ایک جملہ جو سن کر ایک ہیجانی سی کیفیت پیداہوتی ہے ۔وہ
یہ کہ قوم کا زوال شروع ہوگیا ۔قوم زوال پزیر ہورہی ہے ۔قوم تباہی کے دہانے
پر ہے۔فلاں قوم تباہ ہوگئی ۔فلاں قوم کو عروج ملا۔وہ قوم اتنی ترقی کررہی
ہے ۔وغیرہ ۔تاریخ انسانیت کا یہ عنوان سینکڑوں واقعات اپنے ضمن میں لیے
ہوئے ہے ۔کافی دنوں اس عنوان پر سوچ رہاتھا۔پھر ہمّت کی اور اپنے قارئین کے
لیے ایک مضمون ترتیب دینے کا ذہن بنالیا۔
قوموں کے عروج و زوال کے مناظر چشم فلک نے کئی مرتبہ دیکھے ۔پھر بعد میں
آنے والوں نے ان زوال و عروجکے محرکات پر اپنے تجزیات پیش کئے ۔فردفرد سے
افراد اور افراد سے معاشرہ اور یوں قومیں تشکیل پاتی ہیں۔آئیے اس بات پر
غورکرتے ہیں کہ قومیں زوال پزیر آخر ہوتی کیوں ہیں ۔
مطالعہ ،مشاہد اور حالات کے پیش ِ نظر قوموں کے زوال کے بہت سے محرکات ہیں
۔لیکن ان میں ایک محرک جو غالب دیکھائی دیتاہے وہ ہے قوموں کا اپنی اصل اور
حقیقی راہ سے بھٹک جانا۔اﷲ عزوجل کی عطاکردہ نعمتوں چاہے وہ کسی بھی صورت
میں ہوں ان کی ناشکری کرنے والی قومیں بھی تنزلی کا شکار ہوئیں ۔ قدرت کا
یہ قانون ہے کہ کسی قوم کو نعمت دے کر اس وقت تک اس نعمت کوامتحان میں
تبدیل نہیں کیا جاتا جب تک وہ قوم خود اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے اپنے آپ
کو اس نعمت کا نااہل ثابت نہیں کرتی۔ گزری ہوئی اور موجودہ قوموں کے عروج و
زوال کیلئے یہی اٹل قانون ہے کہ نعمت کا شکر اور حق ادا کرنے پر نعمت بڑھ
جاتی ہے اور ناشکری کرنے پرسزا دی جاتی ہے ۔
ایک بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ تنزلی فقط کفار ہی کے لیے نہیں بلکہ
نافرمان مسلمان بھی زوال و تنزلی کے مصداق ٹھہرے۔تاریخ گواہ ہے صدیوں
مسلمانوں پر عروج کا دور رہا۔دنیا کے شرق و غرب میں اس کی رفعت ومعراج کے
قصید ے پڑھے جارہے تھے ۔لیکن پھر آسمانِ دنیا نے وہ منظر بھی دیکھا کہ
مسلمانوں کی حالت قابل رحم ہوگئی ۔آج بھی دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائیں
تواسلامی ممالک میں کشت و خون کی نہریں بہ رہی ہیں۔
مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب کی معرفت رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ
جب تک مسلمان اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر اور ان کاحق ادا کرتے رہے۔
تب تک عُروج کی ان مَنازل پر فائز رہے کہ دنیا کی بڑی بڑی سپر پاورز ان کے
زیر نگیں رہیں اور کفار مسلمانوں کا نام سن کر لرزتے رہے اور جب سے
مسلمانوں نے نعمت کے شکر اور ا س کے حق کی ادائیگی سے منہ موڑا تب سے ان کی
طاقت اور کافروں پر تَسلُّط ختم ہوناشروع ہو گیا اور آج مسلمانوں کا دنیا
بھر میں حال یہ ہے کافر انہیں برے سے برے نام سے یاد کرتے ہیں اور دنیا میں
شاید ہی کوئی ایسا مسلم ملک ہو جو کافروں کا دست نگر نہ ہو۔
تمام قدرتی وسائل کے باوجود مسلمان دنیا میں ذلیل و خوار ہونے لگے۔مسلمانوں
کو کامیابی دی تو قدرت نے تھی۔ لیکن گنوائی خود مسلمانوں نے ہے، کیونکہ
قدرت جب کسی قوم کو سرفرازی کے لیے منتخب کر لیتی ہے۔ تو یہ حالت اسی وقت
تبدیل کرتی ہے، جب وہ قوم خود اپنے آپ کو پوری طرح پستی میں گرا دیتی ہے۔
