اسٹیٹ اور نان اسٹیٹ ایکٹر

’’دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم سب اس کے کردار‘‘۔ برطانوی ڈرامہ نگارکے مذکورہ قول کا صدرآصف زرداری نے عمیق مطالعہ ہی نہیں کیا بلکہ اس پر تحقیق کے بعد استفادہ بھی کیاہے ، اسی لئے ان کی محققانہ سوچ و فکر نے نان اسٹیٹ ایکٹر اور سیاسی اداکارکی اصطلاح وضع کی لیکن انہوں نے نان اسٹیٹ ایکٹر کی تشریح نہیں کی

کہتے ہیں ہر شخص پیدائشی اداکار ہوتا ہے اور وہ موقع محل کی مناسبت سے اپنی اداکاری کے مخفی جوہر سامنے لاتا ہے یہ اور بات ہے کہ ان میں سے بعض کی اداکارانہ صلاحیتیں عوام کے سامنے اجاگر ہوجاتی ہیں جبکہ بہت سوں کی خواص کے سامنے اسمبلی کے فلور پر اور بے شمار لوگوں کا یہ جوہر ڈھکا چھپا رہتا ہے اورکبھی کبھار ان کے گھر والوں اور دوست احباب کے سامنے کھلتا ہے۔ معروف ڈرامہ نگار ولیم شیکسپئر نے کہا تھا کہ ’’دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم سب اس کے کردار‘‘۔ برطانوی ڈرامہ نگارکے مذکورہ قول کا صدرآصف زرداری نے عمیق مطالعہ ہی نہیں کیا بلکہ اس پر تحقیق کے بعد استفادہ بھی کیاہے ، اسی لئے ان کی محققانہ سوچ و فکر نے نان اسٹیٹ ایکٹر اور سیاسی اداکارکی اصطلاح وضع کی لیکن انہوں نے نان اسٹیٹ ایکٹر کی تشریح نہیں کی۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے ان کی مراد وہ تمام سیاسی اداکار ہوں جو حکومتی ایوانوں سے باہر ہیں اور ایوان صدر کے بارے میں مخالفانہ سوچ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اسٹیٹ ایکٹرز کے بارے میں بھی قوم کو معلومات فراہم کرنے سے گریزکیا کہ اسٹیٹ اداکاری کے زمرے میں کون سی اعلیٰ شخصیات آتی ہیں۔؟ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹوکی دوسری برسی کی تعزیتی تقریب کے اسٹیج پر صدر آصف زرداری کی نان اسٹیٹ ایکٹر کی مذکورہ صدارتی اصطلاح کئی دن گزرنے کے بعد بھی ہمارے ذہن پر ہتھوڑے برسا رہی ہے۔ ہوسکتا ہے صدر محترم نے اسٹیج اور نان اسٹیج ایکٹر کے الفاظ استعمال کئے ہوں جو ساؤنڈ سسٹم کی تیکنیکی خرابی کی وجہ سے نان اسٹیٹ ایکٹر نشر ہوگئے، لیکن اس سے چند روز قبل انہوں نے ایوان صدر سے جاری کئے گئے اپنے ایک ہینڈ آؤٹ میں ایک سیاسی رہنما کے بعض ملکی ایشوز پر ڈپلومیٹک ڈائیلاگس کو ’’سراہتے‘‘ ہوئے انہیں سیاسی اداکار کا خطاب مرحمت فرمایا تھا جبکہ اس کے فوری بعد ایک ٹیلیویژن چینل کے اینکر کو بھی اداکار کا درجہ دے دیا گیا۔ ہمارے خیال میں مذکورہ اینکر سیاسی یا غیر سیاسی اداکار کے مطلوبہ معیار پرکسی طور بھی پورے نہیں اترتے اس لئے انہیں فلمی اداکارکی مماثلت سے قلمی اداکار کا رتبہ ملنا چاہئے۔ صدر محترم کی مذکورہ اصطلاحات ان کی تحقیقی و تخلیقی صلاحیتوں کی نہایت عمدہ مثال ہے جس میں ان کی ناپسندیدہ شخصیات کیلئے تحقیر و تضحیک زیادہ جھلکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اداکاری کے شعبے میں بہترین پرفارمنس کا صدارتی ایوارڈ کس سیاسی یا صحافتی اداکار کا مقدر بنتا ہے؟ لیکن ایوان صدر کے ترجمان یا صدارتی تردیدکنندہ فرحت اللہ بابر صدر کی صدارتی اصطلاحات کی ’’غیر فرحت بخش‘‘ انداز میں تردیدیں کرکے اس اہم ترین ایوارڈ کو کسی ملکی کی بجائے غیرملکی شخصیت کو دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ اکثر اداکار بعد ازاں اچھے سیاست دان ثابت ہوئے ہیں جبکہ سیاستدانوں نے بھی بسا اوقات ملکی اسٹیج پر اسٹیٹ اور نان اسٹیٹ اداکاری کا فقیدالمثال مظاہرہ کرکے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ سیاست اور اداکاری کا تعلق اس وقت سے ہے جب سے دنیا کا اسٹیج سجایا گیا تھا کیونکہ اس اسٹیج کے ہر اداکار نے نظریہ ضرورت کے تحت مقدور بھر سیاست میں حصہ لیا ہے لیکن پاکستان میں اداکاروں کی عملی سیاست کا آغاز 1968ء میں اداکار طارق عزیز نے مارکسسٹ رہنما مولانا عبدالحمید بھاشانی کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے کیا اور اس کے پہلے جلسہ عام میں انہوں نے اپنی اداکارانہ اور صداکارانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے ہوئے بندوق کے صوتی اثرات ’’ٹھا‘‘ کو ایک نعرے کی صورت میں ڈھال دیا۔ آج بھی ان سیاسی جلسوں و جلوسوں میں جہاں بندوق کے دھماکے نہیں ہوتے وہاں ’’ٹھا‘‘ کے نعرے کی گھن گرج سنائی دیتی ہے۔ طارق عزیز کے بعد زیادہ تر سیاستدان، سیاست کو، سیاہ ست اور عوام پر سیاہ رُت طاری کرنے کے بعد نان اسٹیج ایکٹر بن گئے اور اب وہ ایوان بالا و ایوان زیریں کے اسٹیج پر اپنی اسٹیٹ اداکاری کے مظاہرے کرتے رہتے ہیں جبکہ چھوٹی بڑی اسکرین اور اسٹیج سے تعلق رکھنے والے کئی اداکار سیاسی اسٹیج پر نمودار ہوگئے ہیں۔

