دو سال قبل پاکستان دنیا کے کرپٹ
ترین ممالک کی فہرست میں 47 ویں نمبر سے ترقی کر کے 42واں نمبر پر تھا،مگر
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اِس ترقی کی رفتار میں تیزی
سے اضافہ ہوا اور پاکستان نے 8درجے ترقی کرکے 42 ویں نمبر سے 34واں نمبر
حاصل کرلیا ہے، ترقی معکوس کا عمل تیزی سے جاری ہے،سمجھ میں نہیں آتا کہ
اِس ترقی معکوس پر اپنے ارباب اقتدار سے دکھ،غم اور افسوس کا اظہار کروں،
یا انہیں مبارکباد دوں،کہ دونوں ہی صورتوں میں کچھ بدلنے والا نہیں لگتا۔
پاکستان میں شماریات کے تمام اعشاریے اِس اَمر پر دلالت کررہے ہیں کہ ملک
کی معیشت تیزی سے روبہ زوال ہے،عوام کی بھاری اکثریت زندگی کی بنیادی
سہولتوں سے محروم ہے،بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی
ہے، انڈسٹری بند ہورہی اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے،ایسے میں
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ گزشتہ ایک سال کے دوران ملک میں
بدعنوانی میں غیرمعمولی اضافے کی بھی واضح نشاندہی کر رہی ہے،پہلے اِس
فہرست میں ہمارا 42واں نمبر تھا،اب 34واں ہوگیا ہے،گویا صرف ایک سال میں
کرپشن اتنی ہوئی ہے کہ ہم مزید آٹھ کرپٹ ممالک پر بازی لے گئے،یہ ہے ہماری
ترقی معکوس کا شاندار مظاہرہ ........پاکستان دو سال پہلے دنیا کا 47واں
کرپٹ ترین ملک تھا،جب5درجے گر کر یہ 42ویں نمبر پر آیا تھا تو اُسی وقت
ہمارے اربابِ اختیار کو اصلاح احوال کی تدابیر اختیار کر کے کرپشن کی روک
تھام اور اِس درجہ بندی میں بہتری لانے کا احساس ہونا چاہیے تھا، مگر افسوس
عملاً ایسا نہیں ہوا اور ملک بدعنوانی میں مزید 8درجے آگے جاکر اُس بنگلہ
دیش کو بھی بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے جو کسی وقت اِس دوڑ میں سرفہرست ہوا کرتا
تھا،قابل توجہ بات یہ ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے پاکستان کی
نئی درجہ بندی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے اُس بیان کے صرف دو روز بعد
سامنے آئی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں کوئی کرپشن نہیں۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل مختلف ممالک میں کرپشن
جانچنے کیلئے دنیا میں سب سے زیادہ قابل اعتبار ادارہ اور اُس کے انڈیکس یا
اعشاریے درست ترین پیمانہ تسلیم کئے جاتے ہیں، جن ممالک کی حکومتیں اپنے
معاملات ٹھیک کرنا چاہتی ہیں، وہ اِس سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور عوام کی
آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے یہ پروپیگنڈہ نہیں کرتیں کہ اِس طرح کے
جائزے اُن کے مخالفین تیار کرا کر چھپواتے اور نشر کراتے ہیں، ٹرانسپیرنسی
انٹرنیشنل کی فہرست میں آٹھ درجے نیچے آنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ پچھلے ایک
سال کے دوران پاکستان میں کرپشن بڑھی ہے،ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے
چیئرمین عادل گیلانی کا کہنا ہے کہ پچھلے سال ملک میں تین سو ارب روپے کی
کرپشن ہوئی جس کا نہ تو قومی احتساب بیورو نے نوٹس لیا، نہ حکومت نے اِس
معاملے میں کوئی خاص دلچسپی کا مظاہرہ کیا،تنظیم کے دعوے کے مطابق سب سے
زیادہ کرپشن کرائے کے بجلی گھروں میں ہوئی،جبکہ ای او بی آئی،این ایچ
