آیت ولوتقول علینا اور مرزا غلام احمد کادیانی کا دعویٰ نبوت

قرآن مقدس میں الله رب العزت فرماتاہے کہ.
(( ولو تقول علینا بعض الاقاویل o لاخذنامنہ بالیمین o ثم لقطعنامن الوتین o)).
ترجمہ از تفسیر صغیر :اور اگر یہ شخص ہماری طرف جھوٹا الہام منسوب کر دیتا خواہ ایک ہی ہوتا تو ہم یقیناً اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی رگ گردن کاٹ دیتے ( سورة الحاقہ :44 تا 46 ) .
قطع نظر اس بات کے کہ میاں بشیرالدین محمود ابن مرزا غلام احمد کادیانی کی طرف سے کیا گیا ان آیات کا ترجمہ درست ہے یا غلط ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آنجہانی مرزا غلام احمد کادیانی ان آیات کریمہ سے کیا استدلال کرتا ہے چنانچہ مولوی غلام احمد کادیانی رقمطراز ہے کہ
" صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت لو تقول علینا کو بطور لغو نہیں لکھا جس سے کوئی حجت قائم نہیں ہو سکتی اور خدا تعالیٰ ہر ایک لغو کام سے پاک ہے پس جس حالت میں اس حکیم نے اس آیت کو اور ایسا ہی اس دوسری آیت کو جس کے یہ الفاظ ہیں اذاً لاذقناک ضعف الحیوةوضعف الممات محل استدلال پر بیان کیا ہے تو اس سے ماننا پڑتا ہے کہ اگر کوئی شخص بطور افتراء کے نبوت اور مامور من الله ہونے کا دعویٰ کرے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ نبوت کے مانند ہرگز زندگی نہیں پائے گا ورنہ یہ استدلال کسی طرح صحیح نہیں ٹھہرے گا اور کوئی زریعہ اس کے سمجھنے کا قائم نہیں ہو گا کیونکہ اگر خدا پر افتراء کر کے اور جھوٹا دعویٰ مامور من الله کا کر کے تئیس برس تک زندگی پا لے اور ہلاک نہ ہو تو بلاشبہ ایک منکر کے لیے حق پیدا ہو جائے گا کہ وہ یہ اعتراض پیش کرے کہ جبکہ اس دروغگو نے جس کا دروغگو ہونا تسلیم کر کے تئیس برس تک یا اس سے زیادہ عرصہ تک زندگی پا لی اور ہلاک نہ ہوا تو ہم کیونکر سمجھیں کہ ایسے کاذب کی مانند تمہارا نبی نہیں تھا ایک کاذب کو تئیس برس تک مہلت مل جانا صاف اس بات پر دلیل ہے کہ ہر ایک کازب کو ایسی مہلت مل سکتی ہے تو پھر لوتقول علینا کاصدق لوگوں پر کیونکر ظاہر ہو گا اور اس بات پر یقین کرنے کے لیے کون سے دلائل پیدا ہوںگے کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افتراء کرتے تو ضرور تئیس برس کے اندر اندر ہلاک کیے جاتے لیکن اگر دوسرے لوگ افتراء کریں تو وہ تئیس برس زیادہ مدت تک بھی زندہ رہ سکتے ہیں اور خدا ان کو ہلاک نہیں کرتا "۔
( اربعین نمبر 4 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 430,431 )
مرزا غلام احمد کادیانی اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے " لکھتا ہے کہ میں باربارکہتا ہوں کہ صادقوں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ نہایت صحیح پیمانہ ہے اور ہرگز ممکن نہیں کہ کوئی شخص جھوٹا ہو کر اور خدا پر افتراء کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ نبوت کے موافق یعنی تئیس برس تک مہلت پا سکے ضرور ہلاک ہو گا "_
( اربعین نمبر 4ص 5 مندرجہ روحانی خزائن ج 17 ص 434 ).
