’’صاحبزادے زیادہ سے زیادہ پیدل چلا کرو، اس سے صحت اچھی
رہتی ہے اور بدن میں چستی پیدا ہوتی ہے‘‘، ہمارے بزرگوں کی یہ وہ نصیحت تھی
جس نے ہمارے شوق آوارگی کو مہمیزکیا اور لڑکپن ہم نے آوارہ گردی کرتے
ہوئے گزارا۔ اس زمانے میں ہم کُوچہ نوردی کرتے ہوئے میلوں پیدل سفر طے کیا
کرتے تھے اور شہر کی تمام گلیاں و سڑکیں ہمارے شوق کی راہ میں بچھی ہوئی
ملتی تھیں۔ یہ اسی شوق آوارگی کا اعجاز ہے کہ آج ہمیں موٹر سائیکل گردی
قطعی نہیں کھلتی۔کسی دوست یا رشتہ دار سے ملاقات کیلئے جب ہم ان علاقوں میں
جاتے ہیں جن کے راستے چوروں، ڈکیتوں، دہشت گردوں سے محفوظ رہنے کیلئے اپنی
مدد آپ کے تحت بند کئے گئے ہیں تو مذکورہ علاقے میں داخلے اور پھر نکاسی
کے راستے کی تلاش میں گلیوں گلیوں پھرنا، پیٹرول پھونکنا ایک مشغلہ سا بن
گیا ہے۔ شہر کی زیادہ ترگلیوں کی حفاظتِ خود اختیاری کے تحت بنائی گئی
فولادی رکاوٹوں کو عبور کرنے کی حسرت لئے ہوئے ہم عُقبہ بن نافع کی طرح اسی
طرح واپس ہوکر دوسری گلی میں داخل ہوجاتے ہیںجیسے وہ بحیرہ ظلمات عبور کرکے
اسپین پہنچنے کی حسرت دل میں لے کر افریقہ واپس لوٹا تھا۔
مذکورہ گلیوں سے پُرصعوبت واپسی پر ہمارے مکدّرذہن میں کسی سے بھی شکوہ
نہیں ہوتا اس لئے اس وقت بجائے علامہ اقبال کے ’’شکوہ جواب شکوہ‘‘ کے کسی
شعر کے، ازمنہ وسطیٰ کا یہ محاورہ گونجنے لگتا ہے ، ’’یہ گلی بند ہے‘‘۔
سیکڑوں سال قبل یہ محاورہ خلیل جبران سے منسوب کیا گیا تھا ۔ اس کی عملی
تفسیر مورش اسپین یا ہسپانیہ کے مسلمان عِہد میں اس وقت ہوئی جب قرطبہ کے
ایک فقیہہ مسجد قرطبہ میں مغرب کی نماز پڑھنے جارہے تھے تو وہ راستہ بھٹک
کر ایک تنگ و تاریک گلی میں جانکلے۔ وہیں ایک گھر کے دروازے پر ایک خوبصورت
دوشیزہ کھڑی تھی ، اس نے فقیہہ کو دیکھ کر کہا ’’ یہ گلی بند ہے‘‘۔ فقیہہ
نے دوشیزہ کو دیکھا اور اس کے ادا کیے ہوئے جملے کو ذومعنی سمجھ کر واپس
پلٹے اور تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے اس گلی سے نکل گئے لیکن انہوں نے اس
کے بعد قرطبہ میں رکنا نیک نامی کی رخصتی کے مترادف گردانا اور اُسی دن
قرطبہ چھوڑکر کسی دور دراز کے گاؤں میں جابسے اور وہیں ان کا انتقال
ہوگیا۔ موصوف کو تو ایک ہی گلی بند ملی تھی جس سے دل گرفتہ ہوکر انہوں نے
صرف شہر بدری ہی نہیں بلکہ دنیا سے رخصتی اختیار کی، وہ اگر اِس دور میں
ہوتے تو انہیں نہ صرف گلی محلّوں کی ہزاروںگلیاں بند ملتیں بلکہ شہر کے
مصروف علاقوں میں واقع طول و طویل شاہراہیں بھی بند ملاکرتیں۔ ؎
یہ گلیاں یہ چوبارہ یہاں آنا نہ دوبارہ