اداکارانہ صلاحیت کے اظہار کیلئے اسکرپٹ اورسچویشن کی مناسبت سے لوکیشن، پیش منظر و پس منظر اور اچھے ہدایت کارکا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ ماضی میں فلم، ٹی وی اور اسٹیج کے اداکار سیاسی اداکار بننے کے بعد بھی بدستور نان اسٹیٹ ایکٹر ہی رہے جبکہ 70ء اور80ء کے عشرے میں اسٹیٹ ایکٹر ملکی اسکرین پر چھاگئے۔ 1971ء کی اندوہناک سچویشن، سلگتے ہوئے ماحول و مناظر میں حکومتی ایوان سے مختصر اسکرپٹ پر جس اسٹیٹ ایکٹر نے اداکاری و صداکاری کے جوہر دکھائے وہ صدر مملکت جنرل آغا محمد یحییٰ خان مرحوم تھے جنہوں نے آغا طالش مرحوم کے انداز میں ڈائیلاگس کی ادائیگی کی کوشش کی۔ جنرل رانی اور مہارانی یعنی بوڑھی حور اور آب انگور کے نشے میں ڈگمگاتے اعضاء اور لڑکھڑاتے لہجے میں انہوں نے ریڈیو اور ٹیلیویژن کے ذریعے خوف و ہراس، امیدی و نا امیدی کی کیفیات میں ڈوبی ہوئی قوم کو ’’بھارتی افواج نے کس قوم کو للکارا ہے، ہم سمندر میں لڑیں گے، جنگلوں میں لڑیں گے، پہاڑوں پر لڑیں گے‘‘ جیسے یادگار ڈائیلاگس کی ادائیگی سے لبھانے کی کوشش کی اور پھر مشرقی پاکستان کو بھارتی فوج کے حوالے کرکے سیاہ تاریخ رقم کردی اور مدہوشی کی نیند سوگئے۔ ان کے بعد ایوانِ اقتدار میں آنے والے صاحبان میں سے بھی کئی اچھے اسٹیٹ ایکٹر ثابت ہوئے۔ ان میں سے ایک صاحب، اقتدارکے حصول تک بعض مواقع پر المیہ اداکاری کے مظاہرے کرتے رہے یہ اور بات ہے کہ حصول اقتدارکے بعد ان کی اداکاری میں طربیہ رنگ شامل ہوتا گیا اور شوخی و شرارت بھی اپنا جلوہ دکھانے لگی۔