اے،پیپکو،او جی ڈی سی ایل میں بھی مالی بے ضابطگیاں ہوئیں،سرکاری اداروں
میں اتنی بڑی بدعنوانی اور خوردبرد سے جان بوجھ کر صرف نظر کرنا سمجھ سے
بالاتر ہے۔
ہمیں تو ٹرانسپیرنسی پاکستان کی یہ رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ حکومت کرپشن
روکنا ہی نہیں چاہتی اور نہ اُس کے پاس کرپشن کو کنٹرول کرنے کیلئے مضبوط
سیاسی عزم ہے،اگر حکومت سنجیدگی سے کرپشن کی لعنت کو ختم کرنا چاہے تو کوئی
وجہ نہیں کہ ادارے قومی وسائل کے بے جا اسراف اور خوردبرد کو نہ روکیں،حیرت
ناک اَمر یہ ہے کہ بعض اداروں میں ہونیوالی لوٹ مار کا نوٹس عدلیہ کو لینا
پڑا جبکہ یہ کام خود حکومت کو کرنا چاہیے تھا،رینٹل پاور پلانٹس سے بجلی
حاصل کرنے کے بارے میں یہ تشویشناک انکشاف بھی سامنے آیا کہ 23ارب روپے ادا
کرنے کے باوجود صرف 62میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکی، حکومت کی اسی بدانتظامی
اور اللے تللوں کی وجہ سے ملک پر قرضوں کا بوجھ چند سال میں 46بلین سے بڑھ
کر 53.3بلین ڈالر ہوگیا ہے، یہ سارا بوجھ غریب عوام کے کندھوں پر ہے جن کی
کمر روز بروز جھکتی جا رہی ہے،جو پیسہ عوام کو زندگی کی سہولتیں فراہم کرنے
اور ملک کی تعمیرو ترقی پر خرچ ہونا چاہئے تھاوہ بدعنوان لوگوں کی جیبوں
میں جا رہا ہے۔
کرپشن ہمارے معاشرے کا ایک ایسا ناسور بن گیا ہے،جس کی جڑیں اتنی پھیل گئی
ہیں کہ سارا معاشرہ اِس کا شکار بن کر رہ گیا ہے،اِس ناسور کی شاخوں نے
جہاں دیکھو منافقت،جھوٹ،ملاوٹ،لوٹ مار،قتل و غارت، بے حیائی،چور بازاری،بے
حمیتی اور رشوت کی منڈیاں کھول دی ہیں،مکاری وعیاری کے دریا بہہ رہے ہیں،
ہوس، لالچ، نااہلی اور حکمرانی کی خواہش اقتدار نے غیروں کی غلامی میں جکڑ
رکھا ہے،الغرض کرپشن کے ناسور کی جڑیں ہر شعبہ زندگی میں پھیل چکی ہیں اور
پورے ملک کو اِس نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، ہمارے ارباب اقتدار اچھائی
کا نعرہ لگا کر برائی کرتے ہیں،ایمانداری کا طبل بجا کر پوری قوم کو غربت و
محرومی کی دھن پر نچاتے ہیں،جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک ماں جو پیار
اور ممتا کا خوگر ہوتی ہے اپنے ہی بچوں کے قتل اورایک باپ جو شفقت اور محبت
کی علامت ہوتا ہے،اپنے ہی بچوں کو زہر دینے کا سبب بن جاتا
ہے،محرومی،غربت،مہنگائی اور حکمرانوں کے تراشیدہ عذابوں نے زندگی کو ارزاں
اور موت کو عام کر دیا،ہمارے لیڈر بے غیرتی کی چادر اوڑھ کر کشکول بکف یہود
و نصاریٰ کے دروازوں پر کھڑے ہیں،دشمن ہمیں بناتا اور بگاڑتا ہے اور ہمارے
حکمران کٹ پتلیوں کی طرح اُس کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔
جب میڈیا اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جیسے ادارے حکمرانوں کی توجہ اِس
صورتحال کی جانب مبذول کراتے ہیں تو وہی رٹا رٹایا سبق دہرا دیا جاتا ہے کہ
عوام صبر کریں،سب ٹھیک ہوجائے گا،یہ کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ صاحبان
اقتدار کسی اقتصادی جائزے کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں،اُن کے خیال میں تو
ہر طرف چین ہی چین،انصاف ہی انصاف ہے،ہر ادارہ ایماندانہ اور شفاف طریقے سے
کام کر رہا ہے،کہیں کوئی کرپشن، بدانتظامی،اوراقرباء پروری نہیں ہورہی،وہ
