جناب حشمت سہیل کی’ دیوانی ہنڈیا‘:’’یادوں کی کہکشاں‘‘

داستان گوئی ہندوستان کا قدیم کلچر ہے ۔لیکن یہ ایک ایسا فن ہے جو کسی کسی کو قدرت ودیعت کرتی ہے ۔جناب حشمت سہیل ان محدودے چند میں شامل ہیں جن کو یہ فن آتا ہے،کم از کم میں نے’یادوں کی کہکشاں‘ کا ورق ورق اور سطر سطر مطالعہ کرنے کے بعد یہی اخذ کیا ہے ۔جناب حشمت زندگی کے آٹھ عشرے گزار چکے ہیں ۔ماشاء اﷲ صحت مند ہیں اور بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ہندوستان ،پاکستان ،دبئی اور امریکہ کے عمر رفتہ کے تذکروں کو انھوں نے یادداشتوں کی صورت میں اس کتاب میں اکٹھا کر دیاہے ۔تذکروں اور یادداشتوں کو انھوں نے ایک کہانی کار کی طرح بیان کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں نے اس کتاب کا دوبارہ مطالعہ کیا ہے ۔کتاب 246صفحات اور کچھ تصاویرپر مشتمل ہے ۔تصاویر کا معیار اچھا نہیں ۔

کتاب کے تقریباً 150صفحات 1947ء سے پہلے کے ہندوستان کے کلچر اور کہیں کہیں تاریخ کو خوب صورتی سے بیان کرتے ہیں ۔ان صفحات میں کہیں چڑیلوں کو بند کرنے کی شخصی وارداتیں ہیں تو کہیں مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر اس طرح خوب صورت جملے ہیں کہ ’مہنگا اور سستا ہونے کی بنیاد عوام کی قوت خرید پر ہے‘۔عجیب بات یہ ہے کہ یہ سارے واقعات جیسے رمضان اور چاند اور عید کی خریداری کی یہ کہانیاں میری اپنی زندگی کی بھی ہیں ۔یہی منظر ہوتے تھے عید کے آنے کے اور عید کی خریداری کے ۔کہیں ہندوستان کے شہنشاہوں کا بیان ہے تاہم اس طرح کے واقعات صحت طلب ہیں کہ اورنگ زیب نے اپنی بہن کے یوم پیدائش پر ایک لاکھ سونے کی اشرفیاں نذر کی تھیں ۔

کہیں شادیوں کے بیان ہیں اور یہی کلچر ہمارا بھی ہے کہ ناراض رشتہ داروں کو منانے کے لیے بزرگ خواتین و مرد جاتے ہیں ،شکایتوں کا دفتر کھلتا ہے ،معافی تلافی ہو ہی جاتی ہے اور نہیں بھی ہوتی کہ دل سخت ہو چکے ہیں ۔یہ بات میرے لیے نئی تھی کہ پینٹ شرٹ اتار کر تھیلے میں رکھے جائیں ،انڈر ویئر اور بنیان پہنے سفر کیا جائے اور منزل سے پہلے کہیں منہ ہاتھ دھو کر بابو بن کر گھر جایا جائے ۔تاہم ’ہم نائی بنے‘ پڑھ کر مزہ آگیا ۔کچھ واقعات کی واقعی عقلی توجیہ ممکن نہیں جیسے شبن بھائی کے واقعہ کی۔جناب حشمت سہیل بہت اچھے شکاری بھی ہیں اسی لیے انھوں نے اپنے شکار کے بھی دلچسپ واقعات رقم کیے ہیں جس میں لکڑ بگھے کا قصہ سب سے زیادہ دلچسپ ہے۔

سید نے خاندان کے افراد کی دنایت کو بھی رقم کیا ہے اور یہ ہر خاندان میں پائے جاتے ہیں تاہم اچھے بھی ہر جگہ ہیں ۔نیاز ماموں میرج بیورو طرز کے کام ہمارے ہاں بھی ہوتے ہیں ۔پاکستان کے میچوں کی کمنٹری سننا پاکستان سے محبت کا ایک خوب صورت اندازہ لگا ۔کہیں بھنے بھائی کی بر دکھائی کے دلچسپ واقعات ہیں اور ساتھ ساتھ دلچسپ حقیقت کہ مرغا تین ہی موقعوں پرپکتا ہے ۔یا کوئی بیمار ہو،یا مرغا بیمار ہو،یا داماد آگیا ہو ۔ داماد کے آنے پر مرغاہمارے ہاں بھی پکتا ہے ۔ چھپکلی والی حویلی کے خوف ناک واقعے پر یقین نہیں آیا ۔قبروں میں خزانے تاریخی طور پر درست بھی ہیں اور ہر جگہ قبر میں کھودنے سے کہیں کہیں خزانہ مل ہی جاتا ہے تاہم بنجاروں کے بارے میں یہ روایت کہ یہ رانا سانگا کے ساتھی تھے ،تحقیق طلب ہے۔

