نار صقر سے چھٹکارا ہے عید
(Irfan raza misbahi, Malegaon Maharastara India)
|
*عید مشکل کشائی کے چمکے ہلال*
*ناخنوں کی بشارت پہ لاکھوں سلام*
ماہِ رمضان خاص بندگئ خداکا مہینا ہے۔ اس میں ہر آدمی پر تقوے کی ایک خاص
کیفیت طاری رہتی ہے۔ بندۂ مومن رب تعالی سے قربت کی ڈگر پر رواں ہوجاتا ہے،
اور ان افعال کے ساتھ ایک خاص لگاؤ پیدا کر لیتا ہے جو بارگاہ ذوالجلال میں
تقرب عطا کریں۔ روزے کی بھوک پیاس اس کے دل میں مساکین کے تعلق سےنرم گداز
کیفیت پیداکر دیتی ہے۔ مسلمانوں کی بڑی اکثریت پانچ وقت کی نمازیں بڑے
اہتمام سے پڑھنے لگ جاتی ہے۔ غرض یہ کہ اہل ایمان جنت سے قریب اور جہنم سے
دور ہوتے ہیں
ایک مہینے کے روزے اہل اسلام کو اپنے ایمان وعقیدےاور اعمال کا جائزہ لینے
کا موقع فراہم کرتے ہیں کہ بندہ شان بندگی کی کس معراج پر ہےجو خوش نصیب اس
موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں، وہی اپنے دل کی کھیتی میں تقویٰ کی نعمت کی
آبیاری کرپاتے ہیں۔ حالانکہ ہر مسلمان کوموقع ملا تھا کہ وہ اپنی دین کے
ساتھ وابستگی کو مزید گہرا کر لیں لیکن اولوالعزم بندوں نے اسے ضائع نہیں
کیا۔ یہ مہینا خدا کی مقدس کتاب کےنزول کا مہینا ہے۔ جنھوں نے اس مہینے میں
اس کی تلاوت کی ہے۔ اس سے یاددہانی حاصل کی ہے۔ اس کی تعلیمات کو اختیار
کرنے کا عہد کیا، پھر سے تجدید کر لی ہے۔ لاریب، یہی لوگ اس کا استحقاق
رکھتے ہیں کہ ان کی عید کو عید قرار دیا جائے اور وہی اس شادمانی سے حظ
اٹھانے کے حقدار ہیں،
*کچھ نظائر ملاحظہ ہوں*
حضرت وہب بن منبہ کو عید کے دن روتے ہو ئے دیکھ کر کسی نے پوچھا یہ تو خوشی
اور زینت کا دن ہے حضرت وہب بن منبہ نے فرمایا بے شک یہ خوشی کا دن ہے۔لیکن
اُن کیلئے جنہوں نے روزے رکھے عبادات کی اور ان کے روزے عبادات اللہ نے
قبول کر لی ہوں۔
اسی طرح ایک دفعہ حضرت علی کو لوگ خلافت کے زمانے میں عید کی مبارک دینے
گئے تو دیکھا کے سوکھے ٹکڑے کھا رہے ہیں،آنے والے شخص نے کہا حضرت! آج تو
عید کا دن ہے یہ سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سرد آہ بھری اور فرمایا
؛جب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جن کو یہ ٹکڑے بھی میسر نہیں تو
ہمیں عید منانے کا کیوں حق حاصل ہے۔ پھر فرمایا عید تو ان کی ہے جو عذاب
آخرت اور مرنے کے بعد کی سزا سے چھٹکارا پاچکے ہیں
*حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عید کے دن اپنے بیٹے کو پُرانی قمیص پہنے دیکھا
تو رو پڑے، بیٹے نے کہا اباجان! آپ کس لئے روتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا، اے
بیٹے! مجھے اندیشہ ہے کہ آج عید کے دن جب لڑکے تجھے اس پھٹے پُرانے قمیص
میں دیکھیں گے تو تیرا دل ٹوٹ جائے گا، بیٹے نے جواب دیا، دل تو اس کا ٹوٹے
جو رضائے الٰہی کو نہ پا سکا یا اس نے ماں یا باپ کی نافرمانی کی ہو اور
مجھے اُمید ہے کہ آپ کی رضامندی کے طفیل اللہ تعالٰے بھی مجھ سے راضی ہوگا۔
یہ سن کر حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے، بیٹے کو گلے لگایا اور اس کیلئے
دعاء کی
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے،،
قالوا غدا العید ماذا انت لا بسہ
قلت خلعۃ ساق عبدہ الجرعا
نقر وصبر ثوبان بینھما
قلب یری ربہ اعیادا والجمعا
