کے پی کے کے سنگم پر واقع ضلع بھکر راجن پور کے بعد پنجاب
کا پسماندہ ترین ضلع ہے، تخت لاہور سے 365 کلومیٹر کا فاصلہ یا پھر یہاں سے
منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں کی عدم دلچسپی کے باعث یہاں کے عوام آج بھی
جدید سہولیات سے محروم ہیں۔
پسماندگی کے باوجود یہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، زندگی کے ہر شعبہ میں بھکر کے
نوجوان ، بزرک ، خواتین ، بچے ، بچیاں اپنا لوہا منوارہے ہیں۔ بھکر صحافت
کے میدان میں بھی بہت زرخیز ہے ، یہاں سے کم و پیش ایک درجن اخبارات روزانہ
کی بنیاد پر شائع ہورہے ہیں۔ ایک شمارہ کی اشاعت پر سینکڑوں روپے خرچ ہوتے
ہیں، باوجود اس کے صحافی بھائی بڑی محنت سے اخراجات کی پرواہ کیے بغیر
اخبارات شائع کررہے ہیں۔ ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، مگر پھر
بھی الحمد ﷲ اس فیلڈ میں اکثریت دوست محنت کرنے والے پیشہ وارانہ صلاحیتوں
کے مالک ہیں، اچھے لکھاری اور کالم نگار بھی موجود ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں
ہوتی بھکرشہرسمیت ضلع کی چاروں تحصیلوں میں ماشا اﷲ صحافی بھائی دن رات ایک
کرکے عوامی مسائل کی نشاندہی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
ضلع کا سب سے پسماندہ علاقہ ’’ تھل ‘‘ کہلاتا ہے جہاں آج بھی علاقہ کے
وڈیروں، ملکوں،نوابوں، خانوں کا سکہ چلتا ہے ، یہاں آج بھی ’’ غلامانہ ‘‘
سوچ اور غلامانہ کردار موجود ہیں۔ یہ وہ تھل ہے جہاں پچھلے تیس سالوں سے
جھوٹے مقدمات کی گونج سنائی دیتی رہی صحافی کا قتل کیا گیا، تھانوں میں ،
رشوت چڑیل بن کر ناچتی رہی، ظالم ظلم کے شربت سے پیاس بجھاتے رہے، محرومیت
کی آندھیاں چلتی رہیں، غریبوں کے خیمے جلتے اڑتے رہے مگر کسی کو ترس نہ آیا
، ہر آنے والا یہاں کی عوام کا استحصال کرتا رہا۔
اگر ضلع بھکر کی محرومیت کے اعدادوشمار جمع کرنے ہوں اور محرومیت کے ابھرتے
سائے دیکھنے ہوں تو جون کی اس کڑک دھوپ میں تھل کے ابلتے ٹیلوں کی اوٹ میں
کام کرنے والے ان کسانوں، مزدوروں کی حالت زار دیکھ لیجئے جو ایک وقت کی
روٹی کے لیے گرمی سردی کی پرواہ کیے بغیر مقامی وڈیروں، ملکوں ، چٹ پوشوں
کے ڈیروں ، محلات اور ان کی زمینوں پر دن رات کام کرتے ہیں۔
یہاں کے غریب باسی جب تھانہ کچہری اور وڈیروں ، ملکوں کے ظلم سے تنگ آجاتے
ہیں تو ان کے پاس صرف ایک ’’ آپشن ‘‘ رہ جاتا ہے ، وہ اپنے تحفظ کے لیے ’’
صحافت ‘‘ کی چھتری کا چناؤ کرتے ہیں۔ تھل کے لق و دق صحرا میں قلم سے
آبیاری کرنے والے یہاں کے صحافی ، لکھاری شب و روز یہ فریضہ سرانجام دے رہے
ہیں۔ حق کا ساتھ دینے اور سچ لکھنے کی پاداش میں اکثر اوقات یہاں کے
صحافیوں پر جھوٹے مقدمات اور تشدد کرکے انہیں مرعوب کرنے کی جسارت کی جاتی
ہے مگر سلام ہے تھل کے صحافی بھائیوں پر جنہوں نے تمام تر مصائب کی پرواہ
کیے بغیر اپنے قلم کی نوک سے ہمیشہ حق اور سچ لکھا۔
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کاریگر
اسی طرح کا ایک واقعہ چند روز قبل بھی پیش آیا جب منکیرہ کے ایک سینئر
صحافی کی طرف سے منکیرہ کے رمضان بازار میں مبینہ کوتاہیوں کی نشاندہی کی
