں۔ وہ مچھروں کے ڈرون حملوں سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن دفاعی تدابیر اختیارکررہے ہیں۔ مچھردانی کے حصار میں قید ہوکر اپنے تئیں خود کو کنکریٹ کے بنکرز میں محصور سمجھتے ہوئے اس کے حملوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ مہلک اور زہریلے قسم کے کیمیاوی اسپرے، میٹ، کوائلزکے ذریعے اسے نیست و نابودکرنے کی تگ و دو بھی کرتے ہیں لیکن ملیریا، ڈینگی یا زرد بخار کے جراثیمی ہتھیاروں (Biological Weapons)سے لیس مچھر اس حفاظتی حصار میں بھی نقب لگاکر اپنے ہدف تک پہنچ جاتے ہیں اور انسانوں کو اپنی ’’حیوانیت‘‘ کا نشانہ بناتے ہیں۔ نقب زنی کا یہ طریقہ انہوں نے شاید سیاست دانوں کی ہم نشینی میں سیکھا ہے جو ہر وقت سیاسی نقب زنی کیلئے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ لیکن چھاپہ مارکارروائی کا یہی طریقہ کار حال ہی میں کراچی میں نیول ایئر بیس پر حملے میں بھی آزمایا جاچکا ہے اور مبینہ دہشت گرد اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرکے حکومت کے خلاف ایک ’’مِنی بغاوت‘‘ کا سگنل دے کر اسی طرح باآسانی تمام حفاظتی حصار توڑکر فرار ہوگئے جس طرح ایک مچھر، مچھردانی کی تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے اور اپنے ٹارگٹ کو اپنی ’’خوں خواری‘‘ کا نشانہ بناکر باآسانی فرار ہوجاتا ہے۔ جیسے ہماری حکومت غیرملکی ڈرون حملوں سے اپنے عوام کو ہلاکتوں سے بچانے میں ناکام ثابت ہوئی بالکل اسی طرح اس حیاتیاتی جنگ و جدل (Biological Warfare)میں عوام کی بھی مچھروں کے مقابلے میں دفاعی حکمت عملی اور تمام آلات حرب ناکام ثابت ہوئے ۔ جدید سائنسی لیبارٹریز میں تیارکردہ زہریلے قسم کے مچھر مار اسپرے، کوائلز، میٹ، مچھر مار لکویڈ، مچھروں کو مارنے کے برقی آلات، مچھروں کو تو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے لیکن دمہ اور سانس کے ماہر معالجین کی آمدنی میں اضافے کا ضرور سبب بنے۔ اب نجانے مچھروں نے خود کو ان ہتھیاروں سے محفوظ رکھنے کے لیے بُلٹ پروف جیکٹ اور ماسک پہننا شروع کردیے ہیں یا پاکستانی لیبارٹریاں 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ملک کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کی روایت دہراتے ہوئے ناقص قسم کے مچھر مار آلات حرب فراہم کرتی ہیں؟
ایڈیز، اینوفیلس اور اسٹوگومیا قسم کے مچھروں نے آج بھی اپنے تمام حیاتیاتی ہتھیاروں کے ساتھ آبادیوں کا محاصرہ کررکھا ہے اور وقتاً فوقتاً گھروں پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں جبکہ وفاقی، صوبائی اور شہری حکومت کے محکمہ صحت کی تمام ترکارروائیاں اس ننھے دشمن کی ہلاکت خیز کارروائیوں کے مقابلے میں ہیچ ثابت ہوئی ہیں۔ محکمہ صحت کی تشکیل کردہ مچھر مار فورسز میزائل نما ٹنکیوں میں مچھر مار کیمیکل اسپرے بھرکے پوری قوت کے ساتھ گلی کوچوں میں حملہ آور ہوتی ہیں لیکن اس سے مچھروں کو توکوئی نقصان نہیں پہنچتا البتہ گھروں میںموجود افراد ضرورگھٹن اور حبس دم کا شکار ہوجاتے ہیں جبکہ اس کے ردّعمل میں ’’کیمیائی جنگ کے بادل‘‘ چھٹنے کے بعد مچھر اپنے مورچوں سے نکل کر دوبارہ ایک نئے عزم کے ساتھ انسانی آبادیوں پر فوج کشی کرتے ہیں۔