العید لی ماتم ان غبت یا املی
والعید ان کنت لی مراءی ومستمعا
ترجمہ
1۔ انہوں نے کہا کل عید ہے تم کیا پہنو گے؟ میں نے کیا ایسی پوشاک جس نے
بندے کو رفتہ رفتہ بہت کچھ دیا۔
2۔ فقراور صبر دو کپڑے ہیں اور ان کے درمیان دل ہے جو کو اس کا مالک عیدوں
اور جمعوں میں دیکھتا ہے۔
3۔ تب میری عید نہیں ہوگی، اے امید اگر تو مجھ سے غائب ہو جائے، اور اگر تو
میرے سامنے اور کانوں کے قریب ہوئی تو پھر میری عید ہے
اِسلام میں عید کا تصور دیگر مذاہب سے مختلف ہے۔ دیگر مذاہب میں عید کے
معنی یہ ہوتے ہیں کہ اہل ثروت خوب داد عیش دیں اور ہر طرح کی انسانی اور
اخلاقی قدروں کو پھلانگ کر خوشی و مسرت کے سارے ارمان نکالیں۔ چاہے اپنی
قوم کا غریب شخص یا پڑوسی سِسک رہا ہو اور فقر و فاقے سے اس کی جان کے لالے
پڑرہے ہوں، اس سے انھیں کوئی مطلب نہیں۔ انھیں اپنی خوشیوں اور تکبر و غرور
کی حالت میں اِترانے سے مطلب ہوتا ہے۔
اِسلام میں عیدوں کی بنیاد دو چیزوں پر رکھی گئی ہے: (۱)وَلِتُكْمِلُوا
الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ
تَشْكُرُونَ(البقره، 185)
(وه چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس
کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو)
یعنی جب رمضان کے روزے پورے ہوجائیں خدا کی طرف سےرمضان کے احکام کی پابندی
کی توفیق اور دیگر نعمتوں کا استحضار کرکے ان کا شکر بجالاؤ اور زیادہ سے
زیادہ اس کی بڑائی بیان کرنا، یہی وجہ ہے کہ عیدین کی نماز میں زائد
تکبیریں پڑھی جاتی ہیں تاکہ خوشی کی حالت میں جب کہ آدمی اِتراتا اور تکبر
کرتا ہے، زیادہ سے زیادہ خدا کی بڑائی بیان کی جاسکے۔
(۲) دوسری یہ کہ معاشرہ کے نادار افراد کو بھی اپنی خوشی میں شامل کرلیا
جائے۔ عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله - صلى الله عليه
وسلم-: "أغنوهم في هذا اليوم" وفي رواية البيهقي :أغنوهم عن طواف هذا اليوم
،(دار قطني،2/152 ،بيهقي،4/175)
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس دن سوال کی حاجت سے فقیر
کو بے نیاز کردو، بیقہی کی روایت میں ہیکہ اس دن مانگتے پھرنے سے انھیں بے
نیاز کردو،
*عید کے ساز میں شامل ہو غریبوں کا بھی سوز*
*اپنی پُر نور حویلی میں بھی جگنو رکھیے*
اسی لیے عید کے دن صدقۂ فطر لازم کیاگیا اور اس کے مقاصد میں سے
مسکینوں،غریبوں، ناداروں کی عید کا سامان ،خوراک کو بھی شمار فرمایا،
عن ابن عباس رضي الله عنهما : فرض رسول الله صلي الله عليه وسلم زكاة الفطر
طهرة للصائم من اللغو والرفث وطعمة للمساكين( أبو داود ،2/111 ،حاكم ،1/568
)
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے روزوں کو لغو اور بے حیائی کی
بات سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کو کھلانے کے لیے صدقۂ فطر مقرر
فرمایا،
اصل حکمت فقراء و مساکین کا تعاون، انھیں عید کی خوشیوں میں شامل کرنا اور
ان میں یہ احساس پیدا کرنا کہ مسلم معاشرہ عید کے دن ان کے لئے اپنے جذبات
اخوت کا اظہار کرتا ہے۔ اس طرح اِسلامی عیدوں میں جہاں ایک طرف خدا کا شکر
بجالایا جاتا ہے، وہیں خدا کے بندوں سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔
عیدالاضحی میں قربانی کے گوشت کے ذریعہ غریبوں کا خیال رکھا جاتا ہے تو