جب دو مختلف شعبوںکے اداکار مدّمقابل آجائیں تو بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی قسم کا منظر مذکورہ شخصیت کے اسٹیٹ ایکٹر سے دوبارہ نان اسٹیٹ ایکٹر بننے کے بعد لاہور کے شہریوں نے دیکھا۔ متذکرہ شخصیت، اقتدار سے معزولی کے بعد، سیاسی اداکاری کے مظاہرے کیلئے ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل لاہور پہنچی۔ انہیں دیکھ کر ہوٹل کے باہر عوام کا اژدہام جمع ہوگیا۔ اس کے قریب ہی ایک دوسرےہوٹل کی گیلری میں کھڑے اداکار ساجن یہ منظر دیکھ رہے تھے لیکن وہ مذکورہ نان اسٹیٹ ایکٹر کو نہ دیکھ سکے۔ انہوں نے عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے فلمی بڑک بازی یا ڈائیلاگس کا مظاہرہ شروع کردیا۔ ان کی بڑک بازی کی گھن گرج سن کر سارا مجمع مذکورہ اداکار کی گیلری کے نیچے کھڑا ہوگیا اور نان اسٹیٹ ایکٹر عوام کے بڑے مجمع کے سامنے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھانےکی حسرت لئے حیران و پریشان کھڑے رہے۔ طارق عزیز کے سیاسی ادا کاری کے اسٹیج پر داخلے کے بعد پاک و ہند کے کئی معروف اداکار سیاسی اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے لیکن پاکستان میں وہ نان اسٹیٹ ایکٹر ہی رہے جبکہ ہندوستان کے کئی فلم ایکٹر اسٹیٹ ایکٹر بن گئے۔ اب تو وہاں کے ایوان بالا میں موہن کی مرلیا بھی موجود ہے جسے بجا کر اسٹیٹ اور نان اسٹیٹ اداکار اپنی اداکاری میں طربیہ و المیہ گیت بھی شامل کرسکتے ہیں۔

ہمارے مبینہ غیر ناٹو حلیف امریکا کے 40ویں صدر رونالڈ ریگن ہالی وڈ کے نامور اداکار تھے اور وہاں کی فلموں میں کاؤبوائے کا کردار ادا کرتے تھے۔ لیکن صدارتی اسٹیج پر آنے کے بعد انہوں نے اسٹیٹ ایکٹنگ سے گریزکیا۔ اس کے علاوہ امریکی فلموں کا ایک اداکار آرنلڈ شیوازنگربھی کیلیفورنیا کا گورنر منتخب ہوکر اسٹیٹ ایکٹر کے مدارج پر پہنچ چکا ہے۔ ان کے بعد مسند اقتدار سنبھالنے والے 42ویں صدر بل کلنٹن اسٹیٹ اداکاری کا مظاہرہ ہالی وڈ کے اداکار کی طرح لو اسٹوری سے کرتے رہے اور وہ اور ان کی نان اسٹیٹ ایکٹریس مونیکا کئی ماہ تک اپنی اداکاری کے باعث عالمی پریس و الیکٹرونک میڈیا کے پروگراموں کے مرکزی کردار رہے۔ ان کے بعد کرسئی صدارت سنبھالنے والے صدور نے بین الاقوامی منظر نامے کوصلیبی جنگی اسلوب میں تبدیل کرنے کیلئے اسکرپٹ رائٹنگ اور ہدایتکاری کا کام شروع کردیا۔ 43ویں امریکی صدر تک اسکرپٹ رائٹنگ کا کام صدارتی ٹرائیکا نے سنبھالا ہوا تھا لیکن اب یہ ذمہ داری امریکی تھنک ٹینک کے حصے میں آئی ہے، امریکی صدر بین الاقوامی اتحادیوں کی مشاورت سے اس کی صرف نوک پلک درست کرتے ہیں۔