اب ہم تو ہوئے پردیسی کہ میرا یہاں کوئی نہیں
بھارتی فلم کا ایک گیت جسے ہیروئین اعضاء کی بھرپور شاعری کے ساتھ گاتی
ہوئی نظر آتی ہے۔ اس قسم کے گیتوں کی سچویشنز سے ہمیں اکثر و بیشتر اس وقت
سابقہ پڑتا ہے جب ہم ملک کی انتہائی اہم شخصیات کی، اپنی قیام گاہ میں
موجودگی یا اجلاس کے دوران آئین ساز اسمبلی سے ملحقہ سڑک سے اپنی بائیک
گزارنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہاں موجود آہنی ہیروز جن کے آہنی ہاتھوں کا
استعمال کرکے حکام سماج دشمن عناصر سے نمٹنے کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں، اپنے
آتشیں ہتھیاروں کا رخ ہماری طرف کرکے یہی گیت ذرا ترمیم و تحریف کے ساتھ
الاپتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
یہ گلیاں یہ چوبارہ یہاں آنا نہ دوبارہ
اب تم تو ہوئے پردیسی کہ تیرا یہاں کوئی نہیں
یہ منظر دیکھ کر ہم بائیک کو وہاں سے دوڑانے کی کوشش کرتے ہیں کہ نجانے کب
آہنی ہاتھوں کی جنبش ’’لائن آف فائر‘‘ کا عملی نمونہ پیش کردے۔کچھ
دورآنے کے بعد ہم بائیک روک کر باقاعدہ اپنے چٹکیاں لے کریہ محسوس کرنے کی
کوشش کرتے ہیں کہ کہیں ہم کسی غیر ملک کی سرحد پر تو نہیں پہنچ گئے تھے جو
وہاں کی بارڈر سکیورٹی فورس کے جوانوں نے ہمیں بغیرٹرانزٹ ویزا اور پاسپورٹ
کے اس راہگزر سے گزرنے کا موقع نہیں دیا۔
صرف کراچی ہی نہیں بلکہ ملک کی میلوں لمبی ہر وہ شاہراہ جس پر غیر ملکی
سفارتی مشنز، سفارت کاروں اور ملک کی اہم شخصیات کی رہائش گاہیں واقع ہیں،
ملکی شہریوں کیلئے شاہراہ ممنوعہ بن گئی ہیں۔ بندگلی کا نمونہ تو ملک کے
مختلف شہروںکی طول و طویل شاہراہیں اس وقت بھی پیش کرتی ہیںجب انتہائی
اعلیٰ ملکی شخصیات اپنے ہی ملک کا غیرملکی سربراہان کی طرح دورہ کرتی ہیں۔
ان کی بلین ڈالر قیمتی جانوں کی حفاظت کیلئے وی وی آئی پی موومنٹ کے نام
پر غربت کی لکیر سے انتہائی نچلی سطح پر گزر بسرکرنے والی سستی زندگیوں پر
عرصہ حیات اس وقت تک کیلئے تنگ کردیا جاتا ہے جب تک مذکورہ اہم شخصیت اس
شاہراہ سے بحفاظت گزر نہیں جاتی۔ اس وقت تک کسی عام آدمی کو پیدل چل کر
بھی شاہراہ عبورکرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور مذکورہ شخصیت کی آمد کے اعلان
کی خبر پاتے ہی سکیورٹی اہلکار سڑک پر آمدورفت کے منتظر افراد کو بلاتخصیص
مرد و زن سڑک کی طرف پشت کرکے کھڑا ہونے کے احکامات بھی دیتے ہیں۔ گزشتہ
دور حکومت میں ایسی ہی وی وی آئی پی موومنٹ کے دوران ایک دلچسپ لطیفہ بھی
سننے میں آیا۔کراچی کی ایک انتہائی اہم شاہراہ پرکئی گھنٹے سے سڑک
