بوڑھی عورت کی سحری

دوسروں کا خیال رکھو
"حمزہ ،حمزہ بیٹا!! اٹھ جاؤ دیکھو دیر ہورہی ہے، سحری کا ٹائم نکلا جارہا ہے۔۔۔اور یوں بنا کچھ کھائے روزہ کیسے رکھ سکوگے۔۔؟؟"

جمیلہ بیگم اپنے سات سالہ بیٹے کو مسلسل سحری کیلئے جگا رہی تھیں۔۔جو جاگتا ذرا مشکل سے تھا۔۔۔

حمزہ نے ذرا سی آنکھ کھلی اور گھڑی کی طرف دیکھا جو 3:30am کا وقت بتارہی تھی وہ ہڑ بڑا کے بستر سے اٹھا ۔۔

منہ ہاتھ دھوئے۔۔فورا کچن کی جانب لپکا۔۔۔جو سمجھ آیا ہاتھ میں اٹھایا اور دوڑ لگادی۔۔

گرتے پڑتے وہ اپنی منزل کی جانب بھاگ رہا تھا۔۔۔راستے میں چند جگہ پہ وہ تیزی کے باعث لڑھکتا رہا ۔۔اور کبھی۔۔۔گرا بھی۔۔۔جس کے باعث کپڑے گندے ہوچکے تھے۔۔ پر وہ کہیں ٹھہرا نہیں۔۔بالا آخر وہ اپنی منزل پہ پہنچ گیا۔۔۔

اسکے اپنے علاقے سے کچھ دورایک گنجان بستی کا بسیرا تھا۔۔

انہیں بستی میں جھونپڑی سی بنی ایک کٹھیا میں بوڑھی عورت رہا ئش پذیر تھی۔۔

جو باہر کچے پکے سے چبوترے پہ بیٹھی، ایک پیالے میں قہوہ اور دوسرے میں چائے لئے، روٹی کے باسی ٹکڑے ہاتھ میں تھامے کسی کی منتظر نظر آرہی تھی۔۔۔

حمزہ جب بستی میں پہنچا تو اسکی ڈھونڈتی نظریں آخرکار بوڑھی عورت کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئ تھیں۔۔۔وہ ٹائم ضائع کئے بغیر اپنے اور بوڑھی عورت کے فاصلے کو ختم کرنے کی غرض سے باقاعدہ پھلانگتا۔۔ لمبے قدم اٹھاتا ۔۔۔وہاں پہنچ چکا تھا۔۔۔

بوڑھی عورت اسکو دیکھکر کھل اٹھی انکے نحیف جسم میں جان سی پڑ گئ تھی۔۔

"آگیا میرا شہزادہ۔۔۔!!"

حمزہ انکے پاس ہی چبوترے پہ بیٹھ گیا تھا۔۔۔

اپنی لائ گئی چیزیں انکے سامنے رکھیں جس میں کھجوریں،پراٹھے ، سینڈ وچز اور ساتھ مرغی کی چند بوٹیاں شامل تھیں۔۔

اور انکے روٹی کے باسی ٹکڑے خود اٹھا لئے۔۔۔

"ارے بیٹا!!ا یہ مجھ سے کہاں چبھے گا؟؟۔۔۔یہ روٹی مجھے واپس دے دے۔۔۔ تجھ جیسی ننھی جان !!
ا سے ہضم نہ کرسکے گی۔۔۔""

"چل دے دے شابا ش۔۔!!""