گورنر اور مرغابی کا شکار میں حشمت کا یہ کہنا بھی تاریخی حقیقت ہے کہ انگریز حکمران رفاہ عام کے کام کرتے تھے اور ہمارے دیسی حکمران طرب گاہیں بناتے رہے ۔لے پالک پالنے کے واقعات اب زیادہ ہیں :یاد رہے کہ ’سحرالبیان‘ میر حسن کی مثنوی ہے ۔دیا شنکر نسیم کی ’گلزار نسیم‘ ہے ۔یہ سچ ہے کہ آج سے عشروں پہلے مسجد یں فرقو ں کے لحاظ سے نہیں بٹی تھیں ۔کچھ ممالک نے اپنے انقلاب کو فرقوں میں تقسیم کرنے پر ضائع کیا ۔جناب حشمت سہیل نے کچھ واقعات ایسے بھی بیان کیے ہیں جن سے بد ترین افراد کے اندر کی اچھائی کو بھی سامنے لایا ہے جسے بنیواپاسی۔بوڑھا چودہری کا واقعہ آنکھیں نم کر گیا۔تاریخ ایسے افراد سے خالی نہیں۔

لکھنوکی نسیم عثمانی کا واقعہ بہت دلچسپ لگا اور قابل تقلید بھی ۔تاہم اس سے یہ ثابت ہوا کہ منصف معلوم شہادتوں اور دلائل پر ہی فیصلے دے سکتا ہے اور منصف کی یہ بات خوب ہے کہ میں پچھلے دنوں اپنی فیملی کے ساتھ دو تین شہروں میں گیا تھا اور وہاں خریداری بھی کی تھی لیکن اگر کوئی مجھ سے ثبوت مانگے تو میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے ۔جناب حشمت سہیل شاعر ہیں ،اس لیے شاعری کا تڑکا ضرور لگاتے چلے گئے ہیں جیسے ’بارات میں مجرا‘ اور کیوں کہ وہ وکیل بھی ہیں تو عدالتوں کے دلچسپ فیصلے بھی رقم کیے ہیں ۔اندرا گاندھی کے الیکشن کوناجائزقرار دینے کوواقعہ کمال کا لگا۔

الوکیل اﷲ کا صفاتی نام بھی ہے جب کہ انگریزی کا لائر ذومعنی ہے ۔اور جناب حشمت کیوں کہ مزاح گو بھی ہیں اس لیے کہیں کہیں ظرافت کا تڑکا بھی لگایا ہے جیسے’ نفسیات کا نیا تجربہ‘ ،’شاعروں کا اغواء‘ :کیا کہنے ۔آج کے دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ شاعروں اور خاص طور پر متشاعروں کو اغواء کروایا جائے تاکہ قوم کو ان سے نجات ملے۔شاعروں کے واقعات بہت ہی دلچسپ ہیں ،خاص طور پر ایک شاعر اور ڈی آئی جی ۔تیندوا اور ایک مزار کا قصہ ہمارے ہاں کے دو تین مزاروں کے بارہ میں بھی مشہور ہے ۔جس پر ہم نے آج تک آپ کی طرح یقین نہیں کیا ۔

حشمت سہیل نے کچھ خاکے بھی لکھے ہیں جیسے شکاری چھوٹے خان اور اس میں یہ جملہ تو کمال کا ہے کہ’ میں ان کو اتنا کس کربھونتاہوں کہ ان کا سارا حرامی پن نکل جاتا ہے‘ ۔اسی طرح رانا پرتاب کا مختصر خاکہ ہے اور اسی میں تاریخ بھی سمو دی ہے ۔حشمت نے تاریخ سے فرار نہیں اختیار کیا جو اچھی بات ہے ۔پٹھان مرد کی نفسیات پر ’آبرو جنس گراں ہے‘:خوب صورت مختصر کہانی ہے ۔وکیل کی بے ایمانی ،مجھے ہمارے مہربان دوست پروفیسر غازی علم الدین کی یاد دلا گئی کہ جن کے ساتھ ایک وکیل خاتون نے بے ایمانی کی اور اس کا انھوں نے اسے احساس تک نہ دلایا ۔اس طرح کے افرادہر طبقے میں پائے جاتے ہیں ۔وکلاء میں کچھ زیادہ ہی ۔

’فنا نظامی کانپوری‘ کے خاکے میں حشمت کا یہ کہنا بجا ہے کہ اکثر نوجوان شعرا اور شاعرات شاعری میں تو معمول سد بدرکھتے ہیں لیکن دوسرے شاعروں سے لکھوا کر اپنے گلے کے بل پر مشاعرے لوٹ لیا کرتے ہیں ،ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہے ،خوب گا گا کر پڑھتے ہیں کہ اس طرح بحر،قافیہ ،وزن سے نجات مل جاتی ہے ۔تاہم اس سے ثابت ہوا کہ بڑے شاعر بھی چھوٹے ہوتے ہیں کہ حکیم صاحب سے معذرت کرنے کے بجائے پولیس کے ذریعے سے بچارے کو ذلیل کیا گیا ۔اکثر شعرا تعلق کو تواپنے مفاد کے لیے خوب استعمال کرتے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے میرے ایک خاکہ لکھنے پر ایک بیوروکریٹ شاعر نے میری پیشی ڈپٹی کمشنر کے حضور کروا دی ۔جس پر لکھنا مجھ پر قرض ہے ۔مستقبل میں کبھی ادا کروں گا (ان شاء اﷲ)۔