کسی دانشور نے بہت قیمتی بات کہی ہے۔کوئی شخص کسی کا چراغ نہیں بجھاتا،
چراغ کے اندر تیل کی کمی چراغ کو بجھا دیتی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی
معاملہ پیش آیا۔ قدرت نے مسلمانوں کو دنیا میں عروج دیا، لیکن بہت سی
خامیوں کا شکار ہوکر مسلمان اس عروج کو برقرار نہ رکھ سکے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ جب قوموں کو عروج میسر آتا ہے تو وہ comfort zoneمیں
چلی جاتی ہے ۔جو اسے میسر ہوتاہے اسی پر اکتفا کرلیتی ہے اور آئندہ کی پیش
بند ی نہیں کرتی ۔اس طرح وہ معاش کے میدان میں قدرے امتحان کا شکار ہوتی
چلی جاتی ہے ۔کیونکہ
جب عروج مل جائے تو اسے برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتاہے۔ دور عروج میں قوم
کے افراد سہولت پسند، کاہل اور سست ہوجاتے ہیں اور بلند نظر افراد کی کمی
واقع ہوجاتی ہے۔ دراصل عروج کا لازمی نتیجہ رفاہیت اور معاشی استحکام سیاسی
غلبے کو لازم ہے۔ معاشی فراوانی سے قوموں کی توانائیاں اور صلاحیتیں عیش و
عشرت کے ہاتھوں زنگ آلود ہونے لگتی ہیں اور ایک عظیم سلطنت کی بقا و
استحکام کے لیے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ناپید ہونے لگتی ہیں۔
مختلف قسم کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر قوم اپنا حاصل کیا ہوا مقام کھو
بیٹھتی ہے اور اپنے دفاع کے لیے دوسری قوموں کی توانائیاں مستعار لیتی ہے۔
ممکن ہے ۔اس عمل سے کسی قوم کی ڈوبتی نبض کو وقتی طور پر تو سہارا مل جائے،
لیکن یہ قومی زوال کی سب بڑی علامت ہوتی ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ قوم دور
استحکام میں جی رہی ہے، مگر حقیقت میں عروج کی چڑھائی کے بعد قوم کی گاڑی
آہستہ آہستہ غیر محسوس طور پر زوال کی ڈھلان پر آجاتی ہے اور انحطاط کا دور
بہت خاموشی سے دور زوال میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
ملت اسلامیہ کلام الہی کا حامل بنایاگیاتھا تاکہ اس کے بتائے گئے ضابطوں پر
عمل پیرا ہوکر عروج کی منازل طے کریں اور یہ کتاب جو فیصلہ وہ کامل بھی ہے
اور بنی نوع انسانی کے لیے باعث خیر وبرکت بھی ۔ لیکن آہ !افسوس صد
افسوس!!مسلمان قوم نے اس دستور حیات کو طاقوں میں سجاکر رکھ دیا۔رشد و
ہدایت کے اس منبع کو گویا سنبھال کر رکھ دیا۔پھر رفتہ رفتہ اسی کتاب مبین
کو حجت بناکر اسلام کے نام پر تفریق کی ایک فضا بنی کہ مسلمان ہی مسلمان کا
دشمن بن گیا۔باہم دست و گریبان ملّت اسلامیہ کا شیرازہ ہی بکھر کر
رہاگیا۔کسی زمانے میں عیسائیت کا طوطی بولتاتھا۔لیکن تفرقہ ،نفرت و عداوت
کی وجہ سے آٹھویں صدی عیسوی میں سلطان محمد فاتح نے بڑی آسانی کے ساتھ
قسطنطینیہ کو فتح کرلیا۔ اس زمانے میں دونوں عیسائی گروہوں کے پادری ایک
دوسرے پر اسی طرح کفر کے فتوے صادر کرنے میں مشغول تھے، جس طرح آج مسلمان
مشغول ہیں۔
محترم قارئین ۔حالات و واقعات کو دیکھ کریہ بات بھی سمجھ آتی ہے ۔دنیا
دارالاسبابہے۔ یہ کھیتی کی ماند ہے جو بو گئے وہی کاٹو گئے ۔کبھی گند م
کاشت کرنے پر چاول کی فصل نہیں لگی بلکہ گند ہیں ملتی ہے ۔یہاں بھی یہی
معماملہ ہے کہ آج دنیا میں کفار و ہنود ترقی در ترقی کرتے چلے جارہے ہیں اس
کی ایک اہم وجہ اور راز کہ انھوں نے اپنی سابقہ غلطیوں کی اصلاح کر کے وقت
