لازوال قسط نمبر 9

فائیو سٹار ہوٹل میں وہ دونوں بیٹھے لنچ کر رہے تھے۔ا ن کی ٹیبل کے ایک فر لانگ کے فاصلے پر آبشار سے گرتا پانی اپنا ہی ساز بجا رہا تھا۔ہلکی تیز چلتی ہوا سے پانی کی چند قطرے ان تک پہنچ رہے تھے۔ سفید کور سے ڈھکی ٹیبل اور پھر اس کے درمیان رکھا سرخ و سفید گلابوں کا بکی اس ٹیبل کی شان میں اضافہ کر رہا تھا۔آسمان پر چھائے ہلکے سرمئی بادل دھوپ کو کوسوں دور لے گئے تھے۔ایسے ماحول میں ان دونوں نے ساتھ لنچ کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔
’’ ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘انمول پچھلے دس منٹ سے خاموش بیٹھا صرف عندلیب کو دیکھتا جا رہا تھا۔ اپنا دونوں کہنیوں کو ٹیبل پر ٹکائے ، ٹھوڑی کو ہاتھوں کی ہتھیلی پر جمائے اس کی نظریں بس عندلیب کے چہرے پر تھیں۔آنکھوں میں انتہا کی مستیاں تھیں ۔ چہرے پر ہلکی سی تبسم اور فضا کو مہکانے کے لئے اس کی جسم سے آتی باڈی سپرے کی آتی دلفریب خوشبو۔۔
’’ دیکھ رہا ہوں۔۔ تم روز بروز کتنی خوبصورت ہوتی جا رہی ہو۔۔‘‘اپنی نظریں اس کے چہرے پر جمائے کہا تھا۔ وہ واقعی آج حد سے زیادہ حسین لگ رہی تھی۔ڈارک بلیو ڈریس پر چمکتے موتی نما ستارے اور پھر وائیٹ لیس سے سجا دامن ۔آنکھوں میں بسا کاجل اور دل کی تشنگی کو بھڑکاتے رسیلے گلابی ہونٹ ، ہوا کے جھونکوں کے ساتھ مستی کرتی زلفیں اور پھر آنکھوں کے آگے آتی بالوں کی چند لٹیں۔
’’حسین تو تم بھی کم نہیں لگ رہے۔۔‘‘اسی انداز میں اپنے چہرے کو ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر ٹکا کر جواب دیا۔کہا تو اس نے بھی صحیح تھا۔لائیٹ براؤن شرٹ ، گریبان کے دو کھلے بٹن سے نظر آتا اس کا دودھیا سینہ۔گلاب کی خوشبو کے ساتھ سانسوں کو مہکاتا باڈی سپرے ۔
’’اب ایسے ہی دیکھتے رہو گے یا پھر کہو گے بھی ؟‘‘ معنی خیز لہجے میں استفسار کیا تھا
’’ کیا کہوں۔۔۔!! تمہیں دیکھ کر تو میں الفاظ ہی بھول گیا‘‘ڈرامائی ڈائیلوگ بول کر وہ اسے امپریس کرنے کی کوشش میں تھا
’’ اچھا پھر آنکھوں کے ذریعے سمجھا دو۔۔۔‘‘ اس نے ہلکا سا طنز کیا تھا
’’ آنکھوں کے ذریعے ہی تو سمجھا رہا ہوں۔۔‘‘
’’ سر آپ کو اور کچھ چاہئے۔۔۔‘‘ ویٹر نے کولڈ ڈرنک رکھتے ہوئے پوچھا تو وہ دونوں چونک گئے
’’ نو تھینکس۔۔۔‘‘ہوا میں تیزی آگئی۔آبشار کا ساز بھی دلفریب ہونے لگا۔ عندلیب کی کھلی زلفیں ہوا کے پروں پر سوار مست ہونے لگیں
’’موسم کتنا رومینٹک ہے ناں۔۔!!دل چاہتا ہے کہ تمام حدیں پار کر کے بس تمہیں اپنی بانہوں میں بسالوں۔۔‘‘اس نے شوخ بھرے انداز میں انگڑائی لی
’’دیر تو تم نے ہی کی ہے ورنہ میں تو کب سے تیار ہوں شادی کے لئے۔۔۔‘‘بے باکی سے جواب دیا
’’ پہلی لڑکی دیکھی جو اپنی شادی کے لئے اتنی جلدی مچا رہی ہے ورنہ لڑکیا ں تو شادی کے نام سے ہی شرما جاتی ہیں۔ ‘‘ کولڈ ڈرنک پیتے ہوئے اس نے آبشار کی طرف دیکھا۔ پانی کی دھاڑیں پورے زور سے آسمان کی طرف اٹھتی مگر بیچ راستے ہی لوٹ آتیں
’’اوہ۔۔ ہیلو۔۔ میں آج کی لڑکی ہوں۔۔ یہ شرم و حیا کی توقع تو مجھ سے کرنا ہی نہیں۔۔جو ہوں تمہارے سامنے ہوں۔۔ ویسے بھی یہ اکیسویں صدی ہے ، آج کل کون پوچھتا ہے شرم و حیا کو۔۔ آگے بڑھنے کے لئے شرم وحیا کا دامن چاک کرنا ہی پڑتا ہے۔۔‘‘
’’ واہ۔۔ مائنڈ بلوئنگ۔۔۔۔تو پھر تھوڑا بہت رومینس ہوجا ئے۔۔۔‘‘پھلجڑی چھوڑی تھی
’’جسٹ شیٹ اپ۔۔۔‘‘ اس کے آگے بڑھتے ہوئے ہاتھ پر ہلکا سا تھپڑ مارا مگر درد کی بجائے ایک احساس انمول کے جسم میں سرایت کرنے لگا
* * * *
’’ ویسے یہ کاسنی لہنگا کیسا ہے؟‘‘بیڈ پر مختلف لہنگے بکھڑے پڑے تھے۔ رضیہ بیگم وجیہہ کی عادت سے اچھی طرح واقف تھیں۔ وہ اچھی جانتی تھیں کہ وہ کسی بھی قیمت پر بازار جا کر اپنے لئے شاپنگ نہیں کرے گی اس لئے مختلف لہنگوں کے سمپل کو گھر ہی منگوا لیا۔حجاب وجیہہ کی ڈریس سلیکشن میں مدد کر رہی تھی
’’اس پر تو بہت زیادہ کام ہے۔۔۔ مجھے تو سمپل چاہئے۔۔‘‘سادگی پسند وجیہہ بھلا کیسے اتنا بھاری کام پسند کر سکتی تھی
’’ آپی آپ کی شادی ہے کوئی عام فنکشن نہیں جو عام سا ڈریس چلے گا۔۔۔‘‘لہنگا رکھ کر کہا تھا
’’ لیکن مجھے اتنا بناؤ سنگھاڑ پسند نہیں۔۔ یہ تو تم بھی جانتی ہو۔۔۔‘‘