پاکستانی اسٹیج کے ایک کامیڈین 30سال تک سیاسی و سرکاری شخصیات کی پیروڈی کرنے کے بعد حکومتی اسٹیج تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے جبکہ اسٹیل مل کے ایک سابق چیئرمین کی دختر جنہوں نے کروڑوں روپے کی لاگت سے ایک ٹی وی سیریل بنا کر اس میں ولیم شیکسپئر کے قول کو اداکار کی حیثیت سے کام کرکے سچ ثابت کرنے کی کوشش کی، سیریل میں اپنی اداکاری سے تو ناظرین کو متاثر کرنے میں ناکام رہیں لیکن صوبائی سطح پر اسٹیٹ اداکاری کے ذریعے عوام کو متاثر کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔

70کے عشرے سے جس اسٹیٹ ایکٹنگ کا آغاز ہوا تھا اسے حکمرانوں نے مختلف انداز میں قائم رکھا۔ تاحیات مسند اقتدار پر فائز رہنے والے آمر نے غیرملکی اسکرپٹ پر کام کرتے ہوئے سوویت یونین کے ٹکڑے کروا نے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا جس کے بعد پوراعالمی منظرنامہ تبدیل کراکے دنیا کویک قطبی نظام (Uni Polar System) میں جکڑوادیا تھا۔ انہوں نے اداکاری کے شعبے میں تربیت کیلئے ایک بھارتی اداکار کی خدمات حاصل کررکھی تھیں جو ان کی زندگی کے آخری ایام تک پاکستان میں موجودگی پر صدارتی مہمان کی حیثیت سے مراعات و سہولتیں حاصل کرتے اور صدارتی رہائش گاہ میں قیام کیاکرتے تھے۔ ان کے بعد آنے والی شخصیات بھی غیرملکی تھنک ٹینکس کے اسکرپٹ پر کام کرتی رہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملکی و غیر ملکی فلمی شخصیات کی بھی اسٹیٹ ایکٹنگ میں رہنمائی کیلئے خدمات سے استفادہ کرتی رہیں۔

دوسرے ملینئم اور نئی صدی میں داخلے سے ڈھائی ماہ قبل ایوانِ اقتدار پر قابض ہونے والے آمر نے بھاری مینڈیٹ کی حامل منتخب حکومت کی ایوان اقتدار سے قعرو مزلت کے ساتھ بے دخلی کا اسکرپٹ کئی سال قبل تیار کرلیا تھا جس کی ترتیب و تدوین ان کے دو معاونین نے کی تھی۔ لیکن انہوں نے اپنے چند بین الاقومی ڈراموں سے واحد عالمی طاقت اور پڑوسی ملک کو اپنا مخالف بنا لیا تھا۔ برسراقتدار آنے کے دو سال بعد 2001ء میں نائن الیون سانحے کے جواز پر دنیا کے اسٹیج سے بعض مسلمان ممالک کو پیش منظر سے پس منظر میں دھکیلنے کیلئے امریکی و برطانوی اسکرپٹ پر غیر مشروط کردار ادا کرنے کی پیشکش نے انہیں عالمی ٹرائیکا کا ایک لازمی جزو بنا دیا اور پھر ان کی اسٹیٹ اداکاری کی ساری صلاحیتیں امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم کے ساتھ تاریخ میں اپنا نام ثبت کرانے کیلئے وقف ہوگئیں لیکن وہ خود ماضی کا قصہ بن گئے ہیں پھر بھی انہوں نے اس اسکرپٹ کی کامیابی کیلئے جس طرح سے کردار ادا کیا اگر موجودہ دور کے اسٹیٹ ایکٹرز نے قلمی اداکاروں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کے قومی جذبے کے تحت لکھے گئے اسکرپٹ کو نظر انداز کرکے بدستور امریکی تھنک ٹینکس کے بنائے ہوئے اسکرپٹ پر کام جاری رکھا تو ملکی اسٹیج پر آگ اور خون کے مناظراور ملک کے لاکھوں اداکاروں کی لاشیں اس وقت تک نظر آتی رہیں گی جب تک ملکی اسٹیج کا تاریخ و جغرافیہ صلیبی اسکرپٹ اور ہدایت کاروں کی حسب منشا تبدیل نہیں ہوجاتا۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 190654 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.