عیدالفطر میں صدقۂ فطر کے ذریعہ ،صدقہ الفطر غریبوں سے ہمدردی کا بہترین
ذریعہ ہے۔تہوار ہر قوم کی سماجی زندگی کا ایک اہم عنصر ہوتے ہیں۔ لیکن ان
تہواروں کا پس منظر بالعموم اس دنیا سے وابستہ ہوتا ہے۔ تہوار کے دن دنیوی
کامیابیوں یانعمتوں کے حصول کے مواقع ہوتے ہیں۔ لیکن اسلام کے دونوں تہوار
خدا کے ساتھ بندے کے تعلق کی نسبت سے منائے جاتے ہیں۔ عیدالاضحی در حقیقت،
خدا کی خاطر قربانی کے جذبے کا مظہر ہے او رعید الفطر رمضان یعنی اللہ کے
لیے گزارے گئے مہینے کی عید ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ مسلمان اپنا یہ تہوار،
اپنے اسلام اور ایمان کے شایان شان منائیں
*اسلامی عید*
عن انس رضي الله عنه قال قدم النبی ﷺ المدینۃ ولھم یومان یلعبون فیھما فقال
ما ھذان الیومان قالوا کنا نلعب فیھما فی الجاھلیۃ فقال رسول اﷲ ﷺ قد
ابدلکم اﷲ بھما خیراً منھما یوم الاضحی و یوم الفطر حضرت انس رضي الله عنه
سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور انکے (اہل مدینہ )
کے کھیل کود کے دو دن مقرر تھے تو حضور ﷺ نے فرمایا یہ کیا دن ہیں؟ وہ عرض
کئے کہ زمانہ جاہلیت میں ہم ان دنوں میں کھیلا کرتے تھے حضور ﷺ نے فرمایا
تمہیں اللہ تعالیٰ نے ان دو دنوں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن عطا فرمایا
ہے ’’ عیدالاضحی اور عیدالفطر ‘‘ ۔
(سنن نسائی: ص۱۸۶ ج۱، مشکوٰۃ ج ۱ ص ۱۲۷)
اور حقیقت یہی ہیکہ اہل ایمان کی ہر عید ذکر خدا سے مملو ہوتی ہے اور
اسلامی طرز معاشرت کا آئینہ دار ہوتی ہے جبکہ دنیاداروں کی عید فواحشات
ومنکرات کا مرقع ہوتی ہے اسلام نے خوشی منانے کو نعمت خداوندی کے شکریہ کے
طور پر ذکر کیا جیسا کہ خوان نعمت قوم عیسی علیہ السلام کےلیے
قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا
مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا
وَآيَةً مِنْكَ ۖ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ(المائدہ،
114)
عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی کہ اے اللہ اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے
کھانا نازل فرما! کہ وه ہمارے اولین وآخرین سب کے لئے ایک عید ہوجائے اور
تیری طرف سے ایک نشانی ہوجائے اور تو ہم کو رزق عطا فرمادے اور تو سب عطا
کرنے والوں سے اچھا ہے،
اور امت محمدیہ علیہ الصلاۃ والسلام کےلیے نزول قران اور دوسری نعمتوں پر
خوشی کا حکم
قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ
خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ(يونس، 58)
آپ فرمادیجئے کہ (یہ کتاب اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے نازل ہوئی )بس
لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے۔ وه ان تمام چیزوں
سے بہتر ہے جن کو وه جمع کرتے ہیں
حقیقت میں زندگی کےلیے ایک مکمل قانون قران کا ملنا خدا بڑی نعمتوں میں سے
ایک نعمت ہے اسی طرح رمضان مبارک اس کی عبادتیں بھی نعمت عظمیٰ ہیں اس کے
ملنے پر خوشی کرنا اور ان کی قبولیت کی دعا کرنا ہی چاہیے اسلاف کا یہی
طریقہ رہا ہے
قال جبير بن نفير: "كان أصحاب رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم إذا التقوا
يوم العيد يقول بعضهم لبعض: تقبل الله منا ومنك" (فتح الباري (2-446))