’’ لیکن شادی میں تو یہ سب کچھ چلتا ہے ناں آپی۔۔‘‘ حجاب وجیہہ کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی
’’ نہیں حجاب۔۔ سادگی صرف عام زندگی سے خاص نہیں ۔۔ سادگی ہمیشہ دیکھی جا تی ہے او ر شادی بیاہ کے موقع پر ہی تو پتا چلتا ہے کہ کون کتنا سادگی پسند ہے؟ ویسے تو ہر کوئی یہ کہتا پھرتا ہے کہ شادی بیاہ تو سادگی سے ہونے چاہئے لیکن حجاب اگر شادی میں پانچ دس لاکھ خرچ کر کے بھی یہ کہا جائے کہ ہم نے شادی سادگی سے کی ہے تو بھلا اس کے کہنے کا جواز بنتا ہے؟ بھلا سادگی میں بھی پانچ دس لاکھ خرچ کرلیں تو باقی بچتا ہی کیا ہے؟‘‘
’’ آپی آپی۔۔۔ وہ سب ٹھیک ہے لیکن آپ کو میری بات ماننی پڑے گی۔۔ جو میں کہوں گی۔۔ وہی آپ شادی میں پہنوگی۔۔۔سنا آپ نے۔۔‘‘منہ بگاڑ کر آخر وجیہہ نے اثبات میں سر ہلا ہی دیا
* * * *
’’ بھائی آپ پر یہ شیروانی زیادہ اچھی لگے گی۔۔‘‘جویریا آف وائیٹ شیروانی ضرغام کے سامنے لئے کھڑی تھی
’’ ارے یہ کوئی شیروانی ہے ۔۔ بھائی آپ پر یہ زیادہ اچھی لگے گی‘‘ بلیک شیروانی جس پر سنہری ریشم کا کام تھا۔اس کو اٹھا تے ہوئے مثال نے کہا تھا
’’ جی نہیں۔۔ضرغام بھائی میری شیروانی کو پسند کریں گے۔۔ سنا تم نے۔۔‘‘جویریا نے کندھے پر موجود بالوں کو ایک جھٹکے سے پیچھے کیا
’’یہ تو تم دونوں ہی سیلکٹ کرو۔۔۔‘‘سینے پر ہاتھ باندھے وہ بیڈ کی ٹیک سے پشت ٹکائے بیٹھا تھا اور دونوں کی باتوں سے محظوظ ہو رہا تھا
’’اس کا مطلب بھائی میری شیروانی پہنیں گے کیونکہ میں نے اِن کے تمام شوز دیکھیں ہیں۔۔ بھائی اگر آپ کو اپنے ویورز کی کو ناراض کرنا ہے تو بے شک آپ آپی کی پسند کی گئی شیروانی پہن لیں مگر یاد رکھیں آج کے بعد میں پھر لازاول نہیں دیکھوں گی۔۔‘‘اس نے سیدھی دھمکی دے ڈالی
’’ارے نہیں۔۔۔ایسا نہیں کرنا۔۔۔ میں اپنے ویورزکو بھلا کیسے ناراض کر سکتا ہوں۔۔‘‘ضرغام نے مثال کی سیلکٹ کی گئی شیروانی کی طرف ہاتھ بڑھا یا تو جویریا نے فوراً آگے بڑھ کر ضرغام کے ہاتھ میں اپنی پسند کی گئی شیروانی پکڑا دی
’’ بھائی۔۔ مجھے نہیں پتا آپ یہی پہنیں گے۔۔ورنہ میں ابھی واپس چلی جاؤں گی۔۔‘‘ جویریا بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھی
’’دیکھو۔۔۔ تم بھائی کو بلیک میل کر رہی ہو۔۔۔‘‘ مثال نے احتجاج کیا
’’اور تم کوئی وائیٹ میل کر رہی تھی ۔۔۔ تم بھی تو بھائی کو ایموشنل بلیک میل کر رہی تھی‘‘ بھنویں اچکاتے ہوئے برق رفتاری سے جواب دیا
’’ گرلز۔۔۔ لڑنا بند کرو۔۔۔ میں تم دونوں کی سیلکٹ کی گئی شیروانی پہن لوں گا۔۔ اب خوش۔۔۔‘‘ ضرغام نے جیسے مسئلے کا حل ہی بتا دیا
’’لیکن کیسے؟‘‘ دونوں نے برجستہ سوال کیا
’’تم دونوں یہاں رکھو اپنی پسند کی گئی شیروانی ۔۔ جو مجھے فٹ آئے گی میں وہی پہن لوں گا۔۔ اوکے۔۔‘‘دونوں کے ہاتھوں سے شیروانی لے کر اپنے لحاف پر رکھ لی
’’ لیکن بھائی آپ نے میری شیروانی کو پریفر کرنا ہے۔۔دیکھیں آپ کا رنگ بھی کتنا فئیر ہے ۔ فئیر رنگ پر ہمیشہ فئیر چیزیں ہی اچھی لگتی ہیں۔۔‘‘مثال کو آنکھیں دیکھاتے ہوئے کہا
’’ بالکل صحیح بھائی۔۔ آپ اتنے وجیہہ ہیں کہ آپ کو تو نظر بھی لگ سکتی لہذا نظر نہ لگنے کے لئے بلیک شیروانی ہی سیلکٹ کرنی چاہئے۔۔ کیوں ٹھیک کہا ناں۔۔‘‘ مثال نے بھی اپنا پانسا میدان میں ڈال دیا
’’ اوہ ہیلو۔۔۔ آپ دونوں گرلز ہیں اور بھائی بوائے۔۔ لہذا ! آپ دونوں یہاں سے جاؤ۔۔ بھائی کی شیروانی میں پسند کروں گا۔۔‘‘کمرے میں داخل ہوتے ہی فرمان نے دونوں کا تختہ ہی الٹ دیا
’’ اوہ گڈ۔۔۔ میرے جگر۔۔۔‘‘ اس کو دیکھتے ہی ضرغام بھی جوش میں آگیا۔ فرمان اچھل کر بیڈ پرآبیٹھا اور ضرغام کے ہاتھوں پر ایک زور دار تالی ماری
’’ کہاں تھا میرا جگر۔۔۔‘‘اس کے بالوں کو پیار سے خراب کرتے ہوئے پوچھا
’’ ان شیرنیوں نے مجھے کمرے میں بند کردیا تھا۔۔‘‘ مہارت سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا
’’ فرمان۔۔۔‘‘ جویریا نے گھور کر اس کی طرف دیکھا
’’ یہ اچھی بات نہیں ہے۔۔۔ تم دونوں نے اچھا نہیں کیا لیکن اب اس کا بھائی اس کے ساتھ ہے۔ کوئی کچھ نہیں کر سکتا‘‘ ضرغام کی ذرا سی حمایت پر وہ باغ باغ ہوگیا اور دونوں کو منہ چڑھانے لگا