"نہ اماں !!۔۔۔یہ سب تمہارے لئے لایا ہوں اور تمہیں ہی کھانا ہے"

"مجھ سے کھا لئے جاتے ہیں تمہارے یہ روٹی کے باسی ٹکڑے بلکہ مجھے تو بہت مزے کے لگتے ہیں"

بوڑھی عورت کی آنکھیں شدت جزبات سے جھلک پڑیں اسنے حمزہ کے سر پہ بڑے پیار سے ہاتھ پھیرا اور اسے سینے سے لگا کر خوب دعائیں دیں

پھر دونوں نے اکٹھے سحری کی۔۔فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد۔وہ وہیں ٹھہر گیا۔۔ سورج کی مدھم روشنی ہر سو پھیل چکی تھی۔۔

"حمزہ بیٹا!! اٹھ جا، جا تیرا اسکول بھی ہے دیر ہوجائیگی ورنہ۔۔۔ تیری ماں! بھی کب سے تیری راہ دیکھتی ہوگی"۔۔

حمزہ جو بوڑھی عورت کی گود میں منہ دیئے لیٹا تھا اور باتیں کرتے کرتے پتہ نہیں کب اسکی آنکھ لگ چکی تھی۔۔۔اسکے اٹھانے سے فورا سیدھا ہوکے بیٹھ گیا ۔۔جوتے پہنے۔۔اللہ حافظ کہتا اپنے گھر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔۔۔

گھر کے اندر داخل ہوتے ہی ماں کو منتظر پایا۔۔۔ماں کی نظروں میں شکا یت تھی اور چہرے پہ پریشانی۔۔۔

"سوری مما !!تھوڑی دیر ہوگئ آنے میں"
حمزہ نے معصومیت سے کہا

ماں نے غصے سے گھورا اور لبا س کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
" یہ کیا حال بناہوا ہے تمہارا۔۔؟؟؟"

حمزہ خجل سا سر کو کھوجاتا ہوا اندر کی جانب بڑھ گیاتھا۔۔
نہادھوکے اسکول یونیوفارم پہن کے بستہ تھامے ماں کے سامنے کھڑا تھا ۔۔۔انکی دعائیں لینے۔۔
جمیلہ بیگم اس سے لاکھ غصہ سہی مگر اسکا معصوم چہرہ دیکھکر سب بھول جاتی تھیں۔۔۔بہت پیار سے اسے گلے لگایا۔۔۔۔دعائیں دیتے ہوئے رخصت کیا۔۔۔

دوپہر میں جب خاور صاحب دفتر سے لوٹے تو جمیلہ بیگم جو کافی دیر سے انکی راہ دیکھ رہی تھیں۔۔فورا جزباتی ہوگئیں۔۔۔

"آگئے آپ!!۔۔۔کب سے آپکا انتظار کر رہی ہوں۔۔!!""


خاور صاحب جمیلہ بیگم کے اس انداز سے تھوڑا ٹھٹکے مگر شوخی دکھانے سے خود کو باز نہ رکھ سکے۔۔۔

"کیا ہوا بیگم !!سب خیریت تو ہے۔۔۔؟؟؟آج تو واقعی اپنی خوش نصیبی پہ ناز ہورہا ہے کہ ہماری بیگم کبھی ہمیں اسطرح بھی یاد کر سکتی ہیں""

جمیلہ بیگم کے ماتھے پہ بل پڑ گئے وہ یہاں کتنی سنجیدہ بات کو لیکے بیٹھی تھیں اور اس پہ یہ مذاق ۔۔۔انہیں بری طرح سلگا گیا۔۔

"آپ بھی!!۔۔۔ہر وقت مذاق کے موڈ میں ہوتے ہیں ۔۔۔یہاں میں کتنی پریشان ہوں۔۔۔""

خاور صاحب بیگم کی بات سن کے فورا سنجیدہ ہوگئے۔۔۔

"کہئے بیگم کیا ہوا؟؟؟حمزہ کی کوئ شکایت آئ ہے۔۔۔؟؟یا میکے سے کوئ بری خبر۔۔ ؟؟""

انہوں نے اپنے حساب سے اندازہ لگایا۔۔۔

"نہیں نہیں، ایسی کوئ بات نہیں۔۔وہ دراصل مجھے حمزہ کے بارے میں بات کرنی تھی۔۔۔۔""