عبورکرنے کے منتظر افراد کو سربراہ مملکت کی آمد کی خبر سن کر سکیورٹی
اہلکار نے دیواروں کی طرف منہ کرکے کھڑے ہونے کے احکامات صادر کیے تو ایک
معمر خاتون کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور وہ اس اہلکار پر برس پڑیں کہ
’’بھیا! تمہیں ہم سے کیا خطرہ ہوگیا ہے جوہمیں سڑک کی طرف منہ کرکے کھڑا
ہونے کی بھی اجازت نہیں دیتے، دیوار سے لگائے جارہے ہو ۔ ہم خالی ہاتھ ہیں،
اب ہم انکھیوں سے توگولی مارنے سے رہے‘‘؟
وی وی آئی پی موومنٹ کے اثرات شہر کی تمام مصروف شاہراہوں پر مرتب ہوتے
ہیں، ان سڑکوں پر ٹریفک جام کا یہ عالم ہوتا ہے کہ گھنٹوں گاڑیاں ایک دوسرے
میں اس طرح جُڑی کھڑی ہوتی ہیں کہ باہم شِیر و شَکر کا سا منظر معلوم ہوتا
ہے۔اس دوران جاں بہ لب مریضوں یا زخمیوں کو لے جانے والی ایمبولینسوں کو
بھی وہاں سے نکل کر اسپتال تک پہنچنے کا راستہ نہیں ملتا اس لئے سستی
زندگیاں وی وی آئی پیز کی قیمتی زندگیوں کا صدقہ بن جاتی ہیں جبکہ بعض
اوقات سڑکوں پر ہی ’’نئی زندگیاں‘‘ بھی وجود میں آجاتی ہیں۔ ہمارے ایک
سابق صدر جب سے دہشت گردی کے خلاف خود ساختہ عالمی جنگ یا جان والکر بش کی
برپا کی گئی صلیبی جنگ کا کردار بنے ، انہوں نے عالمی طاقتوں کی گڈ بک میں
اپنا نام ثبت کرانے کیلئے کئی مرتبہ خود پر ’’انجینئرڈ حملے‘‘ کرائے اور اس
اقدام سے انہیں اتنی عالمی پذیرائی حاصل ہوئی کہ وہ غیر مسلم قوتیں جنہوں
نے انہیں جہادی قوتوں کا سرپرست، بنیاد پرست اور کارگل پر فوج کشی کا ذمہ
دار ٹھہرا کر بلیک لسٹ کیا ہوا تھا، انہوں نے مسلم دنیا کے خلاف اس جنگ میں
انہیں بُش اور ٹونی بلئیر کے ساتھ عالمی ٹرائیکا کے تیسرے کردار کے طور پر
قبول کرلیا، لیکن خودساختہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کیلئے کئے جانے
والے اپنے ہی اقدامات سے ہمارے کمانڈو صدر اتنے خوفزدہ رہتے تھے کہ جن
شاہراہوں سے انہیں گزرنا ہوتا تھا، وہاں پر کسی بھی ممکنہ کمانڈوحملے کے
تدارک یا بم دھماکے سے محفوظ رہنے کیلئے مذکورہ شاہراہوں اور ان سے متصل
تمام گزرگاہوں اور گلیوں کو سیل (Seal)کرکے اورکئی گھنٹے پہلے سے عام
شہریوں کی آمدورفت کیلئے بند کرکے سکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا جاتا تھا۔
اپنی تصنیف ’’لائن آف فائر‘‘ تحریر کرنے کے دوران انہوں نے اپنی ہائیر،
فائر اتھارٹی کے عملی مظاہرے کے ذریعے غیرممالک کی جنگ کو اپنی سرحدوں کے
اندر لا کر پورے ملک اور قوم کو خوف و دہشت کی ایسی بندگلی میں پہنچادیا ہے
کہ انہیں اپنی زندگیوں کی حفاظت کیلئے ہر گلی کو بند گلی بنانا پڑ رہا ہے ۔ |