’’ بچو۔۔۔ ذرا باہر تو آ۔۔ آخر کب تک بھائی کی آڑ میں چھپا رہے گا۔۔۔‘‘مثال نے بڑبڑاتے ہوئے کہا
’’بھائی دیکھو۔۔۔ یہ مجھے دھمکی دے رہی ہے۔۔‘‘سینہ تان کر کہا
’’ مثال۔۔۔‘‘ آنکھیں دیکھاتے ہوئے کہا
’’بھائی۔۔ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔۔ اور آپ کے سامنے تو کچھ زیادہ ہی۔۔‘‘ جویریا نے کچھ کہنے کی کوشش کی
’’میرا جگر جھوٹ نہیں بولتا۔۔۔ کیوں جگر۔۔‘‘
’’ بالکل ٹھیک۔۔۔‘‘ دونوں کی طرف دیکھ کر منہ چڑھایا تو دونوں بس اس کو کوستے ہی رہ گئیں۔۔
’’ بچو۔۔ آنا تو ہمارے پاس ہی ہے۔۔ پھر بتاتے ہیں تجھے۔۔‘‘مثال دل میں جلی کٹی سناتے ہوئے چلی گئی
* * * *
ہر طرف شادی کی گہما گہمی تھی۔ایک طرف رضیہ بیگم سب کچھ بھول کر وجیہہ کے ناز اٹھا رہی تھیں تو دوسری طرف شگفتہ بی بی ضرغام کے بدلتے رویے کو دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں۔
’’ خدا کا شکر ہے ۔ ضرغام کے رویے میں کچھ تو تبدیلی آئی۔۔ سب سے اچھے طریقے سے باتیں کر رہا ہے اور اپنی نئی زندگی کے لئے اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔‘‘لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ ہر طوفان آنے سے پہلے ماحول میں ایک بار سکوت طاری ضرور ہوتا ہے۔چلتی ہواؤں کا رخ ایک بار ضرور بل کھاتا ہے۔آسمان کو دیکھ کر پہلے یہی لگتا ہے کہ موسم خوشگوار ہے لیکن اگلے لمحے ہی موسم ایسے پلٹا کھاتا ہے کہ انسان دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔وہ ان سب سے بے خبر تھیں۔نہ ڈھول نہ مہندی، بس سادگی تھی۔حیرت تو اس بات پر تھی کہ ضرغام بھی اب سادگی برت رہا تھا۔شگفتہ بی بی نے صرف ایک بار کہا تھا کہ وہ شور شرابا زیادہ نہیں چاہتیں تو اس نے فوراً مان لیا۔
’’ امی جان۔۔ آپ فکر مت کریں۔۔ جیسا آپ چاہیں گی ویسا ہی ہوگا۔۔اگر آپ چاہیں تو میں اکیلا ہی اسے بیاہ کر لے آتا ہوں‘‘ اس کا لہجہ شوخیوں سے بھرپور تھا
’’شرارت سوجھ رہی ہے۔۔۔‘‘ اس کے کان پکڑ کر کہا تھا
’’ امی سادگی تو یہی ہوتی ہے ناں۔۔‘‘اس کا لہجہ اس کا انداز سب کچھ الگ تھا ۔ یہ وہ ضرغام نہیں تھا ۔ جو دنیا کے پیچھے بھاگتا تھا۔ یہ تو کوئی اور ہی ضرغام تھا۔جو ہنسنا اور کھیلنا جانتا تھا۔مذاق کو سمجھنا جانتا تھا۔ یہ سب وہ جان بوجھ کر رہا تھا یا سچ میں بدل گیا تھا۔ شاید گزرتا وقت ہی بتا سکے۔ ایک ہفتہ ایک دن میں بیت گیا اور پھر وہ دن آیا جب ضرغام کے چہرے پر سہرا سجنا تھا۔ بارات کا ٹائم سہ پہر تین بجے کا تھا لیکن تیاریاں صبح سے ہی شروع ہوگئی۔ جویریا اور مثال تو سب سے آخر میں تیار ہوئیں کیونکہ گھر میں آئے مہمانوں کو انہوں نے ہی ڈیل کرنا تھا۔مہمان تھے ہی کتنے۔۔ صرف چیدہ چیدہ پانچ مہمان تھے۔جویریا کے امی ابو کے ساتھ ان کی دادی۔شگفتہ بی بی کی نند جو آسٹریلیا سے خاص ضرغام کے نکاح میں شریک ہونے آئی تھیں اور پھر نکاح کے فوراً بعد اس کی واپسی کی فلائیٹ تھی۔
’’ آپ یہاں صرف ہاتھ لگانے آئی ہیں۔۔‘‘ شگفتہ بی بی نے کہا تھا
’’ویسے سچ کہوں تو ہاتھ ہی لگانے آئی ہوں۔۔ بھابھی جی۔۔وہاں اسد کے فائنل اگزامز ہو رہے ہیں اور پھر ان کے پاپا کو تو آفس سے چھٹیاں ہی نہیں ملتیں اور پھر ہمارا سٹور بھی تو ہے۔۔ میرے بغیر تو وہ ایک دن بھی نہیں چلتا۔۔لیکن ان سب مصروفیات میں میں اپنے بھتیجے کی شادی مِس بھی تو نہیں کر سکتی تھی۔ آخر میرا ایک ہی ایک توبھتیجا ہے۔ اگر اس کی شاد ی میں ہی شرکت نہ کر پاتی تو بھلا کس کی شادی میں کرتی۔۔۔ اور ویسے بھی ٹائم تو اپنوں کے نکالنا ہی پڑتا ہے۔۔ اور پھر یہی تو موقعے ہوتے ہیں دو گھڑی مل بیٹھنے کے۔ اس بہانے آپ سے بھی مل لیا۔‘‘
’’ امی میری شیروانی کہاں گئی۔۔۔‘‘ٹراؤزر بنیان پہنے وہ سیڑھیاں اتر رہا تھا۔دونوں نے ضرغام کی طرف دیکھا جو دو دو سٹیپ پھلانگتا ہوا نیچے اتر رہا تھا۔جھٹکے کی وجہ سے بالوں پر سے پانی کی بوندیں اس کے بنیان پر گر رہی تھیں۔ جو پہلے سے ہی بھیگا ہوا تھا ۔ اسی لئے یہ بوندیں زیادہ کارآمد ثابت نہ ہوئیں۔
’’ بھائی۔۔ کوئی شرٹ نہیں ملی جو۔۔۔ ایسے گھوم رہے ہو گھر میں۔۔‘‘جویریا نے کچن سے نکلتے ہی ضرغام کو اس حالت میں دیکھ کر کہا تھا