عید کے روزصحابہ کرام رضیﷲ عنهم آپس میں ملتے تو یہ کہتے: «تقبل الله منا
ومنك» یعنی اللہ تعالیٰ ہم، تم سب سے قبول فرمائے۔
اور خدا کی خوب کبریائی کا اظہار کرتے تھے حدیث پاک میں ہے
عن أبي هريرةمرفوعا:زينوا أعيادكم بالتكبير
رواه الطبراني في الصغير 1/357
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اپنی عیدوں کو تکبیروں سے زینت
بخشو۔
قال العلامة ابن قدامة في المغني:فَصْلٌ : وَيُكَبِّرُ فِي طَرِيقِ
الْعِيدِ ، وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ ، وَهُوَ مَعْنَى قَوْلِ
الْخِرَقِيِّ : " مُظْهِرِينَ لِلتَّكْبِيرِ
: وصفة التكبير: الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله، والله أكبر الله
أكبر ولله الحمد. والله أعلم(المغني:فصل، التكبير العيد)
علامہ قدامہ حنبلی لکھتے ہیں امام خرقی نے جو صحابہ کے تعلق سے کہ
وہ"مظھرین للتکبیر"تکبیر کا آوازہ بلند کرنے والے، اس کا مطلب عید گاہ کے
راستے میں بلند آواز سے تکبیر کہے ،اور اس کے کلمات یہ ہیں الله أكبر الله
أكبر لا إله إلا الله، والله أكبر الله أكبر ولله الحمد
*معمول رسول:*
روى ابن عباس ، "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يغتسل يوم الفطر
والأضحى."( ابن ماجہ،بزار،موطا امام مالک)
عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
عید الفطر اور عید الاضحی کےلیے غسل کرتے تھے
وكان يلبس للخروج إليهما أجمل ثيابه فكان له حلة يلبسها للعيدين، والجمعة
،(زاد المعاد،1/441)
حضورﷺ عیدین کےلیے جانے سے پہلے عمدہ خوبصورت کپڑے پہنتے آپ کے پاس ایک
"حلۃ"(جبہ) تھا جسے آپ عیدین اور جمعہ کےلیے پہنتے تھے،
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : كَانَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ
حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ ، وَيَأْكُلُهُنَّ وِتْرًا (بخاري،ح،953)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہیکہ رسول اللہﷺ عید الفطر کے دن
طاق عدد میں کھجور کھائے بغیر نہیں نکلتے تھے
لہذا کھجور یا کچھ میٹھا کھا کر جانا سنت ہے
عن جابر -رضي الله عنه- قال: "كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا كان يوم
عيد خالف الطريق"(بخاري 1/ 334، ، ابو داؤد)
حضرت جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب عید کا دن ہوتا تو نبی کریمﷺ ایک
راستے سے عیدگاہ کو جاتے اور دوسرے سے واپس آتے۔
اس میں حکمت یہ ہیک ہراستہ بدل کر جانے سےدونوں راستے نمازی کے گواہ بن
جاتے ہیں اور دونوں راستوں میں رہنے والے جن اور انسان گواہی دیتے ہیں اور
اس میں اسلام کے شعار کا اظہار بھی ہے۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ يَخْرُجُ إِلَى الْعِيدِ ، مَاشِيًا وَيَرْجِعُ مَاشِيًا .( ابن
ماجه ،ح،1295،ترمذی)
ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺعید گاہ پیدل جاتے اور پیدل واپس
آتے تھے
عن عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ : مِنْ السُّنَّةِ أَنْ تَخْرُجَ
إِلَى الْعِيدِ مَاشِيًا . (وروى الترمذي،ح،530)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عیدگاہ پیدل جانا سنت ہے