جمیلہ بیگم نے فورا تصحیح کی۔۔

"جی کہئے کیا بات کرنی ہے حمزہ کے حوالے سے۔۔؟؟""

خاور صاحب چوکنا ہوکے صوفے پہ بیٹھ گئے۔۔۔اور پوری انہماک سے بیگم کی بات سننے لگے۔۔۔

"جی آپنے نوٹ کیا ؟؟حمزہ روز سحری کے وقت کھانے پینے کی اشیاء لیکے چلا جاتا ہے اور کافی دیر سے گھر لوٹتاہے ۔۔کپڑے بھی اس قدر گندے ہوتے ہیں اسکے کہ اللہ کی پناہ۔۔!!""

"میں نے ایک دو دفعہ پوچھا بھی اسے کہنے لگا !!"کوئ بہت اپنا ہے وہاں جاتا ہوں""

"اسکی بات مجھے تو سمجھ نہ آسکی ،میں نے مزید کریدا اسے مگر وہ ٹال گیا، جیسے بتاتے ہوئے کسی جھجھک کا شکار ہو۔۔!!""

"آپ اسے بات کیجئے شاید آپکو بتا دے"!!

خاور صاحب ساری بات سنکے اطمینان سے بولے،
" بیگم !!ہوسکتا ہے وہ دوستوں کے ساتھ کرتا ہو سحری پھر کرکٹ کھیلنے لگ جاتا ہوگا یوں کپڑے بھی میلے ہوجاتے ہونگے۔۔۔""!!


"نہیں!! ۔۔وہ دوستوں کے ساتھ نہیں ہوتا میں پتہ کرچکی ہوں""

جمیلہ بیگم سب معلوم کرچکی تھیں اسلئے اور بھی پریشاں تھیں۔۔۔

"اچھا آپ پریشان نہ ہو میں آج ہی حمزہ سے بات کرو نگا ان شآ ء اللہ۔۔۔"

خاور صاحب نے انہیں تسلی دے کر پرسکون کیا۔۔

"سحری کا وقت شروع ہوچکا ہے، سبھی مسلمان جاگ جائیں۔۔"!!

ڈھول بجاتا شخص گلی گلی چکر لگاتا لوگوں کو جگانے میں محو تھا اور ساتھ زور سے آواز بھی لگادیتا ۔۔

خاور صاحب کی آنکھ کھل چکی تھی وہ منہ ہاتھ دھوکر۔۔ حمزہ کے کمرے میں پہنچے اسے جگایا۔۔۔اور کہا اسکے ساتھ سحری کرینگے وہ گھبرا سا گیا اور اسکا چہرہ لٹک گیا۔۔۔اب وہ اداس ہوچکا تھا۔۔

خاور صاحب فورا بھانپ گئے کہ وہ دل سے راضی نہیں انکے ساتھ سحری کرنے میں اسے کہیں جانے کی جلدی ہے۔۔!!۔کیونکہ حمزہ ہر دو سیکنڈ کے بات گھڑی دیکھنے لگ جاتا تھا۔۔ !!


"بیٹا !!کہیں جانا ہے؟؟ ویسے روز آپ کہاں سحری کرتے ہیں؟؟؟""۔۔آج میں بھی آپکے ساتھ وہیں سحری کرنا چاہتا ہوں،،ذرا ہم بھی تو ملیں آپکے بہت اپنے سے۔۔"!!

حمزہ کا مرجھایا ہوا چہرہ اک دم کھل اٹھا۔۔۔
اسنے فورا تائید کی۔

وہ اپنے والد کے ساتھ جشیلے انداز سے گاڑی میں بیٹھا خاور صاحب اسے دیکھکر بھر پور مسکرائے۔۔۔