گئی ، اور یہ خبر قومی و مقامی اخبارات میں شائع ہوئی، جس پر تحصیل منکیرہ
کی انتظامیہ نے مارکیٹ کمیٹی کے ایک ’’ قیصر نامی ‘‘ انسپکٹر کو مہرہ بنا
کر صحافی کے خلاف کار سرکار میں مداخلت کا جھوٹا مقدمہ تھانہ منکیرہ میں
درج کروادیا، یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جس مارکیٹ کمیٹی کے انسپکٹر
کی طرف سے مقدمہ درج کروایا گیا اسی مارکیٹ کمیٹی کی مبینہ خوردبردکی سب سے
پہلی نشاندہی مذکورہ صحافی نے کی جس پر انٹی کرپشن اور نیب متحرک ہوچکے ہیں۔
ایک صحافی کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں کسی صورت مرعوب نہیں کیا جاسکتا،
اب جب اس مقدمہ کی تفتیش منکیرہ کے تفتیشی امداد خان کے پاس ہے تو دوسری
طرف قیصر نامی انسپکٹر تفتیش میں آکر کار سرکار کی مداخلت ثابت کرنے سے
کترا رہا ہے، یہی سچ ہے ؟؟ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ضلعی پولیس آفیسر جس
کے بارے میں انہیں کے محکمہ سے سن رکھا ہے کہ وہ بڑے ایماندار اور میرٹ
پسند ہیں وہ بھی اس جھوٹے مقدمہ کے اندراج پر خاموش ہیں ؟؟
مرحوم محمود ہاشمی کا ایک شعر یاد آرہا ہے کہ
میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرہ ءِ نسب
بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے
ضلع بھکر کی صحافتی تنظیموں ، بھکر پریس کلب، ڈسٹرکٹ پریس کلب بھکر، تحصیل
پریس کلب منکیرہ، سرائے مہاجر، دریااخان، جنڈانوالہ ، کلورکوٹ، بہل، نوتک،
کوٹلہ جام، حیدر آبااد تھل، جہان خان پریس کلب ، ورکنگ صحافیوں،کالم نگاروں
کی طرف سے اشفاق رانجھا کے خلاف درج جھوٹے مقدمے کی شدید الفاظ میں مذمت کی
گئی ہے۔ صحافیوں کی طرف سے جاری رد عمل میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ اپنی
کوتاہیوں کو چھپانے کے لیے صحافتی قلم کو نہیں روک سکتی۔ مارکیٹ کمیٹی کے
خلاف پہلے ہی انٹی کرپشن میں مضبوط کیس موجود ہے، ایسے ادارہ کی طرف سے
صحافی پر کار سرکار کا جھوٹا مقدمہ درج کروانا اسی ادارہ کے لیے شرم کی بات
ہے۔
قارئین بات صرف احتجاج یا پھر مذمت پر ختم نہیں ہوگی ، انسپکٹر بشمول تحصیل
انتظامیہ کی ہر کوتاہی کو اس وقت تک نوک قلم سے لکھتا جاتا رہے گا جب تک
میرے جسم کی سرخ سیاہی ختم نہیں ہوجاتی ۔ اگر ڈپٹی کمشنر صاحب اور ڈی پی او
صاحب کو دنیاوی اور سرکاری کاموں سے فرصت ملے تو تھل کے ریگستانوں میں بیٹھ
کر وہاں کے غریب عوام کی آواز بننے والے صحافیوں کو اپنی ہی انتظامیہ سے
تحفظ دلوانے میں معاون ثابت ہوں ، امید ہے مذکورہ آفیسران میری عرضداشت پر
ضرور غور کریں گے کیونکہ یہ معاملہ سیاسی نہیں صحافتی بھی ہے اور انتظامی
بھی۔ آخر میں سلام پیش کرتا ہوں صحافی بھائیوں کو جنہوں نے منکیرہ کے جرات
مند صحافی چوہدری اشفاق احمد رانجھا کے ہاں میں ہاں ملاکر ’’ ایک ‘‘ ہونے
کا عملی ثبوت پیش کیا ہے ۔ اشفاق رانجھا ’’ قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں
‘‘۔
قلم کی نوک پہ رکھوں گا اس جہاں کو میں
زمیں لپیٹ کے رکھ دوں کہ آسماں کو میں
عزیز جاں ہو جسے مجھ سے وہ گریز کرے
کہ آج آیا ہوا ہوں خود اپنی جاں کو میں
ہمیشہ لفظ کی حرمت کا پاس رکھا ہے
بڑا عزیز ہوں لفظوں کے خانداں کو میں
|