’’ لگتا ہے بھائی کا ایسے ہی نکاح میں جانے کا ارادہ ہے۔۔‘‘ مثال جو مٹھائی کی تھال کو کار میں رکھوانے لے جا رہی تھی۔ایک پھلجڑی چھوڑتے ہوئے گئی
’’ ویسے خیال اچھا ہے۔۔‘‘ضرغام نے فورا تائید کی۔ وہ سیڑھیاں اتر کر اب شگفتہ بی بی کے سامنے کھڑا تھا
’’بڑا ہی بے شرم ہے۔۔‘‘شگفتہ بی بی کی نندنزہت نے کہا تھا
’’ پھپو۔۔آسٹریلیا میں یہ بھی نہیں ہوتا ۔۔‘‘اس نے شوخ لہجے میں بنیان کی طرف اشارہ کیا تھا
’’ بہت شریر ہوگیا ہے ۔۔۔ آج تیری شادی ہے اور اس طرح کی حرکت زیب نہیں دیتی‘‘ ایک بار پھرنزہت نے کہا
’’تمہاری شیروانی غالباً میں نے آئرن سٹینڈ پر دیکھی تھی‘‘ شگفتہ بی بی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
’’ میں ابھی دیکھتی ہوں۔۔‘‘ جویریا کچن سے اپنے ہاتھ جھاڑتے ہوئے نکلی تھی۔ تبھی آئرن سٹینڈ کی طرف چل دی ۔وہاں جا کر اس کے تو جیسے ہوش ہی اڑ گئے۔
’’ اللہ۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ بھاگتی ہوئی آئرن سٹینڈ کے پاس آئی اور استر ی کا سوئچ آف کر کے اسے سیدھا رکھا
’’ کیا ہوا؟ چیخ کیوں رہی ہو؟‘‘ جویریا کی امی اپنے کمر ے سے نکلی تھیں
’’امی یہ۔۔۔۔‘‘ اس نے بجھے ہوئے لہجے میں کہا تھا
’’ کیا ہوا جویریا ؟ تم ایسے کیوں چیخی؟‘‘نزہت ، شگفتہ بی بی اور ضرغام بھی وہاں�آموجودہوئےتواسنےاپنےکانپتےہاتھوںسےجلیہوئیشیروانیسبکےسامنےکردی
’’ اللہ۔۔۔ یہ کیا ہوگیا۔۔‘‘ نزہت کے زبان سے برجستہ نکلا تھا
’’لگتا ہے آج تو واقعی ٹراؤزر اور بنیان میں ہی جانا پڑے گا۔۔‘‘ ابھی بھی ضرغام باز نہیں آیا تھا۔
’’ اب کیا ہوگا۔۔‘‘ شگفتہ بی بی نے دونوں ہاتھوں کو منہ پر رکھ لیا تھا
’’ہونا کیا ہے امی جان اب تو انہی ٹراؤزر اور بنیان میں نکاح پڑھنا ہوگا۔۔‘‘ایک بار پھر اس نے ہنسی پر قابو کرتے ہوئے کہا
’’ٹراؤزربنیان پہننے کی بھی کیا ضرورت ہے۔۔‘‘ نزہت نے اس کی بات کا جواب دیا
’’ ویسے خیال اچھا ہے مگر میں اتنا بھی بے شرم نہیں ہوں۔۔اگر آسٹریلیا ہوتا تو شاید۔۔‘‘ اس نے معنی خیز لہجے میں اپنے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔
’’زیادہ شوخیاں مت مارو۔۔۔ ہیرو ہوتو ہیرو بنو۔۔ ویلن نہیں۔۔‘‘ نزہت نے اس کی ساری شوخیاں ہوا میں اڑا دیں
’’ لیکن اب یہ سوچو کہ کیا پہنے یہ۔۔اضافی شیروانیاں بھی تو واپس کر دی تھیں۔۔۔‘‘ شگفتہ بی بی قدرے پریشا ن ہوگئیں
’’ارے ٹینشن ناٹ۔۔۔خالہ جان۔۔۔بھائی کے لئے میں نے یہ شیروانی سنبھال کر رکھی تھی۔۔‘‘ ایک کونے سے فرمان کی آواز آئی تھی۔ سب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو فرمان ڈارک براؤن کلر کی شیروانی ہاتھ میں لئے کھڑا تھا۔
’’ فرمان یہ کہاں سے آئی تمہارے پاس۔۔۔‘‘جویریا نے آگے بڑھ کر پوچھا تھا
’’جب تم دونوں آپس میں لڑ جھگڑ رہی تھیں ناں۔۔ تبھی میں نے بھائی کے لئے یہ شیروانی پسند کر لی تھی۔۔۔اور اسے چھپا کر اپنے کمرے میں رکھ لی۔۔‘‘وہ پورے ناز سے کہہ رہا تھا
’’ بہت اچھا کیا تم نے۔۔‘‘ نزہت نے آگے بڑھ کر اسے پیار دیا
’’ اب جلدی سے تیار ہوجاؤ ۔۔ پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے‘‘ شیروانی کو ضرغام کے ہاتھوں میں پکڑاتے ہوئے شگفتہ بی بی نے کہا تھا۔
’’ تم دونوں بھی تیار ہوجاؤ۔۔۔‘‘پاس کھڑی جویریا اور دروازے سے اند رآتی مثال کے لئے کہاگیا تھا
’’بس آخری تھا ل ہے۔۔‘‘ مثال نے کہا
’’ وہ تھال فرمان رکھ آئے گا۔۔ تم جا کر تیار ہوجاؤ۔۔‘‘اپنا نام سن کر فرمان کی آنکھیں کھل گئیں
’’ میں؟؟؟؟؟؟؟؟‘‘ اس نے اپنی طرف انگلی کرتے ہوئے تصدیق چاہی
’’ جی ہاں تم۔۔۔ شرم نہیں آتی تمہاری بہنیں کام کر رہی ہیں اور تم آرام۔۔ چلو کام پر لگ جاؤ۔۔۔‘‘ نزہت نے اس کی اچھی خاصی کلاس لی۔ فرمان کی کلاس لگتی دیکھ کر مثال کو انتہا کی خوشی ہوئی۔ وہ اپنا کام شام چھوڑ کر اس کے بالکل قریب آگئی
’’بہت خوب۔۔ ایسے ہی کلاس لگنی چاہئے اس کی۔۔‘‘آہستہ سے جویریا کے کان میں سرگوشی کی
’’ چل اب چلتے ہیں۔۔۔‘‘ جویریا نے بھی کھسکنے کا اچھا بہانا ڈھونڈاتھا
* * * *