کے تقاضوں پر عمل کیا، ان کو عروج مل گیا۔ انہوں نے سائنسی علوم میں مہارت
پید اکی، کیونکہ ان علوم پر مکمل گرفت اور مہارت ہی وقت کا تقاضا اور ضرورت
ہے۔ جبکہ مسلمانوں نے اِن علوم سے پہلو تہی کی۔ آج پوری مسلم دنیا میں
موجود یونیورسٹیوں کی تعداد اور ان کا معیار، مغرب کی یونیورسٹیوں کی تعداد
اور ان کے معیار کے سامنے کچھ خاص معلوم نہیں ہوتا ہے۔ پوری مسلم دنیا میں
عالمی معیار پر پورا اترنے والی شاید ہی کوئی یونیورسٹی ہو۔
محترم قارئین :میں کفار بد اطوار سے متاثر نہیں بلکہ انکے قبیح کاموں پر
انھیں ملامت کرنے والوں میں سے ہوں لیکن کائنات عالم میں بستے ہوئے انسان
ہونے کے ناطے ان کی اچھائیوں کو ملاحظہ کرتے ہوئے انھیں نظر انداز کروں اور
مسلمانوں کے زوال ،کمزوریاں بیان نہ کروں تو کہیں یہ خوش فہمی ہمیں لے ڈوبے
۔ہم اگر دنیا کے نقشہ ،دنیا کے حالات پر نظر دوڑائیں تو مسلمانوں کے زوال
کی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک وجہ جدید اور سائنسی علوم سے عدم توجہی
بھی ہے۔ عروج و زوال کا قانون واضح ہے کہ جو وقت کے تقاضوں پر عمل کرتا ہے،
وقت اس کے تقاضوں پر عمل کرتا ہے اور جو وقت کے تقاضوں کو نظر انداز کرتا
ہے، وقت بھی اسے نظر انداز کردیتا ہے۔ مانا کہ مسلمانوں کا ماضی بہت ہی
شاندار تھا، لیکن حال کیا ہے؟ اظہر امن الشمس۔ آج ہمیں درخشاں ماضی کے خمار
سے نکل کر اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم ایک شکست خوردہ اور زوال کا
شکار قوم ہیں اور پھر اپنے عروج کا سفر نئے سرے سے شروع کرنا ہوگا۔
میں تاریخ کا طالب علم ہونے کے ناطے جب کتب تاریخ کا مطالعہ کرتاہوں اور
ماضی بعید میں جاپان کے ساتھ کئے کے حشر کو پڑھتاہوں تو یقین نہیں آتا کہ
یہ وہی جاپان ہے جس کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی تھی اور جس پر بم گرِ اکراسے
کی نسلوں تک کو معذور کردیاگیاتھا پھرسے دنیا کے نقشے پر ترقی کرنے والے
ممالک کی فہرست میں شامل ہوجائے گا۔اک خواب ،افسانہ ،سپنا محسوس ہوتاہے
۔لیکن جاپان نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھامستقبل کے لیے منزل کا تعین
کیا اور زادراہ لیکر منزل کی جانب گامز ن ہوگیا اور آج وہ ایک طاقت کے طور
پر ہمارے سامنے ہیں ۔
ہمیں بھی دنیا میں ترقی کرنے والی قوموں سے سبق سیکھنا ہوگا،۔ماضی کے
کارنامے دل کو سکون تو دیتے ہیں لیکن حال کے لیے وہ ایک قصّے سے زیادہ کچھ
نہیں ۔ مسلمانوں کے لیے زوال کی گھاٹی سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ کتاب
الٰہی پر عمل پیرا ہوکر اپنے تمام اختلافات کو ختم کریں اور جدید علوم میں
مہارت حاصل کریں اوراپنی ان تمام خامیوں سے کنارہ کشی اختیار کریں، جن کی
وجہ سے مسلمانوں کا عروج زوال میں تبدیل ہوا ہے۔ یہی وقت کا تقاضاہے۔
فرد سے افراد اور افراد سے قومیں بنتی ہیں ۔ہمیں چاہیے کہ ہم من حیث القوم
اور امّۃ اجتماعی سوچ کو عام کریں اور جو خامیاں ہیں انھیں دور کرنے کی
کوشش کریں اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی مقدور بھر کوشش کریں کہ عقل
مند قوموں حالات و واقعات کے سانچے میں خود کو ڈھال لیتی ہیں ۔اﷲ عزوجل
امّت ِ مسلمہ پر اپنا فضل فرمائے ۔آمین
|