پاکستانی سیاست کا المیہ یہ کہ
یہاں پر اسٹیبلشمنٹ کے خفیہ ہا تھوں نے پاکستان کی سیا سی جما عتوں کے قائد
ین کو اپنے بو ٹوں تلے روندنے کا عزم کر رکھا ہے۔ اپنے اس مقصد کے حصول
کےلئے مختلف انداز اپنا ئے جاتے رہے ہیں۔تازہ ترین سیا سی اور عدالتی جنگ
میں پی پی پی کی حکومت کے خلاف عدلیہ کا مخا صما نہ رویہ اسی سوچ اور فکر
کا شا خسانہ ہے۔ ۷۷۹۱ کے جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے بعد پی پی پی کو
کبھی بھی عدلیہ میں ججز کی تقر ریاں کرنے کا موقع نہیں دیا گیا کیونکہ وہ
پی پی پی کو کبھی بھی عدالتی پہلو سے امن، سکون اور چین سے حکومت کرنے کی
اجازت نہیں دینا چا ہتے تھے لہذا اس محاذ پر پی پی پی نے بڑے زخم کھائے ہیں
جنکا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ا سٹیبلشمنٹ نے عدلیہ کے مقدس ادارے کو جس طرح
اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا وہ کسی سے پو شیدہ نہیں ہے۔ سیا سی لیڈرشپ
کو حیلوں بہانوں سے سزا وار ٹھہرایا، انکی جمہو ری اور آئینی حکومتوں کو
تخلیل کرنے میں بنیا دی کردار ادا ر بھی کیا ور اسکی قیادت کو بے رحم زندا
نوں کے حوا لے بھی کیا لیکن اسکے با وجود پاکستانی عوام کے دلوں سے پی پی
پی کی محبت کو کم نہ کیا جا سکا۔
ماضی کے تلخ تجربات کے پیشِ نظر پی پی پی نے فیصلہ کیا کہ کو ئی ایسا آئینی
طریقہ کار و ضع کیا جا ئے جس میں عدلیہ کی پارلیمنٹ پر اجارہ داری کو ختم
کیا جا سکے۔ ۸۱ ویں ترمیم در حقیقت عدلیہ کی اجارہ داری کو ختم کرنے اور
پارلیمنٹ کی بالا دستی قائم کرنے کی جرات مندانہ کوشش ہے کیونکہ اسمیں سارے
اختیا رات پارلیمنٹ کو تفویض کر دئے گئے ہیں۔انتظامیہ ، پارلیمنٹ ، بیوو
کریسی، صدر اور وزیرِ اعظم کسی نہ کسی کو جواب دہ ہو تے ہیں اور ہونا بھی
چا ئیے کیونکہ جوا بدہی کے عمل سے پرفار منس کو بہتر بنا نے میں مدد ملتی
ہے۔ لیکن عدلیہ وہ واحد ادارہ ہے جو جوابدہی کے اصول سے ماورا ہے اور یہی
وجہ ہے کہ عد لیہ کے فیصلوں نے پاکستانی سالمیت کو بہت زیا دہ نقصان بھی
پہنچا یا ہے اور انصاف و قانون کا خون بھی کیا ہے لہذا ضروری ہے کہ عدلیہ
کے لئے بھی ایسے اصول و ضوابط مدون کئے جا ئیں جس سے عدلیہ اپنی حدود سے
تجا وز نہ کر سکے۔۔
پاکستانی عوام کی را ئے یہ ہے کہ عدلیہ کے ایکٹو ازم سے پاکستان کے جمہو ری
نظام کو کوئی فا ئدہ نہیں پہنچ رہا ۔۰۱ ماہ کی عرق ریزی کے بعد ۸۱ ویں
آئینی ترمیم کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا جسے اسٹیبلشمنٹ کے حواریوں نے
عدالت میں چیلنج کر دیا اس آئینی پٹیشن کا فیصلہ سنا تے ہو ئے عدالت نے
پارلیمنٹ کو حکم دیا ہے کہ وہ مجوزہ آئینی کمیشن میں ججز کی تعداد کو دو سے
بڑھا کر چار کرے اور انکی نامز دگی کا اختیار چیف جسٹس کو تفویض کرے۔اسمیں
کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہو نا چا ئیے کہ پارلیمنٹ ایک خود مختار اور با
لا دست ادا رہ ہے اور اس ادارے کو کو ئی نہ تو حکم دے سکتا ہے اور نہ ہی
ڈکٹیشن دے سکتا ہے ۔ اسے تو اپنی رائے اور سوچ میں بالکل صاف اور آزاد ہو
نا ہو تا ہے اگر کسی کا دبا ﺅ ہو گا خوف ہو گا حکم ہو گا تو پھر ملک حقیقی
آئین سازی سے محروم رہ جا ئے گا۔ آزادیِ رائے کی یہی وہ روح تھی جس کے پیشِ