’’ پھوپھو۔۔یہ نگ نکل گیا اس سیٹ کا تو۔۔‘‘سونے کا ایک خوبصورت سیٹ ہاتھ میں لئے حجاب رضیہ بیگم کے کمرے میں آئی تھی۔ ا س کی نظریں صرف اسی سیٹ کو دیکھ رہی تھیں۔ سیٹ دیکھنے میں واقعی بہت خوبصورت تھا۔ خالص سونے سے بنا سرخ سبز موتیوں سے سجا یہ سیٹ دیکھنے والے کے دل میں رچ بس جاتا۔ یہ کوئی عام سیٹ نہیں تھا۔رضیہ بیگم کو اپنی امی کی طرف سے خاص تحفے میں ملا تھا۔ رضیہ بیگم نے پوری زندگی اس سیٹ کی حفاظت کی۔ ہمیشہ کسی خاص موقع پر ہی زیب تن کیا کرتی تھیں اور اب وہ اسی سیٹ کو وجیہہ کے حوالے کر رہی تھیں۔ وجیہہ نے پہلے تو ہمیشہ کی طرح ناں ناں کی مگر حجاب کیے اصرار پر ہمیشہ کی طرح مان گئی۔ وجیہہ ہمیشہ حجاب کی بات مان لیا کرتی تھی۔رضیہ بیگم کو جب بھی کوئی بات منواتی ہوتی وہ اکثر حجاب کے ذمہ لگا دیتیں اور پھر اسے منوانا حجاب کا کام ہوتا تھا۔
’’دیکھاؤ ادھر ذرا۔۔۔‘‘ رضیہ بیگم جو بیڈ پر بیٹھیں کپڑوں کے ڈیزائن کو دیکھ رہی تھیں ۔ حجاب کے آنے پر کپڑوں کو سمیٹا اور حجاب سے وہ سیٹ لیا
’’انمول کو کہا بھی تھا کل کہ سنار کے پاس لے جائے اس سیٹ کو۔۔۔ مگر ۔۔۔۔‘‘ انہوں نے اپنی بات کو ادھورا چھوڑ دیا
’’پھپو پھر اب۔۔۔؟‘‘حجاب نے مایوسی سے کہا تھا
’’ اب ۔۔۔ اب کیا کریں۔۔۔ اس نگ کے بنا تو سیٹ بالکل بیکار لگے گا۔۔‘‘ان کا چہرہ اتر چکا تھا۔ وہ خفگی کے ساتھ اس سیٹ کو تک رہی تھیں۔
’’پھپو۔۔ ایسا کرتے ہیں جو لڑکے والوں کی طرف سے آئے گا سیٹ وہ پہنا دیں گے نکاح کے وقت۔۔‘‘حجاب نے اپنی تجویز پیش کی تھی
’’ حجاب۔۔ کیسی باتیں کر رہی ہو؟ وہ کیسا سوچیں گے کہ ایک ہی بیٹی تھی اسی کو اچھا سا سیٹ نہ پہنا سکے‘‘انہوں نے تردد بھرے اندا ز میں نہ کر دیا۔
’’تو پھر پھپو جان؟‘‘اپنے بالوں کو کندھے کے پیچھے دھکیلتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گئی اور ساتھ رکھے کپڑوں کو دیکھنے لگی
’’ پھپو۔۔۔ یہ سب لڑکے والوں کے لئے ہے؟‘‘ہاتھ میں ریشمی کپڑا اٹھاتے ہوئے پوچھا تھا
’’ ہاں۔۔۔ کیسے ہیں؟‘‘ایک پل کے لئے وہ سیٹ کے بارے میں بھول گئی تھیں
’’بہت اچھے۔۔ دیکھنا جو بھی دیکھے گا بس دیکھتا ہی جائے گا۔۔‘‘وہ باری باری اب تمام کپڑوں کو دیکھنے لگی
’’ لیکن پھپو۔۔ یہ کیاسب کپڑے تو بڑی عورتوں کے سے لگ رہے ہیں ۔ دولہا بھائی کی کیا کوئی چھوٹی بہن نہیں ہے؟‘‘اس نے ہر سوٹ کو ٹٹول لیا تھا مگر کوئی بھی کپڑا ایسا نہیں تھا جو کسی ینگ لڑکی کے لئے خریدا گیا ہو۔
’’اکلوتی اولاد ہے تمہارا دولہابھائی۔۔‘‘ رضیہ بیگم نے بڑے مان سے کہا تھا
’’ واہ ۔۔ پھپو۔۔۔ پھر تو ہماری وجیہہ آپی کو نندوں وغیرہ سے بھی چھٹکا را مل جائے گا۔۔‘‘حجاب کے چہرے پر ایک خوشی کی لہر دوڑی تھی
’’ اور کیا۔۔۔‘‘ رضیہ بیگم نے تائید کی تھی۔دروازے کے پاس سے گزرتی وجیہہ نے دونوں کی گفتگو کا آخری حصہ سن لیا تھا
’’رشتے کبھی بھی وبال جان نہیں ہوتے جو ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔۔‘‘دونوں نے چونک کر باہر کی طرف دیکھا تو وجیہہ اندر کمرے میں قدم رکھ چکی تھی
’’ارے وجیہہ آپی آپ۔۔۔ آئیے بیٹھئے۔۔‘‘ حجاب نے اٹھتے ہوئے وجیہہ کو بیٹھنے کی جگہ دی
’’حجاب مجھے تم سے تو یہ امید نہیں تھی۔۔‘‘اسے برا لگا تھا تو صرف حجاب کی باتوں کا کیونکہ وہ بھی ایسا سوچتی ہے۔
’’ارے بھئی۔۔ اس نے غلط کیا کہا صحیح تو کہا ہے اس نے۔۔ نہ ہی نندیں ہونگی اور نہ ہی روز روز کے جھگڑے۔۔‘‘رضیہ بیگم نے بات کو سنبھالتے ہوئے کہا
’’ لیکن امی۔۔۔‘‘ اس نے کچھ کہنے کے لئے ابھی لب ہی کھولے تھے دروازے سے علی عظمت داخل ہوئے
’’ارے بھئی۔۔ ابھی تک تیار نہیں ہوئے۔۔ لڑکے والوں کا فون آیا ہے وہ بس ایک گھنٹے تک پہنچ جائیں گے۔۔‘‘انہوں نے آتے ہی بے فکر بیٹھی خواتین کے چہروں سے سکون چھین لیا
’’ کیا پھوپھا جی۔۔۔صرف ایک گھنٹہ۔۔‘‘حجاب کو جیسے جھٹکا سا لگا تھا
’’ابھی تو کوئی تیار بھی نہیں ہوا اور ابھی سے۔۔۔‘‘رضیہ بیگم نے کپڑوں کو سمیٹتے ہوئے کہا تھا ۔
’’جی ہاں۔۔۔ اب جلدی سے یہ چیزیں سمیٹیں اور تیار ہوجائیں ‘‘ علی عظمت وارڈ روب کی طرف بڑھے تھے
’’اور ہاں علی عظمت۔۔۔‘‘ کپڑوں کو سمیٹتے ہوئے ان کا ہاتھ سیٹ سے لگا تو انہیں یاد آیا
’’ جی کہیے۔۔‘‘ وہ پلٹے تھے
’’اس سیٹ کو تو نگ اترا ہوا ہے کل انمول کو کہا بھی تھا لیکن لگتا ہے بھول گیا ۔۔ اب نکاح میں کیا پہنے گی وجیہہ؟‘‘انہوں نے سیٹ کو آگے کی طرف کیا