کتاب کی ہر کہانی دلچسپ ہے لیکن ’کہانی دو ڈاکٹروں کی ‘کے کیا کہنے ۔سچ ہے کہ عورت کی وجہ سے مرد ہمیشہ مسائل کا شکار رہتا ہے اور اس سے فرار ممکن بھی نہیں ۔اسی طرح ’اعتقاد کی اہمیت ‘کی کہانی اپنے اندر جاذبیت اور کشش رکھتی ہے ۔مولانا حسرت کا مختصر خاکہ بیان کر گیا کہ کردار کی قدر موجود ہے ۔فنا نظامی کا شعر شاید 1947ء میں کشش رکھتا ہو گا ،اب نہیں ۔شعرا کے ادبی اور بے ادبی لطیفے خوب ہیں اور ان کی معاصرانہ چشمک کو بھی سامنے لاتے ہیں ۔’ملک الشعرا ابونو اس کا ایک شعر‘ ،پڑھ کر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اصل اہمیت ناقد کی ہے جو شعر کے وہ معانی اور تشریحات بھی سامنے لاتا ہے جو شاعر کے وہم اور گمان میں بھی نہیں ہوتے ۔اس طرح شعر کی تفہیم جدید سامنے آجاتی ہے ۔

’سرقہ ،توارداورمرزاغالب‘ میں بے شک غالب نے جو بھی موقف پیش کیا ہو لیکن مرزا غالب ہوں یا مولانا محمد حسین آزاد: سرقہ کے مرتکب ضرور ہوئے ۔’چہ دلاور است‘کا مطالعہ کئی ایسے در وا کرتا ہے۔ نہرو کا جگرؔ کے بارہ میں یہ رویہ ماضی کا حصہ ہے ،اب ایسا نہیں ہوتا اور یہ رویہ صرف شاعر کے لیے تھا ،ایک قوم کے لیے نہیں ۔میری مراد کشمیری قوم ہے جس کے ساتھ استصواب رائے کا نہرونے وعدہ کیا تھا اور کر کے مکر گئے۔ڈاکٹر تائکہ شعیب کا مقالہ جو آپ نے ترجمہ کیا ،’عربی ،فارسی اور اردو کے اثرا ت جنوبی ہند اور سری لنکن زبانوں پر ‘کا منتظر ہوں کہ کب جناب جامی کے ذریعے ہم تک پہنچے ۔آپ دونوں کے لیے دعا کے ساتھ۔پاکستانی شہریت کے حصول کی کوششیں ترک کر دیں اور کسی معصوم کو مروائیں گے ۔

جمہوریت اور اسلام ،ابن صفی کا موقف ہے جس سے مجھے بہر حال اختلاف ہے ۔’دبئی کی یادیں‘ میں ماں کے واقعہ نے آب دیدہ کر دیا۔’دانت کے درد‘ کی کہانی بہت دلچسپ لگی اور کئی دوستو ں کو سنا چکا اور ہا ں’پرسہ‘بھی جامی صاحب کے ہاں بھیج دیں (میرے لیے)۔اس کا سفر خوب رہا ۔’کچھ بھوت،چڑیل اور جنات کے متعلق‘ خوب کہانی ہے اور ہمارے ہاں بھی ایسے ہی ہے لیکن آج تک کسی سے مکالمہ ،مراسلہ ،آنکھیں چار نہیں ہو سکیں۔’بڑھاپا او ر ہیپی برتھ ڈے ‘اچھا لگا اور اس با ت کا احساس دلا گیا کہ ابھی روایات موجود ہیں اور ہماری نئی نسل ان سے محبت کرتی ہے ۔’پاکستان کے ایک اخبارکا تراشہ‘ خاصے کی چیز ہے اور اسے میں نے بے شمار دوستوں سے فیس بک پر شیئر کیا ۔عمرہ آپ نے ادا کر لیا، آپ کے لیے حج کی ادائیگی کی دعا ہے۔’اردو کلچرل سوسائٹی شگاگو‘ کی کتابیں اور سی ڈیز ہم کو بھی پرکھنے ،دیکھنے اور سننے کی آرزو ہے ۔’کرن کرن تبسم‘ کی تحریروں پر بات نہیں کروں گا۔یہ تو ایک حصہ ہے تو جناب دوسرے حصہ کے منتظر ہیں۔آپ کی صحت ، عمر ، ایمان اور صلاحیتوں میں برکت کے لیے دعا گو ہوں۔

abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 56914 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More