مندرجہ بالا تحریروں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو چکی ہے کہ مولوی غلام احمد کادیانی آیت " ولوتقول علینا " سے یہ استدلال کرتا ہے کہ ہر مدعی نبوت دعویٰ کرنے کے بعد اگر تئیس سال یا اس سے زیادہ عرصہ زندہ رہا تو وہ اپنے اس دعویٰ میں سچا ہو گا اور اگر اسے تئیس برس سے پہلے موت آگئی تو وہ کذاب ہو گا
قطع نظر اس بات کے کہ مرزا غلام احمد کادیانی کا اس آیت سے یہ استدلال کرنا درست ہے یا کہ غلط ہم آنجہانی مولوی غلام احمد کادیانی کے استدلال کے مطابق ہی جائزہ لیتے ہیں کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کب کیا اور اس کے بعد وہ کتنا عرصہ زندہ رہا ؟
مرزا غلام احمد کادیانی نے 1308ہجری میں توضیح مرام کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا جس کے ٹائٹل پیج پر رسالے کا سن اشاعت 1891 ء دریہ رسالہ روحانی خزائنکی جلد آغاز میں موجود ہے اس میں مولوی غلام احمد کادیانی صاحب لکھتے ہیں کہ
جگہ اگر یہ اعتراض پیش کیا جائے کہ مسیح کا مثیل بھی نبی ہونا چاہئے تو اس کا اول جواب تو یہی ہے کہ آنیوالے مسیح کے لئے ہمارے سید و مولیٰ نے نبوت شرط نہیں ٹھہرائی _"
( توضیح مرام ص 11 مندرجہ روحانی خزائن ج 3 ص 59 )
1891ء میں ہی مرزا غلام احمد کادیانی نے ایک اشتہار شائع کیا جس میں وہ لکھتا ہےکہ
" میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ اہلسنت جماعت کا عقیدہ ہے ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن اور حدیث کی روسے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا و مولانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت و رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں میرا یقین ہے کہ وحی رسالت آدم صفی الله سے شروع ہوئی اور جناب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی "
( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 214مورخہ 2 اکتوبر 1891ءطبع جدید )
" میں نہ نبوت کا مدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائکہ اور لیلة القدر وغیرہ سے منکر __________ اور سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب و کافر جانتا ہوں "_
( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ232 مورخہ 2 اکتوبر 1891ء طبع جدید )
اسی طرح مرزا غلام احمد کادیانی کی ایک عربی تصنیف حمامۃالبشری ہے جو 1894ء میں شائع ہوئی جس کے ٹائٹل پیج پر سن اشاعت1311 ہجری درج ہے اس میں مولوی غلام احمد کادیانی رقمطراز ہے کہ .
(( ولایجیئ نبی بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم و ھو خاتم النبین وماکان لاحد ان ینسخ القرآن بعد تکمیلہ ))
ترجمہ :_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی رسول بھی نہیں آسکتا کیونکہ وہ خاتم ہیں اور قرآن کی تکمیل کے بعد اس کو کوئی منسوخ نہیں کر سکتا
( حمامةالبشری مترجم ص 61 )
(( الاتعلم ان الرب الرحیم المتفضل سمّٰی نبیّنا صلی الله علیہ وسلم خاتم الانبیاء بغیر استثناء وفسرہ نبیّنا فی قولہ لانبیّ بعدی ببیان واضح للطالبین ؟ ولوجوزناظہورنبیّ بعد نبیناصلی الله علیہ وسلم لجوزناانفتاح باب وحی النبوہ بعد تغلیقھاوھذا خلف کمالایخفی علی المسلمین و کیف یجئ نبیّ بعد رسولناصلی الله علیہ وسلم وقدانقطع الوحی بعد وفاتہ و ختم الله بہ النبیین ))
ترجمہ :_ کیا تو نہیں جانتا کہ اس محسن رب نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خاتم الانبیاء رکھاہے اورکسی کو مستثنیٰ نہیں کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طالبوں کے لئے بیان واضح سے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور اگر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا ظہور جائز رکھیں تو یہ لازم آتا ہے کہ وحی نبوت کے دروازہ کا انفتاح بھی بند ہونے کے بعدجائز خیال کریں اور یہ باطل ہے جیسا کہ مسلمانوں پر پوشیدہ نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی کیونکر آوے حالانکہ آپکی وفات کے بعد وحی نبوت منقطع ہو گئی ہے اور الله نے آپ کے ساتھ نبیوں کو ختم کر دیا ہے
(حمامۃ البشریٰ مترجم ص 81،82)
(( وماکان لی ان الدعی النبوة واخرج من الاسلام والحق بقوم الکافرین ))
ترجمہ :_ اور میرے لیے یہ جائز نہیں کہ میں دعویٰ نبوت کروں اور اسلام سے خارج ہو جاوں اور کافروں سے جاملوں _
( حمامةالبشریٰ مترجم صفحہ 291 شائع کردہ صدر نظارت اشاعت صدر جماعت احمدیہ پاکستان ربوہ )
محترم قارئین ! مولوی غلام احمد قادیانی نے 1896 ء میں انجام آتھم نامی کتاب لکھی اس میں وہ لکھتا ہے کہ