’’امی کچھ نہیں ہوتا ۔۔سیٹ پہننا ضروری تو نہیں ہے۔۔‘‘وجیہہ نے مسئلے کا حل بتایا تھا
’’ حجاب ۔۔ تم تو اسے لے جا کر تیار کرو۔۔ ورنہ یہی بیٹھی ہر شے کو رد کرتی جائے گی یہ۔۔‘‘
’’ جی پھپو۔۔‘‘ حجاب نے بھی فوراً حکم کی تکمیل کی اور وجیہہ کو لے کر باہر آگئی
’’اب تم بھی امی کی طرح بنتی جا رہی ہو۔۔۔‘‘ کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا تھا
’’ جی ہاں۔۔ آخر پھپو نے مجھے آپ کی ذمہ داری تو دی ہے۔۔ دیکھنا آپ کو ایسا تیار کروں گی کہ دولہا بھائی تو دیکھتے ہی رہ جائے گے۔‘‘ حجاب نے وجیہہ کو کمرے میں لے جا کر بیڈ پر بٹھایا اور پھر وارڈ راب سے ایک نہایت حسین لہنگا نکالا ۔کاسنی رنگ پر چمکتے سفید موتی اور پھر کہیں کہیں سنہری بیل بوٹے ، اس لباس کو دلفریب بنا رہے تھے۔
’’کتنی اچھی لگو گی ناںآپ اس میں۔۔۔‘‘دوپٹہ اس کے سر پر اوڑھاتے ہوئے حجاب نے کہا تھا
’’لیکن۔۔۔۔‘‘ اس نے منہ بسوڑتے ہوئے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی
’’ لیکن ویکن کچھ نہیں۔۔۔ آپ بس خاموش ہوجائیں اور سارا کام مجھ پر چھوڑ دیں۔۔۔‘‘وجیہہ کو کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا اور پھر واش روم میں لہنگا تھما کر بھیج دیا
ہر طرف خوشیوں کا سماں تھا۔کاسنی رنگ کے لہنگے میں وہ بہت ہی پرکشش لگ رہی تھی۔ اسے دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہ سکتا تھاکہ یہ وہی وجیہہ ہے جو سادگی پسند تھی۔ جس نے آج تک کبھی میک نہیں کیا۔ کبھی کاجل استعمال نہیں کیا۔ کبھی بالوں پر وہ سٹائل نہیں بنایا جو اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے۔ مگر آج ا س نے سب کچھ کیا تھا۔ حجاب نے اس کی ایک نہ سنی اور اسے تیار کرتی رہی۔ بھنویں کو دھاگے سے اچھی طرح باریک کیا ۔ ہلکے سے فیس پاؤڈر سے ہی اس کا چہرہ نکھر گیازیادہ میک اپ کی تو ضرورت ہی نہیں تھی۔جن لوگوں کا دل صاف ہو تا ہے انہیں خوبصورت آنے میں زیادہ تنگ و دو نہیں کرنی پڑتی۔ معمولی سا تبدل ان کے حسن کو نکھار دیتا ہے۔ وجیہہ کے حسین لگنے کا یہی راز تھا۔ پنوں کے ذریعے بالوں کا جوڑا اس طرح بنایا جیسے کوئی فلموں ڈراموں کی ہیروئن بناتی ہو۔
’’لڑکے والے آگئے جلدی کرو۔۔‘‘ کسی نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے کہا تھا
’’جی بس ہم آتے ہیں۔۔‘‘ لپ لائینر لگاتے ہوئے وہ بولی تھی۔
’’ لیکن تم تو تیار ہو جاؤ۔۔۔‘‘ وجیہہ اسے بار بار کہتی جا رہی تھی مگر وہ اس کی ایک نہیں سن رہی تھی۔
’’ مجھے تیار ہونے میں کونسی دیر لگنی ہے ۔۔۔ صرف منہ ہاتھ دھونا۔۔ کپڑے چینج کرنے ۔۔ اور ہلکا سا میک کرنا تیار ہوجانا ۔۔ اصل کام ہوتا ہے دلہن کا تیار ہونا۔۔‘‘صرف پندرہ منٹ بعد دونوں تیار ہو کر کمرے سے باہر آرہی تھیں۔مہمانوں کی آمدو رفت پہلے ہی بہت زیادہ تھی۔ سیڑھیاں اترتے ہوئے چار لڑکیاں وجیہہ کے اوپر سرسبز دوپٹے کی چھاؤں کئے ہوئے تھی۔چہرے پر ہلکا سا گھونگٹ تھا۔ جس کو حجاب بار بار سیٹ کر رہی تھی۔سیڑھیوں کے عین سامنے صوفے پر اس کا ہونے والا مجازی خدا بیٹھا تھا مگر اس کی نظریں صرف اپنے پاؤں پر تھیں۔ اس میں اتنی سکت نہ تھی کہ آنکھیں اٹھا کر ایک نظر اسے دیکھ ہی لے۔
’’ آپ کا ہونے والا شوہر تو بہت ہی خوبصورت ہے۔۔۔‘‘حجاب نے آہستہ سے سرگوشی کی تھی۔
’’ آگئی دلہن۔۔۔‘‘سب کی نظریں سیڑھیوں پر مرکوز ہوگئیں۔ اسے ایسا لگنے لگا جیسے وہ کوئی تماشا ہو جو سب اسے گھور رہے ہیں۔رضیہ بیگم اٹھ کر اس کے پاس آئیں۔۔اور دائیں طرف سے اس کے بازو کو آہستہ سے پکڑا
’’ ماشاء اللہ کتنی حسین لگ رہی ہے۔۔ اللہ نظر نہ لگائے میری بیٹی کو۔۔‘‘پیار میں اس کی ساری بلائیں لیں۔اور پھر اس کو اس کے ہونے والے ساجن کے ساتھ بیٹھا دیا گیا۔زندگی میں پہلی بار وہ کسی اجنبی کے ساتھ بیٹھی تھی۔اس کے جسم میں کرنٹ دوڑا تھا ۔ مگر وہ خاموش تھی کچھ کہہ نہیں سکتی تھی۔
