زندگی لیتے رہنے کا نام نہیں لوٹانے کا نام بھی ہے۔ جو
فرد اپنے اردگرد کے ماحول اور معاشرے سے فائدہ اٹھا کر مسلسل اپنے دامن کو
بھرتا رہتا ہے اور بدلے میں کچھ دیتا نہیں ہے وہ ایسے ہی جیسے نقب زنی کا
ارتکاب کر رہا ہو۔ اسلام نے انسانی رویہ میں تبدیلی لانے کیلئے قرآن حکیم
کے اندر بار بار لوٹانے پر زوردیا ہے۔مساکین‘یتیم‘بیوائیں بے سہارا
لوگ‘ہمسائے حتیٰ کہ مسافر تک کے حقوق کا احاطہ کیا گیا ہے۔ رویہ کی یہی وہ
تبدیلی ہے جو ایک مسلمان معاشرے کو مثالی بناتی ہے۔ زکوٰۃ‘خیرات اور صدقات
کے حوالے سے اسلام نے مخیرافراد کو اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ایک جوائنٹ اکاؤنٹ
کھولنے کی ترغیب دی ہے۔ معاشرے کے گرے ہوئے لوگوں کی مالی امداد کو قرآن
ایک منافع بخش کاروبار قرار دیتا ہے۔آپ ایک روپیہ راہ خدا میں خرچ کریں اور
وہ خرچ کیا گیا روپیہ گندم کی بالیوں کی طرح ایک سے دو اور دو سے چار ہوتا
بڑھتا اورپھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔خیرات کرنے سے صرف آخرت میں کئی گنا زیادہ
’’منافع‘‘ ہی نہ ہوگا بلکہ ہم نے عملی زندگی میں بھی دیکھا کہ مخیر اور سخی
لوگوں کے کاروبار پھلتے پھولتے رہتے ہیں۔ دراصل جب ہم اپنے عزیز
واقارب‘ہمسایوں اور محلے تک کے نادار لوگوں کو مالی طور پر مستحکم کرتے ہیں
تو پوری بستی میں ایک سکون ‘اعتماد اور بھائی چارے کی فضاء پھیل جاتی ہے
اور یہی فضاء تجارت اور کاروبار کے فروغ کا سبب بنتی ہے۔ جس معاشرے میں
بھوکوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے وہاں امیروں کی تعداد میں کمی ہونا شروع
ہوجاتی ہے۔
دنیا میں کسی کنجوس ملک‘ معاشرے یا فرد نے کبھی ترقی نہیں کی۔ وسائل کو نقب
لگانے والے اور بدلے میں مٹھی بند رکھنے والے لوگ دنیاوی زندگی میں بھی بے
ثمر رہتے ہیں اور اخروی زندگی میں ان کے لئے خدائے عزوجل نے کوئی انعام
نہیں رکھا۔
اس تمہید کے بعد میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستانی معاشرے میں دولت کی
کمی ہے نہ ہی بھوک کی کمی۔ امارت اور غْربت کی اس خلیج کا احساس عیدین جیسے
مذہبی تہواروں پر زیادہ سنگین ہوتا ہے۔ کیا سبب ہے کہ بظاہر اس ملک کے
مخیرحضرات خیرات بھی کرتے ہیں ‘صدقات بھی دیتے ہیں لیکن غریبوں کی تعداد
میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے ؟تفصیل میں جائے بغیر عرض ہے کہ ہمارے
معاشرے میں نمائش نے غیرضروری اہمیت اختیار کر لی ہے ہم معمولی خیرات دینے
کے لئے بھی بڑی بڑی تصویریں بنوانے ‘ اجتماعات منعقد کرنے اور ضرورتمندوں
کو ممنون احسان ٹھہرانے میں مشغول رہتے ہیں۔ اس نمائشی عمل نے ہماری سخاوت
میں برکت رہنے نہیں دی۔ اس عید کے موقعہ پر عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ
اپنی پسند اورناپسند کو ایک طرف رکھ کر اپنی معلومات کو از سر نو تازہ
کیجئے۔ پھر ایک فہرست مرتب کرکے دیکھیئے کون زیادہ مستحق ہے اور کس کی
ضرورتیں کم ہیں۔ اور جب ان بنیادی امور کا تعین ہوجائے تو پھر بڑی خاموشی
کے ساتھ کسی قابل بھروسہ فرد کا انتخاب کرکے اس کے ہاتھ رقم‘ جنس یا کپڑے
یا خوراک ضرورتمندوں تک پہنچا دیجئے اور قابل بھروسہ شخص ضرورتمند کو یہ نہ
بتائے کہ یہ فلاں صاحب نے ’’زکوٰۃ‘فطرانہ یا خیرات کے پیسے بھجوائے ہیں‘‘
بلکہ ’’عیدی‘‘کہہ دے‘شائد اس سے ضرورتمند کی عزتِ نفس بچ سکے۔
اسی طرح صاحبانِ حیثیت کو چاہیے کہ وہ اپنے محلے کی سطح پر کمیٹیاں بنائیں
اور انہیں ’’کمیٹی برائے باہمی بہبود‘‘ کا نام دیں۔ ایسی کمیٹی ہر مسجد کی
سطح پر قائم کی جاسکتی ہے۔ اس کمیٹی میں ریٹائرڈ افسران‘اساتذہ یا کاروباری
حضرات کو رکھا جاسکتا ہے ۔ ہر عید پر یہ کمیٹی رقم ‘کپڑے‘کھانے اکٹھے کرے
اور محلے کے رضا کاروں کے ذریعے پہلے سے تعین شدہ ضرورتوں کو پورا کرے۔اس
طرح لینے اور دینے والے ہاتھ ایک دوسرے سے بے خبر رہیں گے اور معاشرے میں
بہتری کی نئی راہیں کھلیں گی۔
ہمیں اپنے محبوب ترین پیغمبر آخر الزمانؐ کے اسوہ حسنہ کو عید کے روز ایک
بار ضرور پڑھنا چاہیے اور اپنے گھر والوں کو بھی پڑھانا چاہیے۔ آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عید کے روز اگر آپ کے پاس دینے کے لئے کچھ بھی
نہیں تو کم از کم اپنا شفقت بھرا ہاتھ ہی کسی یتیم یا بے سہارا بچے کے سرپر
رکھیے‘ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے اتنی نیکیاں آپ کے حق میں لکھ دی
جائیں گی۔
میرا یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان میں صاحب ثروت لوگوں کی کوئی کمی نہیں۔ اگر ہم
دل بڑا کرکے دبئی‘انگلینڈ اور سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں رکھی گئی بھاری
رقوم کی نسبت سے خیرات اور صدقات کا تعین کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہر
ضرورت مند کومستقل بنیادوں پر نہ صرف معقول مالی معاونت ملے گی بلکہ ایسے
ادارے بھی چلتے رہیں گے جن کی وساطت سے بیکار اور بے روزگار لوگوں کو خود
اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا حوصلہ ملے گا۔ میں دولت بانٹنے کا نہیں غربت
بانٹنے کی طرف توجہ دلا رہا ہوں۔ اگر ہم پرسکون رہنا چاہتے ہیں اور گداگری
کی دہشتگردی سے بچنا چاہتے ہیں اور اپنی تجارت اور کاروبار میں اضافہ چاہتے
ہیں تو پھر سمندر سے قطرے مت بانٹیے‘خیرات کے پیمانوں کو معقول بنایئے تاکہ
عید سب کیلئے خوشیوں کا ذریعہ بن سکے!۔ |