رمضان المبارک قمری مہینوں میں سے نواں مہینہ ہے ۔اﷲ
تعالیٰ نے اس ماہ مبارک کی اپنی طرف خاص نسبت فرمائی ہے۔ جس کی خاص وجہ یہ
ہے کہ حقیقی طور پر کون روزہ دار ہے اس کے بارے صرف اﷲ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’ روزہ میرے لیے ہے لہذا اس کا بدلہ
اور اجر میں خود دونگا ‘‘۔یہ مہینہ دوسرے تمام مہینوں سے ممتاز اور جداگانہ
ہے کیونکہ اس ماہ میں اﷲ تعالیٰ کی تجلیات اور عطائیں اس درجہ نازل ہوتی
ہیں گویا موسلادھار بارش کی طرح برستی ہیں ۔اس ماہ کے تین حصے ہیں ؛پہلے
حصہ میں اﷲ تعالیٰ کی رحمت برستی ہے ۔جس کی وجہ سے روحانیت اور تربیت کی
استعداد پید اہو جاتی ہے ۔ہر مسلمان مسنون نیک اعمال اور اسلامی عبادات
نماز ، روزہ اورخیرات و صدقات جیسے اچھے اعمال کی طرف لپکتا ہے اور اﷲ کی
نافرمانی سے بچتا ہے ۔جس کی وجہ سے گناہوں کے ظلمات اور معصیت کی کثافتوں
سے نکل جاتا ہے ۔ماہ رمضان کے دوسرے یعنی درمیانی حصہ میں اﷲ تعالیٰ اپنی
مہربانی سے توبہ قبول کرتے ہیں اور مغفرت فرماتے ہیں اور تیسرے یعنی آخری
حصہ میں اﷲ تعالیٰ اپنے تابعدار اور عبادت گزار لوگوں کو دوزخ کی آگ سے
آزادی فرماتا ہے ۔
پاک نبی صلی اﷲ علیہ وٓلہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کی پہلی رات کو اﷲ تعالیٰ
شیاطین اور سرکش جنوں کو مضبوط باندھ دیتا ہے ۔دوزخ کے دروازے بند کر دیتا
ہے اور بہشت کے دروازے کھول دیتا ہے اور فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ آواز دو
کہ اے نیکی کرنے والو! نیکی کا وقت ہے اور اے بدی کرنے والو! بدی سے رک
جاؤاور اپنے نفس کو گناہوں سے پاک رکھو کیونکہ یہ وقت گناہوں سے توبہ کرنے
اور انھیں چھوڑنے کا ہے ۔اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ توبہ قبول کرنے والوں
اور معافی مانگنے والوں کو معاف فرماتے ہیں ۔اس ماہ مقدس کے حوالہ سے ایک
خاص پیغام یہ ہے کہ
ایک مرتبہ پیارے نبی ؐ جب خطبہ ارشاد فرمانے کیلئے مِنبر پر چڑھنے لگے تو
پہلے ،دوسرے اور تیسرے زینے پر چڑھتے ہوئے آمین، آمین، آمین کہا ۔پھر نماز
سے فارغ ہوئے تو صحابہ کرام ؑ نے سبب معلوم کیا تو آپ ؐ نے فرمایا ’’میں نے
جب منبر کے پہلے درجہ پر قدم رکھا تو جبرائیل امین ؑتشریف لائے اور مجھے ہر
بات پر آمین بولنے کا کہا ۔آپ ؐ نے فرمایا کہ جب میں نے منبرکے پہلے درجہ
پر قلم رکھا تو جناب جبرائیل ؑ نے کہا ’’ہلاک اور برباد ہو وہ جس کی زندگی
میں ماہ رمضان آیا اور اس نے احکام خداوندی پر عملدرآمد کر کے اﷲ کو راضی
نہ کیا اور نجات نہ پائی تو میں نے کہا! آمین ‘‘۔کیونکہ اس ماہ مقدسہ کی
فضلیت ،اہمیت اور فیض و برکت ہی اتنی زیادہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ خود فرماتا ہے
کہ یہ نیکی کرنے اور بدی سے رک جانے کا وقت ہے ۔اس لئے کہ اس ماہ طیبہ میں
اﷲ تعالیٰ کی رحمت برستی ہے ،انسانی مغفرت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ
کو بند کر کے بہشت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ۔
پھر آپؐ نے فرمایا کہ جب میں نے منبر کے دوسرے درجہ پر قدم رکھا تو جناب