’’بھلا لوگ کیوں ایک نامحرم کو لڑکی کے بازو میں بٹھا دیتے ہیں اور بٹھاتے بھی ہیں تو اتنے پاس کہ اُس نامحرم کا جسم اس کے ساتھ مس کر رہا ہوتا ہے۔ مانا کہ وہ اس کا ہونے والا شوہر ہوتا ہے مگر بنا تو نہیں ہوتا ناں۔۔کیوں لوگ اسلام کو بھولتے جارہے ہیں۔۔‘‘ اس کا دل بس کڑھ کر رہ گیا۔اس کے پاس صرف دو راستے تھے ایک یہ کہ وہ یہاں سے اٹھ جائے مگر وہ آج ایسا کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔ دوسرا راستہ یہ کہ جلد سے جلد اس کا نکاح پڑھا دیا جائے تاکہ پاس بیٹھا شخص نامحرم نہ رہے۔اس کی حدت کو محسوس کرتے ہوئے اسے گناہ کا تصور نہ ہو۔مگرسب اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ آوازیں اس کے کانوں میں پڑ رہی تھیں مگر اسے خامو ش رہنا تھا۔وہ اپنی انگلیاں بھینچتی جا رہی تھی۔ دوپٹے کا پلو اپنے ہاتھوں کی انگلی میں لپیٹے جا رہی تھی ۔ شاید اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے اس کے ہونے والے ساجن نے اس کی نروس کا اندازہ لگا لیا تھا تبھی اپنا مضبوط ٹھوس ہاتھ اس کے ہاتھوں پر رکھ دیا۔ایک کرنٹ اس کے جسم میں سرایت کر گیا۔اس نے ایک سیکنڈ سے پہلے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کے نیچے سے نکالا۔ اس کی سانسیں گہری ہوگئیں۔�آج پہلی بار کسی اجنبی نے اپنا ہاتھ اس کے جسم کو مس کیا تھا۔ آج پہلی بار کسی نامحرم کی لمس کا احساس اس کے جسم میںسرایت کیا تھا۔ مگر وہ خاموش تھی۔آنکھیں ابھر آئیں اور پھر اسے رسم کو بنانے والے کو کوسنے لگی جس نے دولہن نکاح سے پہلے دولہا کے پاس بٹھانے کو لازمی قراد دیا۔ اُس نے بھی آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ پیچھے سرکا لیا۔
’’نکاح کا وقت ہوگیا ہے۔۔‘‘ یہ رضیہ بیگم کی آواز تھی۔ یہ سن کر اسے کچھ سکون ملا۔ اب زیادہ دیر تک ا س کے ساتھ بیٹھنے والا نامحرم نہیں رہے گا۔
’’ نکاح خواں کہاں ہیں؟‘‘کسی کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔سب ایک دوسرے سے پوچھنے لگے مگر کسی کوکوئی علم نہ تھا۔ شادی کی رسموں کو فرض سمجھ کر کرنے والے نکاح خواں کو وقت دینا بھول گئے تھے۔اس کے دل میں ایک ملال نے جنم لیا تھا۔
’’شادی کی فضول رسومات کو تو ایسے ادا کرتے ہیں جیسے اسلام کی طرف سے فرض کی گئی ہوں اور جو فرض ہے اس کو پس پشت ڈال دیتے ہیں‘‘ اس کے ذہن میں وہ خیال آیا جو اس نے کسی سے سنا تھا کہ ایک ماڈرن فیملی نے اپنا سب کچھ فضول رسومات میں خرچ کردیا۔ ایک چھوٹی سی چھوٹی رسم بھی فرض عین سمجھ کر ادا کی گئی مگر انہی رسموں میں الجھ کر وہ نکاح ہی کرنا بھول گئے اور لڑکی کو بنا نکاح کے ہی سسرال لے آئے۔
’’ میں ابھی لاتا ہوں۔۔۔ نکاح خواں کو۔۔‘‘یہ انمول کی آواز تھی۔وہ بھاگتے ہوئے مسجد گیا اور ایمرجنسی میں نکاح خواں کو لے آیا۔ خدا نے بھی ساتھ دیا۔ مولوی صاحب ابھی مسجد میں ہی تھے۔ انمول کے کہنے پر چلنے کو تیار ہوگئے۔
’’وجیہہ عظمت آپ کا نکاح بعوض دس لاکھ روپے حق مہرضرغام عباسی ولد سجاد عباسی سے کیا جاتا ہے۔ کیا آپ کو منظور ہے؟‘‘ ایک لڑکی کے لئے یہ جملے بہت بھاری ثابت ہوتے ہوتے ہیں۔ چاہے وہ کتنی ہی باہمت کیوں نہ ہو ایک بار اس کے وجود میں جنبش ضرور آتی ہے۔ کہنے کو تو صرف یہ نکاح ہوتا ہے لیکن اس نکاح کے پیچھے جو جو حقائق چھپے ہوتے ہیں آج کی نسل اگر سمجھ لے تو کیا ہی بات ہے۔۔!! وہ یہ حقائق جانتی تھی اسی لئے ایک لمحے کے لئے سکتے میں چلی گئی۔ہلکی سی گردن میں جنبش ہوئی۔ جسے ہا ں سمجھ لیا گیا۔دوسری بار پھر وہی جملے دہرائے گئے۔ ایک بار پھر اس کے وجود میں جنبش ہوئی کہ آج کے بعد اس کا وجود اس کا نہیں رہے گا۔ اس کی ذات پر اب کسی اور کا حق ہوگا۔ اب وہ فرض کام کے علاوہ کوئی بھی نفل اپنی مرضی سے نہ کر پائے گی۔ہر کام میں اسے اپنے شوہر کی مرضی درکار ہوگی۔ اس کی اطاعت ضروری ہوگی۔ اس کو راضی رکھنا ضروری ہوگا۔اس کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہوگا۔
