نوازشریف حکومت ......اور اسامہ
فرانس پر چیخ پڑے.....؟؟؟
برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اور جب برداشت کی حد ختم ہوجائے تو پھر یہی
کچھ ہوتا ہے جیسا کہ نواز شریف اور اسامہ بن لادن نے کیا ہے جس کا بالتریب
اظہار گزشتہ دنوں پشاور اور مردان میں دنیا کی پہلی اور پاکستان کی انوکھی
فرینڈلی اپوزیش جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سربراہ میاں محمد نوازشریف نے
اپنی ہی جماعت کے مرکزی سیکریٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا کی رہائش گاہ پر
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ہے یہاں میرا خیال یہ ہے کہ اگر حکومتی
اراکین ابھی نواز شریف کی اِس انتہائی جارحانہ گفتگو سے کوئی معنی مطلب نہ
نکال سکیں تو یہ اِن کی نااہلی ہوگی ورنہ میاں نواز شریف تو واضح اور دوٹوک
الفاظ میں حکومت وقت کو کھلم کھلا یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ برسرِاقتدار
جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اگر اِس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ مسلم لیگ
(ق) سے اتحاد کر کے اپنی پوزیشن مستحکم کر لے گی تو اِس اتحاد کا ہم پر
کوئی فرق نہیں پڑے گا اور نواز شریف نے اِس بات کی جانب بھی واضح اشارہ
کرتے ہوئے برملا کہا کہ جہاں حکومت کو ہر حال میں جمہوریت اور عوام سے کئے
گئے اپنے تمام وعدوں کی لاج رکھتے ہوئے ملک میں جمہوریت کو صحیح معنوں میں
پنپنے اور اِسے پروان چڑھانے میں جمہوری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ملک اور
قوم کے بہتر مفادات میں فیصلے کرنے ہوں گے تو وہیں حکومت کو عوام کو درپیش
مسائل کے فوری حل کے لئے بھی ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے بہت ضروری ہیں
اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ایم ایل (ن)کے سربراہ میاں محمد نواز شریف جو
اپنی گفتگو کے دوران ملک کے موجودہ حالات پر اظہار خیال کرتے ہوئے انتہائی
جذباتی ہوگئے تھے اور وہ اِس موقع پر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور
اپنے مخصوص لب و لہجے میںیہ بھی کہہ گئے کہ اگر حکومت نے عوامی مسائل کے
فوری حل کی جانب توجہ نہ دی اور اپنی بے حسی والی روش ترک نہ کی تو حالات
مزید بگڑ جائیں گے اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے حکومت کو یہ عندیہ بھی دے
ڈالا کہ ”عوام کے سڑکوں پر نکلنے سے پہلے حکومت اپنی اصلاح کر لے“ یہاں اِن
کا اشارہ شائد آنے والے وقتوں میں اِس جانب ہے کہ اگر انگنت مسائل کے شکار
عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے سڑکوں پر نکل کھڑے ہوئے تو اُن حالات کا
مقابلہ نہ تو حکومت ہی کرسکے گی اور نہ اِن کی یہ حکومتی فرینڈلی اپوزیشن
ہی کوئی کام آسکے گی.....؟؟لہذا اَب ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت اپنا
احتساب خود کرے اور جب حکمران اپنا صاف و شفاف احتساب کرلیں یا عدالتوں کے
ذریعے کروالیں تو پھر ایساہی ایک احتسابی عمل ملک کی اپوزیشن جماعت پی ایم
ایل (ن)سمیت تمام سیاستدانوں کے لئے بھی شروع کردیا جائے تاکہ ملک صحیح
معنوں میں کرپٹ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے پوتر ہو کر ترقی اور خوشحالی کی
راہ پر گامزن ہوسکے......مگر یہاں سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمران ایسا
کیوں کریں گے....؟شائد اِنہیں اِس بات کا اچھی طرح سے علم ہے کہ اگر اِنہوں
