عشرہ کے لفظی معنی دس کے ہیں ۔ رمضان المبارک کو تین
عشروں میں بانٹا جاتا ہے جس میں ہر عشرے کی اپنی الگ خصوصیت بیان ہوئی ہے ۔رمضان
المبارک کے آخری عشرے کا آغاز ہو چکا ہے اور یہ ماہ مبارک اپنی رفتار سے
اختتام کی جانب رواں دواں ہے ۔ ان مبارک ساعتوں میں عبادات و ریاضت کا ثواب
سال کے باقی دنوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے ۔اس عشرہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس
عشرہ کو جہنم کی آگ سے نجات کا عشرہ کہا گیا ہے ۔
اس عشرے کی دو خصوصیا ت ہیں ایک تو اس عشرہ کی طاق راتوں میں ایک رات لیل
القدر ہے ۔
اس رات کی برکات کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ رب تعالیٰ نے شب القدر کے
حوالہ سے ایک پوری سورت نازل فرمائی ۔جس میں اﷲ نے فرمایا ہے
بیشک ہم نے اس قرآن پاک کو شب قدر میں اتارا۔اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ شبِ
قدر کیا ہے ۔ شب ِ قدر (برکت و ثواب میں ) ہزار مہینے سے بہتر ہے ۔اس رات
میں فرشتے اور روح الامین اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے ہر امر کے ساتھ)
اترتے ہیں ۔یہ رات طلوع آفتاب تک سلامتی ہی سلامتی ہے ۔
ایک حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے
شب قدر کو رمضان المبارک کی آخری طاق راتوں یعنی اکیسویں ، تیسویں ،
پچیسویں ، ستائیسویں یا انتیسویں راتوں میں تلاش کرو۔ ( صحیح بخاری ۔ ج ا ۔
ص ۔۱۶۲)
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اﷲ ﷺ رات
بھر جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور کمر بستہ ہو کر خوب عبادت
کرتے ( البخاری ۲۰۲۴ء ، مسلم ۱۱۷۴ء )
جس رات کی تعریف و توصیفقرآن پاک میں خود اﷲ تعالیٰ نے فرمائی اور نبی پاکﷺ
نے اپنے ایال کو اس رات میں عبادت کروائی اس رات کی فضیلت کا کوئی کیا
اندازہ کر سکے گا ۔
ان راتوں میں عبادات کرنا افضل ہے ۔اسی عشرہ میں روزہ دار اعتکاف بیٹھ کر
اپنی ذات کو دنیا سے جدا کر کے چند دن اﷲ کی عبادت اور ریاضت میں گزارتے
ہیں۔
ام المومینین حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ میرے سرتاج حضرت محمف مصطفی ٰ ﷺ
رمضان کے آخری عشرہ ( یعنی آخری دس دن ) کا اعتکاف فرمایا کرتے یہاں تک کہ
اﷲ عزوجل نے آپ کووفات (ظاہری ) عطا فرمائی ۔ پھر آپ ﷺ کے ( اس دنیا سے
پردہ فرمانے کے بعد ) آپ کی ازواج مطاہرات اعتکاف کرتی رہیں ۔ ( صحیح بخاری
ج ۔ ا۔ ص ۶۲۴)۔ گویا رمضان کے آخری عشرہ کو زیادہ سے زیادہ عبادت میں
گزارنا ہی انسان کی کامیابی ہے ۔
صحابہ کرام کی خشیت کا یہ عالم تھا کہ رمضان کے اختتام پر غم فرمایااور
رمضان کے آخری دنوں میں خصوصی عبادات فرمائی ۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس عشرہ کے بعد روزہ داروں کو ان کے صبر کے صلہ کے
طور پر عید عنایت کی جاتی ہے ۔ عموما آخری عشرہ ہی میں عید کی تیاریاں اپنے
عروج پر ہوتی ہیں خصوصا خواتین آخری عشرہ میں عید کی تیاریوں میں مشغول نظر
آتی ہیں ۔ بجائے عبادات و ریاضت کے ان کے شب و روز بازاروں میں گزرنے لگتے
ہیں ۔ اس خریداری کا ایک رخ تو یہ ہے کہ نت نئے ڈیزانر ڈریسز مارکیٹ میں
موجود ہیں ۔ یہ لباس اپنے مخصوص نام اور برانڈ کی وجہ سے قیمتوں میں ایک سے
بڑھ کے ایک ہیں اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی جن کی استطاعت ہے وہ یہ
ڈرائیز لباس خریدنے کی دوڑ میں بڑھ چڑ ھ کر شامل ہیں ۔ صرف یہی نہیں لباس
کے ساتھ دیگر لوازمات پر بھی بے دریغ پیسہ لٹایا جاتا ہے ۔ اس تمام دنیا
داری میں وہ لوگ جو سفید پوش ہیں وہ نہ صرف عید کی خوشیوں کو منانے سے
محروم رہ جاتے ہیں بلکہ وہ اس مقابلہ بازی احساسِ محرومی کا شکار رہتے ہیں
۔
وہ عید جس کو تمام امت ِ مسلمہ کے لیے مسرتوں کا پیام ہونا چاہیے کچھ کے
لیے تو ریاکاری اور نت نئے فیشن کی نمود و نمائش کا موقع بن چکی ہے جبکہ
کچھ کے لیے حسر ت و یاس کا ایک نشان ۔
ذرا غور فرمایے ! ہمارا معاشرہ کس جانب جا رہا ہے ؟ آخری عشرہ کی راتیں
عبادت کی بجائے بازاروں میں گزر رہی ہیں ۔ ہمارے وہ بھائی جو سفید پوش ہیں
وہ اپنے جائز حق سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ ہم فیشن کی دوڑ میں اس ماہ اور اس
ماہ کے بعد اﷲ کی جانب سے عید کی صورت میں عطاء کیے گئے تحفہ کو وصول کرنے
سے بھی قاصر ہیں ۔ ہم میں سے اکثریت یہ شکوہ کرتی نظر آتی ہے کہ ان کی
دعائیں قبولیت کے درجہ پر فائز نہیں ہو پاتی تو اس کی بنیادی وجہ خود ہماری
ایسی کوتاہیاں ہیں جنھیں ہم معاشرے کا ساتھ دینے کے نام پر کرتے چلے آتے
ہیں ۔ہمیں اپنے معاملات کو سنبھالنے کے لیے دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام
لینا چاہیے اور دنیا داری کی نسبت اﷲ کی رضا کوفوقیت سمجھتے ہوئے ان
احکامات کی پاسداری کرنا چاہیے ۔ |