تیسری بار پھر وہی جملے دہرے گئے۔ اب کی بار اس ذہن میں مختلف خیال امڈ آئے۔ اس کے پورے وجود پر ایک لرزہ طاری ہوگیا۔ ان ذمہ داریوں کا لرزہ جو ایک بیوی کی حیثیت سے اس نے قبو ل کر لی تھی۔ کہ آئندہ کبھی اپنے ہاتھ پاؤں پر بہتان نہ باندھ لائے گی۔ کبھی وہ کام نہ کرے گی جو اس کے شوہر کو برا لگے۔کبھی اس کی نافرمانی نہ کرے گی۔کبھی اسکی امانت میں خیانت نہ کرے گی۔اس کی رعیت کی حفاظت کرے گی کیونکہ اب یہی اس کے لئے جنت میں داخلے کا مقام ہے اور یہی دوزخ میں جانے کا راستہ۔اس کا پورا وجود لرز رہا تھا۔ دماغ یہی سوچ رہا تھا کہ جن ذمہ داریوں کا وعدہ اس کے صرف لفظ ’’قبول ہے‘‘ کی اوٹ میں کیا ہے ۔ کیا وہ اسے نبھا پائے گی۔لفظ قبول ہے کا مطلب صرف یہی نہیں تھا کہ وہ اس کی بیوی بنے گی یا نہیں۔ اس کامفہوم بہت وسیع تھا۔ لفظ قبول ہے کی اوٹ میں اس نے جو و وعدہ کیا تھا اپنی آخری سانس تک اس وعدے کو نبھانا تھا۔حالات چاہے جیسے بھی ہوں اسے اپنے وعدے کی لاج رکھنی تھی۔
اب وہی الفاظ معمولی ردوبدل کے ساتھ ضرغام سے پوچھے گئے ۔ اس نے فوراً قبول ہے کہ دیا۔ وہ ٹھٹک کر رہ گئی۔ گھونگٹ کی اوٹ سے اس چہرے کو دیکھنے کی کوشش کی، جو اب اجنبی نہ رہا تھا۔ قدرت نے اسے اس کا ہمسفر بنا دیا تھا۔صرف دو لفظوں کے اقرار نے اسے نامحرم سے محرم بنا دیا تھا۔لیکن اس کے وجود پر لرزہ طاری کیوں نہ ہوا؟ اس کا روم روم ان ذمہ داریوں کو دیکھ کر کیوں نہیں کانپا؟کیا وہ قبول ہے کا مطلب نہیں جانتا تھا؟کیا وہ سمجھتا تھا کہ قبول ہے کا مطلب صرف ایک نا محرم لڑکی کو محرم بنانا ہوتا ہے ؟ نہیں۔۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ جس طرح قبول ہے لفظ بیوی کے لئے پہاڑ ثابت ہوتا ہے ویسے ہی مرد کے لئے بھی ہوتا ہے مگر کوئی سمجھنے والا ہو۔۔۔اس نے تو بڑی آسانی اور روانی سے کہہ دیا
’’ قبول ہے۔۔‘‘مگر کیا وہ جانتا تھا کہ ان لفظوں کی اوٹ میں وہ کون کون سے وعدے کر رہاہے؟نہیں وہ نہیں جانتا تھا اگر جانتا ہوتا تو یہ الفاظ کہنے سے پہلے وہ ایک بار لازمی سوچتا اور جب یہ الفاظ اپنی زبان سے جاری کرتا تو ذمہ داریوں کا پہاڑ وہ لازمی محسوس کرتا لیکن اس نے ایسا کچھ محسوس نہیں کیا۔وہ پرسکون تھا۔ چہرے پر ایک طمانت تھی۔کیوں؟ وہ سوچ رہی تھی۔ کیا وہ نہیں جانتا کہ اس نے اس لفظ کی اوٹ میں یہ وعدہ کیا ہے کہ آخری سانس تک اپنی بیوی کی حفاظت کرے گا۔اس کے نان نفقہ کی ذمہ داری وہ بخوشی اٹھائے گا۔اسے ہر وہ محبت دینے کی کوشش کرے گا جس پراُس کا حق ہے۔جیسے وہ یہ توقع کرتا ہے کہ اس کی بیوی اس کی پیٹھ پیچھے اِس کی امانت میں خیانت نہ کرے ، وہ بھی ہرممکن اپنی بیوی کی امانت کی حفاظت کرے گا۔مگر اس نے ایسا کچھ بھی محسوس نہیں کیا۔ نہ ہی لرزہ طاری ہوا نہ ہی اس کا سانس رکا۔ کیا آج کل لفظ قبول کا مطلب صرف میاں بیوی بننے کی حد تک رہ گیا ہے؟
’’مبارک ہو۔۔‘‘ رضیہ بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیراتھا مگر وہ نے اب ابھی کن انکھیوں سے ضرغام کے سائیڈ فیس کو دیکھ رہی تھی۔ پورا چہرہ تو گھونگٹ کے اندر سے دیکھنا محال تھا
’’ سدا خوش رہو۔۔۔‘‘علی عظمت نے بھی آکر دونوں کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔
’’ مبارک ہو آپی۔۔‘‘حجاب نے آکر ایسا جھنجوڑا کہ وہ اپنے خیالوں سے باہر نکلی آئی۔ماتھے سے ہلکا سا گھونگٹ سرک گیا مگر حجاب نے خود ہی ٹھیک کر دیا۔ہر کوئی ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہا تھاجویریا اور مثال تو اپنی بھابھی کودیکھنے کے لئے اتاولی ہو رہی تھیں۔
’’میں بھابھی کے ساتھ کا ر میں جاؤں گی۔۔‘‘جویر یا نے مثال کے کان میں سرگوشی کی تھی
’’جی نہیں۔۔ بھابھی کے ساتھ تو میں ہی جاؤنگی۔۔‘‘منہ چڑھا کر اس کی بات کا جواب دیا
’’ تم دونوں باتیں کرتی رہنا ۔۔۔ بھابھی کے ساتھ کہیں میں ہی نہ چلا جاؤں۔۔‘‘ایک بار پھر فرمان نے دونوں کے پلان پر پانی پھیر دیا۔ اور شیروانی کے فرضی کالر کھڑے کرتے ہوئے وہ آگے بڑھ گیا
’’فرمان کے بچے۔۔‘‘اتنے ہجوم میں وہ صرف زیر لب ہی اسے برابھلا کہہ سکی۔
’’ ابھی تو میں خود بچہ ہوں۔۔۔ اس لئے بچے کو تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔‘‘جھٹ جواب دیتے ہی وہاں سے کھسکنے میں ہی آفیت جانی

٭
ناول ابھی جاری ہے
 

Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 64 Articles with 98251 views I'm a student of Software Engineering but i also like to write something new. You can give me your precious feedback at my fb page www.facebook.com/Mu.. View More