جہاں کہیں مفت میں یا خیر خیرات میں کچھ
ہاتھ آتا ہو گریب تو گریب بڑی تجوری اور بڑی توند والے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔
ان کا موقف ہوتا ہے کہ ہمارے خرچے زیادہ ہیں اس لیے ہمیں زیادہ چاہیے جب کہ
گریب کا تو روکھی سوکھی میں بھی گزرا ہو سکتا ہے۔ لٹھ بردار تو خیر چھین
لیتے ہیں یا ان کے گماشتے انہیں کسی قسم کا کشٹ اٹھانے نہیں دیتے۔ یہ طور
ہمیشہ سے چلا آتا ہے۔ اس طور کے بدلاؤ کے لیے بہت سے نبی اور صالحین آتے
رہے ہیں ان کا بھرپور سواگت ہونے کی بجائے انہیں دکھ درد کی سولی پر لٹکایا
جاتا رہا ہے۔
میں گلی میں سے گزر رہا تھا کہ محلے کی دو بیبیاں اپنے گھر کے تھڑے پر
بیھٹی مذاکرہ کر رہی تھیں۔ مذاکرے کا عنوان صحت اور معالجہ تھا۔ ان میں سے
ایک نے بتایا کہ دینا ہیلتھ سنٹر میں مفت داخلہ اور مفت چیک اپ ہوتا ہے۔
مجھے کوئی بیماری تو نہیں‘ سوچا مفت میں داخلہ اور چیک اپ ہوتا ہے کیوں نہ
چیک اپ ہی کروا لیا جائے۔ اگلے دن ضروری کام پڑ گیا اس لیے نہ جا سکا لیکن
اس سے اگلے دن دینا ہیلتھ سنٹر میں جانا نہ بھولا۔
ان بیبوں کے مطابق داخلہ مفت میں ہوا‘ کوئی فیس نہ لی گئی۔ ڈیوٹی ڈاکٹر
صاحب کے کمرے سے باہر بنچوں پر کافی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اب بیٹھنے کے لیے
گنجائش نہ تھی۔ ناچار جا کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے سوچا اگر کوئی سچ مچ کا
مریض آ گیا اس کا کیا بنے گا۔ وہ تو کھڑا نہ ہو سکے گا۔
وہاں ایک بینچ پر دو تین نرسیں بیٹھی ہوئی قہقہوں میں ملبوس باتیں کر رہی
تھیں۔ میل سٹاف کے ساتھ بھونڈی چھونڈی کا عمل بھی جاری تھا۔ خیر سے میرے
سمیت کئی مریض بھی انجوئے کر رہے تھے۔ اس انٹرٹینمنٹ کے باعث انتظار کی
قیامت کا احساس تک نہیں ہو رہا تھا۔ اور باتوں کو چھوڑیے پارک میں جائیں یا
بازار میں‘ عورتیں کم بوریاں اور پیپے ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ نرسیں
سمارٹ اور پرلظف تھیں۔ سوچا سب چیزوں کو گولی ماریے‘ یہاں روزانہ آ کر ایک
دو گھنٹے گزارے جائیں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ اٹھ گئیں ان کی جگہ دو اور
سمارٹ نرسوں نے لے لی۔ وہ نرسیں کم زمین پر اترے ہوئے دو چاند ضرور تھیں۔
وقت خوشیوں کا دشمن رہا ہے کہ میری باری آ گئی اور میں بادل نخواستہ ڈاکٹر
صاحب کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ لطف اندوزی ہار گئی اور مفت چیک اپ کی ہوس
جیت گئی۔ میں ڈاکٹر صاحب کے حضور حاضر ہو گیا اور ان کے سامنے پڑے سٹیل کے
اسٹول پر بیٹھ گیا۔
انہوں نے مجھ سے پوچھا: ہاں جی آپ کو کیا تکلیف ہے۔ عجیب ڈاکٹر تھا۔ اٹھتے
ہی تکلیف سنانے بیٹھ گیا۔ میں نے بھی اسی انداز اور لہجے میں کہا: مجھے کیا
پتا ڈاکٹر آپ ہیں آپ کو معلوم کرنا ہے۔
میرا جواب سن کر انہوں نے بڑی کرخت گھوری ڈالی۔ شاید آج تک کسی نے اس لہجے
میں ان سے بات نہ کی ہو گی۔ پھر وہ کاغذ پر کچھ لکھنے لگے اور کافی کچھ لکھ
کر پرچی میرے حوالے کر دی۔
میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب کوئی دوا لکھی ہے اور وہ سنٹر سے مفت ملے گی نا۔
کہنے لگے پہلے جا کر اس پر لکھے ہوئے ٹسٹ کرواؤ پھر دوا لکھوں گا۔
میں نے دوبارہ سے پوچھا: یہ ٹسٹ سنٹر میں ہی ہوں گے نا۔
انہوں نے اکتائے اور کورے انداز میں جواب دیا: دو باہر سے ہوں گے اور ایک
ادھر سے۔ اب تم جاؤ اور کسی کو بھی باری لینے دو۔
میں نے سوچا باہر تو خرچا ہو گا سنٹر والا کروا لیتا ہوں‘ آیا ہوں کچھ تو
مفت میں ہاتھ لگے۔ رہ گئی مفت میں لطف اندوزی تو وہ میں نے اکیلے حاصل نہ
کی تھی اور لوگ بھی تو اس کار بد میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ جب میں سنٹر کے
ٹسٹ والے کمرے میں گیا تو پتا چلا اس کی فیس ادا کرنا ہو گی۔ بڑا تاؤ آیا۔
خصوصا محلے کی وہ دونوں بیبیاں تو مجھے زہر لگنے لگیں بات کو کچھ کا کچھ
بنا دیتی ہیں۔ کیا کرتا بڑی مایوسی ہوئی اور میں سنٹر سے بڑ بڑ کرتا ہوا
نکل آیا۔
|