پہلے پہل تو ہم بھی مچھروں کے خلاف اس ’’مقدّس جہاد‘‘ میں شریک ہوگئے تھے اور رضاکارانہ طور پر مچھروں کے قتل عام میں ملوث تھے۔ اس کے چھاپہ مارحملوں کا جواب ہم نے بھی کمانڈو ایکشن سے ہی دیا تھا۔ اپنے اہل خانہ کو مچھروں کے غیظ و غضب سے بچانے کے لئے ہم نے کئی مچھروں کو پکڑ کر ان کی ٹانگیں اور دانت توڑنے کی کوشش کی لیکن نہ تو ان کے دانت تلاش کرسکے اور نہ ہی ان کی ٹانگیں ہاتھ میں آئیں اور بالوں کی عدم موجودگی کے باعث ہم ان کا بال بھی بیکا نہ کرسکے۔ ناکامی پر ان مچھروں کو مارنے کے بعد ایک دھاگے میں باندھ کر گھر کے صدر دروازے پر لٹکا دیا تاکہ دوسرے مچھر ہمارے اس سفّاکانہ عمل سے عبرت پکڑیں اور ہمارے گھر میں داخل ہونے سے گریزکریں لیکن آفرین ہے مچھروں کی طاقت پرواز پرکہ وہ اسٹیلتھ طیاروں کی طرح اڑ کر ہم پر حملہ آور ہوئے اور اپنی منتقمانہ کارروائیوں سے ہمارے دانت کھٹے کردئیے۔

مچھروں کے خلاف اپنے اس عمل اور اس کے جواب میں ان کے شدید ردّعمل کے بعد ہم نے صلح جوئی کی پالیسی اختیار کی اور مچھروں کی نفسیات کا مطالعہ شروع کیا، ان کی عادات، خصائل، حرکات و سکنات کا انتہائی گہرائی و گیرائی سے جائزہ لیا جس کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہم انسانوں نے تو اس ننھے پرندے کو بلاوجہ اپنے دشمنوں کی صف میں شامل کیا ہوا ہے جبکہ یہ انسانوں کے ساتھ پیار محبت کے تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے اور اپنے عمل سے اسے ثابت بھی کرتا رہتا ہے لیکن ہم اسے انسان دشمنی پر محمول سمجھ کر اس کی نسل کشی پر آمادہ رہتے ہیں۔ ایک دانشور نے اپنی ایک تصنیف میں ’’الو ہمارے بھائی‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھ کر ویرانہ پسند پرندے الّو سے اولادِ آدم کا رشتہ جوڑنے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ اب تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ ہوسکتا ہے کہ یورپ کے الّو پرست معاشرے میں طویل عرصہ گزارنے کے ناتے وہ ہمارے ملک کے عوام کا ناتہ بھی اس منحوس قرار دئیے جانے والے پرندے سے جوڑنا چاہتے ہوں لیکن اب ہماری کوشش ہے کہ بنی آدم اور مچھروں کے درمیان اس ازلی دشمنی کا خاتمہ ہو اور مچھروں کے ساتھ بھائی چارے کا رشتہ استوار کیا جائے جبکہ ہم ’’مچھر ہمارے بھائی‘‘ کے نام سے تحریک شروع کرنے پر بھی غورکررہے ہیں تاکہ انسانوں اور مچھروں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع مل سکے۔ مچھر خود بھی انسان کے پیار کا پیاسا ہے لیکن ہم اسے خون کی پیاس سمجھ کر خود سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ہمارے رخسار، ہونٹ اور گردن کا طواف کرتا ہے اور موقع ملنے پر اپنے پیار کی مہر ثبت کرجاتا ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ اس کے دانتوں یا مونچھوں کی چبھن ہمیں جب بے کل کرتی ہے تو ہم اس سے آمادئہ جنگ ہوجاتے ہیں حالانکہ اگر غیرجانبدارانہ انداز میں سوچا جائے تو اس کے اور بڑی بڑی مونچھوں والے آدمیوں کے پیار میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے اور دونوں کے بوسے میں یکساں چبھن ہوتی ہے ۔ اگر طبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان کے ہر شخص کی رگوں میں اپنے ذاتی خون کے علاوہ مچھر کا خون بھی دوڑ رہا ہے جو وہ اکثر و بیشتر بلڈ ٹرانسفیوژن کے اپنے قدرتی طریقہ کار کے مطابق ہماری رگوں میں منتقل کرتا رہتا ہے۔ مچھر دنیا بھر کے انسانوں کو انتقال خون کے ذریعے خونی رشتے میں منسلک کرنے کا فریضہ بھی رضاکارانہ طور پر انجام دیتا ہے۔ یہ ایک صحت مند شخص کا خون چوس کر دوسرے کمزور شخص کے بدن میں منتقل کرتا ہے۔ اس کی اسی کاوش کی وجہ سے بعض دفعہ انسان ملیریا یا ڈینگی وائرس کے عارضے میں مبتلا ہوکر انتقال بھی کرجاتا ہے لیکن اس میں مچھرکا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ اس میں انسانوں کی قوت مدافعت کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے جو خوردبین سے نظر آنے والے ننھے منے بکٹیریا اور جرثوموں کے مقابلے میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ مچھر یہ ہلاکت خیز جرثومے خود لوڈ نہیں کرتا بلکہ انسانوں کی ہی پھیلائی ہوئی گندگی اور شہری محکموں کی لاپروائی کی وجہ سے ابلتے ہوئے گٹروں سے بہتے ہوئے پانی میں ان جرثوموں اور بکٹیریاز کی افزائش ہوتی ہے جو مچھرکے طویل اڑان اور تھکن کے بعد چند گھڑی غلاظت کے ڈھیر پر آرام کی خاطر بیٹھنے یا پیاس کے ہاتھوں نڈھال ہونے کے باعث آلودہ پانی پینے کے دوران مذکورہ جراثیم اور بکٹیریا اس کی ٹانگوں سے چپک جاتے ہیں اور جب وہ کسی انسان کے رخسار، ہونٹ یا گردن پر بوسہ محبت ثبت کرنے کیلئے بیٹھتا ہے یا بلڈ ٹرانسفیوژن کا اپنا قدرتی فریضہ انجام دیتا ہے تو مذکورہ جراثیم اس کی ٹانگوں سے نکل کر منتقلی خون کے دوران انسانی اجسام میں منتقل ہوجاتے ہیں اور اس کی بیماری یا ہلاکت کا سبب بنتے ہیں۔