نظر علامہ اقبال نے کہا تھا کہ دورِ غلامی میں اجتہاد کو روک دینا چائیے
کیونکہ اجتہاد کی وہ فکر جو آزادانہ سوچ سے جنم لیتی ہے مفقود ہو جا ئےگی
لہذا وہ اجتہاد مکمل اورقابلِ عمل نہیں ہو گا، مردِ حر کی آنکھ ہے فقط بینا
کہہ کر اپنی دلیل کو مزید وا ضع کر دیا تھا۔۔
پارلیمنٹ کو ہر قسم کی آئینی ترامیم کرنے کا اختیار حا صل ہے اور اسکے اس
حق کو کوئی بھی سلب نہیں کر سکتا۔ اٹھارویں آئینی ترمیم پر وار کرنے کے لئے
میرے کچھ دوستوں نے بنیا دی آئینی ڈھا نچے اور اسکے خدو خال کا ایک نیا
فلسفہ تخلیق کیا ہے جسمیں با لکل کو ئی وزن اور جان نہیں ہے۔آئین میں ترمیم
کے لئے ایک طریقہ کار وضع کر دیا گیا ہے لہذا جب اس طریقے پر عمل درآمد کیا
جا تا ہے تو پھر ایسی ہر ترمیم کو تسلیم کرنا ہم پر فرض ہو جا تا ہے۔ اس
وقت سوال آئین میں ترمیم کا نہیں بلکہ اس با ت کا ہے کہ مجو زہ ترمیم کا فی
ا لحال فا ئدہ کس کو پہنچنے والا ہے اگر اس ترمیم سے پی پی پی کو کچھ سانس
لینے کی مہلت ملتی ہے تو وہ خاص حلقوں کو پسند نہیں آتی لہذا اس ترمیم پر
شور ڈال دیا جاتا ہے اور پھر اسے میڈیا میں اس طرح سے ا چھا لا جاتا ہے
جیسے آئینی ترمیم کی منظوری کسی جر مِ عظیم سے کم نہیں۔کیا پارلیمنٹ کے
ممبراں عقلِ سلیم سے عاری ہیں کہ وہ یہ بھی نہیں جا نتے کہ وہ ایک ایسی
متفقہ ترمیم کی منظوری دے رہے ہیں جو آئین و قا نوں سے متصادم ہے۔ہاں اگر
کو ئی جماعت اپو زیشن کو نظر انداز کر کے کسی آئینی ترمیم کو منظور کرتی ہے
تو اس میں بد نیتی یا ذاتی مفاد کا شائبہ ہو سکتا ہے لیکن یہا ں پر تو ملک
کی پوری پارلیمان نے متفقہ طور پر اٹھا رویں آئینی ترمیم کی منظوری دی ہے
لیکن اس ترمیم کو بھی ذاتی مفادات اور ایک خاص جما عت کی دشمنی کی خاطر
متنا زع بنا دیاگیا ہے۔
میرے وہ سارے فاضل دوست جنھوں نے یہ رٹ لگا ئی ہو ئی ہے کہ آئین کے بنیا دی
ڈھا نچے کی روح سے متصادم ہو نے کی صورت میںپا رلیمنٹ کسی آئینی ترمیم کو
منظور کرنے کا اختیار نہیں رکھتی وہ پارلیمنٹ کی تو ہین کے مرتکب ہو رہے
ہیں۔میری انکی خدمت میں اتنی گذا رش ہے کہ کیا آٹھویں ترمیم ۳۷۹۱ کے آئین
کی روح سے متصادم نہیں تھی اور پھر اس میں ۸۵ ٹو بی کی پیوند کاری آئین کے
بنیادی ڈحانچے سے صر یحاؑ انحراف نہیں تھا۔ بالکل تھا لیکن اس وقت تو جنرل
ضیا الحق کے حامی اسے سیفٹی والو کہتے ہو ئے نہیں تھکتے تھے۔ اسی ترمیم کی
بدولت دو دفعہ پی پی پی کی حکو مت کو بر خاست بھی کیا گیا تھا اس وقت یہ
ترمیم بھی جا ئز تھی اور اسکے تحت پی پی پی کی حکو متوں کا خا تمہ بھی کارِ
ثواب تھا اس وقت تو جنرل ضیا الحق کے حواری بڑھ بڑھ کر جنرل صاحب کی بصیرت
اور آئینی ترمیم پر دادو تحسین کے ڈ ھنڈو رے برسا رہے تھے اس وقت نہ تو
بنیا دی آئینی ڈھانچے کا ذکر تھا،نہ ہی اسکے طریقہ کار پر اعتراض تھا اور
نہ ہی اسکے خدو خال کا مسئلہ درپیش تھا ۔ آٹھویں ترمیم سے سارے اختیا رات
جنرل ضیا لحق کے ہا تھوں میں مرتکز ہو گئے تھے اور آج کے یہ آئینی چمپین
بہت خوش تھے کہ اس آئینی ترمیم سے پی پی پی کو دبا نے، ملیا میٹ کرنے اور
اسے تختہ ِ مشق بنانے کا سنہرا موقع ہاتھ آگیا تھا ۔ عدالتیں خاموش تھیں
آئینی ماہرین کے ہونٹ سلے ہو ئے تھے ڈکٹیٹر اپنی وردی کے زور پر آئین لکھ
رہا تھا اور میرے یہ سارے فاضل دوست اسکے ہمنوا تھے اسکے دست و بازو تھے