" صاحب انصاف طلب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طورپر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا اور غیر حقیقی طورپر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزم کفر نہیں مگر میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھوکہ لگ جانے کا احتمال ہے _"
( انجام آتھم صفحہ 27 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 27)
مرزا غلام احمد کادیانی نے بیس 1314 ہجری بمطابق 1897 ء کو ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھتا ہے کہ
" نبوت کا دعویٰ اس طرف بھی نہیں صرف ولایت اور مجددیت کا دعویٰ ہے_"
( مجموعہ اشتہارات جلد دوم ص 2 طبع جدید )
الغرض مرزا غلام احمد کادیانی 1897 ء تک نہ صرف مدعی نبوت کو کافر سمجھتا تھا بلکہ ایسے الفاظ بھی استعمال کرنے کو ناپسند کرتا تھا جس سے عام مسلمانوں کو دھوکے کا احتمال ہو سکتا
مولوی غلام احمد کادیانی کی طرف سے دعویٰ نبوت اس وقت تحریری شکل میں سامنے آیا جب اس نے 1900ء میں اربعین رسالے میں ولوتقول علینا والی آیات سے استدلال کرتے ہوئے لکھا کہ
" اور اگر کہو کہ صاحب شریعت افتراء کر کے ہلاک ہوتا ہے نہ ہر ایک مفتری تو اول تو یہ دعویٰ بے دلیل ہے خدا نے افتراء کے ساتھ شریعت کی کوئی قید نہیں لگائی ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعے سےچند امر اور نہی بیان کیے اور اپنی امت کے لیے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہو گیا پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی (اربعین نمبر 4 صفحہ 6 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 435 )
اسی صفحے کے حاشیہ میں مولوی غلام احمد کادیانی لکھتا ہے کہ
" چونکہ میری تعلیم میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید ہے اس لیے خدا تعالیٰ نے میری تعلیم کواور اس وحی کو جو میرے پر ہوتی ہے فلک یعنی کشتی کے نام سے موسوم کیا ہے_"
اسی طرح 1901 ء میں مولوی غلام احمد کادیانی نے ایک رسالہ بعنوان ایک غلطی اور اس کا ازالہ تحریر کیا اس میں لکھا کہ
" ہماری جماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعویٰ اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنی معلومات کی تکمیل کر سکے وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے اس لئے باوجود اہل حق ہونے کہ ان کو ندامت اٹھانی پڑتی ہے چنانچہ چند روز ہوئے کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس کی تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ میں دیا گیا حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے حق یہ ہے کہ خداتعالی کی پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے الفاظ رسول ، مرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہو سکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں بلکہ اس وقت تو پہلے زمانہ کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں "
( ایک غلطی اور اس کا ازالہ صفحہ 3 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 206 )
مرزا غلام احمد کادیانی اسی کتاب میں لوگوں کو دھوکہ دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ
" اور جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طورپر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے علم باطنی فیوض حاصل کرکے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اس طور کا نبی کہلانے سے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کہہ کر پکارا ہے سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا "
( ایک غلطی اور اس کا ازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 210، 211 )
محترم قارئین ! دیکھیے کہ کس طرح مرزا غلام احمد کادیانی دجل و فریب سے کام لے رہا ہے جبکہ اربعین کی تحریر ہم جو اوپر پیش کر آئے ہیں اس میں واضح طورپر شرعی نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے 1897تک مولوی غلام احمد کادیانی کا کوئی پیروکار کسی بھی رنگ میں دعویٰ نبوت نہیں دکھا سکتا اب خود فیصلہ کریں کہ مرزا غلام احمد کادیانی 1908 میں واصل جہنم ہوا اس طرح تحریری طورپر دعویٰ نبوت کے بعد اس کی زندگی محض آٹھ سال بنتی ہے اگر یہ بھی کہہ لیں کہ 1897کے بعد اس نے زبانی دعویٰ کیا ہو تو تب بھی اس کی زندگی گیارہ سال بنتی ہے لہٰذا اپنے ہی بنائے ہوئے اصول کے مطابق مرزا غلام احمد کادیانی جھوٹا ، کذاب و دجال ٹھہرا ۔
 
عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif
About the Author: عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif Read More Articles by عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif: 111 Articles with 215524 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.