کسی طور بھی اِس حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ ملک میں کچھ غلط
بھی ہورہا ہے،بس اُن کا اصرار ہے کہ حکومتی کارکردگی،کرپشن،نااہلی اور
بدانتظامی کے متعلق رپورٹیں حکومت کو بدنام کرنے کیلئے ہیں،اِس طرزِفکر کو
دھوکہ اور خود فریبی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے،ہمارے خیال میں معیشت
کی تباہی اور کرپشن کی ذمہ داری حکومت کی پالیسیوں پر عائد ہوتی ہے،خود
مرکزی بینک کی رپورٹ معیشت کی تباہی کے اسباب کی طرف اشارہ کررہی ہے،جس کے
مطابق تین برسوں میں سرکاری قرضے دگنے ہوگئے ہیں اور حکومتی قرضوں اور
واجبات کی رقم 102 کھرب تک پہنچ گئی ہے،حکومت اِن تین برسوں میں اپنے طے
کردہ اصلاحاتی اقدامات پر بھی عمل نہیں کرسکی،جس میں سب سے بڑا مسئلہ بجلی
کا بحران اور صنعتوں کی بندش کی وجہ سے بیروزگاری اور مہنگائی میں بڑھتا
ہوا اضافہ ہے،سابق وزیر خزانہ ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بیروزگاری
اور مہنگائی میں اضافے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ مستقبل میں حکومت
کی معاشی ٹیم کا اصل امتحان اُس وقت ہوگا جب آئی ایم ایف کو قرض کی واپسی
کا سلسلہ شروع ہوگا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن سے متعلق جو رپورٹ پیش کی
ہے وہ اپنی جگہ درست ہے، ضروری ہے کہ ہمارے پالیسی ساز جتنی جلد اِس گرداب
سے نکلیں گے اتنا ہی قوم اور ملک کے حق میں بہتر ہوگا،حکومت کو غیر
جانبداری اور دیانتداری کے مظاہرے کے ساتھ پاکستان سے کرپشن کلچر کے خاتمے
کے لئے مشنری جذبہ کے ساتھ کام کرنا ہوگا،ہر مجرم خواہ اُس کا تعلق کسی بھی
طبقے یا پارٹی سے کیوں نہ ہو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا اور کرپشن کو بے
نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ مجرموں کو کیفر کردار تک بھی پہنچانے کا فریضہ
سرانجام دینا ہوگا،ہمارے خیال میں پاکستان کا اولین مسئلہ کرپشن کا خاتمہ
ہے اور یہ خاتمہ صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب میڈیا،عوام اور عدلیہ کے
ساتھ ارباب اختیار بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں
اور ملک و قوم کی دولت لوٹنے والے ہر کرپٹ کو سرعام سزا دے کر نشان عبرت
بنائیں۔
خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کو عوام نے بہتر مستقبل کی امید پر حکمرانی کا
مینڈیٹ دیا ہے،جس پر پورا اتر کر ہی وہ قوم کے سامنے سرخرو ہوسکتی ہے،
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے درست کہا ہے کہ ”کرپشن سے صرف نظر کرنا
قبول نہیں، کیونکہ اِس کے اثرات دنیا بھر میں غرباء کو برداشت کرنا پڑتے
ہیں۔“اِس تناظر ہمیں موجودہ قوانین کے سختی سے نفاذ کی ضرورت ہے،ہمارا
ماننا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کیلئے بلاامتیاز قانون کے نفاذ،
میرٹ پر تعیناتیوں اور انصاف تک آسان رسائی بہت ضروری ہے، حکومت کو اِن
اصولوں پر کسی صورت بھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے،چاہے اِس کے لئے کتنی ہی
قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے،یاد رکھئے کرپشن وہ دیمک ہے جو ملک و قوم کی
بنیادوں کو ہی کھوکھلا نہیں کرتی بلکہ دنیا میں عزت و وقار سے جینے کا حق
بھی چھین لیتی ہے۔ |