اب وہ راستہ بتانے لگا۔۔۔راستہ ہموار نہ تھا جگہ جگہ سڑک کچی پکی سی تھی۔۔۔گاڑی کا ٹایئر کبھی کسی کھڈے میں پھنس جاتا۔۔۔ یا کبھی گاڑی بند ہوجاتی۔۔بہرحال بڑی مشکل سے اس گنجان بستی تک پہنچے۔۔۔خاور صاحب حمزہ کے گندے کپڑوں کی اصل وجہ جان چکے تھے۔۔بالا آخر منزل تک پہنچ گئے تھے۔۔۔حمزہ نے تیزی سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور باہر نکل آیا جیسے کافی عجلت میں ہو۔۔۔خاور صاحب اسکی بے صبری دیکھکر ہنس پڑے۔۔۔

"بیٹا۔!!۔اتنی بھی کیا جلدی؟؟،۔۔۔پہنچ تو چکے ہیں تحمل رکھو۔۔۔اب بتاؤ کون ہیں وہ انجان؟؟ جن کے ساتھ آپ روزانہ سحری کا لطف اٹھاتے ہیں!!۔۔۔""

حمزہ اپنے والد کے اس خوش مزاجی سے بہت مسرور ہوا۔۔۔اپنی انگلی اٹھا کے بوڑھی عورت کی جھونپڑی نما کٹھیا کی طرف اشارہ کیا۔۔جہاں ملگجی روشنی پھیلی تھی۔۔بوڑھی عورت اسی کچے پکے چبوترے پہ بیٹھی منتظر نظر آئ۔۔حمزہ دوڑتا ہوا ان تک پہنچا۔۔۔جبکہ خاور صاحب آرام سے چلتے ہوئے پہنچے۔۔۔

حمزہ بتا چکا تھا کہ اسکے والد ہمراہ آئے ہیں۔۔وہ بھی ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔۔

بوڑھی عورت اندر گئ اور ایک کرسی جسکی حالت قدر بہتر تھی باہر لاکے رکھدی تاکہ خاور صاحب اس پہ بیٹھ سکیں۔۔۔خاور صاحب اس کرسی پہ بیٹھ گئے۔۔۔

"بیٹا!! مجھ بوڑھی عورت کو بے حد خوشی ہے تجھ جیسا بڑا صاحب وقت نکال کے میرے ٹوٹے پھوٹے گھر پہ خاص مجھ سے ملنے آیا ہے۔۔۔""!!

"تیرا یہ پتھر بڑا ہی اچھا بچہ ہے، بہت خیال کرنے والا۔۔۔!"!

"ایک دن سڑک پہ یہ اسکول سے واپس آرہا تھا اور میں پیاس کی شدت کی تاب نہ لاسکی اور وہیں سڑک کے سائیڈ پہ ڈھے گئ۔۔یہ بھاگتا میرے پاس آیا چہرے پہ پانی ڈالا اور مجھے پانی پلانے لگا۔۔میں نے فورا ہاتھ روکا اور کہا۔۔'" میرا روزہ ہے "!!۔۔۔یہ بڑا حیران ہوا کہ اتنے بڑھاپے اور گرمی میں بھی میں نے کیسے روزہ رکھ لیا۔۔""!!
۔
""پھر یہ بچہ مجھے گھر تک چھوڑنے آیا۔۔ساتھ میری گٹھری بھی اٹھاکے لایا۔۔""

"گٹھری ایک جگہ سے کھل چکی تھی وہاں سےروٹی کے باسی ٹکڑے گرنے لگے اسنے سمیٹ لئے اور پوچھا۔۔
"اماں!! یہ کونسا جانور کھاتا ہے۔۔؟؟،""

"میری ہنسی چھوٹ گئ۔۔میں نے جواب میں کہا،
"میں!!۔۔
کافی حیران ہوا۔۔اورکہا،
" انہیں آپ نہ کھایا کریں، میں آپکے لئے تازہ کھانا لادیا کرونگا"!!