اور اسے قوت عطا کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنے چہروں پر نقاب چڑھا رکھے ہیں
اور اپنے مفادات کی خا طر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش میں جٹے ہو ئے ہیں
لیکن پاکستانی عوام انکے ماضی اور حال سے بخو بی آگا ہ ہیں، انکے دوہرے
معیار کو خوب جانتے ہیں اورجمہو ریت سے انکی محبت ان سے پوشیدہ نہیں ہے ۔
۲۰۰۲ کے انتخابت میں ایک دفعہ پھر وہی کہا نی دہرا ئی گئی اور ستر ویں
آئینی ترمیم کی پارلیمنٹ نے منطوری دی جو کہ متفقہ نہیں تھی اور جو ڈنڈے کے
زور پر حا صل کی گئی تھی لیکن وہ آئینی ترمیم بھی ۳۷۹۱ کے آئین سے صریحاؑ
بغاوت تھی لیکن اسپر بھی عدلتیں اور آئینی ماہرین خا موش تھے انکی بولتی
بند تھی اور لبوں پر چپ کی مہر لگی ہو ئی تھی کیونکہ جنرل صاحب کی وردی کی
طا قت خوف زدہ کئے ہو ئے تھی مزے کی بات یہ ہے کہ اس آئینی ترمیم کی منظوری
مذہبی جما عتوں اور مسلم لیگ کی مرہونِ منت تھی اس وقت جنرل پرویز مشرف
فوجی وردی میں تھے لہذا کسی کو بنیا دی ڈحانچے کا اچھو تا خیال نہ سو جھا
سب نے خا موشی اختیار کرلی تھی کیونکہ خا مو شی میں ہی عافیت تھی۔ لیکن آج
جب ۳۷۹۱ کے آئین کو اس کی اصلی شکل میں بحال کیا گیا ہے اور آمریت کی ساری
نشا نیوں کو مٹا دیا گیا ہے تو اس پر پی پی پی کو خراجِ تحسین پیش کیا جا
نا چا ئیے تھا لیکن چو نکہ من میں چور ہے اور نیتوں میں فتور ہے لہذا ۳۷۹۱
کے آئین کی جانب مراجعت کے اس جرات مندانہ قدم کو بھی متنا ز ع بنا دیا گیا
ہے حا لا نکہ جو واقعی متنا زع تھا اسے آئینی کہہ کر گلے سے لگا لیا گیا
تھا۔۔
عدلیہ اس وقت منہ زور گھوڑے کی مانند ہے جسے قابو کرنا نتہا ئی مشکل کام
ہے۔ میاں برادران اور اپو زیشن کے بہت سے طبقے عدلیہ کے منہ زور گھو ڑے کو
مزید منہ زور بنا نے میں اپنا سارا زور لگا رہے ہیں۔ وہ عدلیہ کو پی پی پی
کی حکو مت پر چڑھ دوڑنے اوراسے ختم کر نے کی ترغیبات دے رہے ہیں وہ پی پی
پی کی حکو مت کو عدلیہ کے بحران میں الجھا کر اسکی کار کردگی کو متا ثر
کرنا چا ہتے ہیں انکی خواہش ہے کہ پی پی پی عدا لتی بحران میں اتنی الجھ جا
ئے کہ یہ عوامی فلا ح و بہبود کے پروگرا موں کو عملی جامہ پہنانے اور اپنے
مقاصد کے حصول میں کامیا بی سے سے قا صر رہ جا ئے۔ پی پی پی کو الجھا دیا
گیا ہے۔ میڈیا نے جسطرح عدلیہ کے ادارے کی بالا دستی کے غبا رے میں ہوا
بھری اور پی پی پی کے خلاف کہا نیوں کی تشہیر کی اس نے بھی عدلیہ کو منہ
زور کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا لیکن یہ کسی کو نہیں بھو لنا چا ئیے کہ
پارلیمنٹ کے مدِ مقا بل کھڑا ہو نا کسی کے بس میں نہیں ہو تا کیو نکہ
پارلیمنٹ عوامی طاقت کی امین ہو تی ہے اور عوامی را ئے کی طا قت کا مقابلہ
دنیا کی کو ئی طاقت نہییں کر سکتی۔ پی پی پی اس وقت عوامی طاقت کی علا مت
ہے لہذا پی پی پی کو اس طاقت کے تقدس کی خاطر پارلیمنٹ کی با لا دستی کو
یقینی بنا نا ہو گا با لکل اسی طرح جسطرح شہید ذولفقار علی بھٹو نے بنا یا
تھا۔ اس نے اپنی زندگی کا خراج دے دیا تھا لیکن پارلیمنٹ کی با لا دستی اور
آئین کے تقدس پر سمجھو تہ کرنے سے انکار کر دیا تھا اور یہی اس کی جیت تھی
جس کی وجہ سے آج وہ ہر پاکستانی کے دل کی دھڑکن بنا ہوا ہے۔ |