*امام ترمذی فرماتے ہیں اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے لہذا مستحب یہی ہیکہ
بغیر عذر کے سواری پر نہ جائےص، 57
حضرت عبدﷲ بن عباس رضیﷲ عنہما سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
ان النبیﷺ صلی یوم الفطر رکعتین لم یصل قبلہا ولابعدھا (بخاری1/131،
مسلم،1/189،ابو دائود،1/171)
’’نبی کریمﷺ نے عیدالفطر کے دن دو رکعتیں پڑھیں، نہ ان سے پہلے کوئی نفل
نماز ادا فرمائی اور نہ ہی (عیدالفطر کی نماز کے) بعد نفل ادا فرمائے‘‘
حضرت ابو سعید خدری رضیﷲ عنہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں:
کان النبیﷺ یخرج یوم الفطر والاضحی الی المصلی فاول شیٔ یبدا بہ الصلاۃ، ثم
ینصرف فیقوم مقابل الناس، والناس جلوس علی صفوفہم فیعظہم ویوصیہم ویامرہم
فان کان یرید ان یقطع بعثا قطعہ او یامر بشیٔ امربہ ثم ینصرف (بخاری،1/131،
مسلم،1/290،ابو دائود،1/169)
’’نبی کریمﷺ عیدالفطر اور عیدالاضحی کے دن عیدگاہ تشریف لے جاتے تو عید کے
دن پہلا کام جو کرتے وہ (عید) کی نماز ہوتی۔ پھر نماز ادا فرمانے کے بعد
لوگوں کے سامنے (جلوہ افروز ہوتے) کھڑے ہوجاتے، لوگ صفیں باندھے بیٹھے رہتے
(اور دیدار پاک سے فیض یاب ہوتے) نبی کریمﷺ انہیں وعظ ونصیحت فرماتے اور
اچھی باتوں کا حکم فرماتے۔ پھر اگر کوئی لشکر (فوج) بھیجنا چاہتے تو اس کو
الگ کرتے یا اور کوئی حکم (مبارک) جو چاہتے وہ ارشاد فرماتے۔ پھر آستانہ
مبارک کی طرف لوٹ آتے،
حضرت ابو حویرث رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں، نبی کریمﷺ نے نجران کے
حاکم حضرت عمرو بن حزم رضیﷲ عنه کو لکھا: عجل الاضحی واخر الفطر وذکر الناس
( ابو دائود ،1/176)
’’بقر عید جلدی پڑھو اور عیدالفطر دیر سے اور لوگوں کو وعظ کرو‘‘
حضرت ابوہریرہ رضیﷲ عنه سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ عید کے دن
بارش ہو گئی تو نبی کریمﷺ نے اُنہیں نماز عید مسجد میں پڑھائی۔ (
بخاری1/133 ،ابو دائود)
*عید پر رب تعالی کی عطا*
عن سعد بن أوس الأنصاری عن أبیہ قال قال رسول اﷲ ﷺإذا کان یوم عید الفطر
وقفت الملائکۃ علی ابواب الطرق فنادوا اغدوا یا معشر المسلمین إلی رب کریم
یمن بالخیر ثم یثیب علیہ الجزیل لقد أمرتم بقیام اللیل فقمتم و امرتم بصیام
النھار فصمتم و أطعتم ربکم فاقبضوا جوائز کم فإذا صلوا نادی مناد ألا إن
ربکم قد غفرلکم فارجعوا راشدین إلی ربکم فھو یوم الجائزۃ و یسمی ذلک الیوم
فی السماء یوم الجائزۃ(ترغیب و ترہیب ج۲ ص۱۵۳)
حضرت سعد بن اوس انصاریؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ فرمائے کہ رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب عیدالفطر کا دن ہوتا ہے تو فرشتے راستوں پر کھڑے
ہوجاتے ہیں اور ندا دیتے ہیں اے مسلمانوں رب کریم کی طرف لوٹ جاؤ جو بھلائی
دیکر احسان کرتا ہے پھر اس پر بہت سا ثواب بھی دیتا ہے یقیناًتمہیں رات میں
عبادت کرنے کا حکم دیا گیا تو تم نے عبادت کی اور دن میں تمہیں روزہ رکھنے
کا حکم دیا گیا تو تم نے روزہ رکھا اور اپنے رب کی اطاعت کی پس تم اپنے
انعامات حاصل کرلو ، پس جب لوگ نماز سے فارغ ہوجاتے ہیں تو ندا دینے والا
ندا دیتا ہے سنو بیشک تمہارے رب نے تمہیں بخش دیا پس تم ہدایت یافتہ بن کر
اپنے رب کی طر ف لوٹ جاؤ ۔ پس وہ (عیدالفطر ) انعام کا دن ہےاسے آسمانوں