""جب سے یہ بچہ یہاں روز سحری کے وقت آجاتا ہے اور کھانے پینے کا سامان بھی ساتھ لے آتا ہے۔۔ زبردستی کھلاتا ہے مجھے اورمیرے باسی ٹکڑے خود کھالیتا ہے سورج طلوع ہونے تک میری گود میں لیٹ کر ڈھیر ساری باتیں بھی کرتا ہے۔۔ ""

خاور صاحب کی آنکھیں جھلک پڑیں۔۔۔انہیں حیرانگی کے ساتھ خوشی بھی بے انتہاء تھی کہ انکا بیٹا کیسے نیکی کے کام میں پیش پیش رہا۔۔۔اور پتہ بھی نہ لگنے دیا۔۔۔

"اماں!! اب آپ بھی ہمارے ساتھ گھر چلئے اور وہیں رہیئے ۔۔اگر آپکو کوئ اعتراض یا دقت نہ ہو ۔۔""

خاور صاحب کی اس بات سے حمزہ خوشی سے نہال ہوگیا

"بیٹا !!میں صدقے واری!!۔۔۔توں نے اس بڑھیا کو اتنی عزت اور محبت دی۔۔میرا !!ویسے تو کوئ نہیں مگر حمزہ کو دیکھکر یوں لگتا ہے جیسے یہ میرے کلیجے کا ٹکڑا ہو۔۔مگر مجھ بڑھیا کو مفت کی روٹی ہضم نہیں ہوتی، محنت مشقت کر کے کھانے کی عادی ہوں اور مجھے صرف باورچی خانے کا کام آوے، اسکے علاوہ مجھ سے کوئ دوسرا کام نہ ہوسکے !!/"

"جہاں کام پہ جاتی ہوں وہاں بھی یہی کام کرتی ہوں "!!

بوڑھی عورت خوددار عورت تھی تمام عمر حلال روزی کماکے کھاتی رہی۔۔

"جی اماں!! میں آپکی بات کی قدر کرتا ہوں۔۔میری بیگم !!کو بھی باورچی خانے کے کام کی غرض سے ایک مددگار کی ضرورت تھی۔۔جو اب تک مل نہ سکی۔۔۔آپ ہمارے ہمراہ چلئے۔۔یوں میری بیگم کو بھی مددگار مل جائیگی اور آپکی بات بھی رہ جائیگی۔۔جو ہم سب کھائیں گے ان شآ ء اللہ آپکو بھی کھلائیں گے۔۔۔""

خاور صاحب سمجھ چکے تھے بوڑھی عورت یوں بنا کام کاج کئے رہنے کیلئے کبھی آمادہ نہیں ہونگیں،سو کام کی پیشکش بھی رکھدی۔۔۔

بوڑھی عورت سوچ میں پڑ گئ۔۔


حمزہ بوڑھی عورت کی ٹانگوں سے لپیٹ گیا
اور اصرار کرنے لگا دساتھ چلنے کیلئے۔

"اب اتنا نہ سوچئے اماں!! بس ہمارے ساتھ چلئے۔۔""

بوڑھی عورت حمزہ کو انکار نہ کرسکی۔۔اور ساتھ چل دی۔۔۔

دل ہی دل میں وہ اللہ کی شکرگزار ہورہی تھی۔۔

خاور صاحب کی بھی ملی جلی کیفیت تھی کہ اللہ نے انہیں نیک اولاد سے نوازا جسے دوسروں کا اس قدر خیال تھا۔۔۔اور اللہ رب العزت نے انہیں اس نیکی کے کام میں حصہ ڈالنے کی توفیق دی۔۔۔

حمزہ کی خوشی تو دیدنی تھی۔۔۔اسے دادی جان کے روپ میں اماں مل گئ تھیں۔۔۔وہ انہیں اب دادی اماں پکارنے کا سوچ بیٹھا تھا۔۔۔


ہے نیکی کرنے کا مزہ ایسا
رب سے ہو ملنا جیسا

■■■حیا مسکان■■■
 
Fatima Ishrat
About the Author: Fatima Ishrat Read More Articles by Fatima Ishrat: 30 Articles with 31691 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.