اس نے والٹ کھول کر دیکھا اور ایک ٹھنڈی
سانس بھری۔
آج عید کا دن تھا ۔۔خوشی کا دن،
اسے کچھ فکر سی ہو رہی تھی۔ یہ سال کچھ اچھا نہیں گیا تھا۔ آمدنی کم اور
اخراجات زیادہ رہے تھے۔
عید کی نماز پڑھنے کے بعد وہ ہمیشہ کی طرح اپنے تینوں نواسوں اور نواسی کو
عیدی دینے کے لیے بیٹی کے گھر گیا۔پچھلے سال اس نے بچوں کو اچھی خاصی رقم
بطورعیدی دی تھی ۔اس بار وہ حالات نہ تھے۔بچے کمپیوٹر ائز دور کی پیداوار
ہیں۔ کم عیدی ملنے پر کہیں۔۔!
منہ پر کچھ کہہ نہ دیں۔۔
احتجاج نہ کریں۔۔
موڈ خراب نہ کر لیں۔۔
جھجکتے ہوئے اس نےوالٹ کھولا اور پچھلے سال دی گئی عیدی سے آدھی رقم باری
باری بچوں کے ہاتھوں پہ رکھ دی۔اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ عیدی پا کر بچے
نانا سے لپٹ گئے اور محبت بھری نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے بار بار شکریہ
ادا کرنے لگے۔
اسکی آنکھیں خوشی سے بھیگ گئیں اور اپنی بیٹی کی تربیت پر فخر محسوس ہونے
لگا جس نے بچوں کو پیسے کے کم یا زیادہ ہونے کے احساس کی بجائے انہیں پیسے
کی قدرو قیمت سمجھائی تھی۔ |