میں انسان کے یوم الجائزہ (انعام کا دن) کہا جاتا ہے۔
عن انس بن مالکؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ ۔۔۔ فإذا کان یوم عیدھم یعنی یوم فطرھم
باھی بھم ملائکتہ فقال یا ملائکتی ماجزاء أجیر وفی عملہ قالوا ربنا جزاۂ أن
یوفی أجرہ قال ملائکتی عبیدی و إمائی قضوا فریضتی علیھم ثم خرجوا یعجون إلی
بالدعاء و عزتی و جلالی و کرمی و علوی و إرتفاع مکانی لأجیبنھم فیقول
ارجعوا قد غفرت لکم و بدلت سیآتکم حسنات قال فیرجعون مغفوراًلھم (بیہقی ج۳
ص ۳۴۳ ، مشکوٰۃ ج ۱ ص ۱۸۲)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب عید کا دن آتا ہے
یعنی عیدالفطر کا دن، تو اللہ تبارک و تعالیٰ ان (اللہ کے بندوں کے متعلق)
اپنے بندوں سے فرشتوں پر فخر فرماتا ہے۔ پس فرماتا ہے کہ اس مزدور کی کیا
مزدوری ہے جس نے اپنا کام پورا کیا ہو فرشتے عرض کرتے ہیں کہ پروردگار اس
کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے ، اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے،
ائے میرے فرشتو میرے بندوں اور باندیوں نے میرے اس فریضہ کو جو ان کے ذمہ
تھا ادا کردیا ہے، پھر وہ (عید گاہ کی طرف) دعا کیلئے نکلے ہیں، مجھے اپنی
عزت و جلال ،کرم و بلندی اور بلند مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا قبول کروں
گا. پھر اللہ فرماتا ہے اے میرے بندو لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا، اور
تمہاری برائیاں نیکیوں میں بدل دی ، حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ لوگ اس حال
میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بخشش ہوچکی ہوتی ہے
*جناب وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ شیطان ہر عید پر نوحہ و زاری
کرتا ہے اور تمام شیطان اس کے اردگرد جمع ہو کر پوچھتے ہیں، اے آقا! آپ
کیوں غضب ناک اور اُداس ہیں ؟ وہ کہتا ہے اللہ تعالٰے نے آج کے دن اُمت
محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو بخش دیا ہے لٰہذا تم انہیں لذتوں
اور خواہشاتِ نفسانی میں مشغول کرو
کچھ افضل اعمال عید:
عن أبي أمامه رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " من قام ليلتي
العيدين محتسبا لله تعالى لم يمت قلبه حين تموت القلوب ،( شافعي،ابن ماجه
،طبرانی)
فرمانِ نبوی ہے کہ جس نے عید کی رات طلبِ ثواب کیلئے قیام کیا، اس دن اس کا
دل نہیں مرے گا جس دن تمام دل مر جائیں گے۔
۔حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس شخص نے عید کے دن
تین سو مرتبہ سبحٰن اللہ وبحمدہ پڑھی اور مسلمان موتٰی کی روحوں کو اس کا
ثواب ہدیہ کیا تو ہر مسلمان کی قبر میں ایک ہزار انوارداخل ہوتے ہیں اور جب
وہ مرے گا اللہ تعالٰے اس کی قبر میں ایک ہزار انوال داخل فرمائے
گا۔(مکاشفۃ القلوب، ص308)
لہذا ہماری ذمہ داری یہ ہیکہ ہم اسی تصور اور طریقہ سے عید منائیں جو
اسلامی ہے اور فرحت وسرور کی وادیوں میں یوں نہ اتر جائیں کہ ماہ رمضان کے
دنوں میں حاصل ہوئی نعمتیں یکسر محو ہوجائیں، شریعت کے خلاف کوئی عمل نہ
ہونے پائے تو واقعی ہماری عید، عید کہلائے گی مغفرت و برکت کے حصول کا
ذریعہ ہے رب کریم اپنے حبیب پاک کے صدقے دنیا جہاں کے مسلمانوں کےلیے حقیقی
خوشیاں مقدر فرمائے، آمین |
|