مچھروں کے بارے میں یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ یہ غریب پرور ہوتے ہیں خاص کر ڈینگی مچھر کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے وائرس سے وہ طبقہ محفوظ رہے جو ڈینگی بخار کی صورت میں کثیر رقوم کے اصراف کا بار برداشت نہیں کرسکتا جبکہ وہ متمول افراد کو اس بیماری سے ’’محظوظ‘‘ ہونے کے پورے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اسی لئے یہ پوش علاقوں اور صاحب ثروت افراد کی ہم نشینی کو ترجیح دیتا ہے۔ پہلے ہمارا خیال تھا کہ ڈینگی مچھر عیش و عشرت کا دلدادہ اور نفاست پسند ہے جبھی وہ شاہانہ رہن سہن کو ترجیح دیتا ہے لیکن ڈینگی بخار کے رونما ہونے والے کیسز نے ہماری نظر میں اس کی قدرو قیمت میں اضافہ کردیا ہے اور ہم اسے غریب دوست پرندہ سمجھنے لگے ہیں۔

مچھر ہماری تنہائی کا بہترین رفیق بھی ثابت ہوا ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے دوران گمبھیر اندھیرے میںجب ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا، برقی پنکھے بند ہونے کی وجہ سے گرمی سے بری حالت ہوتی ہے، مچھر اپنی محبت سے مجبور ہوکر اندھیرے میں بھی انسان کو تلاش کرلیتا ہے اور اپنے ننھے ننھے پروں سے اس پر ہوا جھلتا ہے۔ اس کے بدن کے بوسے لینے سے پہلے اسے میٹھے سروں میں نغمے سناتا ہے، اٹلی میں پکارے جانے والے اپنے نام یعنی ’’رازو‘‘ کی مناسبت سے انسانوں سے راز و نیاز کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ انسانوں کے ساتھ شب تاریک کے زیادہ سے زیادہ لمحات گزارنے کی کوشش کرتا ہے اسی لیے اگر انسان سو بھی جاتا ہے تو وہ اسے انتہائی محبت سے اپنے بدن کے لمس سے جگانے کی کوشش کرتا ہے یہ اور بات ہے کہ انسان اس میں بھی خجالت محسوس کرتا ہے۔

مچھروں کے خلاف زیادہ تر مہمات یورپ سے شروع ہوئی ہیں اور اس مہم جوئی میں ہم اسی طرح ان کے حلیف بن گئے جس طرح مسلمان ملک ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں کے خلاف یورپ اور امریکا کی شروع کی ہوئی غیر اعلانیہ اور یکطرفہ صلیبی جنگ میں غیر ناٹو حلیف کی حیثیت سے شریک جنگ ہیں۔ یورپی اور امریکی حکومتوں کی نظر میں مسلم معاشرے میں بسنے والا ہر وہ فرد واجب القتل ہے جو خالق کائنات کے احکامات کی تعمیل کرنے کی جرأت کرتا ہے۔ اس ادنیٰ سی مخلوق مچھر کا جرم بھی یہی ہے کہ اس نے ہزاروں سال قبل زمین پر خدائی ٰ اور حاکمیت کا دعویٰ کرنے والے نمرود کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیفرکردارتک پہنچا کر مستقبل کے نمرودوں اور فرعونوں کے لئے بھی عبرت کا سامان پیدا کردیا تھا۔ آج بھی اس وسیع و عریض دنیا کو گلوبل ویلیج میں سکیڑ کر خدائی کا خواب دیکھنے والے موجودہ دورکے نمرودوں کے لیے یہی حقیر سا پرندہ احکام الٰہی بجا لانے کے لیے موت کا پیغام بر ثابت ہو سکتا ہے۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 191212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.