نے اپنے صاف و شفاف احتساب کے لئے خود کو کسی کے سامنے پیش کیا تو اِن کے
اعمال ایسے ہرگز نہیں ہوں گے کہ وہ اپنے اعمالوں کی وجہ سے کسی سزا سے بچ
سکیں .....!!یوں یہ نہیں چاہتے کہ کوئی اِن کا احتساب کرے ....یا یہ خود کو
کسی کے روبرو احتساب کے لئے پیش ہوں۔ بہرحال! یہ بڑا اچھا ہوا کہ پاکستان
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے حکومت کو کھلے لفظوں میں یہ
عندیہ دیتے ہوئے کہ”عوام کے سڑکوں پر نکلنے سے پہلے حکومت اپنی اصلاح کر لے“
اپنے دل میں چھپی آرزو زبان پر لاکر اپنا حق تو ادا کردیا اَب اگر اِس کے
بعد بھی موجودہ حکمران اپنی اصلاح نہ کریں تو بعد میں پیدا ہونے والے حالات
اور واقعات اور اِن سے سامنے آنے والے اچھے یا بُرے نتائج کے ذمہ دار بھی
حکمران خود ہی ہوں گے۔
اور دوسری جانب امریکا کے ماضی کے اچھے دوست اور امریکی سانحہ نائن الیون
کے دہشت گرد اور منہ بولے امریکی دُشمن اور اِسی طرح مسلم امہ کے غیر اعلان
یافتہ مسلم ہیرو اور القاعدہ کے موجودہ سربراہ اسامہ بن لادن کا گزشتہ دنوں
عرب ٹی وی سے ایک آڈیو پیغام جاری ہوا ہے جس میں اسامہ بن لادن نے فرانس
میں مسلم خواتین پر پردے کی زبردستی لگائے جانے والی پابندی کے خلاف اپنا
دلیرانہ مؤقف پیش کرتے ہوئے یوں کہا ہے کہ”اگر فرانس اپنے یہاں مسلمان
خواتین کے پردے پر پابندی کو حق بجانب سمجھتا ہے تو ہم بھی اپنے ممالک سے
فرانسیسیوں کو نکال باہر کرنے اور اِن کی گردنیں تن سے جدا کرنے(کاٹنے)کا
حق رکھتے ہیں“ اسامہ کی جانب سے فرانس کو دیئے جانے والے اِس عندیئے کے بعد
سے دنیا بھر میں بسنے والے فرانسیسیوں کو اپنی زندگیاں خطرے میں گھری محسوس
ہونے لگی ہیں اور اطلاعات یہ ہیں کہ اسامہ کے اِس پیغام کے بعد فرانسیسیوں
نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے یہاں کوئی ایسا جانبدارانہ
قانون کا نفاذ نہ کرے کہ جس سے فرانس میں بسنے والے دیگر مذاہب کے لوگوں کے
مذہبی جذبات مجروح ہوں اور فرانس کا شمار اپنے یہاں اِس قسم کے کسی ظالمانہ
قانون کے نفاذ کے بعد دنیا کے غیرمہذب ممالک میں نہ ہونے لگے۔ اگرچہ اِس
میں کوئی شک نہیں کہ پردہ مسلم خواتین کے نہ صرف لباس کا ہی حصہ ہے بلکہ
پردہ دنیا بھر میں بسنے والی ہر مسلم خواتین کا ہر زمانے میں ایمان کا بھی
ایک لازمی جز قرار پاتا ہے اور یہ بھی ایک حقیقی امر ہے کہ پردہ ازل سے ہی
ہر مذہب وملت کی خواتین کی ستر پوشی میں خاصی اہمیت کا حامل رہا ہے مگر
زمانے بدلنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے مردوں نے اپنی عورت
کو جب سے اپنی عیاشی اور جنسی تسکین کے لئے استعمال کیا تو اِس کی پردہ
پوشی کا شیرازہ بکھیر دیا اور آج مغرب میں عورت کے بجائے مرد نے اپنی مکمل
ستر پوشی کا انتظام کیا ہوا ہے اور عورت کو شتر بے مہار بنا کر چھوڑ دیا ہے
جبکہ آج بھی مسلم امہ کے مردوں نے اپنی عورت کے پردے کا اہتمام کیا اور اِس
کے احترام کا خاص خیال رکھا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے مسلم خواتین نے پردے کی
روایت قائم رکھی ہوئی ہے اور مغرب کی عورت اپنی عریانیت پر فخر کرتی ہے اِس
پر فرانس،امریکا اور دیگر یورپی ممالک کے عیاش پسند مرد مسلم عورتوں کے
پردہ کرنے جیسے عمل سے سخت خائف ہیں اور اِس لئے یہ اپنے یہاں مسلم خواتین
کے پردے پر پابندی لگانے کے لئے بضد ہیں اِس پر اسامہ کا یہ اعلان ہر طرح
سے درست سمجھا جانا چاہئے کہ وہ پردے کے خلاف فرانسیسیوں کی گردن کاٹے
گا۔(ختم شد) |