جبرائیل ؑ نے کہا ’’ہلاک اور برباد ہو وہ جس کے سامنے آپؐ کا نام مبارک لیا
جائے اور وہ درود نہ پڑھے ‘‘تو میں نے کہا ! ٓمین ۔کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے آپ
حضور ؐ کی ذات اقدس کو اپنی تمام مخلوقات میں سے ہر لحاظ اور ہر درجہ سے سے
اتنے اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز کیا ہے کہ ’’بعد ازخدا بزرگ تودی ‘‘کا مقام
ہے کہ آپ ؐ نے خود فرمایا کہ جس کے سامنے میرا نام آئے اور وہ درود نہ پڑھے
تو وہ بخیل ہوگا ۔اور پھر دعاؤں کی قبولیت میں یہ نہایت اہم ہے کہ اگر کسی
دعا کی ابتدا اور آخر میں آپؐ پر درود پڑھا جائے تو اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس
دعا کی قبولیت یقینی ہو جاتی ہے ۔
پھر آپؐ نے فرمایا کہ جب میں نے منبر کے زینہ تیسرے درجہ پر قدم رکھا تو
جناب حضرت جبرائیل ؑ نے کہا ’’ہلاک اور برباد ہوا وہ شخص کہ جس کے بوڑھے
والدین دونوں یا ایک موجود ہوں اور وہ انکی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کرے ‘‘۔
میں نے کہا ! آمین کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ اے لوگو!
صرف میری عبادت کرو اور اپنے والدین سے حسن سلوک کرو ۔ د وسری جگہ فرمایا
کہ ان کے سامنے اونچا نہ بولو اور اگر وہ سخت بات کریں تو اُف تک بھی نہ
کرو ۔آپؐ نے فرمایا کہ جنت تو آپکی ماں کے قدموں تلے ہے یہ بھی فرمایا کہ
آپ کا باپ جنت کا دروازہ ہے اگر وہ ناراض ہوجائے تو اﷲ بھی ناراض ہو جاتا
ہے ۔رمضان المبارک کے فضائل اور برکات بے شمار ہیں اﷲ تعالیٰ مانگنے والوں
سے خوش ہوتے ہیں اور نہ مانگنے والوں سے ناراض ہوتے ہیں ۔اﷲ تبارک و تعالیٰ
کا ارشاد ہے کہ ادعونی استجب لکم ’’تم مجھے پکارو میں تمہاری پکار کو قبول
کروں گا ‘‘۔اس لیے اس ماہ مقدس میں دن رات استغفار کرتے رہنا رہنا چاہیے
اور مغفرت طلب کرنی چاہیے ۔
ماہ مقدس کی راتوں میں ایک رات لیلتہ القدر ہے جو کہ امت محمدی کے لیے
عنایت خداوندی ہے ،قرآن مجید میں اس رات کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا
گیا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے لیلتہ القدر خیر من الف شہر ۔شب قدر کی
اہمیت اور فضلیت کو نبی کریم ؐ نے بھی بیان فرمایا اور اس کی قدر و منزلت
کو بیان کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا : جو شخص لیلتہ القدر میں ایمان کے ساتھ
اور ثواب کی نیت سے کھڑا ہو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں
‘‘۔(بخاری) اگر اﷲ تبارک و تعالی تمام گناہ معاف فرما دیتے ہیں تو انسان
منافقت ،ریاکاری ،دشمنی اورنفرت کو کیوں نہیں چھوڑتا جبکہ یہ طے ہے کہ اگر
دل صاف نہیں ہوگا تو عبادت میں اخلاص پیدا نہیں ہو سکتا اس لیے اس ماہ
مقدسہ کی اہمیت کو سمجھیں، نفرتوں، کدورتوں اور منافقتوں کا بوجھ اتار
پھینکیں کہ رضائے خداوندی کے لیے سب کو معاف کر دیں اور سچے دل کے ساتھ
مالک کائنات کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں ، اس ماہ مقدس کی برکات کا فائدہ
اٹھائیں ، اﷲ کی بہشت کی طرف بڑھیں ، دوزخ کی آگ سے بچ جائیں اور فلاح پا
جائیں ۔۔اﷲ ہمارا حامی و ناصر ہو |